• 3 مئی, 2024

صحت و تندرستی بیش بہا نعمت

ہمیں صحت کی قدر نہیں ہو تی جونہی یہ نعمت ساتھ چھوڑتی ہے اس لمحے یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ دیگر تمام نعمتوں سے کہیں زیادہ قیمتی تھی ۔بالکل درست کہا گیا ہے کہ جان ہے تو جہان ہے ۔اگر انسان صحت مند نہ ہو تو دنیا کی تمام رونقیں، دلچسپیاں اور گوناگوں نعمتیں ہیچ نظر آتی ہیں حتیٰ کہ خدا کی عبادت کا بھی حق ادا نہیں ہو پاتا ۔لیکن پھر انسان کو بیماری، دکھ اور تکالیف جھیل کرجب خدا کے فضل سے بیماری سے مکمل شفا یابی ہوتی ہے تو اسے اس انمول اور بیش بہا نعمت کی قدر و قیمت کا احساس ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ سورۃ رحمان میں فرماتا ہے کہ ’’اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے‘‘

حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’دو نعمتیں ایسی ہیں کہ جن کی قدر نہ کر کے بہت سے لوگ نقصان اٹھاتے ہیں۔ ایک صحت اور دوسرے فارغ البالی۔‘‘

(بخاری کتاب الرقاق۔ ترمذی حوالہ حدیقتہ الصالحین صفحہ570 حدیث نمبر539)

ذاتی تجارب کا کچھ احوال

خاکسار کچھ ہفتے قبل کرونا وائرس کی وجہ سے بیمار ہوا جس کے نتیجے میں صحت جیسی عظیم نعمت سے محرومی کا شدّت سے احساس ہوا۔

یہاں ضمناً خاکسار اپنے پیارے امام جن کی دعاؤں کا سایہ ہمیں میسّر ہے، تمام عزیز واقارب اور تمام احباب کا تہہ دل سے مشکور ہے جن کی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ نے شرفِ قبولیت عطا کرتے ہوئے محض اپنے فضل و کرم سے صحت و تندرستی والی نعمت دوبارہ بحال کی الحمداللہ ۔بیماری کے دوران سب سے بڑی محرومی جو محسوس ہوئی وہ عبادت کا کما حقہ حق ادا نہ کرنے کی صورت میں تھی ۔جو یقیناً ایک اچھی صحت جیسی نعمت کی مرہون منّت ہے ۔اچھی صحت کے ہوتے ہوئے بھی انسان کئی بار نیک اعمال کی بجا آوری میں ٹال مٹول کر رہا ہوتا ہے اورایسے نیکی کے خیالات کو آئندہ کےلئے اٹھائے رکھتا ہے ۔کچھ عرصہ ہوا خاکسار کی اہلیہ مسلسل کئی بار وصیت کے نظام میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کرتی رہیں ۔اس وقت خاکسار نے ان کو رسالہ الوصیت کا بغور مطالعہ کرنےکا مشورہ دیا اور گھر میں وصیت فارم مہیا نہ ہونے کی صورت میں خاکسار سے تھوڑی سستی ہوگئی اور یہ نیک ارادہ عمل میں نہ ڈھل سکا۔ وقت گذرتا گیا اور ساتھ ہی کئی نئے سوالات بھی وصیت کی بابت ان کے ذہن میں جنم لیتے رہے اور ان کے جوابات دینے میں ہی وقت گذرتا گیا اور بات آئی گئی ہو گئی۔ قصہ مختصر اہلیہ ابھی تک وصیت کے بابرکت نظام میں شامل ہونے سے محروم ہے ۔

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی خواہش ہے کہ تمام جماعتی عہدیداران وصیت کے بابرکت نظام میں شامل ہوں ۔اس غرض سے جب عاملہ کے ممبران اور دیگر احباب جو عبادت گذار،جماعتی خدمات میں پیش پیش اور اچھی صحت،ملازمت یا کاروبار جیسی نعمتوں سے مالا مال ہوتے ہیں ان کو تحریک کی جاتی ہے تو وہ بھی اس نیک کام کی بجاآوری میں یہ کہہ کر کہ ہم ابھی اس معیار پر نہیں ہیں ٹال مٹول سے کام لیتے رہتے ہیں ۔غرض یہ کہ طرح طرح کے نفس کے بہانے ہیں جو سامنے آکھڑے ہو تے ہیں ۔اور پھر جب گردشِ زمانہ ان کے حالات یکسر تبدیل کردیتا ہے تو وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور ہمیشہ کےلئے پھر اس نیک کام کی توفیق ہی نہیں ملتی۔

قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ

فَفِرُّوۡۤا اِلَی اللّٰہِ

(الذّٰریٰت آیت51)

’’پس تیزی سے اللہ کی طرف دوڑو‘‘

یہاں جو فرمایا ہے اللہ کی طرف دوڑو۔ تو یہ فرار الی اللہ یعنی خدا کی طرف دوڑنا کیا معنی رکھتا ہے ۔یہاں بعض برائیاں چھوڑ کر نیکیاں اختیار کرنا مراد ہے۔ اعمالِ صالحہ بجالانے میں جلدی کرنا مراد ہے۔ بعض دفعہ انسان کئی ناگہانی مصیبتوں کا شکار ہو کر خدا کو پکار تو رہا ہو تا ہے لیکن ضروری تو نہیں کہ وہ خدا کی طرف دوڑ بھی رہا ہو ۔خدا کی طرف دوڑنے کا مضمون امن کی حالت سے تعلق رکھتا ہے ۔جب انسان مکمل صحت کی حالت میں ہو۔ کوئی مصیبت ابھی اس پر وارد نہ ہوئی ہو، ہر طرف سے خوشی اور راحت میسّر ہو۔ اس حالت میں فرار الی اللہ کا حکم ہے۔

پیارے نبی کریم ﷺ کی ایک پیاری نصیحت

سیّد نا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
’’اے بنی نوع انسان! اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ اختیار کرو پیشتر اس سے کہ تم مر جاؤ اور اعمال صالحہ بجالانے میں جلدی کرو پیشتر اس کے کہ تم دوسری باتوں میں مشغول کردئے جاؤ۔‘‘

(ابن ماجہ کتاب اقام الصلوٰۃ حدیث نمبر1071)

مندرجہ بالا حدیث کی تشریح میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں کہ
’’دوسری باتوں میں مشغول کردئے جانے کا جو مضمون ہے یہ مزید وضاحت طلب ہے ۔اس میں بہت ہی گہری حکمت کا بیان ہے اگر انسان اعمال صالحہ کی بجا آوری میں جلدی نہیں کرتا تو ایسے مواقع بسا اوقات ہاتھ سے کھوئے جاتے ہیں اور پھر ہاتھ نہیں آیا کرتے۔ہر انسان کے اندر تبدیلی کا ایک وقت آتا ہے ۔دل سے ایک موج اٹھتی ہے جو نیکی کی موج ہوتی ہے ۔اس وقت وہ کہتا ہے کہ میں یوں کردوں اور یوں کردوں ۔قرآن کریم کے مطالعہ کے وقت احادیث کے مطالعہ کے وقت، بزرگوں کے اقوال خصوصاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ملفوظات سے بارہا دل میں ایسی لہریں اٹھتی ہیں کہ میں اپنے آپ کو یہ کرنے پر آمادہ پا رہا ہوں ۔میرا دل چاہتا ہے میں ایسا ہو جاؤں وہ وقت اس نیک ارادے کو عمل میں ڈھال دینے کا ہے اور اگر انسان جلدی نہ کرے تو یہ وقت ضرور ہاتھ سے چلا جاتا ہے، وہ کیفیت مدام نہیں رہتی اسی طرح رمضان المبارک میں بھی ایسے وقت آتے ہیں، ایسی راتیں آتی ہیں جب انسان کا دل چاہتا ہے کہ سب کچھ خدا کے حضور حاضر کردے اور اس وقت ہمت نہیں ہوتی کہ اس خواہش پر عمل پیرا ہوسکے۔ عمل نہ کرنے کے نتیجہ میں رمضان گیا اور نیک ارادے بھی اس کے ساتھ رخصت ہوئے ۔پس آنحضرت ﷺ نے قبل ان تشغلوا جو فرمایا تو مراد یہ ہے کہ نیک کاموں کے علاوہ ایسے مشاغل میں مبتلا ہو جاؤ جو تمہیں نیک کاموں سے غافل کردیں، جن کی وجہ سے تمہارے نیک مواقع ہاتھ سے جاتے رہیں ۔تشغلوا میں ایک اور بھی تنبیہ ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر تمہیں مصیبتوں میں مبتلا فرمادے، تم ایسے گورکھ دھندوں میں پڑ جاؤ جو تمہارے لئے تکلیف کا موجب بنیں اور پھر نیک اعمال کی طرف لوٹنے کی تم میں صلاحیت ہی نہ رہے ۔

تشغلو ا میں مرضیں بھی آجاتی ہیں ایک صحت مند انسان عبادت کا جیسا حق ادا کرسکتا ہے بیمار نہیں کر سکتا لیکن اگر انسان صحت کے ہوتے ہوئے عبادت سے غافل رہے تو بسا اوقات ایسے انسان میں ایسی بیماریاں آجاتی ہیں کہ وہ پھر عبادت کے لائق ہی نہیں رہتایہ مضمون بڑا وسیع ہے۔ہر نیکی کی راہ میں کوئی نہ کوئی بیماری حائل ہو سکتی ہے ۔پس آنحضرت ﷺ نے ’’قبل ان تشغلوا‘‘ کہہ کر احتمالی بیماریوں کا بھی ذکر فرما دیا احتمالی حادثات کا بھی ذکر فرما دیا اور کئی قسم کے گورکھ دھندے جو انسان کو گھیر لیتے ہیں اور انسان ان میں مبتلا ہو جاتا ہے ان کا بھی ذکر فرمادیا اور اس بنیادی فطرتِ انسانی کا بھی ذکر فرمادیا کہ ہر انسان کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب وہ اپنے آپ کو نیک ارادوں پر تیار پاتا ہے اس وقت وہ ارادہ عمل میں نہ ڈھلے تو وقت ہاتھ سے جاتا رہتا ہے‘‘

نیک اعمال بجالانے کا آسان موقع

پھر حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ فرما تے ہیں ’’یعنی تبتل ہر اس موقع پر اختیار کیا جاسکتا ہے جب خدا تعالیٰ کی طرف سے دل میں ایک روحانی تحریک پیدا ہو رہی ہے۔اس طرح زیادہ آسانی سے ٹکرا ٹکرا تبتل کی توفیق مل سکتی ہے ۔جب دل میں ایک نیکی کی لہر دوڑ ی اس حصہ پر عمل کر لیاکیونکہ وہ عمل کرنے کا سب سے آسان موقع ہےکہ دل کی ہوائیں اور دل کے مزاج اس نیکی کو اختیار کرنے کے مطابق چل رہے ہیں، ان کے مخالف نہیں چل رہے۔ اس پہلو سے تبتل کو اختیار کرنے کے طریق ہمیں سمجھادیئے گئےکہ اگر تم زور اور کوشش کے ساتھ تبتل اختیار کرنے کی کوشش کرو گے یعنی بعض بدیاں چھوڑ کر نیکیوں کی طرف آنے کی کوشش کرو گے تو ممکن ہے کہ تمہیں توفیق نہ ملے۔ ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ایسے وقت تم پر ضرور آئیں گےجب نیکی کی طبعی تحریک دل میں پیدا ہو رہی ہے اس وقت تبتل اختیار کرلینا ورنہ ’’تشغلوا‘‘ ورنہ وہ بیماریاں جن سے بچ کر خدا کی طرف آنے کی ہم تمہیں ہدایت کر رہے ہیں وہ تمہیں گھیر لیں گی، تم ان میں مشغول ہو جاؤ گے پھر تمہارا بچ نکلنا مشکل ہو جائے گا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 22 اکتوبر 1993ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد12 صفحہ 810-812)

صحت کی حالت کا شکرانہ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ
’’خدام الاحمدیہ اور لجنہ کو خاص طور پر کوشش کرنی چاہئے کہ نوجوانوں میں نمازوں میں پابندی کی عادت ڈالیں ۔اس عمر میں صحت ہوتی ہے اور عبادتوں کا حق ادا ہوسکتا ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں اس طرف خاص توجہ دلائی ہےکہ جوانی اور صحت کی عبادتیں ہی حق ادا کرتے ہوئے ادا کی جاسکتی ہیں۔ بڑھاپے میں تو مختلف عوارض کی وجہ سے انسان وہ حق ادا ہی نہیں کرسکتاجوعبادت کا حق ہے۔بحر حال انسان کو سوچنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ فرائض تو طبیعت پر جبر کر کے بھی ادا کرنے پڑیں تو ادا کرنے چاہئیں کجا یہ کہ سہولتوں کے باوجود یہ ادا نہ کئے جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب صحت دی ہے توصحت کا شکرانہ بھی خدا تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے لئے ضروری ہے اور یہ حق عبادت سے ادا ہوتا ہے ۔صحت کی حالت کے شکرانے کے طور پر عبادتیں بجا لانے کی ضرورت ہے ۔نمازوں کی ادائیگی کی ضرورت ہے ۔پس اس طرف توجہ دینے کی ہمیں بہت زیادہ کوشش کرنی چاہئے اس کے بغیر ہمارا ایمان کامل نہیں ہو سکتا۔‘‘

(خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالٰی بنصرہ العزیز فرمودہ 10 اکتوبر 2014)

حرفِ آخر

آخر میں تمام قارئین الفضل آن لائن سے گزارش ہے کہ اپنی صحت کو ایک نعمت عظمیٰ سمجھتے ہوئے اس کی قدر کیجئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کرونا وائرس کی وبا سے تمام انسانوںکو نجات عطا کرے اور اپنے پیارے تمام احمدی مردوزن، بچے بوڑھے اور جوانوں کو ہر قسم کی بیماریوں سے محفوظ رکھے اور ہمیں تو فیق عطا کرے کہ اپنی اس صحت جیسی نعمت کے شکرانے کے طور پر اعمالِ صالحہ بجا لانے میں جلدی کرتے رہیں قبل اس کے کہ ہم ’’مشغول‘‘ کر دیئے جائیں ۔آمین ثم آمین

٭…٭…٭

(مرسلہ: خالد محمود شرما۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

تمباکو کے نقصانات اور جماعت کو اس کے ترک کی تحریک

اگلا پڑھیں

ترقی کے گُر