• 29 اپریل, 2024

درود شریف وہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت ؐکی زبانِ مبارک سے نکلا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
درود شریف کی اس غرض کو بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’جیسا کہ مَیں نے (پہلے زبانی سمجھا رہے تھے، مجلس میں ذکر ہو رہا ہے۔) زبانی بھی سمجھایا تھا (کہ درود شریف) اس غرض سے پڑھنا چاہئے کہ تا خداوندکریم اپنی کامل برکات اپنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل کرے اور اُس کو تمام عالَم کے لئے سرچشمہ برکتوں کابنا وے اور اُس کی بزرگی اور اس کی شان و شوکت اِس عالَم اور اُس عالَم میں ظاہر کرے۔ یہ دعا حضورِتامّ سے ہونی چاہئے جیسے کوئی اپنی مصیبت کے وقت حضورِتامّ سے دعا کرتا ہے‘‘۔ (ایک دلی گہرائی کے ساتھ پوری طرح یہ درودشریف کی دعا ہونی چاہئے جیسے تم اپنے لئے دعا کرتے ہو۔ ) فرمایا ’’بلکہ اُس سے بھی زیادہ تضرع اور التجا کی جائے اور کچھ اپنا حصہ نہیں رکھنا چاہئے‘‘ (بلکہ اپنے لئے انسان جو دعائیں کرتا ہے اُس سے بھی زیادہ بڑھ کر تضرع اور التجا ہو ان دعاؤں میں اور اس میں اپنا کچھ حصہ نہ ہو۔) فرمایا کہ ’’اور کچھ اپنا حصہ نہیں رکھنا چاہئے کہ اس سے (یعنی درود شریف پڑھنے سے) مجھ کو یہ ثواب ہوگا یا یہ درجہ ملے گا بلکہ خالص یہی مقصود چاہئے کہ برکاتِ کاملہ الٰہیہ حضرت رسولِ مقبول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوں اور اُس کا جلال دنیا اور آخرت میں چمکے اور اسی مطلب پر انعقاد ہمّت چاہئے۔ اور دن رات دوام توجہ چاہئے یہاں تک کہ کوئی مراد اپنے دل میں اس سے زیادہ نہ ہو۔‘‘ (مکتوبات احمدجلد اول صفحہ 523) یہ ہے عشقِ رسول۔

پھر آپؑ اپنے ایک مکتوب میں جومیر عباس علی شاہ صاحب کو لکھا تھا، جو بعد میں بہرحال پِھر گئے تھے۔ فرماتے ہیں:
’’آپ درود شریف کے پڑھنے میں بہت ہی متوجہ رہیں اور جیسا کوئی اپنے پیارے کیلئے فی الحقیقت برکت چاہتا ہے ایسے ہی ذوق اور اخلاص سے نبی کریم کے لئے برکت چاہیں اور بہت ہی تضرّع سے چاہیں اور اُس تضرّع اور دعا میں کچھ بناوٹ نہ ہو بلکہ چاہئے کہ حضرت نبی کریم سے سچی دوستی اور محبت ہو اور فی الحقیقت روح کی سچائی سے وہ برکتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مانگی جائیں کہ جو درود شریف میں مذکور ہیں …… اور ذاتی محبت کی یہ نشانی ہے کہ انسان کبھی نہ تھکے اور نہ کبھی ملول ہو اور نہ اغراضِ نفسانی کا دخل ہو اور محض اسی غرض کے لئے پڑھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خداوند کریم کے برکات ظاہر ہوں۔‘‘

(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ 535-534)

پھر ایک مجلس میں آپؑ نے فرمایا:
’’درود شریف کے طفیل … مَیں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتے ہیں او رپھر وہاں جا کرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے میں جذب ہوجاتے ہیں اور وہاں سے نکل کران کی لاانتہاء نالیاں ہوجاتی ہیں اور بقدر حصہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں۔ یقینًا کوئی فیض بدُوں وساطت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔ درود شریف کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس عرش کو حرکت دینا ہے جس سے یہ نور کی نالیاں نکلتی ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کا فیض اور فضل حاصل کرنا چاہتا ہے اُس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درود شریف پڑھا کرے تا کہ اس فیض میں حرکت پیدا ہو۔‘‘

(الحکم جلد7 نمبر8 مورخہ 28؍فروری 1903ء صفحہ 7)

پھر اپنے ایک خط میں تعداد کے بارے میں کہ کتنی تعداد میں پڑھا جائے یا تعداد ہونی چاہئے کہ نہیں، فرماتے ہیں بعض دفعہ تعداد بتائی بھی ہے لیکن اس میں بتایا کہ:
’’درود شریف وہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے نکلا ہے۔ اور وہ یہ ہے‘‘۔ (ایک تو یہ کہ درود شریف کونسا بہتر ہے اور پھر کتنا پڑھا جائے۔ فرمایا وہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے نکلا ہے اور وہ یہ ہے۔ کہ) اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍکَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍکَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ …‘‘

فرمایا ’’سب اقسام درود شریف سے یہی درود شریف زیادہ مبارک ہے۔ یہی اس عاجز کا وِردہے اور کسی تعداد کی پابندی ضرور نہیں۔ اخلاص اور محبت اور حضور اور تضرع سے پڑھنا چاہئے اور اُس وقت تک ضرور پڑھتے رہیں کہ جب تک ایک حالت ر قّت اور بیخودی اور تاثّر کی پیدا ہوجائے اور سینہ میں انشراح اور ذوق پایا جائے۔‘‘

(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ 526)

پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے حکم میں کیا حکمت ہے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دوسرے کی دعا کی حاجت نہیں لیکن اس میں ایک نہایت عمیق بھید ہے‘‘۔ (بڑا گہرا راز ہے) ’’جو شخص ذاتی محبت سے کسی کے لئے رحمت اور برکت چاہتا ہے وہ بباعث علاقہ ذاتی محبت کے اُس شخص کے وجود کی ایک جز ہو جاتا ہے‘‘ (یعنی جب کسی سے ذاتی محبت ہو اور ذاتی محبت کی وجہ سے رحمت اور برکت چاہے تو اُس کا ایک حصہ بن جاتا ہے) ’’اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فیضان حضرتِ احدیّت کے بے انتہا ہیں اس لئے درود بھیجنے والوں کو کہ جو ذاتی محبت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے برکت چاہتے ہیں بے انتہا برکتوں سے بقدر اپنے جوش کے حصہ ملتا ہے۔ مگر بغیر روحانی جوش اور ذاتی محبت کے یہ فیضان بہت ہی کم ظاہر ہوتا ہے۔‘‘

(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ 534-535)

یہ تو درود شریف پڑھنے کے طریقے ہیں۔

(خطبہ جمعہ یکم فروری 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

حضرت محمد ؐ کا جانوروں سے حسن سلوک

اگلا پڑھیں

میں تو انتہائی عاجز سا انسان ہوں