• 7 مئی, 2024

ايّامِ حيض ميں شريعت کے احکام

ہر عورت جب بالغ ہوتی ہے تو اُس کے جسم سے فاسد خُون کا اخراج ہوتا ہے۔عموماًاس کادورانيہ ہرماہ تين سے دس دن تک ہوتا ہے۔يہ بحالتِ صحت بلوغت کے بعد بڑھاپے تک ہر ماہ عورت کو آتا رہتا ہے اس خُون کو حيض کہتے ہيں ۔انگريزی ميں Menses کہتے ہيں جبکہ نارويجن ميں Mensen کہتے ہيں ۔يہ اَيّام عورت کے لئے بہت تکليف دہ ہوتے ہيں يورپ ميں دس يا بارہ سال کی بچيوں کو بھی حيض آنےلگتاہے۔ يہ ايک قدرتی امر ہے لہٰذا اس موقع پر بچيوںکو گھبرانے اور خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہيں البتّہ اُنہيں اپنے والدين کو مطلع کر دينا چاہئے تاکہ وہ اس سلسلہ ميں اُن کی مناسب راہنمائی کر سکيں۔

قبل از اسلام

اسلام سے پہلے ان مخصوص ايّام ميں عورتوں کو بہت ذليل کيا جاتا تھاانہيںاپنے ايّامِ حيض ميں سب گھر والوں سے جدا رہنا پڑتا تھا۔ عرب لوگ ايّام حيض ميں عورت کو ناپاک سمجھتے تھےيہودی عقائد کے مطابق جس عورت کو حيض آيا ہو اسےچھو لينے سے ہی انسان ناپاک ہو جاتا ہےاس کا بستر جس جگہ وہ سوتی يا بيٹھتی ہے نشِست گاہ کو بھی چُھونے والا ناپاک ہو جاتا ہےاگر اتفاق سے حائضہ عورت کا کپڑا يا بستر کسی کو لگ جائے تو وہ بھی ناپاک ہو جاتا ہےنہانے اور کپڑا دھونے کے باوجود وہ شام تک ناپاک رہتاہے۔

حائضہ عورت کو يہودی عبادت گاہوں ميں داخلہ کی ممانعت ہے۔ کسی مقدس کتاب کو چُھونا تو درکنار سُننے سُنانے کو بھی حرام سمجھا جاتا ہے۔ اگر مرد اپنی حائضہ بيوئ کے ساتھ ليٹ جاتا تو اس کا بستر ناپاک ہو جاتا اور وہ سات دن تک ناپاک رہتا ہے۔ ہندو مت ميں بھی بے حد سختی ہےحائضہ عورت کا کھانا پينا بيٹھنا اور سونا بالکل عليحدہ کر ديا جاتا ہے ۔ گھر کے سب مرد وزن اس سے پرہيز کرتے ہيں کچن ميں داخل نہيں ہو سکتی کسی مقدس کتاب کو چُھو نہيں سکتی ۔

اسلام نے اس معاشرتی برائی کو دور کيا اور شريعت ميں یہ حکم اترا کہ حيض ايک تکليف دہ عارضہ ہے يہ تکليف تمام بنئ آدم کی لڑکيوں کے لئے مقدر ہے ان ايّام ميں صرف ازدواجی تعلقات منع ہيں عام معاشرت ہر گز منع نہيں ۔ آنحضرت ﷺ اپنی بيويوں کے ان مخصوص ايّام ميں ان کے ساتھ زيادہ محبت کا سلوک فرماتے اور ان کے ساتھ مل بيٹھتے۔

طہر

جن دنوں ميں يہ خون نہيں آتاوہ طہر کے دن کہلاتے ہيں۔ اسلام دينِ فطرت ہے اس لئے تمام اسلامی عبادات ميں انسانی ضروريات کے پيشِ نظر سہوليات رکھی گئی ہيں ۔چنانچہ ان اَيّام ميں خواتين کی تکليف کی وجہ سے انہيں نماز سے رخصت دے دی گئی ہے۔ خون ختم ہونے کے بعد نہانا ضروری ہوتا ہے۔ نہائے بغير نماز پڑھنا جائز نہيں ہے۔ اور اگر سخت سردی يابيماری وغيرہ کی وجہ سے نہانے سےصحت کو نقصان پہنچنے يا زيادہ بيمار ہونے کا ڈر ہو تو۔ نہانے کی بجائے تيّمم کی بھی اجازت ہے۔

(بحوالہ فقہ احمديہ حصہ اول صفحہ 50)

ايّامِ حيض ميں مياں بيوی کے تعلقات

سورۃ البقرہ کی آيت نمبر 223 ميں الله تعالیٰ فرماتا ہے۔
اور يہ لوگ تجھ سےحيض کے ايّام ميں عورت کے بارے ميں سوال کرتےہيں تُو کہہ دے کہ وہ ايک ضرر رساں امر ہے اس لئے تم عورتوں سے حيض کے دنوں ميں عليحدہ رہو اور جب تک وہ پاک و صاف نہ ہو جائيں ان کے پاس نہ جاؤ۔

يہ حکم عورتوں کی تکليف کے پيشِ نظر اور ان کی سہولت کی غرض سے ديا گيا ہے۔ اس طرح مرد اور عورت دونوں کسی بیما ری سے بچ سکتے ہیں۔

پاکيزگی

جب عورت اَيَامِ حيض سے فارغ ہو تو مُشک پانی ميں حل کر کے اور اس ميں روئی بھگو کر اندرونی اعضاء کی صفائی کر ليا کرےاور طبّی طور پر ثابت ہے کہ ايسا کيا جائے تو عورت کی صحت اور آئندہ اولاد پر اس کا نہايت خوشگوار اَثر پڑتا ہے۔

(تفسيرِ کبير جلددوم صفحہ501-502)

الله تعالیٰ نےجسم کی صفائی رکھنے کا حکم ديا ہے۔ الله تعالیٰ خود پاک ہے اور پاک و صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ ايّامِ حيض ختم ہونے کے بعد غسل کرنا نہائت ضروری ہے۔

ذکرِ اِلٰہی

ايّامِ حيض ميں ذکرِاِلٰہی منع نہيں يہ سمجھ لينا غلطی ہےکہ ايسی حالت ميں دن ميں بھی ذکرِ اِلہی نہيں کيا جاسکتا۔ عام طورپر لوگ يہ سمجھتے ہيں کہ حائضہ عورت چونکہ ناپاک ہوتی ہے اِس لئے وہ قُرآنِ کريم کو بھی نہيں چُھو سکتی۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ميری گود ميں سر رکھ کرليٹ جاتے حالانکہ ميں حائضہ ہوتی پھر آپ ﷺ قُرآنِ کريم پڑھتے۔

(صحيح بخاری جلد اوّل)(حديث نمبر 297 صفحہ نمبر 387)

عورتيں ايّامِ حيض ميں تلاوت کرسکتی ہيں بشرطِ کہ ان کے ہاتھ کو حيض کی نجاست نہ لگی ہو۔ قرآنِ کريم کو کسی صاف ستھرے کپڑے يا رومال پر رکھ کر بھی پڑھ سکتی ہيں۔

بہر حال خدا کے کلام کو پڑھنا اور سمجھنا جائز ہے

مسجد خدا کا گھر ہے اس ميں نماز اور ذکرِ اِلٰہی ہوتا ہے۔ مساجد کے آداب ميں یہ ہے کہ مساجد صاف ستھری ہوں۔ مسجد ميں صاف ستھرے کپڑے پہن کرجانا پسنديدہ ہے۔ مسجد ميں خُونِ حيض گرنے کے امکان کے پيشِ نظر بعض اوقات مسجد کے گندے ہوجانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ آج کل خواتين ايسے پيڈ استعمال کرتی ہيں جس کے نتيجہ ميں خون باہر نہيں گرتا۔ لہٰذا حائضہ عورت بوقتِ ضرورت مسجد ميں جاسکتی ہے۔ اور اپنے کپڑوں اور جسم کی صفائی کے ساتھ مسجد کے اندر منعقد ہونے والی لجنہ کی ميٹينگز ميں شامل ہو سکتی ہے۔

اعتکاف

رمضان کے دوران اگر عورت اعتکاف بيٹھتی ہے اور اعتکاف کے دوران عورت کو ماہواری شروع ہوجائےتو لازم ہے کہ وہ اعتکاف ترک کر دے اور اس حالت ميں اُس کا مسجد ميں رہنا مناسب نہيں ہےالبتّہ وہ اپنے معتکف مياں کی خدمت کر سکتی ہے۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ وہ رسول الله ﷺ کوکنگھی کياکرتی تھيںحالانکہ وہ حائضہ ہوتيں اور آپ اس وقت مسجد ميں اعتکاف بيٹھے ہوئے ہوتے ۔ آپ اپنے سر کو ان کے نزديک کر ديتے اور وہ اپنے حجرہ ميں ہوتيں وہ آپ کو کنگھی کرتيں حالانکہ وہ حائضہ ہوتيں۔

نماز روزہ سے رُخصت

اَيّامِ حيض ميں عورت کی تکليف کے پيشِ نظر اُسے نماز اور روزہ سے رُخصت دے دی گئی ہے۔ايّامِ حيض کے ختم ہونے کے بعدغسل کرنے کا حکم ہے۔ اس کے بعد وہ جملہ عبادات کو بجا لاسکتی ہے۔ اَيّامِ حيض ميں عورت نماز نہيں پڑتی روزہ نہيں رکھتی اور طواف نہيں کرتی آنحضرت ﷺ نے فرمايا! کہ جب حيض آئے تو نماز چھوڑ دو جب بند ہو جائے تو نہاؤ اور نماز پڑھو۔

(حديث نمبر 320 صفحہ نمبر 415بخاری جلد 1)

عيدين کی نماز پر اگر عورت ايّامِ حيض سے گزر رہی ہو تو گو نماز اس پر فرض نہيں ليکن وہ عيد گاہ ميں جا کر دعا ميں شامل ہو سکتی ہے۔

اِستحاضہ

استحاضہ وہ خون ہے جو ايک بيماری کی وجہ سے بعض عورتوں کو ماہواری کے ايّام کے علاوہ بھی آتا ہے تورات کے احکام کے مطابق عورت جب تک اس ميں مبتلاء رہے وہ ناپاک ہےاس کو چھونے والا بھی ناپاک رہتا ہے۔ مگر اسلام نے اِس بيماری کو ناپاکی کا موجب قرار نہيں ديا۔ اور مُستحاضہ کو نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ايک صحابی کی بيٹی نے رسول الله ﷺ سے کہا کہ يا رسول الله ميرا تو خون بندنہيں ہوتا کيا ميں نماز چھوڑ دوں؟ آپ نے فرمايا کہ یہ تو ایک رگ کا خون ہے حيض نہيں ۔ پس جب حيض آئے تو نماز چھوڑ دو ۔ جب اس کا مُقررہ وقت گزر جائے تو اپنے بدن سے خون دھو ڈالو اور نماز پڑھو ۔

(حديث نمبر 306صفحہ 399 بخاری جلد آوّل)

مستحاضہ ہر قسم کی عبادت کر سکتی ہے اس کے مسجد ميں داخل ہونے سے مسجد ناپاک نہيں ہوتی اور وہ اعتکاف بھی بيٹھ سکتی ہے۔

(طاہرہ زرتشت۔ناروے)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 07 جون 2020ء

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 08 جون 2020ء