زندگی بخش ہے فضل کی نہر ہے
نور کی لہر ہے علم کا شہر ہے
ہے عمل کامیابی کا ضامن کہ ہاں
بے عمل علم ہے تو فقط زہر ہے
ہے یہ جوئے سعادت رَواں دیکھیے
دَجل کی دھوپ میں ماہ ہے مہر ہے
حکمتوں کے خزانے لُٹاتا ہے یہ
چھوڑنا دین کو دعوتِ قہر ہے
زندگی بخش ہے فضل کی نہر ہے
نور کی لہر ہے علم کا شہر ہے
عزمِ فضلِ عمر نے جلایا دِیا
محترم بیبیوں نے بھی زیور دیا
دعوتِ فکر ہے تیری ہر اِک اَدا
روشنی ابتدا روشنی انتہا
تجھ میں ذکرِ خدا کی انوکھی صدا
تجھ میں عشقِ محمدؐ کا ہے معجزہ
جامِ کوثر ہے تُو، تُو ہے رَدّ بلا
ضامنِ فیض ہے صفحہ صفحہ ترا
زندگی بخش ہے فضل کی نہر ہے
نور کی لہر ہے علم کا شہر ہے
اک خدا ہے نبی اُس کے معصوم ہیں
تُو ہے خادم تو یہ تیرے مخدوم ہیں
حکمتوں کے خزانے لُٹاتے سبھی
تیرے مضمون ہیں یا کہ منظوم ہیں
تجھ میں مہدی کے چھپتے دفینے بھی ہیں
ہم پہ ظاہر ہیں منکر پہ مکتوم ہیں
قسمتوں کے دَھنی ہیں جو پائیں تجھے
ہیں وہ محروم جو تجھ سے محروم ہیں
زندگی بخش ہے فضل کی نہر ہے
نور کی لہر ہے علم کا شہر ہے
تُو ہے اَدیانِ باطل پہ حجت کڑی
تُو ہے الفضل جو معدنِ دین ہے
لاجرم انگ ہے احمدیت کا تُو
آنکھ والے ہی سمجھیں گے دیکھیں تجھے
پشت پر اَحمدی کے ہے ہر دم کھڑی
ہیں مضامین جوں موتیوں کی لڑی
ہے ضرورت ہر اک احمدی کو بڑی
تُو مہربان ہے رحمتوں کی جھڑی
زندگی بخش ہے فضل کی نہر ہے
نور کی لہر ہے علم کا شہر ہے
تجھ سے ہم کو بشارات ملتی رہیں
تجھ سے تعلیم حکمت کی پائیں سبھی
عاجزانہ دعائیں ہماری ہیں یہ
عمر سو سال اب جب کہ تیری ہوئی
تیرے ماتھے پہ آیات سجتی رہیں
تا قیامت عنایات بٹتی رہیں
فیض کی تیری لہریں یہ چلتی رہیں
فضل کی تیری نہریں یہ بہتی رہیں
زندگی بخش ہے فضل کی نہر ہے
نور کی لہر ہے علم کا شہر ہے
(محمد مقصود احمد منیبؔ)