حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔ ’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا‘‘
’’خداتعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اسی طرح تحریک کی جس طرح خدیجہ ؓ کے دل میں رسول کریم ﷺ کی مدد کی تحریک کی تھی…اپنے دوزیور مجھے دیئے کہ میں ان کو فروخت کرکے اخبار جاری کردوں۔ان میں سے ایک تو ان کے اپنے کڑے تھے اور دوسرے ان کے بچپن کے کڑے تھے جو انہوں نے اپنی اور میری لڑکی عزیزہ ناصرہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ کے استعمال کے لئے رکھے ہوئے تھے۔‘‘
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ جیسی عظیم الشان ہستی کی اس دنیا میں تشریف آوری کی خبر امام آخرالزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک عظیم الشان پیشگوئی میں دی گئی تھی جو اپنے اندر اس آنے والے وجود کی کئی خوبیاں بیان کر رہی تھی ۔کہیں تو اس وجود کی ذات بابرکات کے متعلق یہ منادی تھی کہ ’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا‘‘ اور کہیں اس کی ذہانت اور فہم کا اعلان کرتے ہوئے یہ خبر دی جارہی تھی کہ وہ ’’علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا۔‘‘ گویا اس فرزند دلبند گرامی ارجمند کا آنا کوئی معمولی نہ تھا بلکہ اس کا نزول بہت مبارک ہونا تھا اور جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہونا تھاگویا وہ نور کی آمد تھی نور کی۔
لہٰذا اس مبارک وجود کی آمد کے ابتدائی ایام سے ہی خدائے بزرگ و برتر نے جس میں اس نے اپنی روح ڈالی تھی اس پر اپنا سایہ رکھا اور اس کو جلد جلد بڑھایا تا کہ قومیں اس سے برکت پائیں۔ ان تمام برکتوں کے ساتھ جہاں اس موعود بیٹے کے لئے اندرون خانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عملی اور علمی نمونہ موجود تھا جن کی تربیت کے مبارک سایہ میں آپ پل بڑھ رہے تھے ۔جو نہ صرف انتہائی گریہ وزاری سے آپ کے لئے دعاؤں میں مصروف رہتے تھےبلکہ آپ کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی تربیت فرماتے جیسا کہ معروف روایت میں فرمایا ’’بیٹا محمود توبہ کرو، توبہ کرو۔نہ علم اچھا نہ دولت۔خدا کا فضل اچھا ہے۔‘‘ گویاآغاز سے ہی دعا اور ذاتی نمونہ کے بعد مسیح موعود علیہ السلام کی تربیت اور شخصیت کا پَرتوَ مصلح موعودؓ میں سمونے لگا۔ جس کی گواہی ’’جیئو جیا کاں اوہو جئی کوکو‘‘ کے الفاظ میں بھی دی جانے لگی۔
حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہؓ بھی آپ کے اس موعود ولد سے والہانہ عشق کا اظہار کرتے بلکہ آپ میں اپنے امام کا عکس دیکھنا چاہتے اور آپؓ سے بلند توقعات رکھتے تھے۔جن میں سےحضرت حافظ احمد اللہ ناگپوریؓ، حضرت پیر منظور محمد اور حضرت مولوی شیر علیؓ کے علاوہ ایک نمایاں ذکر حکیم مولوی نورالدین حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا ہے جن کے متعلق خود حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا کہ ’’میری تعلیم کے سلسلہ میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا ہے۔‘‘
(’’الموعود‘‘ تقریر حضرت مصلح موعودؓ)
بچپن سے ہی دینی تعلیم کی طرف رجحان نمایاں تھا اور اس کے لئے کوشش اور وقت کا صرف کرنا بھی واضح نظر آتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کی صحبت سے آپؓ کی تحریر و تقریر میں بھی خوب مشق ہوئی۔کہیں انجمن تشحیذ الاذہان بنا کر تقریروں کی مشق جاری ہے اورآپ کی تقریر پر خلیفہ اول ؓ اس پر جرح اور نکتہ چینی کرتے تو کہیں آپ کے ماہنامہ ’’تشحیذ الاذہان‘‘ میں لکھے گئے مضمون کی تعریف ہورہی ہوتی تو ساتھ ہی آپ کی تحریروں کے نقاد خلیفہ اولؓ ’’اونٹ چالی تے ٹوڈا بتالی‘‘ جیسی مثل بول کر آپ کو حضرت مسیح موعود ؑ کے موعود فرزند خیال کرتے ہوئےان کی تحریروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ’’ہمیں تو تب خوشی ہوکہ ان سے بھی اعلیٰ لکھو۔‘‘
لہذا اسی صحبت کا نتیجہ تھا کہ قلم اور نفس کے جہاد کا جو طبل امام آخرالزمان نے بجایا ہوا تھا حضرت مصلح موعودؓ آغاز جوانی سے ہی اس کے چوکس سپہ سالار بن کردشمنوں کے مقابلہ میں اتر آئے تھے اور ہر داؤ پیچ سیکھ رہے تھے۔ گویا آپؓ اس قلمی اور نفسانی جہاد کے لئے ہر طرح کے اسلحہ سے نہ صرف خود لیس تھے بلکہ انجمن تشحیذ الاذہان کی شکل میں ایک ایسا کارخانہ قائم کر دیا تھا جہاں مزید سپاہی تیار ہونگے۔
پھر جہاں بھی پبلک میں تقاریر اور آپؓ کی تحریروں کو پڑھا اور سنا جانے لگا سب آپؓ کے دیوانے ہونے لگے۔کیوں نہ ہوتے آخراس کے ساتھ فضل تھا۔کیا علماء ، کیا اکابرین اور کیا مردوز ن سب آپؓ کے بیان کردہ لطیف معارف و نکات قرآنی پر عش عش کر اٹھتے اور آج بھی یہ زمانہ آپ کے ان انوارالعلوم سے مستفیض ہوتارہا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت قاضی محمد ظہورالدین اکمل ؓ نے آپ کی ایک تقریر سن کر جو الفاظ کہے پیش خدمت ہیں۔آپ فرماتےہیں۔
’’برج نبوت کا روشن ستارہ ، اوج رسالت کا درخشندہ گوہر محمود سلمہ اللہ الودود شرک پر تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوا، میں ان کی تقریر خاص توجہ سے سنتا رہا۔کیابتاؤں ، فصاحت کا ایک سیلاب تھا جو پورے زور سے بہہ رہا تھا۔واقعی اتنی چھوٹی سی عمر میں خیالات کی پختگی اعجاز سے کم نہیں…‘‘
گویا ’’ تشحیذالاذہان‘‘ کا یہ بانی و مبانی نہ صرف خود علوم ظاہری و باطنی سے پُر ہونے کا ابھی سے ایک ثبوت تھا بلکہ وہ اپنے ہم جولیوں اور ہم عمروں میں بھی اس کی روح پھونک رہا تھا اور چاہتا تھا کہ وہ بھی علم ومعرفت میں کمال حاصل کریں انہیں بھی ایسا پلیٹ فارم میسر ہو کہ جہاں وہ اپنے امام کی پیروی میں اس قلمی جہاد کے صف اول کے مجاہدین شمار ہوں۔
اس رسالہ کے جاری کرنے کی وجوہات پر بحث کرتے ہوئے جو تمہید لکھی گئی تھی اس کو پڑھ کر مولوی محمد علی ایم۔ اے بھی لکھنے سے نہ رہ سکے کہ ’’جماعت تو اس مضمون کو پڑھے گی مگر میں اس مضمون کو مخالفین سلسلہ کے سامنے بطور ایک بین دلیل کے پیش کرتا ہوں جو اس سلسلہ کی صداقت پر گواہ ہے……غور کرو! کہ جس کی تعلیم اور تربیت کا یہ پھل ہے،وہ کاذب ہوسکتا ہے؟‘‘
گویا مصلح موعود ؓ کی ذات بابرکات میں وہ تمام خبریں وقت کے ساتھ نمایاں ہورہیں تھیں اور کھل رہیں تھیں جن کا ذکر خدائے بزرگ و برتر نے اس آسمانی نوشت میں کیا تھا۔ابن غلام احمد اور موعود فرزند ہونے کی وجہ سے مدمقابل مذاہب کی دشمنی تو پہلے ہی مول لے رکھی تھی اور بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ان مشکلات میں بھی اضافہ ہو رہا تھامگر یہ پرہول اور پرخطر فضائیں اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں کیونکہ وہ خدا کے سایہ تلے پروان چڑھ رہا تھا۔یہ مخالفتیں اور مشکلات جہاں الٹا آپ ؓکے اولوالعزم ہونے کی خوبی کو بھی نمایاں کر رہی تھی وہاں حضرت مسیح موعود ؑ اور آپؑ کے دعاوی پر بھی ایمان میں روزبروز بڑھا رہیں تھیں کہ خدا آپؑ کے ساتھ ہے اور نہ صرف یہ سلسلہ روز بروز ترقی کرے گا اور بڑھتا چلا جائے گااور بلکہ یہ موعود وجود بھی اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرتے ہوئے زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا تا قومیں اس سے برکت پائیں۔
مسیحی نفس کی یہ روحانی انفاس جو تقریروں اور تحریروں کی شکل میں روح الحق کی برکت لئے ہوئے روحانی بیماروں کی بیماریوں کو صاف کرنے کا کام کرنے والی تھیں ان تک پہنچنا بھی ضروری تھا۔جس کے لئے یہ اولوالعزم ، بلند حوصلہ موعود فرزند ارجمندہمیشہ سے کوشاں رہا اور آگے سے آگے بڑھتا چلا گیا۔
حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات جس نے آپؓ کی زندگی بدل کر رکھ دی تھی اور جس نے آپؓ کی زندگی کا ایک نیا دور کھول دیا تھا۔جس نے وراثت میں دنیا کے کوئی ورثے یا اموال نہیں پائے تھے۔اگر تھا تو ہاں ایک لازوال کبھی نہ ختم ہونے والا دعاؤں کا خزانہ۔جو وقت پر ملتا رہا۔جس کا ذکر حضرت اماں جان ؓ نے آپ کے والد بزرگوار کی وفات پر کیا تھا۔جب آپ نے یہ عہد کیا تھا کہ
’’اے خدا! میں تجھ کو حاضر ناظر جان کر تجھ سے سچے دل سے یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت احمدیت سے پھر جائے تب بھی وہ پیغام جو حضرت مسیح موعود ؑ کے ذریعہ تونے نازل فرمایا ہے، میں اس کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلاؤں گا۔‘‘
لہٰذا اپنے اس عہد کو جس مستعدی سے نبھایا اس پر تمام جماعت گواہ ہے۔خلافت اولیٰ کا دور ایک نہایت کٹھن دور تھا جس میں خلافت راشدہ کے طریق پر اس دور میں بھی خلافت جیسے نظام کے قیام اور حضرت خلیفہ اولؓ کے انتخاب سے لے کر تمام اندرونی فتن کے مقابلوں تک یہ اولوالعزم اپنے عہد پرپوری طرح سے قائم رہا اور ہمیشہ اس کے استحکام کی پاسداری کی۔خلیفہ اولؓ کا کامل مطیع اور باوفا، سلطان نصیر بنا رہا اور حضرت مسیح موعود ؑ اور آپ کے جانشین کی پیروی میں خدا اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہا۔
اس تمام تفصیل کو چھوڑتے ہوئے مضمون کے اصل کی طرف چلتے ہیں کہ گویا کوئی دقیقہ فروگزاشت کئے بغیر آپؓ دین کی اشاعت اور جماعت کی تربیت میں ہمہ تن مصروف رہے۔ ہر ممکن کوشش کی کہ سلسلہ کی تبلیغ کا کام کبھی نہ رکے اور اس کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی سے کبھی دریغ نہ کیا اور پھر ساتھ ساتھ ذہنی، علمی اور روحانی صلاحیتوں میں بھی جلد جلد بڑھتے رہے ، تحریر و تقریر کا ملکہ بھی ترقی پکڑتا گیا۔کیا اپنے کیا بیگانے سب متاثر ہوئے بنا نہ رہتے تھے۔ماہنامہ تشحیذ الاذہان کے مضامین اور خلافت اولیٰ میں تربیتی اور دینی مسائل پر تقاریر اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھیں کہ اس میں خدا کی روح ہے۔ دنیا آج بھی ان علوم کے انوار کو پڑھتی ہے تو یاد کرتی ہے۔
پھر جہاں جماعت بھی اللہ کے فضل سے روز بروز پھیل رہی تھی اور ترقی کر رہی تھی وہاں یہ محسوس کیا گیا کہ اب تشحیذ کے ساتھ ساتھ جماعت کا اپنا ایک اخبار بھی ہو جس کے ذریعہ مرکز اور جماعت کے درمیان ایک مضبوط رابطہ قائم ہو ۔آپؓ کی اس حوالہ سے ذاتی فکر اور محنت آخر یہاں بھی رنگ لے آئی مگر اس بار ایک بے نظیر ایثار اور قربانی کی سچی داستان بھی رہتی دنیا تک چھوڑ گئی اور یہاں بھی دنیا چپ نہیں رہ سکے گی اور ممنون ہوتے ہوئے بولے گی کہ اے فضل عمر تجھ کو جہاں یاد کرے گا۔آپ کی اور آپ کے خاندان کی اس بے مثال قربانی کے نتیجہ میں وہ دن آگیا کہ جب جون 1913ء میں ’’الفضل‘‘ کے نام سے مرکزی روزنامہ جاری ہوگیا اور خدا کے فضلوں کا منادی ہوا جو مختلف حالات سے گزرتے ہوئے ’’روزنامہ الفضل،ربوہ‘‘ کے طور پر خلافت احمدیہ کی آواز اور پیامبر بنا رہااور آج پھر سے دنیا کی ترقی کی دوڑ میں شامل ہوتے ہوئے آن لائن “روزنامہ الفضل،لندن” کے نام سے جاری ہورہا ہے جس کی اپنی ایک ویب سائیٹ بھی ہوگی۔
حضرت مصلح موعود ؓ نے اس کے اجراء کے لئے جو قربانیاں دیں وہ اس اخبار کی اہمیت کو اور بھی واضح کر دیتی ہیں کہ کس کس طرح پرحضرت فضل عمر ؓ نے خدا کے فضل کے نتیجہ میں جو آپؓ کے ساتھ تھا اس الفضل کا بیج بویا اور پھر اس کی آبیاری کے لئے کیسی کیسی قربانیاں پیش کیں۔ جو آج تک اس کے فضلوں کا منادی ہے۔
(مرتبہ:لقمان احمد کشور۔لندن)