معراج اور اسراء کی حقیقت
(یہ ایک لطیف کشفی نظارہ تھا)
موٴرخہ یکم مارچ 2022ء کے روزنامہ الفضل میں مکرم ڈاکٹر فضل الرحمان بشیر صاحب کا مضمون معراج اور اسراء کی حقیقت کے عنوان پر شائع ہوا جس میں موصوف سلمہ اللہ تعالیٰ نے زبردست دلائل سے ثابت کیا کہ یہ ایک نہیں بلکہ دو الگ الگ واقعات ہیں اور یہ جسمانی سفر نہیں بلکہ ایک لطیف کشف تھا۔یہ مضمون اس لنک پر پڑھا جاسکتا ہے:
https://www.alfazlonline.org/01/03/2022/55247/
اس سلسلہ میں چند مزید دلائل پیش خدمت ہیں۔
نبی کریمﷺ کو معراج ہوا۔ آپؐ سے بہتر طور پر کوئی بھی اس کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتا۔ اگر آپؐ کے نزدیک یہ ایک جسمانی معراج تھا تو آپؐ کبھی بھی یہ ارشاد نہ فرماتے کہ اَلصَّلوۃُ مِعْرَاجُ الْمُومِنِ کہ نماز مومن کی معراج ہے۔ اگر یہ جسمانی معراج ہوتا تو جب بھی کوئی نمازی نماز پڑھنے لگتا فورا ً اسے آسمان پر اٹھا لیا جاتا اور نماز کے بعد اسے واپس مصلے پر چھوڑ دیا جاتا۔ ایسا نہیں ہوتا۔ ہاں نماز روحانی طور پر مومن کی معراج ہے۔ نماز وہ سواری ہے جس پر بیٹھ کر مومن اللہ کی طرف روحانی سفر کرتا ہے۔ اور حسب استعداد اللہ تعالیٰ کا قرب پاتا ہے۔
معراج کے سفر میں جبرائیل علیہ السلام آسمان سے نازل ہوئے اور رسول اللہﷺ کو اپنے ساتھ لے گئے۔اگر تو جبرائیل جسم رکھتے ہیں اور جسمانی طور پر نازل ہوئے تویقینا ً نبی کریمﷺ کو بھی جسمانی طور پر ساتھ لے گئے اور اگر وہ بغیر جسم کے روحانی وجود رکھتے ہیں تو پھر معراج بھی روحانی تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’معراج ہوئی تھی مگر یہ فانی بیداری اور فانی اشیاء کے ساتھ نہ تھی بلکہ وہ اور رنگ تھا۔ جبرائیل بھی تو رسول اللہﷺ کے پاس آتا تھا اور نیچے اترتا تھا۔ جس رنگ میں اس کا اترنا تھا اسی رنگ میں آنحضرتؐ کا چڑھنا ہوا تھا۔ نہ اترنے والا کسی کو اترتا نظر آتا تھا اور نہ چڑھنے والا کوئی چڑھتا ہوا دیکھ سکتا تھا‘‘
(الحکم جلد 5 موٴرخہ 10 اگست 1901 صفحہ 3)
اسراء کی آیت میں فرمایا گیا کہ ’’پاک ہے اللہ جو اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصی کی طرف لے گیا‘‘(اسراء:2) طرف یا سمت ہمیشہ ٹھوس مادہ کی ہوتی ہے۔ جیسے میز میرے سامنے ہے کرسی میرے پیچھے ہے۔ لیکن اگر کمرے میں خوشبو پھیلی ہو تو خوشبو کی کوئی سمت نہیں کیونکہ وہ ٹھوس مادہ نہیں ہے۔ اسی طرح جب کوئی چیز ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف سفر کرتی ہے تو وہ پہلے مقام کو چھوڑ کر اس سے دور ہوتی جاتی ہے اور دوسرے مقام کے قریب ہوتی جاتی ہے۔ اگر اس اسراء کو جسمانی مان لیا جائے تو لازماً ماننا پڑے گا کہ اللہ کا بھی ہماری طرح کا ایک جسم ہے اور جب وہ رسول اللہﷺ کولینے بیت الحرام پہنچا تو مسجد اقصی اسکے وجود سے خالی تھا اور جب آپؐؐ کو لے کر مسجد اقصی کی طرف چلا تو بیت الحرام اسکے وجود سے خالی ہو گیا۔ جو امر محال ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے۔ پس ثابت ہوا کہ یہ ایک روحانی سفر تھا نہ کہ جسمانی۔
معراج کی روایات میں بہت سی اندرونی شہادتیں ملتی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کشفی نظارہ تھا۔ مثلاً ہمیشہ خواب کی تعبیر ہوتی ہے۔ اگر کوئی کہیں سے دودھ پی لے تو اس کی کوئی تعبیر نہیں ہو گی ہاں اگر وہ رات خواب میں دودھ پیئے تو اسکی تعبیر کی جائے گی۔ نبی کریمﷺ نے رویا میں دودھ پیا اور بعض صحابہ کو دیا تو اس کی تعبیر دین فرمائی۔ واقعہ معراج میں بھی آپؐ کو ایک بڑھیا ملی جس نے تین پیالے آپؐ کے سامنے پیش کئے ایک میں شراب ایک میں پانی اور ایک میں دودھ تھا آپؐ نے دودھ کا پیالہ لے لیا۔ اس پر جبرئیلؑ نے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا۔ کہ هِيَ الفِطْرَةُ الَّتِي أَنْتَ عَلَيْهَا وَأُمَّتُكَ (بخاری، باب المعراج) یہ وہ فطرت ہے جس پر تو اور تیری امت قائم ہے۔ یعنی تو فطرت کے عین مطابق تعلیم لایا ہے۔ نیز بڑھیا کی تعبیر دنیا سے فرمائی۔ یعنی وہ بڑھیا، بڑھیا نہیں بلکہ دنیا تھی گویا یہ بتانا مقصود تھا کہ اب دنیا اپنی عمر کے آخری حصہ کو پہنچ چکی ہے۔ اسی طرح آپؐ نے عرش کے پاس بیری دیکھی۔ بیری کوئی ایسا درخت نہیں ہے جو کوئی فضیلت رکھتا ہو بلکہ قرآن کریم نے تو اسے عذاب والی جگہوں کا درخت بتایا ہے۔ (سباء:17) پس ایسے درخت کا وہاں کیا کام ؟ نعوذباللّٰہ کیا اللہ تعالیٰ کو تمام لذیذ پھلوں کی بجائے بیری کے بیر پسند ہیں؟ لیکن اگر اسکی تعبیر کی جائے تو عظیم الشان معنی بنتے ہیں۔ بیری کا درخت باڑ لگانے کے کام بھی آتا ہے۔ پس یہ بتایا گیا ہے کہ آنحضورﷺ چلتے چلتے اس مقام پر پہنچے جہاں مخلوقات کی حد ختم ہو رہی تھی فرشتہ جبرائیل بھی وہاں پہنچ کر رک گیا آپؐ اس سے بھی آگے بڑھ گئے یعنی آپؐ کا مقام ملائکہ سے بھی بلند تر ہے۔
فرشتے نے آ کر آپؐ کا سینہ مبارک چیرا اور دل نکال کر آب زمزم سے دھویا۔ اور پھر دوبارہ سینے میں رکھ دیا۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ ظاہری نہیں ہو سکتا۔ کیا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ اس پاک دل پر کچھ میل کچیل تھی جو ظاہری طور پر دھویا گیا۔ ہاں کشفی نظارہ ہو سکتا ہے جسکی تعبیر کی جائے گی مثلاً آپؐ کے دل کو محبت الہی کے پانی سے دھویا گیا۔
روایت میں ذکر ہے کہ فرشتہ ایک سونے سے بنی طشتری لایا جوحکمت اور ایمان سے بھری ہوئی تھی۔ اس نے میرا سینہ چیر کر اس میں حکمت اور ایمان انڈیل دیا۔ ظاہر ہے کہ حکمت اور ایمان ایسی چیز نہیں جو کسی پلیٹ میں سجا کر رکھی جا سکے۔ یہ روحانی نعمتیں ہیں۔ پس یہ ایک کشفی نظارہ تھا نہ کہ جسمانی۔
اگر یہ جسمانی مناظر تھے تو پھر سونے کی طشتری بھی ظاہری طشتری ہو گی۔ کسی بھی روایت میں یہ ذکر نہیں کہ جبرائیل جاتے ہوئے وہ طشتری بھی ساتھ لے گئے۔ جس سے ثابت ہوا کہ وہ سونے کی طشتری وہیں مکہ میں رہ گئی۔ اگر وہ ظاہر ی طشتری ہوتی تو اسکا مکہ میں خوب چرچا ہوتا لوگ دور دور سے آ کر اس معجز نما طشتری کو دیکھتے جو آسمان سے اتری تھی۔ بے شمار لوگوں نے اسکی زیارت کی ہوتی۔ بلکہ آج تک وہ محفوظ ہوتی اور دنیا کے عجائبات میں سے ہوتی۔ پس ثابت ہوا کہ یہ سب کشفی نظارے تھے۔
واقعہ اسراء میں بیان کیا جاتا ہے کہ مسجد اقصی میں آپﷺ نے تمام انبیاء کی امامت کروائی۔ پہلے مضمون میں بیان ہو چکا ہے کہ وہاں اس وقت کسی مسجد کا کوئی وجود نہ تھا۔ اسکے علاوہ سوال یہ ہے کہ اگر یہ جسمانی طور پر نماز پڑھانا تھا تو پھر تمام انبیاء بھی جسمانی طور پر اترکر پیچھے کھڑے ہوں گے جیسے صحابہ آنحضورﷺ کے پیچھے کھڑے ہوتے تھے۔ انبیاء کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار بتائی جاتی ہے۔ اتنی تعداد تو اس وقت پورے یروشلم کی بھی نہیں تھی۔ اتنے زیادہ انبیاء اگر وہاں آ جاتے تو سارا شہر بلکہ اسکے مضافات بھی بھر جاتے اور سارے علاقے میں دھوم مچ جاتی وہاں کے تمام لوگ انبیاء سے ملتے اس طرح اس واقعہ کے سینکڑوں ہزاروں عیسائی اور غیر مسلم راوی ہونے چاہئیں تھے۔
اگر انبیاء جسمانی شکل میں آئے ہوتے اور یروشلم کے عیسائیوں نے انکو دیکھا ہوتا اور یہ بھی کہ وہ نبی کریمﷺ کی اقتداء میں نماز ادا کررہے ہیں تو تمام عیسائی فوراًَ اسلام قبول کر لیتے اس طرح عیسائیت کااس روز خاتمہ ہو جاتا۔بلکہ یہود بھی ایمان لے آتے۔ پھر تو صرف عرب نہیں بلکہ ساری دنیا کی کایا ہی پلٹ جاتی۔
ظاہری جسم آسمان پر بغیر حفاظتی اقدامات کے نہیں جا سکتا۔ کیونکہ چند کلو میٹر دور آکسیجن ختم ہو جاتی ہے مزید اوپر جانے سے OZONE LAYER کراس کر کے یہ جسم فنا ہو جائے گا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی زبان مبارک سے یہ گواہی دلوا دی کہ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ (کہف:111) کہ آپؐ بھی صرف بشر ہی ہیں۔ دوسری جگہ اسی سورت اسراء میں فرمایا کہ بشر رسول جسم سمیت آسمان پر نہیں جا سکتا۔ ہَلۡ کُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا (اسراء:94)
معراج آپﷺ کو کئی بار ہوا۔ بخاری میں ذکر ہے کہ ایک بار جب آپؐ نماز کسوف پڑھا رہے تھے تو اس دوران بھی آپؐ کو معراج ہوا یعنی جنت اور دوزخ کی سیر کروائی گئی۔ نماز پڑھاتے ہوئے آپؐ نے ہاتھ آگے بڑھایا جیسے کوئی چیز توڑ رہے ہوں۔ پھر آپؐ پیچھے ہٹے۔ صحابہؓ نے بعد میں اسکی وجہ پوچھی تو آپﷺ نے فرمایا کہ میں جب جنت سے گزرا تو اسکے خوشنما پھلوں کو دیکھ کر انہیں توڑنے کے لئے ہاتھ بڑھایا اگر میں توڑ لیتا تو تم اسے ہمیشہ کھاتے رہتے وہ ختم نہ ہوتے۔ پھر جب دوزخ کے نظارے دیکھے تو اسکی شدت سےمیں پیچھے ہٹ گیا۔ (بخاری کتاب النکاح بَابُ كُفْرَانِ العَشِيرِ) اس معراج میں تو آپؐ کا جسم صحابہ کے آگے جائے نماز پر ہی رہا اس واقعے نے بھی بتا دیا کہ آپؐ کا معراج ایک لطیف کشف تھا نہ کہ جسم سمیت آپؐ کو اٹھایا گیا۔
اسی طرح اسراء بھی دو بار ہوا۔ جب کفار نے آپؐ کی تکذیب کی کیونکہ آپؐ نے فرمایاتھا کہ اللہ مجھے بیت المقدس لے گیا۔ کفار جانتے تھے کہ آپؐ بیت المقدس نہیں گئے اس لئے انکو موقعہ مل گیا کہ وہ اسکے بارے سوال کریں اور آپؐ جب صحیح جواب نہ دے سکیں گے تو انکو تمسخراڑانے کا موقع ہاتھ آ جائے گا۔جب وہ سوال کرنے لگے تو آپﷺ کو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ اسراء کروایا اور کشفی طور پر بیت المقدس کے نظارے آپؐ کے سامنے کر دیئے کفار پوچھتے جاتے اور آپؐ بتاتے جاتے۔ اس طرح وہ لاجواب ہو گئے۔ اگر اسراء جسمانی سفر ہوتا تو دوبارہ بھی اللہ جسمانی سفر کرواتا۔
واقعہ معراج سے حضرت مسیح موعودؑ کا استدلال
ضمناً یہ بھی عرض کر دوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے واقعہ معراج سے دو زبردست استدلال کئے ہیں۔
1۔ وفات مسیح علیہ السلام
آپؑ نے فرمایا کہ قرآن نے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کی خبر دی اور نبی کریمﷺ نے معراج میں جا کر حضرت عیسی علیہ السلام سے ملاقات کر کے عینی شہادت دی کہ وہ وفات پا کر جنت میں داخل ہو چکے ہیں۔ کیونکہ آپؐ نے تمام انبیاء کی روحوں سے ملاقات کی تھی اگر حضرت عیسی علیہ السلام زندہ جسم سمیت ہوتے تو آپﷺ لازماً بتاتے کہ باقیوں کی تو روحیں تھیں صرف عیسی علیہ السلام جسم کے ساتھ تھے۔ کسی روایت میں اس کاذکر نہیں۔ جیسے دوسرے انبیاء کو دیکھا ویسے ہی عیسی علیہ السلام کو دیکھا۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ جسم کو روحوں میں کیا کام؟
2۔ اہل حدیث کا رد
کٹر اہل حدیث، صحیح حدیث کی یہ تعریف کرتے ہیں کہ اس میں کسی قسم کی غلطی کا امکان نہیں اس میں بھول چوک کا بھی دخل نہیں۔ صحیح احادیث کو قرآن کی طرح یقین کے درجہ پر مانتے ہیں۔ اورصحیح بخاری کو اصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ مانتے ہیں اس کی تمام صحیح احادیث کو مفید یقین کا درجہ دیتے ہیں۔ واقعہ معراج کی احادیث جو صحیح بخاری میں درج ہیں کو بھی اہل حدیث صحیح مانتے ہیں۔ انکی اصلاح کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ثابت کیا کہ صحیح بخاری میں درج تمام روایات کو دیکھیں تو اس میں بعض ایسے تضادات سامنے آتے ہیں جن کی کوئی تطبیق ممکن نہیں۔ اور یہ ماننا پڑتا ہے کہ ضرور انکے راویوں کے حافظہ میں غلطی ہو گئی ہے۔ پس صحیح احادیث میں بھی غلطی کا امکان موجود ہے اس لئے یہ قرآن کی طرح یقینی علم نہیں بلکہ مفید ظن کا درجہ رکھتی ہے۔ یعنی ایک ظن کا سایہ بہرحال اس پر موجود ہے۔ مثلاً ایک روایت میں ہے کہ حضرت موسیؑ کو چھٹے آسمان پر دیکھا ایک روایت میں ہے کہ ابراہیمؑ کو چھٹے آسمان پر دیکھا۔ ایک روایت میں ہے کہ جبرائیل خانہ کعبہ نازل ہوئے ایک روایت میں ہے کہ آپ کے گھر نازل ہوئے اور ایک روایت میں ہے کہ یہ واقعہ نزول وحی سے پہلے کا ہے جبکہ روایت بتاتی ہے کہ اس میں نمازیں فرض ہوئیں یعنی یہ آپؐ کی بعثت کے بعد کا واقعہ ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’اگر یہ جواب دیا جائے کہ یہ اسراء متعدد اوقات میں ہوا ہے اسی وجہ سے کبھی موسیؑ کو چھٹے آسمان میں دیکھا اور کبھی ابراہیم کو تو یہ تاویل رکیک ہے کیونکہ انبیاء اور اولیاء بعد موت کے اپنے اپنے مقامات سے تجاوز نہیں کرتے جیسا کہ قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے‘‘
ہر معراج میں پچاس نمازوں کا حکم ملتا ہے پھر موسیؑ کے مشورہ سے بار بار تخفیف کروا کر بالآخر پانچ نمازیں فرض قرار پائیں اور خدا تعالیٰ نے کہہ دیا کہ اب ہمیشہ کے لئے یہ غیر مبدل حکم ہے۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ اگلے معراج میں پھر پچاس نمازیں فرض ہو جائیں پھر تخفیف کے بعد پانچ ٹھہریں پھر فرمایا جائے کہ یہ غیر مبدل حکم ہے۔ تیسرے معراج میں پھر یہی واقعہ پیش آئے۔ فرمایا
’’درحقیقت ایسا خیال کرنا وحی الہی کے ساتھ ایک بازی ہے جن لوگوں نے ایسا خیال کیا تھا ان کا مدعا یہ تھا کہ کسی طرح تعارض دور ہو۔ لیکن ایسی تاویلوں سے ہرگز تعارض دور نہیں ہو سکتا بلکہ اور بھی اعتراضات کا ذخیرہ بڑھتا ہے ایسا ہی اور کئی حدیثوں میں تعارض ہے۔‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ84-85)
پس ثابت ہوا کہ احادیث خواہ کیسی ہی صحیح کیوں نہ ہوں بہرحال انکا مرتبہ قرآن کے برابر نہیں۔ قرآن کریم ہی لا ریب اور یقین سے پُر کلام ہے جس پر شک کا کوئی سایہ نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ اسکی حفاظت فرما رہا ہے۔
(در عجم)