جس کا ہر لمحہ خدا کے ذکر سے معمور ہے
وہ خدا کا پیارا بندہ حضرتِ مسرورہے
جس کا دست ِناز ہی اب مشعلِ ایماں بنا
جوبھی اس سے دور ہے ایمان سے بے نور ہے
ڈال دیں اس نے کمندیں منزلوں کے آس پاس
دور اندیشی میں تو وہ پہلے ہی مشہور ہے
بانٹتا ہے علم وعرفاں کے خزانے روزو شب
سید و سادات ہے ان کا یہی دستور ہے
اس کو بخشا ہے خدا نے خوب انداز بیاں
سنتے ہیں کہ ان کی باتوں میں مزہ بھر پور ہے
کوئے جاناں کے گلی کوچوں سے ہے وہ آشنا
آشنائی کے لئے وہ مثلِ کوہِ طور ہے
چن لیا اس کو خدا نے اپنے کاموں کے لئے
ناصرِ دین متیں ہے شاکر و مشکور ہے
سیکھنا ہو جس نے عارف سیکھ لے حق الیقین
وہ خدا کے اذن سے اس کام پر مامور ہے
(عبد السلام عارف)