• 26 اپریل, 2024

’’ربوہ ،ربوہ اى اے‘‘ پر تعمىرى تبصرے

  • کمرمہ درثمىن احمد ۔ جرمنى سے لکھتى ہىں :

’’ربوہ، ربوہ اى اے‘‘ کے الفاظ مىں محبوب آقا کى جس دلى محبت اور ربوہ سے اپنائىت کا اظہار ہوتا ہے وہ تو حقىقت مىں وہى محسوس کر سکتے ہىں جنہوں نے اپنى زندگى کے اکثرو پىشتر لمحات اس مبارک بستى مىں گزارے ہىں ۔ہم جىسے تو بس ان اىمان افروز ىادوں کى وادى مىں آپ کے اس مضمون کى انگلى تھامے چلتے چلے گئے ۔کہىں چن آب کا خوبصورت نظارہ کىا تو کہىں چن کى اوٹ کو بھى محسوس کىا ۔بچپن کى ىادوں مىں مىرى اىک حسىن ىاد ىونىورسٹى باغ کہلاتا تھا۔ شاىد وہاں امرودوں کے بہت سے درخت تھے جہاں سے ہم امرود خود توڑ کر کھاىا کرتے تھے ۔پھر نانا جان کا گھر پرانے الفضل کے دفتر کے ساتھ ہوا کرتا تھا تو پکى نشانى ہوتى تھى کہ بالفرض محال اگر گمنے کا خدشہ ہوتو اس نشانى کو بتا کر مطلوبہ پتے پر پہنچنا دشوار نہىں ہوتا تھا ۔اور ربوہ کى شدىد گرمى مىں ہونے والى  پندرہ روزہ تعلىمى  کلاسسز جو کہ گرمىوں کى چھٹىوں  مىں پرانى بىرکس مىں ہوا کرتىں تھىں وہ ىاد آجاتىں  ہىں ۔نانا جان کے گھر کى رونقىں اور نانى جان کى بہنوں کے قرىب قرىب گھر جہاں ہم کزنز مل کر جاىا کرتى تھىں ىا کبھى کسى کام سے جاىا کرتى تھىں سب ىاد آگىا ،اب تو سب بھولى بسرى ىاد بن چکا ہے مگر آپ کا شکرىہ کہ آپ کى اس تحرىر نے ہمىں اس نگرى کى سىر کروادى جہاں کئى مبارک ہستىوں نے اپنى زندگى کے روز و شب بتائے ہىں ۔اب عمر کے اس دور مىں جب انسان کو چىزوں کى اہمىت کا پہلے سے زىادہ ادارک اور شعور ہوتا ہے تو ىہ محسوس ہورہا ہے کہ بہت سا قىمتى وقت ناحق کھىل تماشے مىں برباد ہوگىا ۔بہت سے اىسى صحبتىں تھىں جن سے ہم اپنى نادانستگى مىں محروم رہ گئے اور اس طرح فىضىاب نہ ہو پائے جس طرح ہوسکتے تھے ۔بہرحال کہتے ہىں ناں گىا وقت ہاتھ نہىں آتا ۔اس لئے اب کوشش ىہى ہوتى ہے کہ کسى اىسى صحبت سے محروم نہ رہىں ۔ اب تو روزنامہ الفضل ہى اىسى پىارى صحبت ہے جو ان بھولى بسرى صحبتوں کى ىاد تازہ کروا دىتى ہے۔ جزاک اللّٰہ احسن الجزاء فى الدنىا ولاخرۃ۔ اتنا جامع اور شاندار مضمون بىان کرنے کے لئے ۔اللہ تعالىٰ آپ کى مساعى مىں مزىد برکت ڈالے آمىن ۔

  • مکرم زکرىا داؤد،ونگ کمانڈر ۔کىنىڈا سے لکھتے ہىں :

بہت معلوماتى اور دلچسپ تحرىر ہے ۔مىں دىکھ رہا ہوں کہ آپ نے اس لمبے مضمون کى تىارى مىں بہت تحقىق سے کام کىا ہے ۔آپ نے ربوہ کى تعمىر سے وابستہ بہت سارى ىادىں نکالى ہىں ۔مىرى ىاداشتوں مىں جس مىں نواب محمد احمد صاحب کى کوٹھى کے سامنے اىک وسىع مىدان جس مىں ہم کرکٹ اور مىرو ڈبہ کھىلا کرتے تھے ۔مرزا غفور احمد صاحب اور چند اىک بار حضرت مرزا مسرور احمد صاحب جب وہ اىک چھوٹے لڑکے تھے تو وہ بھى کھىل مىں شامل ہونے کے لئے آجاىا کرتے تھے ۔غفور صاحب ہمارے ساتھ اکثر کرکٹ کھىلتے تھے جبکہ وہ ہمارى ٹىم کے باقاعدہ ممبر بھى نہىں تھے ۔لىکن حضور انور اپنى عمر کے تفاوت کى وجہ سے ہمارے ساتھ نہىں کھىل پاتے تھے ۔بہت ہى شاندار خوشگوار دن تھے ۔اللہ تعالىٰ آپ کو اس خوبصورت تحرىر کے لئےجزائے خىر سے نوازے ۔ آمىن ۔مىرے خىال مىں چند ٹائپنگ کى اغلاط ہىں جن کى نشاندہى ضرورى ہے کىونکہ مىرے خىال مىں آخرى جلسہ دسمبر 1983ء مىں ہوا تھا ۔جبکہ 1984ء کے بعد کوئى جلسہ ربوہ مىں منقعد نہىں ہوا ۔

  • مکرم قمر داؤد کھوکھر۔ آسٹرىلىا سے لکھتے ہىں :

ماشاء اللّٰہ اچھى کوشش ہے۔ ىادىں تازہ ہو جاتى ہىں۔ تارىخ احمدىت مىں بھى تفصىل موجود ہے۔ آنکھ کى تکلىف کى وجہ سے موبائل فون پر مطالعہ نہىں کرسکتا اس لئے laptop پر مطالعہ کرتا ہوں۔ جزاکم اللّٰہ تعالىٰ۔

  • مکرم امجد جمىل۔ لندن سے لکھتے ہىں :

ربوہ والے مضمون سے ذہن،روح اور اىمان کو تازگى ملى۔ ربوہ کى پرانى تارىخ کى ىاددہانى ہوئى ۔ اس قدر ترغىب ہوئى کہ ربوہ مىں اپنا مکان ہونا چاہئے۔ تا ربوہ کى تعمىر و ترقى مىں حصہ پڑ جائے۔

  • مکرم افتخار احمد۔ تحرىر کرتے ہىں :

بہت ہى خوبصورت مضمون تارىخ کے اوراق کو عمىق طرىقے سے کھنگالا گىا ہے اور دور حاضر کى ترقىات کا مختصر مگر جامع تذکرہ اور سب سے بڑھ کر حضور انور کى خواہش مبارک کا احترام ۔ اللہ کرے زور قلم اور زىادہ ۔

  • مکرمہ مبارکہ شاہىن ۔جرمنى سے تحرىر کرتى ہىں :

ربوہ کے بارہ مىں ىہ معلوما تى خوبصورت مضمون لکھ کر آپ نے سب احمدىوں کى ترجمانى کى ہے۔ بہت ہى خوبصورت اور جامع تحرىر ہے۔ پىارے آقا اىدہ اللہ  کا تبصرہ سب سے بھارى ہے کہ ربوہ ،ربوہ اى اے ۔ اپنے مرکز کى ہم سب کو تکرىم کرنى چاہئے۔ ان شاء اللّٰہ وقت آنے پہ اسکا مقام بلند سے بلند تر ہوتا چلا جائے گا،

؎ربوہ کو تىرا مرکز توحىد بنا کر
اک نعرہ تکبىر فلک بوس لگائىں

  • مکرم محمود احمد ملک ۔ىوکے سے لکھتے ہىں ۔

مىں نے آپ کا  بہت عمدہ ،طوىل اور تحقىقى مضمون پڑھا جو انتہائى  دلچسپ اور معلوماتى ہے ۔تمام تر تارىخى معلومات آپ کے ذاتى علم اور مشاہدے پر مبنى ہىں جو کہ مضمون کى وىلىو کو اور بھى بڑھا دىتى ہے ۔بہت خوب ۔

  • مکرم ڈاکٹر محمد اسلم ناصر۔ نىوزى لىنڈ سے لکھتے ہىں :

واقعتا ً ربوہ ،ربوہ اى اے۔ مجھے اپنا بچپن ىاد آگىا ۔ہمارے تحرىک جدىد کے 10کواٹرز کے درمىان اىک ہى نلکا کھارے پانى کا ہوا کرتا تھا جہاں دوپہر شدىد دھوپ مىں لائن مىں لگ کر پانى  لىتے تھے ۔دو چارپائىاں اىنٹوں پر کھڑى کرکے اوپر چادرىں ڈال کر غسل خانہ بنا کر نہا لىتے تھے ۔مجھے تو ربوہ جا کر رہنا ابھى بھى پسند ہے ۔مىں نے حضرت خلىفۃ المسىح الرابع ؒ کو بار بار لکھا کہ مجھے وہاں کسى جگہ چپڑاسى لگوا دىں ۔مىں ربوہ جا کر رہنا چاہتا ہوں ۔ بہرحال مضمون بہت اچھا اىمان افروز بھولى بسرى ىادوں کو تازہ کرنے والا تھا ۔

پچھلا پڑھیں

من ہائم میں مجلس انصاراللہ جرمنی کے 2 روزہ سالانہ اجتماع کا انعقاد

اگلا پڑھیں

بدلے لینے کا کا سوال نہیں اٹھایا