مؤرخہ 3 نومبر 2021 بروز بدھ جامعہ احمدیہ جرمنی میں ’’مجلس ارشاد‘‘ کے تحت ایک لیکچر بعنوان
’’میلاد النبیؐ کی شرعی حقیقت اور پیدا ہونے والی بدعات‘‘
منعقد کیا گیا۔اس لیکچر کے لئے مکرم و محترم رحمت اللہ بندیشہ صاحب استاذ جامعہ احمدیہ جرمنی کو درخواست کی گئی تھی۔ پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا، جو کہ عزیزم ثمر احمد بٹ صاحب نے کی۔ بعد ازاں محترم رحمت اللہ بندیشہ صاحب نے میلاد النبیؐ کے بارہ میں پُر از معلومات لیکچر دیا،جس کا خلاصہ اختصارکے ساتھ پیش ہے۔
لیکچر کے آغاز میں آپ نے اس بات کی وضاحت کی کہ آپ ﷺ کی تاریخ ولادت کے متعلق اختلاف پا یا جاتا ہے۔
معروف طور پریہ تاریخ 12ربیع الاوّل مطابق 20اگست 570ء بیان کی جاتی ہے۔ جبکہ ایک تحقیق مطابق 9ربیع الاوّل مطابق 20اپریل 571ء ہے۔ بعض مؤرخین کے اقوال کے مطابق آپ ﷺ کی ولادت ماہ ِ رمضان المبارک، بعض نے ولادتِ مبارک ماہ محرم یا ماہ صفر وغیرہ میں بھی بیان کی ہے۔
عید میلاد النبی ﷺ منانے کے حوالے سے فرمایا کہ شریعت اسلامی میں بطور تہوار ’’عید میلاد‘‘ منانے کا ثبوت نہیں ملتا صرف دو متفق علیہ عیدیں یعنی عید الفطر اور عید الاضحیہ کا تذکرہ ملتا ہے، یا جمعہ والے دن کو بھی عید کا دن قرار دیا گیا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اسلام میں صرف دو ہی عیدیں شارع علیہ السلام نے مقرر فرمائی ہیں۔ یا جمعہ کا دن ہے‘‘
(حیات نور باب ہفتم صفحہ507)
اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ’’نبی کریمؐ نے کبھی اپنی سالگرہ نہیں منائی۔ قطعی طور پر یہ بھی ثابت ہے کبھی کسی نبی نے اپنی سالگرہ نہیں منائی۔ کبھی کسی صحابی نے اپنی یا اپنے بانی مذہب کی سالگرہ نہیں منائی۔۔۔ نہ صحابہ نے نہ تابعین نے اور نہ تبع تابعین نے‘‘
(الفضل 14/فروری 1994ء صفحہ2)
دوران لیکچر کچھ ویڈیو زجس میں متفرق فرقوں کے لوگ ’’عید میلاد النبی ﷺ‘‘ کو منانے کے حوالے سے اپنے مؤقف کا اظہار کر دیتے ہیں اور اس موقع پر کی جانے والی بیہودہ بدعات دکھائی گئیں۔
مقرر مہمان نے جماعت احمدیہ میں جاری جلسہ ہائے سیرت النبی ﷺ کاپس منظر بیان کرتے ہو ئے فرمایا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دور میں جب آنحضرت ﷺ کی شان میں گستاخانہ باتیں اور مضامین لکھے گئے تو آپ ؓ نے ایک طرف حکومت کو توجہ دلائی تو دوسری طرف مسلمانوں کو فرمایا کہ لوگ اس لئے آپ ﷺ کی ذات پر حملہ کرتے ہیں کہ وہ آپ ﷺ کے حالات زندگی سے ناواقف ہیں۔اس لئے آپ ﷺ کی سوانح پر کثرت کے ساتھ لیکچر دیئے جائیں کہ ہندوستان کا بچہ بچہ آپ ﷺ کے حالات زندگی سے واقف ہوجائے۔
لیکچر کے اختتام پر مہمان مقرر نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک اقتباس پیش کیا جس میں حضور نے خلاصۃً جماعتی موقف واضح کیا ہے۔ فرمایا ’’بہرحال خلاصہ یہ کہ مولود کے دن جلسہ کرنا، کوئی تقریب منعقد کرنا منع نہیں ہے بشرطیکہ اس میں کسی بھی قسم کی بدعات نہ ہوں۔ آنحضرتؐ کی سیرت بیان کی جائے۔ اور اس قسم کا (پروگرام) صرف یہی نہیں کہ سال میں ایک دن ہو۔ محبوب کی سیرت جب بیان کرنی ہے تو پھر سارا سال ہی مختلف وقتوں میں جلسے ہو سکتے ہیں اور کرنے چاہئیں اور یہی جماعت احمدیہ کا تعامل رہا ہے، اور یہی جماعت کرتی ہے۔ اس لئے یہ کسی خاص دن کی مناسبت سے نہیں، لیکن اگر کوئی خاص دن مقرر کر بھی لیا جائے اور اس پہ جلسے کئے جائیں اور آنحضرت ؐ کی سیرت بیان کی جائے بلکہ ہمیشہ سیرت بیان کی جاتی ہے۔ اگر اس طرح پورے ملک میں اور پوری دنیا میں ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ ہے کہ بدعات شامل نہیں ہونی چاہئیں۔کسی قسم کے ایسے خیالات نہیں آنے چاہئیں کہ اس مجلس سے ہم نے جوبرکتیں پالی ہیں ان کے بعد ہمیں کوئی اور نیکیاں کرنے کی ضرورت نہیں ہے جیساکہ بعضوں کے خیال ہوتے ہیں۔ تو نہ افراط ہو نہ تفریط ہو۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل جلد نمبر 16 شمارہ نمبر 14 مورخہ 3 اپریل تا 9 اپریل 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ7)
پروگرام کے اختتام پر مکرم پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ جرمنی نے معزز مہمان کا شکریہ ادا کیا اور طلبہ کو فرمایا کہ آج کے لیکچر کا مقصد آپ کے سامنے مسلمانوں کی خراب حالت،جہالت اور رسوم و بدعات جو ان میں پیدا ہو گئی ہیں کا نقشہ کھینچنا تھا۔انہیں لوگوں کی تربیت ہمارا کام ہے ان کی اصلاح ہماری ذمہ داری ہے۔اس لئے ہمیں بھی اپنے اندر ایمان رسول کی محبت اور خلافت کے ساتھ ایک مضبوط تعلق بنانا ہوگا۔
پروگرام کا اختتام دعا کے ساتھ ہوا۔
(رپورٹ : حامد اقبال۔شعبہ تاریخ جامعہ احمدیہ جرمنی)