• 19 جولائی, 2025

انسانی حقوق کا عالمی دن اور امتناع قادیانیت آرڈیننس

73 سال پہلے دس دسمبر1948 کو اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کے یونیورسل ڈیکلریشن کوایک قرار داد نمبر217A کے تحت منظور کیا تھا جس کے تحت ایک آفاقی منشور تیار اور منظور ہوا تھا جس میں بنیادی مذہبی، انسانی، سیاسی، سماجی اظہار رائے،بحث و مباحثہ سمیت دیگر حقوق کو تسلیم کیا گیا تھا۔اسی لئے اب ہر سال دس دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور دنیا بھر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کی بھرپور مذمت کی جاتی ہے اور انسانی حقوق کے تحفظ و اس کی اہمیت پر سیمینارز منعقد کئے جاتے ہیں۔ یہ ڈیکلریشن تیس آرٹیکلز پر مشتمل ہے یہ اس وقت دنیا کی سب سے غیر معمولی اور اہم ترین دستاویزات ہیں۔ تادم تحریر انسانی حقوق کے عالمی منشور کا 508زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ اس بارے مزید تفصیلات ویب سائٹ www.ohchr.org سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہر رکن ملک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس عالمی منشورکا احترام کرے اور اس کی روشنی میں اپنے ملک کے شہریوں کو حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ان حقوق میں جینے کا حق، امتیاز سے پاک مساوات اور برابری کا حق، اظہار رائے کی آزادی، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق شامل ہیں ۔اس کو ماننا اور اس پر عمل کرنا ہر اس ملک کے لئے لازمی ہے جو اقوام متحدہ کا ممبر بن چکا ہو۔پاکستان بھی ایسی عالمی دستاویزات پر دستخط کر چکا ہے۔ سیاسی، مذہبی سماجی تمام آزادیوں کی ضمانت اور ان کی پاسداری کی بات اس میں کی گئی ہے لیکن تمام ممالک اس قانون کی پاسداری نہیں کر رہے ہیں۔جنوبی ایشیا میں بھارت سمیت کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے۔ پاکستان کے اندر انسانی حقوق کے عالمی قوانین پر سب سے بڑا خودکش حملہ ضیاء الحق دور میں کیا گیا تھا،اس کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں رکھی گئی تھی جب قومی اسمبلی نے سات ستمبر1974کو سیاہ فیصلہ کیا گیا۔ضیاء الحق نے26اپریل1984ء کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے جو سیاہ قانون نافذ کیا تھا وہ ’’امتناع قادیانیت آڈیننس20 مجریہ1984ء‘‘ کہلاتا ہے۔ اس قانون کے فوری نفاذ نے جہاں انسانی حقوق کے عالمی منشوراور دیگرشہری آزادیوں کے عالمی قوانین پر ضرب لگائی تھی، وہیں پاکستان میں بسنے والے لاکھوں احمدیوں کو ان کے مذہبی حقوق سے یکسر محروم کردیا تھا اور ان کے عقائد کی ادائیگی ایک جرم قرار دے دی گئی تھی،اور احمدیوں کی تمام مذہبی آزادیاں سلب کر لی گئیں تھیں یہ سیاہ آرڈیننس احمدیوں کے مخالفین کوجماعت احمدیہ کو ہر سطح پر نقصان پہنچانے کی غرض سے من مانی کرنے کے لئے دیا گیا تھا۔

چونکہ کسی بھی قانون کانفاذ انفرادی طور پر ہوتا ہے لہذا اس سیاہ قانون کے نفاذ کے ساتھ ہی ہر ایک احمدی خواہ وہ پاکستان کے کسی بھی صوبہ کے شہر، محلہ گلی میں رہتا ہو، وہ اس کی زد میں آگیا تھا۔انسانی حقوق کے عالمی قانون کی تمام شقوں کو اس ضیائی قانون نے پارہ پارہ کیا ۔

یہ قانون کیا ہے؟ اور اس نے احمدیوں کے حقوق پر کیا قدغن لگائی ہے، اس بارے ہر امن پسند شہری کا جاننا ضروری ہے۔اس نئے قانون کے تحت مجموعہ تعزیرات پاکستان ایکٹ45 کے باب نمبر دس میں ترامیم کرکے A 298 کے بعد 298B اور 298C کا اضافہ کردیا گیا جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ،

  • قادیانیت کی تبلیغ و تشہیر جرم قرار دیدی گئی
  • احمدیوں کا خود کو مسلمان کی طرح ظاہر کرنا بھی جرم اور ممنوع قرار دیا گیا
  • اسلامی شعائیر کا استعمال بھی جرم اور ممنوع قرار دے دیا گیا

اس قانون کی رو سے پاکستان بھر میں کہیں بھی رہنے والا احمدی، خواہ وہ مرد، عورت، بچہ، بوڑھا، جوان ہو، وہ کلمہ طیبہ نہیں پڑھ سکے گا، اپنی مسجد کو مسجد نہیں کہہ سکے گا، مساجد میں اذان نہیں دے سکے گا اور خود کو کسی بھی پہلو سے مسلمان ظاہر نہیں کرسکے گااوردیگر اسلامی شعائیر کا استعمال نہیں کرسکے گا، خلاف ورزی پر تین سال قید اور جرمانہ کی سزاء دی جائے گی۔ اس قانون کے نفاذ سے ہر احمدی کے سر پر ایک ایسی ننگی تلوار لٹک گئی جو کسی بھی وقت، کہیں بھی کسی احمدی کا سر قلم کر سکتی تھی، اور گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصہ کے حالات و واقعات نے اس کو سچ بھی ثابت کر دکھایا ہے اور آج پاکستانی احمدی کے پاس نہ مذہبی حقوق ہیں نہ سیاسی حقوق ہیں اور نہ ہی شہری حقوق ہیں بلکہ ان کی احمدی شناخت ہی ان کی جان کے لئے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ایک احمدی فیملی کا ہر فرد اس قانون کی زد میں آکر ’’انسانی حقوق‘‘ کی پامالی کا شکار ہے،خواہ وہ ایک عورت ہو، مرد ہو، طالب علم ہو، کاروباری فرد یا ملازم ہو، ہر ایک اسی قانون کے باعث تعصب،نفرت اور عدم تحفظ کا شکار ہے۔پاکستان کے اندر سے عدم تحفظ کے باعث اس وقت ہزاروں کی تعداد میں احمدی مختلف ممالک میں پناہ گزینوں کی شکل میں ایک انتہائی کٹھن زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ان ممالک میں ملائشیا، سری لنکا اور تھائی لینڈ قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح یورپین ممالک میں بھی ہزاروں احمدی اسائلم سیکرز کی حیثیت سے مشکل زندگی بسر کر رہے ہیں،سال ہاسال سے فیملی ممبرز سے دور اکیلا زندگی کیسے بسر ہوتی ہے،بس وہی جانتے ہیں اس کا دکھ اور غم۔

(منور علی شاہد۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

احمدیہ مسلم سیکنڈری اسکول روکوپر،سیرالیون میں جلسہ سیرت النبی ؐ کا بابرکت و شاندار انعقاد

اگلا پڑھیں

جس مومن کو مَیں نے سخت الفاظ کہے ہوں