• 4 مئی, 2024

خلافت جوبلی کا بابرکت سال مَیں نے کیسے گزارا

ہمارے مکان میں کچھ تعمیراتی کام ہونے والا تھا جس کے لئے مکان خالی کرنا تھا۔ پروگرام یہ بنا کہ میں اپنے بڑے بیٹے کے پاس ٹورنٹو کینیڈا چلی جاؤں اور ہماری بہو بچے لے کر اپنے والدین کی طرف چلی جائے۔ اگرچہ میں یہ بھی جانتی تھی کہ لندن میں 27 مئی 2008ء کو خلافت احمدیہ کی صد سالہ جوبلی کا بہت بڑا جلسہ لندن ایکسل سنٹر میں ہونے والا ہے مگر میری مجبوری ایسی تھی کہ مجھے جانا ہی تھا اور میں بوجھل دل کےساتھ چلی گئی۔ اللہ تعا لیٰ کا کرم دیکھئے کہ اس سفر میں وہ کس طرح میرے شامل حال رہا اور بظاہر مجبوری راحت کا سامان بن گئی۔

ساری دنیا میں ہی یہ بابرکت سال دعاؤں سے اور جوش و خروش سے منایا جا رہا تھا۔ اسی طرح کینیڈا بھی اپنے جوش و جذبے میں کسی سے کم نہیں تھا ۔ وہاں بھی اُتنا ہی جوش و خروش تھا جتنا کہ کسی اور ملک میں ہوسکتاتھا۔ چھبیس مئی کی رات اور ستائیس کی صبح شدید قسم کی سردی اور برفانی ہوائیں ہمارے احمدیوں کے جذبہ اورجنون کو کہاں کم کرسکتی تھیں۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی خواہش تھی کہ جلداز جلد تہجد کی نماز کے لئے مسجد میں پہنچ جائیں لہٰذااحباب جماعت مرد و خواتین مسجد بیت الاسلام (وان) میں جمع ہونے شروع ہوگئے۔ جن احمدیوں کے رشتہ دار یا جاننے والے پیس ویلیج میں رہتے تھے وہ سب بھی پہلے سے ہی وہاں پہنچ چکے تھے ۔

برف سےبھری سرد ہواؤں کی اس رات کے آخری پہر میں جب سردی کی وجہ سے عام حالات میں سڑکوں پر سناٹا ہوتا ہے، ہر احمدی کا رُخ مسجدبیت الاسلام (وان) کی طرف تھا اور مسجدبیت الاسلام کی طرف آنے والی ہر سڑک احمدیوں کی گاڑیوں سے بھری پڑی تھی ۔ مسجدبیت الاسلام اور پورے پیس ویلیج کو دلہن کی طرح سجا یا ہوا تھا۔ بڑے بڑے خیمے لگے ہوئے تھے اور اُن میں سردی سے بچاؤ کے لئے بڑے بڑے ہیٹر بھی لگے ہوئے تھے ۔ ہم بھی علی الصبح مسجدبیت الاسلام پہنچ گئے جہاں ہم سے پہلے ہی خیموں میں جگہ ختم ہوچکی تھی۔ لوکل لوگ تو لحاف اور کمبل لیکر بیٹھے ہوئے تھے اور میں جو لندن سے جاتے ہوئے سب گرم کپڑے چھوڑ کر صر ف گرمیوں کے لحاظ سے ہلکے پھلکے کپڑے لیکر گئی ہوئی تھی، اُس ٹھنڈی اور برف سے بھری ہوئی ہواؤں کے سامنے بے بس ہوکرجلدی گھر آنےپرمجبورہوگئی تھی۔ ظاہر ہے میری وجہ سے ساری فیملی کو واپس آنا پڑا ۔ بہت افسوس ہورہا تھا کہ شاید ہم نےسب کچھ miss کر دیا ہوگا لیکن جب گھر پہنچ کر MTA لگایا تو خوشی کی انتہا نہ رہی کہ لندن میں کس وجہ سے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا پروگرام شروع نہیں ہو سکا تھا جو کہ اب تھوڑی ہی دیر میں شروع ہونے والا تھا ۔

خدا تعالیٰ کے فضل وکرم کے ساتھ ذکر الہٰی، دعاؤں اور روحانیت کے ماحول میں تمام دُنیا میں بسنے والے احمدیوں کے ساتھ 27 مئی 2008ء کو خلافت احمدیہ کی صد سالہ جوبلی کا جلسہ جو میں نے لندن کے ایکسل سنٹر میں بیٹھ کر دیکھنا تھا، باقی دُنیا کے ساتھ شامل ہو کر MTA کے ذریعہ ہی دیکھا۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطاب سُنا۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ خدا تعالیٰ نے جس پودے کو خود اپنے ہاتھ سے لگایا تھا اب اتنا بڑا شجر بن گیا ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے اُسے پھل سے بھرا دیکھ رہے ہیں اور اُس کی جڑیں دُ نیا کے کناروں تک پھیل چکی ہیں ۔ خدا کرے کہ احمدیت کی تاریخ کا ہر دن تا ریخی بنا رہے اور سنہری باب رقم کرتا رہے۔ آ مین ثم آمین ۔

ہم سب نے اور بچوں نے بھی پروگرام کو بہت دل لگا کر سُنا اور دیکھا اور اُس حصّہ کو خاص طور پر جہاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تجدید عہد لیا ۔ ہم سب گھر کے چھوٹے بڑوں نے کھڑے ہوکر نم آنکھوں کے ساتھ عہد بیعت کو دہرایا۔ الحمد للہ

اُس وقت دلوں کی عجیب روحانی کیفیت تھی جس کا اظہار الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا ۔ اس روحانی کیفیت کا احساس صرف ہم احمدی ہی لگا سکتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری نسلوں کو توفیق بخشے کہ ہم پہلے سے بھی بڑھ کر اس عہد کو نبھانے والے بنیں ۔آ مین ثم آ مین

آج کے اس مبارک اور تاریخی دن کے لئے میرا اپنے بچوں سے وعدہ تھا کہ آج شام کھا نے کی دعوت میری طرف سے ہوگی ۔ سو اُس رات ڈنر ہم نے ایک بہت اچھے ہوٹل میں کیا ۔ اس طرح سے آج کاشکر گزاری کے جذبات سے لبریز تاریخی دن اختتام پذیر ہوا ۔

کچھ دنوں بعد بچوں نے مجھے نیا گرہ فال دکھانے کا پروگرام بنایا ہوا تھا۔ چلنے سے پہلے میں نے وعدہ لیا تھا کہ میں زیادہ لمبا نہیں چل پاؤں گی۔ اُنہوں نے کہاکہ آج صرف آپ کو ایک خاص جگہ لیکر جا ئیں گے ۔ وہاں پہنچتے ہی ایک ہوٹل سے ہم نے کھانا کھایا۔ اُس کے بعد بچے مجھے لیکر چل پڑے اور وہاں جا کر رُکے جہاں جانے کا پروگرام بنا کر گھر سے چلے تھے، یعنی Skylon ٹاور اس ٹاورکی بلندی 160m جبکہ بناوٹ بالکل CN Tower جیسی ہے مگر یہ اُس سے کافی چھوٹا ہے، اِس کی لفٹ بھی باہر کی طرف Bumble Bee کی شکل میں ہے ۔ مجھے تو دیکھ کر ہی ڈر لگ رہا تھا پر اب مجھے جانا تھا اور میں گئی بھی مگر اوپر جا کر مجھے افسوس نہیں ہوا کیونکہ جتنی بار بھی میں پہلے یہاں گئی ہوں اتنا اچھا نظارہ نہ دیکھ سکی تھی جتنا کہ اس Skylon Tower پر جا کر دیکھا۔ امریکہ اور کینیڈا دونوں طرف کا بھر پور نظارہ یہاں سے ہوتا ہے۔ اس بات کے لئے میں نے اپنے پوتوں کا شکریہ ادا کیا ۔ اُس کے بعد میرے پیارے پوتوں (شاہ زیب، جہاں زیباور ذاویار) نے کہاکہ دادی جان! اب ہم کہیں اچھی سی جگہ بیٹھ کر آرام کرتے ہیں اور پھر باقی کی سیر ہوگی۔ بچوں نے ایک بہت خوبصورت رونق والی جگہ پربینچ ڈھونڈا اور ہم نے وہاں بیٹھ کر بہت اچھی اچھی چیزیں دیکھیں ۔

میںجب بھی کینیڈا جاتی ہوں تو ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ امریکہ بھی جاؤں کیونکہ وہاں میرے بہت سے رشتہ دار رہتے ہیں ۔ خاص طور پر میری پیاری خالہ جی اور ماموں جان مکرم عبد ا لحمید صاحب۔اس مرتبہ امریکہ کے جلسہ میں پہلی بار پیارے آقا کی آ مد آ مد بھی تھی ۔ فیملی میں دو شادیاں تھیں اس لئے میری خالہ جی کا بہت اصرار تھا کہ میںضرور امریکہ آؤں۔ میں دعا میں لگی رہی کہ اللہ تعالیٰ کوئی سبب بنا دے ۔

دل سے کی ہوئی دُعائیں تو اللہ تعالیٰ ضرور سُن لیتا ہے میری بھی دعا سُنی گئی۔ 19 جون کو میں نے امریکہ کی خوبصورت وادیوں میں 9گھنٹے کاسفر بذریعہ کار طے کیا۔ سارا سفر رات کا ہی تھا ۔ 20 جون جمعہ کے روز علی الصبح ہم فلاڈلفیا پہنچ گئے۔ اُسی دن تھوڑا آرام کرنے کے بعد سب گھر کے افراد جلسہ گاہ کی طرف روانہ ہوئے جو ہمارے گھر سے تقریباً تین چار گھنٹے کی ڈرائیو پر تھا ۔ ہوٹل بُک کروائے ہوئے تھے جو جلسہ گاہ Harrisburg کے بالکل قریب تھے۔ Harrisburg واشنگٹن ڈی سی سے 125 میل کے فاصلہ پر ہے ۔ یہ جلسہ کا پہلا دن تھا ۔ ہماری چار پانچ گاڑیوں کا قافلہ راستہ میں رُکتے ہوئے جلسہ گاہ کی طرف گامزن تھا۔ راستہ میں Highway پر جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کی راہنمائی کرتا ہوا سائن بورڈ دیکھ کر اپنے احمدی ہونے پر فخر محسوس ہوا اور بےاختیار منہ سے الحمد للہ نکلا ۔

جلسہ سالانہ کا انتظام ایک وسیع و عریض عمارت میں کیا گیا تھاجس کا بہت بڑا پارک تھا جہاں ہزاروں گاڑیاں پارک ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح وہاں بہت بڑے بڑے ہال تھے جن میں بچوں اور بزرگوں کے لئے خاص طور پر موٹے موٹے کار پٹ ڈالے گئے تھے۔ جلسہ گاہ کو بہت خوبصورت رنگ برنگے بینرز سےسجایا گیا تھا جن پرحضرت مسیح موعود ؑ کے پاک کلمات تحریر تھے۔ ڈائنگ ہال میں کھانے کے انتظام کے تو کیا ہی کہنے۔ بہت ورائٹی تھی اور بہت اچھا انتظام تھا۔ میں یہاں کی صدر لجنہ اماء اللہ محترمہ ڈاکٹر شہناز بٹ صاحبہ کا ذکر کرنا ضروری سمجھتی ہوں جن کا اپنی لجنہ کے ساتھ محبت اور اعتماد کا تعلق بہت نمایاں تھا اور لجنہ کا اپنی قیادت کے ساتھ پورا پورا تعاون دیکھ کر خوشی ہوئی ۔خاص طور پر جس دن حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تقریر تھی، عورتوں کا ڈسپلن قابلِ تعریف تھا۔ جیسے جیسے صدر صاحبہ نے نصیحت فرمائی ویسے ویسے ہی عورتوں نے عمل کیا یہاں تک کہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آتے ہی عورتوں کے ڈسپلن کی تعریف فرمائی۔ اللہ کرے یہ جذبۂ محبت ہمیشہ قائم دائم رہے۔ آمین ۔

کچھ دن امریکہ میں گزار کر واپسی بھی اُسی طرح سے ہوئی یعنی جیسے کار سے گئے تھے ویسے ہی کار میں واپس آئے ۔ اب اگلے دن یعنی 27 جون 2008ء کو صد سالہ خلافت احمدیہ جوبلی کا تاریخی جلسہ اپنی تمام تر اعلیٰ دینی روایات کے ساتھ شروع ہونا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر بجا لاؤں کم ہے ۔ یہاں بھی پورے جوش وخروش کے ساتھ ان بابرکت ایام میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے روح پرور اور ایما ن افروز خطابات سے نوازا۔ یہاں بھی بڑے بڑے ائیر کنڈیشنڈ ہال تھے اور پارکنگ کی تو کوئی مشکل ہی نہیں ہوئی۔ ہماری جماعت کی ساری گاڑیاں پارک ہو کر بھی کافی جگہ ابھی باقی تھی۔

لندن میں ہمارا جلسہ شروع ہونے والا تھا اور اُس کے فوراً بعد رمضان شریف کی آمدتھی لہٰذامیرے لئے ضروری تھا کہ واپس لندن پہنچ جاؤں۔ باوجود اس کے کہ ابھی بھی ہمارے گھر میں تعمیر کا کام ہو رہا تھا مگر میں واپس آ گئی ۔

مجھے یقین ہے کہ تمام احمدیہ جماعتوں میں ایسے ہی ہوتا ہوگا مگر میں لندن کے بارہ میں ضرور جانتی ہوں کہ جیسے ہی ایک جلسہ سالانہ اختتام پذیر ہوتا ہے اُسی دن سے اگلے سال کی تیاری شروع ہو جاتی ہے ۔ جلسوں کی کامیابی کا راز بھی اسی میں ہے۔ مَیں چونکہ دو بڑے ملکوں کے بہت ہی کامیاب جلسے دیکھ کر آ رہی تھی اور بے حد متاثر بھی تھی کہ وہاں ایک ہی چھت کے نیچے پورا جلسہ دیکھا ہے ۔ یہاں یو کےمیں جتنی بھی کوشش کی جائے ایک چھت کے نیچے یہ سارے انتظام ممکن نہیں ہو سکتے۔ الحمد للہ ہماری جماعت کو بہت اچھی جگہ حدیقۃالمہدی کی شکل میں مل گئی ہے جس کا حدوداربعہ بہت وسیع ہے اور انٹر نیشنل جلسہ کے لئے بہت کھلی جگہ ہے ۔

مجھے یاد ہے کہ میری اُمی اور اباجان قادیان کے جلسوں کو بہت یاد کیا کرتے تھے۔ اکثر وہاں کے قصےسناتے اور خاص طور پر بارش میں حضرت مصلح موعودؓ کی تقریر یں جنہیں لوگ چھ چھ گھنٹے بارش اور شدید سردی میں بھی ہلے بغیر سنتے تھے، کا ذکر کرتے تھے۔

پھر ربوہ کے جلسوں کو میں کیسے بھول سکتی ہوں ۔ اُمی جان چھ ماہ پہلے چاول، گیہوںاور اسی قسم کا سوکھا دانہ دُنکا اکھٹا کرنا شروع کر دیتی تھیں۔ لحاف، تکیے ، گدے غرض ہر قسم کے بستر جو زمین پر بچھائے جا سکیں اور مہمانوں کو ہر طرح کا آرام میسر ہو سکے، تیار کرتیں۔ جلسہ کے قریبی دنوں میں انڈے، چلغوزے، مونگ پھلی، ریوڑیاں غرض بہت سارا ڈرائی فروٹ اور بےشمار مہمان نوازی کا سامان خریدا جاتا تھا ۔ زمین پر بچھانے کے لئے کسیر (پرالی) آتی تھی ۔صحن میں قنات لگتی اور ہماری ڈیوٹیاں گھر میں بھی اور گھر سے باہر بھی ہوتیں ۔ ماشاء اللہ مہمانوں سے گھر بھر جاتا ۔کون کہاں سویا کچھ خبر نہ ہوتی۔ جس کو جہاں بھی جگہ ملتی وہ غنیمت جان کر وہیں سو جاتا ۔ ربوہ کے ایمان افروز جلسوں کے بارے میں تو جتنا بھی لکھوں کم ہے ۔ یہ جلسے ہماری روحانی ترقی اور تربیت کا ذریعہ بنتے ۔ غیر از جماعت لوگ بھی ہمارے جلسوں کی تعریف کرتے اور کہتے کہ جماعت احمدیہ کا ڈسپلن ، اطاعت اور آپس کی محبت بہت مثالی ہے ۔

اب کافی حد تک ہم لندن میں بھی ان ہی باتوں کے عادی ہو چکے ہیں کہ یہاں بھی زیادہ تر مہمان گھروں میں ہی ٹھہرتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ باقی ملکوں کی نسبت یہاں کے گھر چھوٹے، سڑکیں تنگ، بارشیں زیادہ، پارکنگ کی مشکلات اوراگر گرمی ہو تو وہ بھی برداشت سے باہر۔مگر پھر بھی لندن کا انٹر نیشنل جلسہ اپنے تمام مہمانوں کا کھلے بازوؤں سے استقبال کرتا ہے ۔ مہمان بھی خندہ پیشانی سے اِن دنوں کی برکتوں کو سمیٹےاگلے سال دوبارہ آنے کی خواہش لے کر جاتے ہیں ۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل، حضرت مسیح موعود ؑکی دعاؤں اور خلافت کی برکتوں کا ہی نتیجہ ہے۔ یو کے میں بعض مشکلات کے باوجود خلیفۂ وقت کی موجودگی اور اُنکی نگرانی میں الحمد للہ یہاں کے جلسے ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں ۔ اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ تمام لوگ جو مشکلات اور نا مساعد حالات کے باوجود ڈیوٹیاں دے رہے ہیں، اللہ تعالیٰ اُن سب کو جزائے خیر سے نوازے۔ آمین

میں بھی نہ جانے خیالات کی رو میں بہہ کر کہاں سے کہاں نکل جاتی ہوں ۔ اصل میں تو مَیں یہ بتا رہی تھی کہ مَیں نے جوبلی کا سال کیسے گزارا۔ مَیں اِن دنوں وقتی طور پر اپنی دوست کے فلیٹ میں ٹھہری ہوئی تھی ۔ جلسہ کے دنوں میں اپنی بڑی بیٹی کے گھر چلی گئی۔ اُسکی ڈیوٹی چونکہ جلسہ سالانہ کے دفتر میں ہوتی ہے اس لئے مجھے جلسہ پر آنے جانے کی سہولت مل گئی ۔ الحمد للہ

مَیں نے جوبلی جلسہ سالانہ کے تینوں بابرکت ایام میں سیّد نا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے روح پرور ایمان افروز خطابات کو سنا۔ جلسہ کے بعد میں اپنے فلیٹ میں واپس آ گئی۔ رات کو میرا بیٹا میرے پاس ہوتا مگر دن کو مجھے اکیلے میں بہت گھبراہٹ ہوتی تھی۔ ہمارا گھر مکمل ہونے میں ابھی بھی وقت در کار تھا۔

کینیڈا آنے سے پہلے بچوں نے مجھے بہت سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ آپ اکیلے نہیں رہ سکتیں اس لئےواپس جانے کی کوشش مت کریں مگر میں نہ مانی۔ مجھے یقین تھا کہ بہت سےلوگ اکیلے رہتےہیںتومیں کیوں نہیںرہ سکتی؟ میں بھی رہ سکتی ہوں ۔ میں کسی صورت میں بھی لندن کا جوبلی کا جلسہ اور رمضان شریف یو کے سے باہر نہیں گزارنا چاہتی تھی۔ جلسہ تو میں نے الحمدللہ بہت اچھی طرح سے گزار لیا مگر رمضان شریف میں میرے لئے اکیلے رہنا مشکل ہو گیا۔ میرا بیٹا بلال جو برسلز (بیلجیم) میں رہتا تھا (وہ بھی اب کینیڈا چلا گیا ہے) وہ آ کر مجھے اپنے ساتھ لے گیا ۔ عید کے بعد کافی حد تک ہمارا گھر مکمل ہوچکا تھا اور میں واپس اپنے گھر آ گئی ۔الحمد للہ

اب قادیان کے صد سالہ خلافت جوبلی جلسہ کا شدت سے انتظار تھا۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور بہت سے لوگ تو انڈیا جا بھی چکے تھے کہ اچانک حالات نے پلٹا کھایا اور سارے پروگرام بدلنے پڑے۔ ہم احمدی ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی اور خوش رہنے والے لوگ ہیں۔ یہی حضرت مسیح موعود ؑاورہمارے خلفائےکرام ہمیں سبق دیتے ہیں ۔ ان شاء اللہ آئندہ اس سے بھی بڑھ کر ہمارے جلسے ہونگے اور بہترین شان و شوکت سے ہونگے۔ ہماری جماعت کا تو یہ حال ہے کہ اگر ایک دروازہ بند ہے تو سو کھل جاتے ہیں ۔ یہ سب خلافت کی برکتیں ہیں۔ ہمیں دُعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارےآقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو صحت والی لمبی زندگی عطا کرے اور ہم سب خلافت کی برکتوں سے فیضیاب ہوتے رہیں اور اُنکی قیادت میں دن دگنی اور رات چوگنی تر قیاں دیکھیں۔ آ مین ثم آمین ۔

آخر میں مکرمہ امۃ الباری ناصر صاحبہ کے دو اشعار لکھتی ہوں :

؎صد شکر کہ ہم اس گلشن میں آرام و سکوں سے رہتے ہیں
صد شکر کہ ہم ان میں سے نہیں جو دشتِ خار میں رہتے ہیں
بچوں کو وصیت ہے میری، وابستہ خلافت سے رہنا
جو رشتہ شجرسے رکھتے ہیں، وہ پھیلتے، پھولتے، پھلتے ہیں

صفیہ بشیر سامی ؔ

(یہ مضمون 2008ء کا لکھا ہوا ہے جو ماہنامہ مصباح ربوہ کے اکتوبر 2010ء کے شمارے میں شائع ہو چکا ہے)

٭…٭…٭

(مرسلہ: صفیہ سامی ؔ)

پچھلا پڑھیں

تمباکو کے نقصانات اور جماعت کو اس کے ترک کی تحریک

اگلا پڑھیں

ترقی کے گُر