• 16 اپریل, 2024

سخت زبان کے استعمال میں حکمت

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:
خدا جانتا ہے کہ کبھی ہم نے جواب کے وقت نرمی اور آہستگی کو ہاتھ سے نہیں دیا اور ہمیشہ نرم اور ملائم الفاظ سے کام لیا ہے۔ بجز اس صورت کے کہ بعض اوقات مخالفوں کی طرف سے نہایت سخت اور فتنہ انگیز تحریریں پا کر کسی قدر سختی مصلحت آمیز اس غرض سے ہم نے اختیار کی کہ تا قوم اس طرح سے اپنا معاوضہ پا کر وحشیانہ جوش کو دبائے رکھے۔ اور یہ سختی نہ کسی نفسانی جوش سے اور نہ کسی اشتعال سے بلکہ محض آیت وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ (النحل: 126) پر عمل کر کے ایک حکمت عملی کے طور پر استعمال میں لائی گئی۔اور وہ بھی اس وقت کہ مخالفوں کی توہین اور تحقیر اور بدزبانی انتہا تک پہنچ گئی اور ہمارے سید و مولیٰ، سرورِ کائنات، فخرِموجودات کی نسبت ایسے گندے اور پُرشر الفاظ ان لوگوں نے استعمال کئے کہ قریب تھا کہ ان سے نقص امن پیدا ہو تو اس وقت ہم نے اس حکمت عملی کو برتا۔

(البلاغ، (فریاددرد)، روحانی خزائن جلد13 صفحہ385)

ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں:
آیت جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ کا یہ منشاء نہیں ہے کہ ہم اس قدر نرمی کریں کہ مداہنہ کر کے خلافِ واقعہ بات کی تصدیق کر لیں۔ کیا ہم ایسے شخص کو جو خدائی کا دعویٰ کرے اور ہمارے رسول کو پیشگوئی کے طور پر کذّاب قرار دے اور حضرت موسیٰ کا نام ڈاکو رکھے، راستباز کہہ سکتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا مجادلۂ حسنہ ہے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ منافقانہ سیرت اور بے ایمانی کا ایک شعبہ ہے۔

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ305 حاشیہ)

آپ کے قول اور فعل میں پوری مطابقت ہو

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:
بہت سے مولوی اور علماء کہلا کر ممبروں پر چڑھ کر اپنے تئیں نائب الرسول اور وارث الانبیاء قرار دے کر وعظ کرتے پھرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تکبّر، غرور، بدکاریوں سے بچو۔ مگر جو اُن کے اپنے اعمال ہیں اور جو کرتوتیں وہ خود کرتے ہیں ان کا اندازہ اس سے کر لو کہ ان باتوں کا اثر تمہارے دلوں پر کہاں تک ہوتا ہے۔ اگر اس قسم کے لوگ عملی طاقت بھی رکھتے اور کہنے سے پہلے خود کرتے تو قرآن شریف میں لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَاتَفْعَلُوْنَ (الصّف: 3)۔ کہنے کی کیا ضرورت پڑتی؟ یہ آیت ہی بتلاتی ہے کہ دنیا میں کہہ کر خود نہ کرنے والے بھی موجود تھے اور ہیں اور ہوں گے۔

تم میری بات سن رکھو اور خوب یاد کر لو کہ اگر انسان کی گفتگو سچے دل سے نہ ہو اور عملی طاقت اس میں نہ ہو تو وہ اثر پذیر نہیں ہوتی۔ اسی سے تو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی صداقت معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ جو کامیابی اور تاثیر فی القلوب آپ کے حصہ میں آئی اس کی کوئی نظیر بنی آدم کی تاریخ میں نہیں ملتی اور یہ سب اس لئے ہوا کہ آپ کے قول اور فعل میں پوری مطابقت تھی۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ67-68 ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)

پچھلا پڑھیں

قرارداد تعزیت

اگلا پڑھیں

چھوٹی مگر سبق آموز بات