This week with Huzur
05 نومبر 2021ء
پچھلے ہفتے شمالی انگلستان اور سکاٹ لینڈ کی ناصرات کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ورچوئل ملاقات کا شرف حاصل ہوا اس کے علاوہ حضور ایدہ اللہ نے ہیومنٹی فرسٹ انٹرنیشنل کی عالمی کانفرس سے خطاب فرمایا۔
شمالی انگلستان اور سکاٹ لینڈ کی ناصرات کی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ورچوئل ملاقات
ہفتے کے روز شمالی انگلستان اور سکاٹ لینڈ کی ناصرات کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ورچوئل ملاقات کا شرف حاصل ہوا جس میں 13 سے 15 سال کی ناصرات نے مانچسٹر کی مسجد دارالامان سے شمولیت اختیار کی ۔اس ملاقات میں ناصرات نے حضور انور ایدہ اللہ سے مختلف مسائل پر رہنمائی حاصل کی جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
سوال: حضور! آج کل depression اور anxiety (ذہنی مایوسی اور ذہنی بے چینی) بہت عام ہوتی جا رہی ہےحضور! کیا آپ اس سلسلہ میں رہنمائی فرما سکتے ہیں نیز آپ کا ذہنی صحت کے بارے میں کیا نظریہ ہے؟
حضور انور نے فرمایا: اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگ دنیاوی اشیاء کے حصول میں بہت زیادہ لگے رہتے ہیں ۔ لوگوں کی خواہشات کی ترجیحات بدل گئی ہیں بجائے اس کے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے قرب کے حصول میں کوشاں ہوں لوگ دنیاوی اشیاء کے حصول میں لگے رہتے ہیں اوریہی اس depression اور anxiety کی وجہ ہے۔جب انسان کی خواہشات پوری نہ ہوں اور اسےوہ سب کچھ نہیں ملتا جو اس کا دل چاہتا ہے تو پھر انسان مایوس اور دل شکستہ ہو جاتا ہے۔پھر یہی مایوسی انسان کو بے چینی کی حالت کی طرف لے جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ ’’اَلَا بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنَ الْقُلُوْب‘‘ یعنی اللہ کے ذکر سے ہی دل اطمینان پکڑتے ہیں۔ پس انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ کو یاد کرے۔ جب بھی انسان کو کوئی مسئلہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اللہ کے آگے جھکے ،اگر انسان اپنی پنج وقتہ نماز خشوع و خضوع اور اخلاص سے ادا کرے گا تو پھر اللہ تعالیٰ اس کے دل کو تسکین اور اطمینان بخشے گااور اس کے نتیجہ میں وہ راحت اور آرام محسوس کرے گا۔ آج کل زیادہ تر مریض جنہیں یہ anxiety کا مسئلہ ہوتا ہےوہ اسی لیے ہے کہ وہ دنیاوی اشیاء کی طرف زیادہ راغب ہوتے ہیں۔تو اگر انسان اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرے تو اس کی بے چینی کا عالم کم از کم 80 فیصد بہتر ہو سکتا ہے۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ فضل فرمایاکہ آپ اس جماعت میں شامل ہیں جو ا س زمانے کے مجدد یعنی حضرت مسیح موعود ؑ کی پیروی کر رہی ہے جس کی آمد کی پیشگوئی کی گئی تھی۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ بجائے اس کے کہ انسان دنیاوی اشیاء کے حصول میں لگا رہےاسے اپنے خالق کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیےجس سے پھر انسان کو اطمینان اور تسکین ملے گا۔
سوال: مذہب ہمیں برائی سے روکتا اور نیکیا ں بجا لانے کی تلقین کرتا ہے جبکہ ہم مذہب کے بغیر بھی نیک کام کر سکتے ہیں اور بدیوں سے گریز کر سکتے ہیں تو پھر ایسی صورت حال میں مذہب کے ہونے کی کیا ضرورت ہے؟
حضور انور نے فرمایا: جہاں تک اخلاقیات کا سوال ہےتوایک دہریہ شخص کے بھی اچھے اخلاق ہو سکتے ہیں اوراس میں ہمیشہ سچ بولنے کی خوبی ہو سکتی ہےجبکہ ہو سکتا ہے کہ بعض مومنین میں یا کسی مذہب کے ماننے والوں میں وہ خوبی نہ ہو اور بعض دفعہ وہ جھوٹے لوگ ہوتے ہیں۔اس طرح سے وہ دہریہ شخص ان مومنین سے بہتر ہو گا ۔لیکن اس کے ساتھ ہی یہ دہریہ لوگ مانتے ہیں کہ تمام اچھے اخلاق خد اکے پیغمبروں اور انبیاء کے ذریعہ سے اس دنیا میں آئے یا ان کے ذریعہ سے لوگوں میں متعارف کروائے گئے ۔تو وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ اچھے اخلاق ہم تک انبیاء کے ذریعہ سے پہنچے۔ تو یہ اس بات کو ظاہر کرتی ہےکہ مذہب ہی ہے جو دنیا میں انسانیت کے لیے نیک اخلاق لے کر آیا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی غیر مومن یا کوئی دہریہ شخص جو اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتالیکن ان میں اچھے اخلاق ہیں اور وہ نیک اعمال بجا لاتے ہیں تو پھر ہم مذہب پر کیوں ایمان رکھیں؟اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دنیاوی زندگی ہی واحد زندگی نہیں ہے۔ہمارے وصال کے بعد بھی ایک زندگی ہے اور ہم یہ ایمان رکھتے ہیں اور تمام انبیاء نے بھی ہمیں یہی بتایا ہے کہ دنیاوی زندگی کے بعد ایک دائمی زندگی ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ جب آپ اس دنیا میں نیکیاں کرو گی تو آپ اپنی ذمہ داریوں کو نبھا رہی ہو گی جو آپ کے خالق یعنی اللہ تعالیٰ کا حق ہےاور حقوق العباد بھی ادا کر رہی ہو گی تو بالا ٓخر اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آخرت میں اجر دے گا۔پس اسی وجہ سے تو ہم کہتے ہیں کہ صرف اچھے اخلاق ہی نہ ہوں بلکہ ایک حقیقی مومن ،ایک مذہب کے حقیقی پیروکار کو اللہ تعالیٰ کا حق اد ا کرنا چاہیے۔ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تعلیم دی ہے اس کے مطابق چلیں اور اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کریں قرآن کریم میں مذکور ہے کہ آپ کا مقصد پیدائش یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ اگر آپ اس کی عبادت کریں گی تو یہ تمام امور اللہ تعالیٰ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے بلکہ آپ کو فائدہ دیں گے جس سے اللہ تعالیٰ آپ کو اس جہاں میں بھی اور اگلے جہاں میں بھی ثواب عطا کرے گا اور دوسرا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقوق العباد کی ادئیگی کرو۔اس کا بھی اگلے جہاں میں ثواب ملے گا۔ایک دہریہ ایک لامذہب انسان کو صرف اسی دنیا میں ثواب ملتا ہے۔لیکن ایک مومن کو اسی دنیا میں بھی جزا ملتی ہے اور اگلے جہاں میں بھی۔ تو یہ ہے مذہب کی اتباع کرنے کا فائدہ۔
سوال: ہم سوشل اسٹڈیز میں دہشتگردی کے متعلق پڑھتے ہیں اور اکثر دفعہ دہشتگردی کو اسلام سے مناسبت دی جاتی ہے۔ہم کیسے لوگوں کو سمجھا سکتے ہیں کہ دہشتگردی کا آغاز کسی مذہب سے نہیں ہوا بلکہ سیاسی مقاصد کے حصول کی وجہ سے شروع ہوا؟
حضور انور نے فرمایا: اسلامی تعلیمات کا دہشتگردی سے کسی قسم کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی قطعیت کے ساتھ قرآن کریم میں بیان فرمایا کہ ایک انسان کو قتل کرنا تمام انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے اور ایک جان کو بچانا گویا تمام انسانیت کو بچانے سے مشابہ ہے۔ پھر قرآن کریم فرماتا ہے کہ کسی بھی انسان کو بغیر حق کے قتل کرنا آپ کو دوزخ میں لے جائے گا۔قرآن کریم فرماتا ہے کہ ایک مومن کو قتل کرنا آپ کو جہنم میں ڈال دے گا۔مسلمان کیا کر رہے ہیں؟ مسلمان ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں تو وہ تمام مسلمان جو ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔وہ قرآن کریم اور احادیث نبوی ﷺ کے مطابق جہنمی ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ اسلام کو بزور شمشیر نہ پھیلاؤ بلکہ جب دشمنوں کے خلاف قتال کرنے کا پہلا حکم نازل ہوا جو سورۃ الحج میں مذکور ہےتو وہاں پر بڑے واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ آپ کو ان دشمنانِ اسلام کے خلاف قتال کرنے کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ اگر تم نے اب ان کو چھوڑ دیا کہ وہ جو چاہیں کریں تو پھر آپ صفحہ زمین پر کوئی مذہب نہیں پاؤ گے۔ کوئی معابد ،کوئی گرجا ، کوئی مندر یا کوئی مسجد کو کھڑے ہوتے ہوئے نہیں پاؤ گے ۔ یہاں جو قتال کرنے کی اجازت دی گئی ہے اس کا اسلام کی حفاظت یا تبلیغ یاا سلام سے کوئی جوڑ نہیں ہے بلکہ یہ دین کو بچانے کیلئے ہے جس میں یہودیت ،عیسائیت اور دیگر مذاہب شامل ہیں۔پس قرآن کریم میں یہ لکھا ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر آپ لوگ مقابلہ نہیں کرو گے تو نہ یہود کے معابد، نہ گرجے اور نہ ٹیمپلز وغیرہ قائم رہیں گے اور اس کے بعد فرمایا نہ ہی کوئی مسجد قائم رہے گی ۔ یہ بات واضح کرتی ہے کہ اسلام ایک جنگ جُو مذہب نہیں ہے بلکہ سب مذاہب کی حفاظت کرتا ہے اوردہشتگردی اور انتہا پسندی کے خلاف ہے۔ آج کے دور میں کچھ لوگ جو اسلام کے نام پر کر رہے ہیں وہ دراصل اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔وہ قرآن کریم کی آیات کی غلط تشریح کر کے اپنے مطالب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔مثلاَ وہ جہاد کو اسلام میں جائز اور بہت ضروری قرار دیتے ہیں ۔وہ کس قسم کا جہاد کر رہے ہیں؟اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ایک مومن دوسرے مومن کا قتل کرتا ہے تو وہ جہنم میں جائے گا۔ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ دہشت گرد یا انتہا پسند ہیں وہ مسلمان ممالک میں ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔یہاں یورپ میں آپ کو شاذ کے طور پر کوئی واقعہ ملے گا کہ وہ یہاں آ کر کسی غیر مسلم کا قتل کریں لیکن مسلمان ممالک میں وہ ایک دوسرے کا قتل کر رہے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ بجائے جنت کے جہنم میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔ اسلام تمام مذاہب کی حفاظت کرتا ہے اور اس کا دہشتگردی، شدت پسندی، دوسرے مذاہب کو تباہ کرنا یا اسلام کو تلوار سے پھیلانے سے کوئی تعلق نہیں۔
سوال: احمدی لڑکیوں کو کس میدان میں جانا چاہیےتا کہ وہ انسانیت اور جماعت دونوں کی خدمت کر سکیں؟
حضور انور نے فرمایا: آپ کی کیا رائے ہے؟ جس پر موصوفہ نے جواب دیا کہ میرا خیال ہے طِب میں۔اس پر حضور انور نے فرمایا کہ پھر پہلی ترجیح طِب ہوئی ،دوسری ٹیچنگ ،تیسری انسانی حقوق کی وکالت،چوتھی انجینئرنگ پھر آج کل کے مسئلے کو مدنظر رکھتے ہوئے گلوبل وارمنگ۔آپ اس مضمون کا بھی مطالعہ کر سکتی ہیں۔پس ہر میدان جو انسانیت کے لئے فائدہ مند ہے ، احمدی لڑکیوں کو اس میدان میں جا نا چاہیے۔پس لڑکیوں کے لئے پہلی ترجیح طب اور ٹیچنگ ہونی چاہیے۔واقفین نو لڑکیوں کے لیے میں اسی کو ترجیح دیتا ہوں۔ورنہ اور بھی بہت سے ایسے میدان ہیں جو انسانیت کے لئے فائدہ مند ہیں جنہیں احمدی لڑکیاں اختیار کر سکتی ہیں۔
سوال: حضور میرا سوال یہ ہے کہ احمدی لڑکیاں طالع شہید صاحب جیسی کیسے بن سکتی ہیں؟
حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: جماعت کے مقصد کے لئے بہت محنت کرو۔اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پھیلاؤ اچھی مومنہ اور اچھی احمدی مسلم لڑکی کی مثال قائم کروتا کہ جب لوگ آپ کو دیکھیں تو وہ کہیں کہ یہ وہ لڑکیاں ہیں جو اسلام کی حقیقی تعلیم کا مجسمہ ہیں۔پس جہاں تک شہادت کا تعلق ہے تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کس کو یہ مقام عطا فر مائے گا۔لیکن ہمیں کم ازکم اسلامی تعلیم پر عمل کر کے اور اچھا مومن اور مسلمان بن کے اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔
سوال: میرا سوال ہے کہ ناصرات کو ایسی صورت حال میں کیا کرناچا ہیےاگر ان کے والدین میں سے کوئی ان کو اسلام اور احمدیت کی تعلیم سے دور لے جانے کی کوشش کرتا ہے؟
حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: آپ کو خود فیصلہ کرنا ہو گا کہ آپ نے دینی تعلیمات کی پا بندی کرنی ہے یا اپنے والدین کے حکم کو ماننا ہے۔ اگر آپ کا للہ تعالیٰ پر ایمان اور اس پر یقین ہے تو اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ تم اپنے والدین کو کہہ دو کہ میں تو اپنے مذہب کی تعلیمات اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کو مانوں گی۔میں آپ میں سے کسی کی بھی بات نہیں مانوں گی۔
سوال: ہم اپنی زندگی میں ضروریات اور خواہشات کے مابین کیسے توازن قائم کر سکتے ہیں؟
حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا:آپ کو اپنی ترجیحات کا علم نہیں ؟آپ کی بنیادی ضروریات کیا ہیں؟آپ کی بنیادی ضروریات میں اپنے آپ کو ڈھانپنے کے لیے کپڑے شامل ہیں اگر تمہارے والدین صاحب ِ حیثیت ہیں تو ان کو اچھے کپڑوں کے لیے کہہ سکتی ہو۔اگر وہ صاحب ِ حیثیت ہیں تو وہ تمہیں اچھا کھانا مہیا کر سکتے ہیں۔ورنہ بنیادی ضرورت میں کھانا آتا ہے جس کی انسان کو ضرورت ہے۔اس کے بر عکس اگر تم کہو کہ میں گھر میں تیار کیا گیا کھانا خواہ وہ سبزی ہے یا دال یا کوئی اور چیز نہیں کھا ؤں گی بلکہ میں تو Nandos’s ہی کھاؤں گی ورنہ نہیں ۔ تو یہ اچھی بات نہیں۔دل میں قناعت ہونی چاہیےاگر تم میں قناعت ہے تو یہی بنیادی چیز ہے ۔ تمہاری جسمانی نشوو نما کے لیے کھانےپینے کی ضرورت ہے ۔اپنے آپ کو ڈھانپنے کیلئے کپڑوں کی ضرورت ہے۔اچھی تعلیم کے لیے سکول جانے کی ضرورت ہے لیکن اگر تم یہ کہو کہ میں پبلک سکول یا گورنمنٹ سکول نہیں جاؤں گی ۔اگر مجھے پرائیویٹ سکول جانے کا داخلہ نہ ملا تو میں پڑھائی نہیں کروں گی تو یہ درست نہیں ہو گا۔اگر تمہارا مطالبہ ایسا ہے جو تمہارے والدین کی استطاعت سے بڑھ کر ہے تو یہ درست نہیں ۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا ہیومنٹی فرسٹ انٹر نیشنل کانفرس سے خطاب
اگلے روز حضور انور ایدہ اللہ نے ہیومنٹی فرسٹ انٹرنیشنل کانفرس کی سلور جوبلی کے موقع پر اختتامی خطاب کرتے ہوئے کہ خدمت خلق ایک حقیقی مسلمان کے لیے ایک دینی فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے فرمایا”اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب ہیومنٹی فرسٹ ایک منظم اور قابل احترام عالمی رفاہی تنظیم کی حیثیت رکھتی ہے۔حقیقت میں ہیومنٹی فرسٹ کو وہ حیثیت حاصل ہو گئی ہے کہ دیگر NGO’s یا ان سے ملتی جلتی رفاہی تنظیمیں اپنے رفاہی فرائض و مقاصد کی ادئیگی کے لیے اس سے مل کر کام کرنا چاہتی ہیں مثلاَ ایک ملک میں ایک انٹرنیشنل NGO جو اقوام متحدہ کے ساتھ منسلک ہے اس نے اپنی خواہش اور ارادہ کا اظہار کیا کہ وہ ہیومنٹی فرسٹ کو فنڈز مہیا کرنا چاہتی ہے تا وہ ان کے لیے خدمت ِخلق اور رفاہی پراجیکٹس پر کام کریں۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہیومنٹی فرسٹ کو دوسری رفاہی تنظیمیں بشمول ان تنظیموں کے جو اقوام متحدہ کے ساتھ منسلک ہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتی اور اس پر اعتماد کرتی ہیں ۔ یقیناَ ایسا ہونا مقدر تھا کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر آپ کے اخلاق اور رویے اچھے ہیں تو لوگ آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور آپ کو لگے گا کہ آپ نے معاشرے میں مثبت کردار ادا کیا ہے ۔قرآن کریم نے مسلمانوں کو متعدد بار حکم دیا ہے کہ وہ ان لوگوں کی مدد اور معاونت کریں جو کمزور یا ضرورت مند ہیں ۔قطع نظر اس کے کہ ان کی ذات ،مذہب یا رنگ کیا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی بے شمار احادیث ہیں جن سے عیاں ہوتا ہے کہ کس طرح سے آپ نے اپنی ساری زندگی خدمت ِ انسانیت میں اور دوسروں کے لیے ہمدردی میں بسر کی اور یہی روح آپ نے اپنے متبعین میں پیدا کرنے کی کوشش کی۔آنحضرت ﷺ یقیناَ انسانیت کیلئے رحمت کا ایک دائمی چشمہ تھے اور آپ کے مبارک کلمات اور اعمال سے آپ نے اسلام کی شاندار تعلیمات پر پُر روشن اور لازوال روشنی ڈالی ہے اور واضح کیا ہے کہ خدمت ِخلق حقیقت میں ہمارے ایمان کا جزو اور بنیادی حصہ ہے۔بلاشبہ آنحضرت ﷺ کی با برکت اور عظیم تعلیمات اور نمونہ ہر وقت امت مسلمہ اور دنیا کے لیے ایک مثال ہیں۔یہ آنحضرت ﷺ کی سنت تھی کہ کمزوروں، محروموں یا جو اپنے والدین یا Guardians کو کم عمری میں کھو بیٹھے ہوں آپ ﷺ ان کی دیکھ بھال کا طریق تھے نیز آپﷺ کی اپنے ماننے والوں سے بھی یہی امید تھی۔ آپ کبھی کوئی ایسا موقعہ ان لوگوں کی خدمت کا جو غربت کے دلدل میں یا کسی اور مصیبت میں پھنسے ہوئے ہوں اپنے ہاتھ سے نہ جانے دیں اور کبھی بھی اللہ نہ کرے کہ معمولی سا تکبر بھی یہ سوچتے ہوئے آپ کے ذہن میں آئے کہ آپ نے ان کی مدد کی ہےبلکہ دراصل غرباء ہیں جو آپ کی مدد کر رہے ہیں کیونکہ وہ آپ کو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا اور اس دنیا اور آخرت میں اس کی برکات حاصل کرنے کا موقعہ دے رہے ہیں ۔ خدمت انسانیت کیسے کی جائے؟اس بارے میں ہماری راہنمائی کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ بار باریہ فرماتا ہے کہ بغیر لحاظ مذہب اور ملت کے تم لوگوں سے ہمدردی کرو بھوکوں کو کھانا کھلاؤ، غلاموں کو آزاد کرو۔قرض داروں کے قرض اد کرو۔زیر باروں کے بار اٹھاؤ اور بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی کا حق ادا کرو‘‘ انہی مقاصد کے حصول کے لیے ہیومنٹی فرسٹ کا قیام کیا گیا ہے۔ اس کا قیام عقائد اور رنگ و نسل سے بالا ہو کر خدمتِ انسانیت کے لیے کیا گیا۔ اس کا قیام ان لوگوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کیا گیا ہے جن کی صحت خراب ہو۔اس کا قیام یتامیٰ کی حفاظت اور انہیں پناہ فراہم کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اور ان کی مدد کے لئے جو قرضے میں پھنسے ہوئے ہیں۔اس کا قیام ان لوگوں کو کھانا کھلانا کے لیے اور ان کی پیاس بجھانے کے لیے کیا گیا ہے۔ اس کا قیام ان لوگوں کی مدد کے لیے کیا گیا ہے جن کی دنیا قدرتی اور ناگہانی آفات کی وجہ سے اچانک تباہ و برباد ہو گئی یا جو حالات کی مجبوری کی وجہ سے بے یارومدد گاری کی حالت میں جی رہے ہوں مگر اس میں ان کی اپنی کوئی غلطی نہیں ہے۔‘‘
’’آخر میں، مَیں دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور رضا کاروں اور ہیومنٹی فرسٹ کی ٹیم ممبران کا شکریہ اد اکرتا ہوں کیونکہ اس کی پہلی چوتھائی صدی میں انہوں نے اخلاص و وفا کے ساتھ انسانیت کی مثالی خدمت کی ہے۔اس میں شامل رضاکاروں کے جذبہ نے ہیومنٹی فرسٹ کو اس کے نام کے مطابق خدمت کرنے والا بنایا ہے اور اسے ایک مضبوط اور مشہور فلاحی اور آفات میں مدد فراہم کرنے والا ادارہ بنا یا ہے۔ الحمد للّٰہ ہر سال ہیومنٹی فرسٹ کا کام بڑھتا ہی گیا ہے اور میری دعا ہے کہ ہمیشہ ایسا ہی ہو۔اللہ کرے کہ ہیومنٹی فرسٹ کے ممبران صدمات اور کسی بھی قسم کی تکالیف سے گزرنے والے لوگوں کے آنسو پونچھنے کے لیے ہمیشہ تیار ہیں۔اللہ کرے کہ آپ ہمیشہ ان بے گناہ روحوں کی مدد کے لئے تیار ہوں جو اپنے حالات سے مجبور ہیں تا وہ اپنے غموں ،مایوسیوں اور دلی صدمہ پر قابو پاسکیں۔اللہ کرے کہ آپ ہمیشہ کمزور، محروم اور مصیبت زدہ کے حقوق کے لیے کھڑے ہونے والے ہوں۔اللہ آپ سب کو انسانیت کی خدمت میں اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور غربت و افلاس کے ستائے ہوئے لوگوں کو اپنے پاؤوں پر کھڑا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہیومنٹی فرسٹ کی کاوِشوں کو با برکت کرے اور یہ کبھی بھی پیچھے ہٹنے والی نہ ہو بلکہ میری دعا ہے کہ ہمیشہ انسانیت کے لیے کاوِشوں میں آگے بڑھنے والی ہو۔‘‘
(مرسلہ: ابو اثمار اٹھوال)