ہمارے زمانے مىں بعض لوگ ىہ نکتہ اٹھاتے ہىں کہ ہمىں قرآن کرىم جىسى اکمل کتاب کى موجودگى مىں کسى پىغمبر اور ہادى کى ضرورت نہىں اور اب ہم اپنى تمام ضرورىات اسى کتاب سے پورى کرسکتے ہىں۔ اس دعوىٰ کے برعکس قرآن کرىم کتاب اور استاد کو اىک دوسرے کىلئے لازم و ملزوم ٹھہراتا ہے۔ سورہ ابراہىم کى مندرجہ ذىل آىت مىں کہا گىا ہے کہ لوگوں کو اندھىروں سے نکال کر روشنى کى طرف لانا رسول کا کام ہے جو وہ اللہ تعالىٰ کى طرف سے نازل کردہ کتاب کى مدد سے کرتا ہے:
الٓرٰ ۟ کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَىۡکَ لِتُخۡرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوۡرِ ۬ۙ بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ اِلٰى صِرَاطِ الۡعَزِىۡزِ الۡحَمِىۡدِ ۙ﴿۲﴾
(ابراہىم: 2)
الف لام را۔ ىہ اىک کتاب ہے جو ہم نے تىرى طرف اتارى ہے تاکہ تو لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے اندھىروں سے نور کى طرف نکالتے ہوئے اس راستہ پر ڈال دے جو کامل غلبہ والے (اور) صاحب حمد کا راستہ ہے۔
ىہ دعوىٰ کرنا کہ ہم خود کتاب پڑھ کر ہداىت پاسکتے ہىں منکرىن کا شىوہ ہے جسے اللہ تعالىٰ نے ہمارى عبرت اور نصىحت کىلئے نقل کىا ہے۔ گوىا ان کے نزدىک نبى کى حىثىت اىک ڈاکىہ سے زىادہ نہىں جس کا کام صرف کتاب پہنچانا ہے۔سورہ بنى اسرائىل کى مندرجہ ذىل آىت مىں کفّار مکّہ کے نبى اکرم ﷺ سے جو مطالبات اللہ تعالىٰ نے بىان کئے ہىں ان مىں اىک مطالبہ ىہ بھى تھا کہ آپؐ آسمان پر جا کر ہمارے لئے اىک کتاب لے آئىں جسے ہم پڑھىں۔
اَوۡ ىَکُوۡنَ لَکَ بَىۡتٌ مِّنۡ زُخۡرُفٍ اَوۡ تَرۡقٰى فِى السَّمَآءِ ؕ وَ لَنۡ نُّؤۡمِنَ لِرُقِىِّکَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَىۡنَا کِتٰبًا نَّقۡرَؤُہٗ ؕ قُلۡ سُبۡحَانَ رَبِّىۡ ہَلۡ کُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا ﴿۹۴﴾
(بنى اسرائىل: 94)
ىا تىرے لئے سونے کا کوئى گھر ہو ىا تو آسمان مىں چڑھ جائے۔ مگر ہم تىرے چڑھنے پر بھى ہرگز اىمان نہىں لائىں گے ىہاں تک کہ تو ہم پر اىسى کتاب اتارے جسے ہم پڑھ سکىں۔ تو کہہ دے کہ مىرا رب (ان باتوں سے) پاک ہے (اور) مىں تو اىک بشر رسول کے سوا کچھ نہىں۔
اس آىت کرىمہ مىں لفظ ’’نَقۡرَؤُہٗ‘‘ بڑا غور طلب ہے۔ اس لفظ کا مطلب ہے ’’ہم پڑھىں‘‘۔ ىعنى آپؐ کتاب لا کر ہمارے حوالے کردىں اسے پڑھنے اور سمجھنے کا کام ہم خود ہى کرلىں گے۔
کفّار مکّہ کے اس مطالبہ اور استاد کى ضرورت کے انکار کے خىال کے برعکس اللہ تعالىٰ نے مندرجہ ذىل آىت کرىمہ مىں بىان فرماىا کہ نبى صرف کتاب کى صورت مىں پىغام لانے والا ہى نہىں ہوتا بلکہ اس کى تلاوت کرنے والا اور اس کى تعلىم اور حکمت سکھانے والا اور اس کے ذرىعے لوگوں کے نفوس کى پاکىزگى کرنے والا بھى ہوتا ہے۔ اس بناء پر کتاب کے ساتھ ساتھ اىک معلّم ربّانى کى ضرورت سے انکار نہىں کىا جا سکتا۔
ہُوَ الَّذِىۡ بَعَثَ فِى الۡاُمِّىّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ ىَتۡلُوۡا عَلَىۡہِمۡ اٰىٰتِہٖ وَ ىُزَکِّىۡہِمۡ وَ ىُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِىۡنٍ ۙ﴿۳﴾
(الجمعۃ: 3)
وہى ہے جس نے امّى لوگوں مىں انہى مىں سے اىک عظىم رسول مبعوث کىا۔ وہ ان پر اس کى آىات کى تلاوت کرتا ہے اور انہىں پاک کرتا ہے اور انہىں کتاب کى اور حکمت کى تعلىم دىتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ ىقىناً کھلى کھلى گمراہى مىں تھے۔
دنىاوى زندگى مىں بھى ىہ عام مشاہدہ کى بات ہے کہ مىڈىکل، انجىنئرنگ، قانون اور کمپىوٹر سائنس سمىت کسى بھى شعبہ کى محض کتابىں پڑھ لىنے سے کوئى بھى انسان اس شعبہ اور پىشہ کا ماہر نہىں بن سکتا بلکہ اس کىلئے اسے باقاعدہ استاد سے علم سىکھنا پڑتا ہے جو نہ صرف ان کتابوں کے مشکل مقامات حل کرتا ہے بلکہ اپنے تجربہ سے اپنے شاگردوں کو مستفىض کرتے ہوئے انہىں وہ باتىں بھى سکھاتا ہے جو کتابوں مىں نہىں لکھى ہوتىں اور محض تجربہ اور عمىق مشاہدہ سے ہى حاصل کى جاسکتى ہىں۔ اگر دنىاوى علوم کا ىہ حال ہے تو آسمانى اور روحانى علوم استاد کے بغىر کىسے حاصل کئے جاسکتے ہىں۔ اىک صوفى شاعر مىاں محمد بخش صاحب نے کىا خوب کہا ہے:
؎بنا مرشداں راہ نہ ہتھ آوندى
بنا دودھ نہ رجھدى کھىر مىاں
(انصر رضا۔ واقفِ زندگی کینیڈا)