• 19 اپریل, 2024

اخبار الفضل پر خلفاء سلسلہ کی لازوال عنایات اور بے پایاں محبتیں اور شفقتیں

الفضل کے لئے ابتدائی قربانی پیش کرنے والی عظیم المرتبت اور بابرکت شخصیات کے دلنشیں تذکرے
تحریر و تحقیق:ابوسدید

اخبار الفضل اردو صحافت میں برصغیر کا سب سے قدیم اخبار ہے۔اس اخبار کی بنیاد 2مقدس خلفاء احمدیت کے ہاتھوں سے رکھی گئی۔ یہ اخبار بعد میں آنے والے خلفاء کی خاص شفقتوں اور عنایتوں کابھی موردبنتا رہا، ان کی گود میں پھلا پھولا اور پروان چڑھا۔ اس کے سو سال محض ان کی دعاؤں اور برکتوں سے عبارت ہیں۔حضرت مصلح موعودؓ نے عین ضرورت کے وقت یہ اخبار جاری فرمایا۔سوانح فضل عمر جلد اول میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں۔ ’’حضرت صاحبزادہ صاحب (حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ۔ناقل) نے بجا طور پر یہ ضرورت محسوس کی کہ جب تک سلسلہ کا ایک باقاعدہ اخبار جاری نہ ہو صحیح معنوں میں مرکز اور جماعت کے مابین رابطہ قائم نہیں ہوسکتا۔چنانچہ اس شدید ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے آپؒ نے جون 1913ء میں الفضل اخبار کا اجراء فرمایا۔یہ اخبار آج تک جماعت احمدیہ کا مرکزی روزنامہ چلا آرہاہے۔‘‘

(صفحہ 238)

الفضل ایک فضل ہے جو سیدنا محمودؓ کے ذریعہ 18جون 1913ء کو عالم احمدیت پرحضرت حکیم مولوی نورالدین خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی اجازت اور دعاؤں کے جلو میں ظاہرہوا ، جنہوں نے اس کو الفضل کا بابرکت نام عطا فرمایا۔
الفضل کے نام رکھے جانے کی تفصیل حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرح بیان فرمائی: ’’حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ سے میں نے اخبار کی اجازت مانگی اور نام پوچھا۔آپ نے اخبار کی اجازت دی اور نام’’الفضل‘‘ رکھا۔چنانچہ اس مبارک انسان کا رکھا ہوا نام ’’الفضل‘‘فضل ہی ثابت ہوا۔اسی زمانہ میں ’’پیغام صلح‘‘ لاہور سے شائع ہوا۔تجویز پہلے میری تھی مگرپیغام صلح الفضل سے پہلے شائع ہوا۔کیونکہ ان لوگوں کے پاس سامان بہت تھے۔‘‘

(انوارالعلوم جلد8صفحہ371۔372)

اورپھر یہ اخبار دیوانہ وار خلافت احمدیہ کی روشنی اور اس کی برکات کو دنیا بھر میں ظاہر کرتا رہا۔ یہ خلافت کا پروانہ، اس کے ہاتھ کا مہرہ، اس کابِگل اور اس کی قرناء ہے۔خلافت کی آواز کو پھیلانے کے لئے اس کا آغاز ہوا۔

حضرت مصلح موعودؓ الفضل کے اجراء کا پس منظر اس طرح بیان فرماتے ہیں: ’’بدر‘‘ اپنی مصلحتوں کی وجہ سے ہمارے لئے بندتھا ’’الحکم‘‘ اول تو ٹمٹماتے چراغ کی طرح کبھی کبھی نکلتا تھا اور جب نکلتا بھی تھا تو اپنے جلال کی وجہ سے لوگوں کی طبیعتوں پر جو اس وقت بہت نازک ہوچکی تھیں۔ بہت گراں گزرتا تھا۔ ’’ریویو‘‘ ایک بالا ہستی تھی جس کا خیال بھی نہیں کیاجاسکتا تھا۔ میں بے مال و زر تھا۔ جان حاضر تھی مگر جو چیز میرے پاس نہ تھی وہ کہاں سے لاتا۔ اس وقت سلسلہ کو ایک اخبار کی ضرورت تھی جو احمدیوں کے دلوں کو گرمائے۔ان کی سستی کو جھاڑے۔ان کی محبت کو ابھارے۔ان کی ہمتوں کو بلند کرے اور یہ اخبار ثریا کے پاس ایک بلند مقام پر بیٹھا تھا۔اس کی خواہش میرے لئے ایسی ہی تھی جیسے ثریا کی خواہش،نہ وہ ممکن تھی نہ یہ۔آخر دل کی بے تابی رنگ لائی۔امید بر آنے کی صورت ہوئی اور کامیابی کے سورج کی سرخی افق مشرق سے دکھائی دینے لگی۔‘‘

(انوارالعلوم جلد8صفحہ369)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے ’’اعلان فضل‘‘ کے عنوان سے الفضل کے اجراء سے پہلے ایک اشتہار شائع فرمایا تھا اس میں الفضل کے بارہ میں رقمطرازہیں۔

بموجب ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح (الاولؓ) توکلاً علی اللّٰہ اس اخبار کو شائع کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے ۔ہمارا کام کوشش ہے ۔ برکت اور اتمام خداتعالیٰ کے اختیار میں ہے۔لیکن چونکہ یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے اس لئے اس کی مدد کا یقین ہے ۔بے شک ہماری جماعت غریب ہے لیکن ہمارا خدا غریب نہیں اور اس نے ہمیں غریب دل نہیں دیئے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ مزید لکھتے ہیں۔
’’ان علمی خدمات کے پیچھے قربانی اور ایثار ،شوق اور جذبہ کارفرما تھے ،ان کا کچھ اندازہ ان ذاتی قربانیوں سے ہوسکتا ہے جو آپ نے اور آپ کے اہل بیت نے ان اخبارات و رسائل کے سلسلہ میں پیش کیں ۔اس ضمن میں حضرت صاحبزادہ صاحب (خلیفۃ المسیح الثانیؓ )کی بعض بعد کی تحریرات کے چند اقتباسات ناظرین کی دلچسپی کا موجب ہوں گے۔

مجھے اس وقت ساٹھ روپے ملتے تھے جن میں سے دس روپے ماہوار تو تشحیذ پر خرچ کرتا تھا۔دوبچے تھے بیوی تھی اور گو کوئی خاص ضرورت تو نہ تھی مگر خاندانی طور طریق کے مطابق ایک کھانا پکانے والی اور ایک خادمہ بچوں کے رکھنے اور اوپر کے کام میں مدد دینے کے لئے میری بیوی نے رکھی ہوئی تھی ۔سفر اور بیماری وغیرہ کے اخراجات بھی اس میں سے تھے ۔پھر مجھے کتابوں کا شوق بچپن سے ہے چنانچہ اس گزارہ سے اپنی علمی ترقی کے لئے اور مطالعہ کے لئے کتابیں بھی خریدتا رہتا تھا اور کافی ذخیرہ میں نے جمع کرلیا تھا۔‘‘

(سوانح فضل عمر جلداول صفحہ 239)

الفضل کے لئے ابتدائی قربانیاں پیش کرنے والی پاکباز اور عظیم شخصیات کے دلنشیں اور پُر اثر تذکرے حضرت مصلح موعود ؓ کی زبانی پڑھیے۔حضرت مصلح موعودؓ اپنی حرم اول اور اپنی بیٹی ناصرہ بیگم کے بے نظیر ایثار اور قربانی کا ذکر اس طرح بیان فرماتے ہیں: ’’خداتعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اس طرح تحریک کی جس طرح خدیجہؓ کے دل میں رسول کریم ﷺ کی مدد کی تحریک کی تھی۔ انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں روپیہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنویں میں پھینک دینا اور خصوصاً اس اخبار میں جس کا جاری کرنے والا محمود ہو جو اس زمانہ میں شاید سب سے بڑا مذموم تھا۔اپنے دو زیور مجھے دے دئیے کہ میں ان کو فروخت کر کے اخبار جاری کردوں ان میں سے ایک تو ان کے اپنے کڑے تھے اور دوسرے ان کے بچپن کے کڑے تھے جو انہوں نے اپنی اور میری لڑکی عزیزہ ناصرہ بیگم کے استعمال کے لئے رکھے ہوئے تھے۔میں زیورات کو لے کر اسی وقت لاہور گیا اور پونے پانچ سو کے وہ دونوں کڑے فروخت ہوئے یہ ابتدائی سرمایہ الفضل کا تھا۔الفضل اپنے ساتھ میری بے بسی کی حالت اور میری بیوی کی قربانی کو تازہ رکھے گااور میرے لئے تو اس کا ہراک پرچہ گوناگوں کیفیات کا پیدا کرنے والا ہوتا ہے۔بارہا وہ مجھے جماعت کی وہ حالت یاد دلاتا ہے جس کے لئے اخبار کی ضرورت تھی بارہا وہ مجھے اپنی بیوی کی وہ قربانی یاد دلاتا ہے جس کا مستحق نہ میں اپنے پہلے سلوک کے سبب سے تھا نہ بعد کے سلوک نے مجھے اس کا مستحق ثابت کیا۔وہ بیوی جن کو میں نے اس وقت تک ایک سونے کی انگوٹھی بھی شاید بنا کر نہ دی تھی اور جن کو بعد میں اس وقت تک میں نے صرف ایک انگوٹھی بنوا کر دی ہے ان کی یہ قربانی میرے دل پر نقش ہے۔اگر ان کی اور قربانیاں اور ہمدردیاں اور اپنی سختیاں اور تیزیاں میں نظر انداز بھی کردوں تو ان کا یہ سلوک مجھے شرمندہ کرنے کے لئے کافی ہے اس حسن سلوک نے نہ صرف مجھے ہاتھ دیئے جن سے میں دین کی خدمت کرنے کے قابل ہوا اورمیرے لئے زندگی کا ایک نیا ورق الٹ دیا بلکہ ساری جماعت کی زندگی کے لئے بھی ایک بہت بڑا سبب پیدا کردیا۔کیا ہی یہ سچی بات ہے کہ عورت ایک خاموش کارکن ہوتی ہے۔اس کی مثال اس گلاب کے پھول کی سی ہے جس سے عطر تیار کیا جاتا ہے۔لوگ اس دکان کو تو یاد رکھتے ہیں جہاں سے عطر خریدتے ہیں مگر اس گلاب کا کسی کو خیال نہیں آتا جس نے مر کر ان کی خوشی کا سامان پیدا کیا۔میں حیران ہوتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ یہ سامان پیدا نہ کرتا تو میں کیا کرتا۔اور میرے لئے خدمت کا کون سا دروازہ کھولا جاتااور جماعت میں روز مرہ بڑھنے والا فتنہ کس طرح دور کیا جاسکتا۔‘‘

(انوارالعلوم جلد8صفحہ369۔370)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سوانح فضل عمر میں مذکورہ زیور کے فروخت کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’یہ زیورحضرت صاحبزادہ صاحب (خلیفۃ المسیح الثانیؓ) نے خود لاہور جاکر پونے پانچ سوروپے میں فروخت کئے۔یہ تھا الفضل کا ابتدائی سرمایہ جیسی قیمتی امداد تھی اس کا اندازہ حضرت صاحبزادہ صاحب (خلیفۃ المسیح الثانیؓ) کے ان الفاظ سے لگایا جاسکتاہے۔

’’اس حسن سلوک نے نہ صرف مجھے ہاتھ دیئے جن سے میں دین کی خدمت کرنے کے قابل ہوااور میرے لئے زندگی کے لئے ایک نیا ورق الٹ دیا بلکہ ساری جماعت کی زندگی کے لئے بھی ایک بہت بڑا سبب پیدا کردیا….‘‘

(الفضل28دسمبر1939ء۔سوانح فضل عمر جلداول صفحہ 240)

حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگمؓ کے عظیم احسان کا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اس طرح ذکر فرماتے ہیں:
’’دوسری تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت اماں جان کے دل میں پیدا کی اور آپ نے اپنی ایک زمین جو قریباً ایک ہزار روپیہ میں بکی الفضل کے لئے دے دی۔ مائیں دنیا میں خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہیں مگر ہماری والدہ کو ایک خصوصیت ہے اور وہ یہ کہ احسان صرف ان کے حصہ میں آیا ہےاور احسان مندی صرف ہمارے حصہ میں آئی ہے۔ دوسری ماؤں کے بچے بڑے ہو کر ان کی خدمت کرتے ہیں۔مگر ہمیں یا تو اس کی توفیق ہی نہیں ملی کہ ان کی خدمت کر سکیں یا شکر گزار دل ہی نہیں ملے جو ان کا شکریہ ادا کر سکیں۔ بہرحال جو کچھ بھی ہو اب تک احسان کرنا انہیں کے حصے میں ہے۔اور حسرت و ندامت ہمارے حصے میں۔وہ اب بھی ہمارے لئے تکلیف اٹھاتی ہیں اور ہم اب بھی کئی طرح ان پر بار ہیں۔دنیا میں لوگ یا مال سے اپنے والدین کی خدمت کرتے ہیں یا پھر جسم سے خدمت کرتے ہیں۔کم سے کم میرے پاس دونوں نہیں۔مال نہیں کہ خدمت کر سکوں۔یا شاید احساس نہیں کہ سچی قربانی کر سکوں۔جسم ہے مگر کیا؟صبح سے شام تک جس کو ایک نہ ختم ہونے والے کام میں مشغول رہنا پڑتا ہے بلکہ راتوں کو بھی۔پس بارمنت کے اٹھانے کے سوا اور کوئی صورت نہیں۔میں جب سوچتا ہوں حسرت و ندامت کے آنسو بہاتا ہوں کہ خدایا میرے جیسا نکما وجود بھی دنیا میں کوئی ہوگا جس نے خود تو کبھی کسی پر احسان نہیں کیا۔مگر چاروں طرف سے لوگوں کے احسانات کے نیچے دبا ہوا ہے۔کیا میں صرف احسانوں کا بوجھ اٹھانے کے لئے ہی دنیا میں پیدا ہوا تھا۔‘‘

(انوارالعلوم جلد8صفحہ370۔371)

حضرت نواب محمد علی خانؓ کی قربانی اور امداد کا آپ نے یوں تذکرہ فرمایا: ’’تیسرے شخص جن کے دل میں اللہ تعالیٰ نے تحریک کی وہ مکرمی خان محمد علی خان صاحب ہیں آپ نے کچھ روپیہ نقد اور کچھ زمین اس کام کے لئے دی۔پس وہ بھی اس رو کے پیدا کرنے میں جو اللہ تعالیٰ نے ’’الفضل‘‘ کے ذریعہ چلائی حصہ دار ہیں۔ اور السَّابِقُونَ الْاَوَّلُوْنَ میں سے ہونے کے سبب سے اس امر کے اہل ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے اس قسم کے کام لے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہر قسم کی مصائب سے محفوظ و مامون رکھ کر اپنے فضل کے دروازے ان کے لئے کھولے۔‘‘

(انوارالعلوم جلد8صفحہ371)

الفضل کی اشاعت کے ابتدائی مراحل میں جس شخصیت نے حضرت مصلح موعود ؓ کی مدد کی ان کے بارے میں حضورؓ ہی کی زبان مبارک سے ملاحظہ کریں ’’جب الفضل نکلا ہے اس وقت ایک شخص جس نے اس اخبار کی اشاعت میں شاید مجھ سے بھی بڑھ کر حصہ لیا وہ قاضی ظہورالدین صاحب اکمل ہیں۔اصل میں سارے کام وہی کرتے تھے۔اگر ان کی مدد نہ ہوتی تو مجھ سے اس اخبار کا چلانا مشکل ہوتا۔رات دن انہوں نے ایک کردیاتھا۔اس کی ترقی کا ان کو اس قدر خیا ل تھا کہ کئی دن انہوں نے مجھ سے اس امر میں بحث پر خرچ کئے کہ اس کے ڈیکلریشن کے لئے مجھے منگل کو نہیں جانا چاہئے کیونکہ یہ دن نا مبارک ہوتا ہے۔مگر مجھے یہ ضد کہ برکت اور نحوست خداتعالیٰ کی طرف سے آتی ہے۔مجھے منگل کوہی جانا چاہئے۔تا یہ وہم ٹوٹے۔میرا خیال ہے اس امر میں مجھے قاضی صاحب پر فتح ہوئی۔کیونکہ میں منگل کو ہی گیا اور خداتعالیٰ کے فضل سے ڈیکلریشن بھی مل گیا۔جس کی نسبت قاضی صاحب کو یقین تھا کہ اگر میں منگل کو گیا تو کبھی نہیں ملے گااور اخبار بھی مبارک ہوا۔بعد میں گو ایک مینیجر رکھ لیا گیا مگر شروع میں قاضی صاحب ہی مینیجری کا بھی بیشتر کام کرتے تھے اور مضمون نویسی میں بھی میری مدد کرتے تھے۔‘‘

(الفضل صد سالہ نمبر2013ء)

الفضل نے اپنے صد سالہ دور میں کئی رنگ بدلے۔ پہلے ہفت روزہ تھا،پھر ہفتہ میں دوبار ہوا اور بالآخر روزنامہ ہوگیا۔ متعدد مرتبہ جبری بندش کا سامنا بھی کرنا پڑا اور اب 106سال بعد اس کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے لندن سے آن لائن ایڈیشن جاری ہورہا ہے۔ روزنامہ الفضل کی صد سالہ تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اس کی کامیابیوں اور کامرانیوں کے پس پردہ اصلی قوتِ متحرکہ نظام خلافت ہے جس کی ان گنت برکات سے جہاں احمدیت نے من حیث الجماعت اور افراد جماعت نے انفرادی سطح پر وافر حصہ پایا ۔ وہاں جماعتی اداروں نے بھی اپنی تنظیمی کارکردگی اور اثرات،نتائج کے اعتبار سے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی ۔ ایک عام فہم رکھنے والا شخص بھی اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ جماعتی ادارے خلیفۂ وقت کے فیضان نظر سے انتہائی نامساعد حالات میں بھی ایک للّٰہی مقصد کی تکمیل میں کس کامیابی سے خلیفۂ وقت کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔ اور ان کی مساعی اور استعداد کار میں کہیں کوئی رخنہ نظر نہیں آتا اور اگر ہماری سستی اور غفلت سے کسی جگہ رخنے کے آثار پیدا ہونے لگتے ہیں تو خلیفہ وقت کی قوت قدسیہ اس پر اطلاع پاتی اور باریک بین نگاہ فوراً وہاں رسائی حاصل کر کے اس کی اصلاح کی طرف توجہ دلاتی ہے ۔گویا جماعت کا ہر ادارہ خلیفہ وقت کے مبارک وجود کا ایک حصہ ہے اور اس کی دھڑکنوں سے زندگی بخش توانائی حاصل کرتا ہے۔

سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے الفضل کے 100سال پورے ہونے پر اسے یہ اعزاز بخشاکہ اس کی صد سالہ تقریبات میں ایک خاص نمبر شائع کرنے کی منظوری عطا فرمائی تاکہ اس کی تاریخ اور خدمات کو اجاگر کیا جائے اورنئی نسلوں کو اس سے زیادہ تعلق اور دلچسپی پیدا ہو۔ اس کے مطالعہ کی طرف توجہ ہو۔ اس کے علمی خزانوں سے استفادہ کا موقعہ میسر آئے۔

احباب جماعت جانتے ہیں کہ الفضل خلافت احمدیہ کی 100 سالہ تجلیات اور جماعت کی والہانہ عقیدت کا آئینہ دار ہے اور اس کا ہر صفحہ اس دو طرفہ محبت کے عطر سے مملو ہے۔الفضل حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے پہلے دورہ یورپ سے لے کر آج تک خلفاء سلسلہ کے سفروں کی روداد کا حامل ہے۔ خلفاء نے کس طرح ایشیا،یورپ، امریکہ، آسٹریلیا اور افریقہ کو ہوشیار کیا انہیں مسیح موعود کا پیغام پہنچایا۔ کس طرح اشاعت حق کے منصوبے بنائے اور قضیہ زمیں بر سر زمین طے کیا۔

آج دنیا کے 213 ممالک میں احمدیت کا نفوذ ہو چکا ہے۔ الفضل نے ہر ملک اورہر بڑے چھوٹے شہر میں پیغام حق پہنچانے کی تاریخ محفوظ کی ہے۔

الفضل نے ہی خلفاء کے مقدس ارشادات کو لفظ بہ لفظ محفوظ کیا اور یہ روحانی دودھ ہمیشہ اس نہر میں بہتا رہے گا اور بڑھتا رہے گا۔

خلافت رابعہ میں ہجرت لندن کے بعد بھی الفضل جماعت کو خلافت کے نئے نئے پروگراموں سے باخبر کرتا رہا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ہجرت کے ابتدائی سالوں سے ہی الفضل سے گہری وابستگی رکھتے چلے آئے اور گاہے بگاہے اس سے پیار اور محبت کا اظہار فرمایا۔ متعدد بار جدائی کے اس دور میں اپنے پیارے آقا کا محبت بھرا سلام الفضل کے ذریعہ ہی دیار مشرق کے باسیوں کو پہنچتا رہا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے اپنے ایک مکتوب گرامی میں فرمایا کہ ’’قارئین الفضل کی کثیر تعداد میں میں بھی شامل ہوں۔‘‘

(مطبوعہ الفضل سالانہ نمبر 1990ءص 11)

صد سالہ جشن تشکر کے تاریخی اور مبارک موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے احباب جماعت پاکستان کو نیک تمناؤں اور محبت بھرا سلام پہنچانے کے لئے الفضل کو ہی منتخب فرمایا۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ایڈیٹر الفضل کے نام اپنے مکتوب گرامی میں فرمایا۔ ”جماعت احمدیہ عالمگیر کے صدسالہ جشن تشکر کا آغاز مبارک ہو۔ اس سعید و مبارک موقع کی مناسبت سے ایک تازہ نظم بھجوارہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے جانےوالی صدی کی برکتوں سے ہر احمدی کو سرفراز فرمائے اور آنےوالی صدی میں پہلے سے بڑھ کر کامیابیاں اور فتوحات عطا فرمائے ۔تمام احباب جماعت پاکستان کو میری طرف سے پُر خلوص دعاؤں ،نیک تمناؤں اور محبت بھراسلام کا تحفہ پہنچادیں سبھی کو یہ ساعت سعد مبارک ہو۔

(روزنامہ الفضل احمدیہ صد سالہ جشن تشکر نمبر)

جماعتی ادارے کس طرح پروان چڑھے۔ تحریک جدید، وقف جدید اور ذیلی تنظیموں نے کس طرح ارتقائی مراحل طے کئے۔ مجلس شوریٰ کے لئے خلفاء نے کس طرح محنت کی۔ اشاعت قرآن اور اشاعت لٹریچر کے لئے کیا جاں فشانیاں کی گئیں۔ خدمت مخلوق کو کس طرح جماعت احمدیہ کے دل میں راسخ کیا گیا۔ نماز اور دیگر عبادات کے قیام کے لئے جو سر گرمیاں جاری رہیں یہ سب الفضل کے دامن کے خوبصورت پھول ہیں۔

خلافت ثانیہ تا خلافت خامسہ کے قیام پر جو خدائی نشان ظاہر ہوئے جو خدائی بشارات ملیں۔ جس طرح دشمن کی جھوٹی خوشیاں پامال ہوئیں وہ سب الفضل کے حافظے میں ہے۔

ہم ایک مرتبہ پھر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اور تمام جماعت احمدیہ کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔اس آن لائن ایڈیشن کے پہلے پرچہ کے لئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے موصول ہونے والا پُر معارف محبت بھرا خصوصی پیغام اس شمارہ کی زینت بڑھا رہا ہے۔ حضور انور کے دور پُر انوار میں خلافت کے اس فدائی نے 106 ویں سال میں قدم رکھ کر اس کا اجراء کیا ہے۔ جن کی والدہ کے زیور الفضل کی رگوں میں اترنے والی پہلی خوراک تھی۔ جن کی دعائیں ہمیشہ اس کے شامل حال رہتی ہیں۔ جن کی رہنمائی اس کے لئے سعادت اور برکت کا موجب ہے۔ جن کے الفاظ ہر کٹھن موقع پر اس کی ڈھارس بندھاتے اور حوصلہ بڑھاتے ہیں جن کے خطبات، تقاریر، پیغامات اور دوروں کی ایمان افروز رپورٹس اس کی زینت بنتی ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی الفضل پر شفقتیں، عنایتیں اور محبتیں اپنے دور خلافت کے آغاز سے ہی ہوتی چلی آرہی ہیں۔ بصیرت افروز اور پُر تاثیر محبت بھرے پیغامات اور حضور انور کی طرف سے تحفے میں موصول ہونے والی خوبصورت تصاویر الفضل کو چار چاند لگا کر اس کے مقام و مرتبہ کو بلند تر کر کے ساتویں اسمان پر بٹھاتی رہیں۔ خلافت خامسہ کے گزشتہ 16سالوں میں حضور پُر نور ایدہ اللہ تعالیٰ کی عنایات کے مزے الفضل لوٹتا رہا ہے۔ الفضل کی صد سالہ جوبلی کے موقع پر حضور انور کی طرف سے جو محبت بھرا پیغام موصول ہوا اس کا ایک حصہ برکت کی خاطر یہاں پیش ہے۔

“یہ دور دور آخرین ہے۔ قرآن کریم کی پیشگوئی وَاِذَا لصُّحُفُ نُشِرَتْ کے مطابق دور آخرین کتب و رسائل کی نشر واشاعت کا دور ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کے عہد مبارک میں 1913ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود ؓاحمد صاحب نے استخارہ کر کے ’’الفضل‘‘ کا اجراء فرمایا۔پہلے ہندوستان سے اور پھر تقسیم ہند کے بعد پاکستان سے باقاعدگی سے شائع ہونے والا جماعت کاا یک قدیم اور اہم اخبار ہے۔ اس کا آغاز بڑی قربانیوں سے ہوا۔اس کے اجراء کے وقت حضرت اماں جانؓ نے اپنی ایک زمین عنایت فرمائی۔حضرت ام ناصر نے اپنے دو زیورات پیش فرمائے جس میں سے ایک انہوں نے اپنے لئے اور ایک ہماری والدہ حضرت صاحبزادی سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ کے استعمال کے لئے رکھا ہوا تھا۔اسی طرح حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بھی نقد رقم اور زمین پیش فرمائی ۔

پیغام کے آخر پر حضور انور نے فرمایا “میری طرف سے تمام قارئین اور الفضل کی انتظامیہ اور کارکنان کو الفضل کے سو سال پورے ہونے پر مبارکباد۔اللہ تعالیٰ سب کے علم و عمل میں برکت بخشےاور ایمان و ایقان میں بڑھائے۔آمین‘‘

پچھلا پڑھیں

زندگی بخش ہے فضل کی نہر ہے

اگلا پڑھیں

انعامات الہٰیہ کی حفاظت کا ذریعہ