• 29 اپریل, 2024

تجسس کرنا بری عادت

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:-
بعض لوگ اس لئے تجسس کررہے ہوتے ہیں۔مثلًا عمومی زندگی میں لیتے ہیں، دفتروں میں کام کرنے والے،ساتھ کام کرنے والے اپنے ساتھی کے بارہ میں،یادوسری کام کی جگہ،کارخانوں وغیرہ میں کام کرنے والے،اپنے ساتھیوں کے بارہ میں کہ اس کی کوئی کمزوری نظر آئے اور اس کمزوری کو پکڑیں اور افسروں تک پہنچائیں تاکہ ہم خود افسروں کی نظر میں ان کے خاص آدمی ٹھہریں، ان کے منظور نظر ہو جائیں۔ یا بعضوں کو یونہی بلا وجہ عادت ہو تی ہے،کسی سے بلاوجہ کا بیر ہو جاتا ہے اور پھر وہ اس کی برائیاں تلاش کرنے لگ جاتے ہیں۔

تو یاد رکھنا چاہیے کہ ایسے لوگوں کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کا کبھی بھی جنت میں دخل نہیں ہوگا،ایسے لوگ کبھی بھی جنت میں نہیں جائیں گے۔ تو کون عقلمند آدمی ہے جو ایک عارضی مزے کے لئے، دنیاوی چیز کے لئے،ذرا سی باتوں کا مزا لینے کے لئے، اپنی جنت کو ضائع کرتا پھرے۔……

بعض لوگ صرف باتوں کامزا لینے کے لئے ایسی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں۔ شروع میں صرف سن رہے ہوتے ہیں اور ہنسی ٹھٹھے کی باتوں پر ہنس رہے ہوتے ہیں۔اور پھر آہستہ آہستہ عادت پڑجاتی ہے، ایسی باتوں کی۔ اور خود بھی ایسی باتوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ تو نوجوانوں کو خاص طور پر اس سے بچنا چاہیے۔شروع میں ہی بچپن سے ہی، اطفال میں بھی اور خدام میں بھی یہ عادت ڈالیں کہ کسی کی برائی نہیں کرنی۔……

الحمدللہ کہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی جماعت میں شامل ہو کر بہت بڑی تعداد عورتوں کی اس بیماری سے پاک ہوگئی ہے۔اور اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش کرتی ہیں او ربعض تودین کی خدمت کے معاملے میں اور اس جذبے میں مردوں سے بھی آگے ہیں لیکن ابھی بھی بعض دیہاتوں میں، بعض شہروں میں بھی جہاں عورتیں نہ دین کی خدمت کررہی ہیں نہ کوئی اور اُن کو کام ہے،اس غیبت کی بیماری میں مبتلا ہیں۔

اسی طرح مردوں کی بھی شکایات آتی ہیں۔ مجلسوں میں بیٹھ کر لوگوں کے متعلق بات کررہے ہوتے ہیں۔توایسے بھی مرد ہیں۔یہ وہی ہیں جن کو نکمے بیٹھنے کی عادت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے بیوی بچے بچارے کما کر گھر کاخرچ چلا رہے ہوتے ہیں۔اور ایسے لوگوں کو شرم بھی نہیں آرہی ہوتی۔ بہرحال یہ بیماری چاہے عورتوں میں ہو یا مردوں میں، اس سے بچنا چاہیے۔ نظام جماعت کو بھی چاہیے خدام،لجنہ وغیرہ کو اس بارہ میں فعال ہونا چاہیے کیونکہ یہ بیماری دیہاتی،ان پڑھ او رفارغ عورتوں میں زیادہ ہے۔ اس لئے لجنہ کو خاص طور پر دنیا میں ہر جگہ موثرلائحہ عمل اس کے لئے تجویزکرنا چاہیے۔پھر ان باتوں کے علاوہ جن کی نشاندہی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمائی ہے یہ بھی بیماری پیدا ہوگئی ہے کہ فارغ وقت میں اسی طرح لوگوں کے گھروں میں بے وقت چلی جاتی ہیں اور اگر کسی غریب نے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھاہوا ہے کہ اس طرح اندر گھستی ہیں گھروں میں کہ ان کے کچن تک میں چلی جاتی ہیں۔کھانوں کی ٹوہ لگاتی ہیں کہ کیا پکا ہے کیا نہیں پکا اور پھر بجائے ہمدردی کے یا ان کی مدد کرنے کے، یا کم از کم ان کے لئے دعا کرنے کے، مجلسوں میں باتیں کی جاتی ہیں کہ پیسے بچاتی ہے، سالن کی جگہ چٹنی بنائی ہوئی ہے یا پھر اتنا تھوڑا سالن ہے،یا فلاں تھا، یہ تھا، وہ تھا،کنجوس ہے یا جو بھی ہے وہ اپنا گھرچلا رہی ہے جس طرح بھی چلا رہی ہے تمہارا کیا کام ہے کہ کسی کے گھر کے اندر گھس کر اس کے عیب تلاش کرو۔ اور پھر جب ایسے سفید پوش لوگوں کے گھروں میں بچیوں کے رشتے آتے ہیں تو پھر ایسی عورتیں Active ہوجاتی ہیں،بڑی فعال ہوجاتی ہیں اورجہاں سے کسی کا رشتہ یا پیغام آیا ہو وہاں پہنچ کر کہتی ہیں کہ ان کے گھر میں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ وہاں سے تمہیں جہیز بھی نہیں مل سکتا۔ اس لڑکی میں فلاں نقص ہے۔ تو میں تمہیں بتاتی ہوں۔ فلاں جگہ ایک اچھا رشتہ ہے،یہاں نہ کرو۔ وہاں کرو۔ گو جماعت میں ایسے لوگوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ معمولی ہے،پھر بھی فکر کی بات ہے کیونکہ جس معاشرہ میں ہم رہ رہے ہیں وہ ایسا ہی ہے اور یہ معاشرہ بہرحال اثراندازہوتا ہے اور یہ باتیں بڑھنے کا خطرہ ہے۔……

(خطبہ جمعہ فرمودہ 26دسمبر 2003ء)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 12 جولائی 2020ء

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 13 جولائی 2020ء