10دسمبر، انسانی حقوق کے حوالہ سے ایک تحریر
روایتی انسانی حقوق کی پامالی – ذمہ دار کون؟
حقوق کی ذیل میں جب بات کی جائے شہریوں پر ریاست کے حقوق کی تو ایسی ریاست ہی مثالی ہو سکتی ہے جو اپنے شہریوں کے درمیان رنگ و نسل، مذہب، زبان سمیت کسی نوع کی تفریق نہ کرے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کے درمیان مساوات کو یقینی بنائے جس کے لیے ایک آئین مرتب کیا جاتا ہے۔ آئین کسی ریاست کا بنیادی ڈھانچہ یا نقشہ ہوتا ہے جس میں یہ طے کیا جاتا ہے کہ امور مملکت کس طرح چلائے جائیں گے نیزشہریوں کی آزادی اور حقوق کا تعین کیا جاتا ہے۔آئین سازی کے مجاز منتخب عوامی نمائندے ہوتے ہیں جن کی ذمہ داری ہے کہ عوامی امنگوں کے تحت ایک ایسا متفق علیہ دستور بنایا جائے جس میں کسی طبقہ کی کسی نوع کی حق تلفی نہ ہو۔اگر آئین میں تسلیم کیے گئے حقوق شہریوں تک نہیں پہنچ پارہے تو اس کے متعدد اسباب ہو سکتے ہیں، قانون میں سقم ہو سکتا ہے یا مجاز ریاستی ادارے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں ناکام ہیں۔
وطن عزیز میں عوامی حقوق کا احوال بھی سن لیں۔برطانیہ کے ایک تجزیاتی ادارے Maplecroft کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روایتی انسانی حقوق کی پامالی میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ صورتحال کس قدر سنگین ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان انسانی حقوق کی درجہ بندی میں صرف شام اور کانگو جیسے جنگ زدہ ممالک سے بہتر ہے۔پاکستان اُن چار ممالک میں شامل ہے جہاں شہریوں کے بنیادی حقوق کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔جب کوئی عالمی ادارہ ایسی چشم کشا رپورٹ منظر عام پر لاتا ہے تو مجاہدین ملت فوراً اس میں سے یہودی و نصرانی سازش کشید کر لیتے ہیں، اپنی اداؤں پر مگر غور نہیں کرتے۔
کسی بھی ملک کا آئین شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا ضامن ہوتا ہے۔لیکن 1947ء میں متحدہ ہندوستان سے علیحدگی کے بعد 1973ء تک ارباب اختیار کو متفقہ آئین بنانے کی توفیق نہ مل سکی۔جبکہ دوسری طرف بھارت نے 1949ء میں اپنا آئین بنا لیا تھا۔بھارت کا آئین دنیا کے کسی بھی ملک کا سب سے بڑا آئین ہے جس کا ذخیرہ الفاظ 146,385 انگریزی الفاظ پر مشتمل ہے۔
وطن عزیز میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کو ہی عارضی طور پر آئینی اساس تسلیم کرکے ضرورت کے حساب سے ترامیم کے ساتھ امور مملکت چلائے جاتے رہے تاوقتیکہ 1973ء میں متفقہ آئین بنا لیا گیا۔
بنظر انصاف دیکھا جائے تو شہری حقوق کی ذیل میں تسلیم کیے گئے شہری استحقاق کی نفی خود اسی آئین میں ہی موجود ہے۔ مثلاً دستور پاکستان کے باب ایک میں بنیادی حقوق کی شق نمبر دو میں لکھا ہے۔
’’مملکت کوئی بھی ایسا قانون وضع نہیں کرے گی جو بایں طور عطاء کردہ حقوق کو سلب کرے یا کم کرے اور ہر وہ قانون جو اس شق کی خلاف ورزی میں وضع کیا جائے اس خلاف ورزی کی حد تک کالعدم ہوگا‘‘۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور (ترمیم شدہ لغایت 28 فروری 2012ء صفحہ5)
اسی باب کی شق نمبر 12 مذہب کی پیروی اور مذہبی اداروں کے انتظام کی آزادی کا حق تسلیم کرتی ہے اور بلا تفریق ریاست کے ہر شہری کو اپنے مذہب اور جو بھی اس کا عقیدہ ہو اس پر عمل کرنے کا مکمل اور غیر مشروط حق دیتی ہے۔چنانچہ دستور میں لکھا ہے۔
(الف) ’’ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہوگا: اور(ب) ہر مذہبی گروہ اور اس کے ہر فرقے کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے،برقرار اور ان کا انتظام کرنے کا حق ہوگا‘‘۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور (ترمیم شدہ لغایت 28 فروری 2012ء صفحہ 12)
بنیادی حقوق اور حکمت عملی کے اصول کے تحت باب ایک میں اصول وضع کیا گیا ہے کہ مملکت کوئی بھی ایسا قانون بنانے کی مجاز نہیں جو شہری کو تفویض کیے گئے کسی حق کو سلب کرنے کا موجب بنے۔ ان حقوق کو تفصیل سے نیچے بیان کیا گیا ہے جس میں واضح طور پر شہری کی مذہبی آزادی کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ چنانچہ اسی اصول کے تحت اگر کوئی قانون ایسا بنایا جائے گا یا بنانے کی کوشش کی جائے گی جو شہری کو مذہبی آزادی کے حق سے محروم کر رہا ہو تو وہ بنیادی حقوق کے آرٹیکل 8 کی شق ‘‘ب’’ کے تحت کالعدم شمار ہوگا۔ یعنی اس قانون کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی اور اگر ایسا قانون بن جائے تو آئین کی رو سے ہی کالعدم شمار ہوگا۔
یہاں تک بات واضح ہے جس میں اگر مگر چونکہ چنانچہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں بچتی۔ لیکن اس آئین کو بنے بمشکل ایک سال ہی گزرا تھا کہ ایک مخصوص طبقہ کی خوشنودی کے لیے آئین میں دوسری ترمیم کی گئی جس میں تمام تسلیم شدہ حقوق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جماعت احمدیہ مسلمہ کو ’’کافر قرار دے دیا گیا‘‘۔ معلوم انسانی تاریخ میں یہ انوکھا واقعہ ہے کہ ایک ریاست نے اپنے شہریوں کا مذہب طے کیا۔
یہ عمل بذات خود نہ صرف دستور پاکستان میں شہریوں کے مسلمہ حقوق کے منافی تھا بلکہ انسانی حقوق کے عالمی منشور کی بھی کھلی کھلی خلاف ورزی تھی۔پاکستان کا شمار ان 48 ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے 10 دسمبر 1948ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں انسانی حقوق کے عالمی ڈیکلیئریشن کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔انسانی حقوق کے عالمی دستور کے مطابق۔
’’تمام انسان حقوق اور وقار کے اعتبار سے آزاد اور برابر پیدا ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق اور آزادیوں پر رنگ، نسل، زبان، جنس، مذہب و عقیدہ، سیاسی نظریہ، خاندانی حیثیت اورقوم کی بنا پر امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جائے گا۔ہر انسان کو آزادی فکر، آزادی ضمیر اور آزادی مذہب کا پورا حق حاصل ہے۔ اس حق میں مذہب یا عقیدے کو تبدیل کرنے اور عوامی یا نجی طور پر تنہا یا دوسروں کے ساتھ مل جل کر عقیدے کی تبلیغ، عمل، عبادت اور مذہبی رسمیں پوری کرنے کی آزادی بھی شامل ہے‘‘۔
طرفہ تماشہ ہے کہ عالمی سطح پر جس منشور کی حمایت میں ایک مملکت ووٹ دیتی ہے وہی مملکت کھلم کھلا اس عہد کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اپنے ہی آئین میں ایک طبقہ کی مذہبی آزادی سلب کر لیتی ہے۔اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال افسوس ناک تو ہے ہی مضحکہ خیز بھی ہے۔ ایک شہری ریاست کے دستور میں اپنے حقوق پڑھتا ہے۔پہلے درجے میں اس کی مذہبی آزادی کا حق تسلیم کیا جاتا ہے۔دوسرے درجے میں اس حق کی توثیق کی جاتی ہے لیکن جیسے ہی وہ دستور کے تیسرے درجے پر پہنچتا ہے اس کی مذہبی آزادی سلب کر لی جاتی ہے۔دنیا میں شاید ہی کسی اور ملک کا دستور ایسی بھونڈے تضادات کا شکار ہو۔
کیا آئین حرف آخر ہے؟
بنیادی انسانی حقوق کے تمام تقاضوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ایک قانون بنایا گیا جو خود آئین کی رو سے ہی کالعدم ہے اس پر مستزاد یہ کہ جماعت احمدیہ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ آئین کو نہیں مانتے اور ایسا کرکے وہ آئین سے غداری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود آئین میں کہیں اس بات کا دعویٰ موجود ہے کہ آئین ایسا مقدس ہے جس میں قطع و برید ناممکن ہے، حرف آخر اور قطعاً محرف و مبدل ہے۔؟نیز آئین کی کسی شق سے محض اختلاف آئین سے غداری کا مرتکب بنا دیتا ہے۔؟ آئین میں ہونے والی دسیوں ترامیم خود اس بات کی نفی کرتی ہیں۔آئین بننے کے پہلے پانچ سال میں سات آئینی ترامیم کی گئیں۔اکیلے جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں آئین میں سات بار ترمیم کی۔ محمد خان جونیجو کی تین میں سے دو ترامیم کو شرف قبولیت بخش کر آئین کا حصہ بنایا گیا۔میر ظفراللہ خان جمالی کے نامہ اعمال میں آئین کی ایک ترمیم ہے۔اسی طرح میاں محمد نواز شریف نے آئین میں ترامیم کیں اور منتخب جمہوری حکومتوں کا دھڑن تختہ کرنے والے فوجی آمروں نے تو پورے کا پورا آئین ہی معطل کر دیا تھا۔تو کیا جماعت احمدیہ پر آئین سے غداری کا یہ الزام درست ہے؟ خود آئین اس بارے میں کیا کہتا ہے؟ آئین مملک سے وفاداری اور دستور اور قانون کی اطاعت کی ذیل کے حصہ دوم میں مرقوم ہے۔
’’کوئی بھی شخص جو طاقت کے استعمال یا طاقت سے یا دیگر غیر آئینی ذریعے سے دستور کی تنسیخ کرے، تخریب کرے یا معطل کرے یا التواء میں رکھے یا اقدام کرے یا تنسیخ کرنے کی سازش کرے یا تخریب کرے یا معطل یا التواء میں رکھے سنگین غداری کا مجرم ہوگا‘‘۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور (ترمیم شدہ لغایت 28 فروری 2012ء صفحہ4)
کیا کبھی جماعت احمدیہ نے من حیث الجماعت کبھی بھی کسی نوع کی طاقت کے استعمال سے آئین کو معطل کرنے کی کوشش کی؟کوئی غیر آئینی ذریعہ استعمال کیا؟کوئی تخریب کی؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر آئین سے غداری کا یہ بودا الزام اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔شگوفہ تو یہ ہے کہ یہ الزام تواتر سے اس طبقہ کی جانب سے لگایا جاتا ہے جن کے نزدیک جمہوریت کفر کا نظام ہے۔کفریہ نظام حکومت کے تحت کسی خاص طبقہ سے منسوب افراد کے طے کیے گئے عقیدے کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ اس سوال کا جواب بھی ان کے ذمہ ہے جن کے نزدیک جماعت احمدیہ آئین کی منکر ہے۔
جہاں تک جماعت احمدیہ کا آئین کے اس حصے سے اختلاف کا معاملہ ہے تو بغیر کسی لیت و لعل کے مقدمہ بہت سادہ ہے کہ ریاست کو یہ حق ہی حاصل نہیں کہ وہ کسی کا عقیدہ طے کرے یا عقیدہ بدلنے پر مجبور کرے۔قرآن وسنت کی تعلیمات جماعت احمدیہ کے اس مؤقف کی بھرپور تائید کرتی ہیں۔جماعت احمدیہ کی طرف سے امتناع قادیانت آرڈینینس کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا۔اس پورے مقدمہ کی کارروائی اسی موضوع پر ہے کہ یہ قانون قرآن وسنت کے منافی ہے۔ یہ پوری کارروائی ’’وفاقی شرعی عدالت میں‘‘ کے نام سے شائع شدہ ہے اور الاسلام ڈاٹ آرگ پر بھی موجود ہے۔
ایک ایسے ملک میں جہاں لوگوں کو یہ بات گھول کر پلائی گئی ہے کہ احمدی آئین و قانون کو نہیں مانتے۔ اس ملک کا سب سے معزز ادارہ عدلیہ جوشہریوں کو حقوق دلانے کا سب سے بڑا ذمہ دار ہے کی کارکردگی کا یہ حال ہے کہ ورلڈ جسٹس پراجیکٹ 2021ء کی درجہ بندی کے مطابق پاکستان 139 ممالک کی فہرست میں 130 ویں نمبر پر ہے۔ قانون کی حکمرانی کے حوالے سے پاکستان کی یہ رینکنگ نہ صرف دنیا میں بہت نیچے ہے بلکہ خطے میں صرف افغانستان کی کارکردگی پاکستان سے بدتر ہے۔جنوب ایشیائی ممالک میں بھی پاکستان کی رینکنگ حوصلہ افزا نہیں ہے اور اس حوالے سے نیپال، سری لنکا، انڈیا اور بنگلہ دیش جیسے ممالک کی کارکردگی پاکستان سے بہتر ہے۔
معروف قانون داں علی احمد کرد کا کہنا ہے کہ ملک بہت خطرناک صورتحال سے گزر رہا ہے اور ملک میں ہر ادارے کی ابتری کی عکاسی یہ بین الاقوامی رپورٹ بھی کر رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا۔
’’ایسا لگتا ہے کہ ملک میں کوئی عدالت، کوئی پارلیمنٹ، کوئی حکومت وجود نہیں رکھتی۔ لوگوں کے بنیادی حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے۔ بولنے اور سوچنے کی آزادی پر قدغن لگائی جارہی ہیں۔‘‘ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بدعنوانی کو قابو کرنے، بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور ریگولیشنز کے حوالے سے پاکستان کی کارکردگی انتہائی بری ہے۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے سابق چیئر پرسن ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ ’’اس میں پاکستان کی رینکنگ اس لیے کمزور ہے کیونکہ پاکستان کبھی بھی بنیادی انسانی حقوق یا گورننس کے کسی بھی مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ ڈاکٹر حسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ملک میں بنیادی انسانی حقوق عوام کو دینے کا کوئی تصور نہیں‘‘۔
(بحوالہ ڈی ڈبلیو اردو 20 اکتوبر 2021ء)
دیگر عوامل کے ساتھ وطن عزیز میں اقلیتوں کے حقوق کی مسلسل پامالی کا شاخسانہ ہے کہ پاکستان فیٹف کی درجہ بندی میں گرے لسٹ میں ہے اور بلیک لسٹ ہونے کی تلوار سر پہ لٹک رہی ہے۔ دنیا گلوبل ولیج ہے جہاں سوشل میڈیا کے توسط سے ہر خبر پلک جھپکنے میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں پہنچ جاتی ہے۔ کسی ریاست کا اپنے شہریوں سے بھید بھاؤ کا سلوک زیادہ دیر تک دنیا کی نظروں سے اوجھل نہیں رہ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ شہریوں کے حقوق کی کماحقہ ادائیگی سے ہی دنیا کسی کا قد کاٹھ طے کرتی ہے نہ کہ بڑے بول بولنے سے۔ اگر اس بارے میں سنجیدگی سے موئثر اقدامات نا کیے گئے تو سرمئی سے سیاہ لسٹ میں جاتے دیر نہیں لگنی۔
(ابو حمزہ ظفر)