• 6 مئی, 2024

رشوت خوری

رشوت کا گناہ شراب نوشی اور بدکار ی سے بھی زیادہ سنگین ہے بعض برائیاں تو ایسی ہوتی ہیں جن کے بارے میں لوگوں کی رائے مختلف ہوسکتی ہے ایک شخص کے نزدیک وہ برائی ہے۔ اور دوسرا اسے کوئی عیب نہیں سمجھتا لیکن رشوت ایک ایسی برائی ہوتی ہے جس کے بُرا ہونے پر ساری دنیا متفق ہے کوئی مذہب وملت، کوئی مکتب فکر یا انسانوں کا کوئی طبقہ ایسا نہیں ملے گا جو رشوت کو بدترین گناہ یا جرم نہ سمجھتا ہو، حد یہ ہے کہ جو لوگ دن کے وقت دفتروں میں بیٹھ کر دھڑلے سے رشوت کا لین دین کرتے ہیں وہ بھی جب شام کو کسی محفل میں معاشرے کی خرابیوں پر تبصرہ کریں گے تو ان کی زبان پر سب سے پہلے رشوت کی گرم بازاری ہی کا شکوہ آئے گا اور اس کی تائید میں وہ (اپنے نہیں) اپنے رفقائے کار کے دوچار واقعات سنا دیں گے، سننے والے یا تو ان واقعات پر ہنسی مذاق میں کچھ فقرے بول دیں گے یا پھر کوئی بہت سنجیدہ محفل ہوئی تو اس میں غم و غصہ کا اظہار کیا جائے گا لیکن اگلی ہی صبح سے یہی شرکائے مجلس پورے اطمینان کے ساتھ اسی کاروبار میں مشغول ہوجائیں گے۔

غرض رشوت کی خرابیوں سے پوری طرح متفق ہونے کے باوجود کوئی شخص جو اس انسانیت سوز حرکت کا عادی ہوچکا ہو اسے چھوڑنے کے لئے تیار نظر نہیں آتا اور اگر اس کے بارے میں کسی سے کچھ کہا جائے تو مختصر ساجواب یہ ہے کہ ساری دنیا رشوت لے رہی ہے تو ہم کیا کریں؟ گویا ان کے نزدیک رشوت چھوڑنے کی شرط یہ ہے کہ پہلے دوسرے تمام لوگ اس برائی سے تائب ہوجائیں تب ہی چھوڑنے پر غور کر سکتا ہوں اس کے بغیر نہیں اور چونکہ رشوت لینے والے کے پاس بھی بہانہ ہے لہٰذا یہ تباہ کن بیماری ایک وبا کی شکل اختیار کر چکی ہے فرق یہ ہے کہ جب کوئی وباء پھیلتی ہے تو وہاں کوئی مریض یہ سوال نہیں کرتا کہ جب تک تمام دوسرے لوگ تندرست نہ ہو جائیں میں بھی صحت کی تدبیر نہیں کروں گا لیکن رشوت کے بارے میں یہ استدلال ناقابل تردید سمجھ کر پیش کیا جاتا ہے۔

ظاہر ہے کہ یہ ایک استدلال نہیں ایک بہانہ ہے اور بات صرف یہ ہے کہ رشوت لینے والے کو اپنے اس عمل میں فوری طور سے کافی فائدہ ہوتا نظر آتا ہے اس لئے نفس اس فائدے کو حاصل کرنے کے لئے ہزار حیلے بہانے تراش لیتا ہے لیکن آئیے ذرایہ دیکھیں کہ رشوت لینے میں واقعتاً کوئی فائدہ ہے بھی یا نہیں؟ بظاہر تو رشوت لینے میں یہ کھلا فائدہ نظر آتا ہے کہ ایک شخص کی آمدنی کسی زائد محنت کے بغیر بڑھتی جاتی ہے لیکن اگر ذرا باریک بینی سے کام لیا جائے تو اس وقتی فائدے کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک ٹائیفائڈ میں مبتلا بچے کو چٹ پٹی غذاؤں میں بڑا لطف آتا ہے لیکن بچے کے ماں باپ یا اس کے معالج جانتے ہیں کہ یہ چند لمحوں کا فائدہ نہ صرف اس کی تندرستی کو دور سے دور تر کردے گا بلکہ انجام کار اسے زیادہ طویل عرصہ تک لذیذ غذاؤں سے محروم ہوجانا پڑے گا۔

دین اسلام کے آفاقی درس کے برعکس ہمارے معاشرہ میں رشوت کا ناسور پوری طرح اپنے پنجے گاڑ چکا ہے اور ہم اس کو نہ چاہتے ہوئے قبول بھی کرچکے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج معاشرتی ابتری حد سے تجاوز کرچکی ہے، رشوت کے ناسور نے ہمارے طرز زندگی بدل کر رکھ دیئے ہیں، اپنے جائز کام نکلوانے کیلئے بھی رشوت دینا پڑتی ہے اس کلچر نے ہمارے ملک کی معیشت کو کھوکھلا کر دیا ہے عوام عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہو رہے ہیں، اس سماجی برائی میں جہاں سرکاری مشینری ذمہ دار ہے، وہاں عام آدمی بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اسلام رشوت لینے اور دینے والے دونوں کو اس گناہ میں یکساں ذمہ دار ٹھہراتا ہے، ہمیں اپنے طرز عمل کو بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ اس لعنت سے محفوظ رہ کر اسلامی اقدار کو فروغ دیا جاسکے، اس میں کوئی شک نہیں کہ رشوت معاشرے میں نا انصافی کا پیش خیمہ ہے، مسلمانوں کے پاس اسلام کا بہترین کوڈ آف لائف موجود ہے، مسلمان صرف اللہ سے ڈرتا ہے، اسے کسی محکمے یا فرد سے ڈر نہیں ہونا چاہیے بلکہ اللہ کے خوف کے باعث اسے برائی سے کنارہ کرنا چاہیے۔

آج اگر آپ کو رشوت کے ذریعے کچھ زائد آمدنی ہوگئی ہے، لیکن ساتھ ہی کوئی بچہ بیمار پڑگیا ہے تو کیا یہ زائد آمدنی آپ کو کوئی سکون دے سکے گی؟ آپ کی ماہانہ آمدنی کہیں سے کہیں پہنچ گئی ہے، لیکن اگر اسی تناسب سے گھر میں ڈاکٹر اور دوائیں آنے لگی ہیں تو آپ کو کیا ملا؟اور اگر فرض کیجئے کہ کسی نے مر مار کر رشوت کے روپے سے تجوریاں بھر لیں، لیکن اولاد نے باغی ہو کر زندگی اجیرن بنادی، داماد نے جینا دوبھر کردیا، یا اسی قسم کی کوئی اور پریشانی کھڑی ہوگئی تو کیا یہ ساری آمدنی اسے کوئی راحت پہنچا سکے گی؟

واقعہ یہ ہے کہ ایک مسلمان اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے باغی ہو کر روپیہ تو جمع کرسکتا ہے لیکن اس روپے کے ذریعے راحت و سکون حاصل کرنا اس کے بس کی بات نہیں، عام طور سے ہوتا یہ ہے کہ حرام طریقے سے کمائی ہوئی دولت پریشانیوں اور آفتوں کا ایسا چکر لے کر آتی ہے جو عمر بھر انسان کو گردش میں رکھتا ہے قرآن کریم نے فرمایا ہے:۔
’’جو لوگ یتیموں کامال ظلماً کھاتے ہیں وہ ایسے مصائب کا شکار کر دیئے جاتے ہیں جن کی موجودگی میں لذیذ سے لذیذ غذا بھی آگ معلوم ہوتی ہے‘‘

لہذا رشوت خوروں کے اونچے مکان اور شاندار اسباب دیکھ کر اس دھوکے میں نہ آنا چاہئے کہ انہوں نے رشوت کے ذریعے خوش حالی حاصل کر لی، بلکہ ان کی اندرونی زندگی میں جھانک کر دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے بیشتر افراد کسی نہ کسی مصیبت میں مبتلا ہیں۔

اس کے برعکس جو لوگ حرام سے اجتناب کر کے اللہ کے دئیے ہوئے حلال رزق پر قناعت کرتے ہیں، ابتداء میں انہیں کچھ مشکلات پیش آسکتی ہیں، لیکن آخر کار دنیا میں بھی وہی فائدے میں رہتے ہیں، ان کی تھوڑی سی آمدنی میں بھی زیادہ کام نکلتے ہیں، ان کے اوقات اور کاموں میں بھی برکت ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ دل کے سکون اور ضمیر کے اطمینان کی دولت سے مالامال ہوتے ہیں۔

یہاں رشوت کے جو نقصانات بیان کئے گئے وہ تمام تر دنیوی نقصانات تھے، اور اس لعنت کا سب سے بڑا نقصان آخرت کا نقصان ہے، دنیا میں اور ہزار چیزوں میں اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن اس بارے میں کسی مذہب اور کسی مکتبِ فکر کا اختلاف نہیں کہ ہر انسان کو ایک نہ ایک دن موت ضرور آئے گی اگر بالفرض رشوتیں لے لے کر کسی شخص نے چند روز مزے اڑا بھی لئے تو بالآخر اس کا انجام سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں یہ ہے کہ: اَلرَّاشِی وَالْمُرْتَشِیْ کِلَاهُمَا فِی النَّارِ

(الطبرانی الکبیر: 2094)

رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنم میں ہوں گے۔

اور اس لحاظ سے رشوت کا گناہ شراب نوشی اور بدکاری سے بھی زیادہ سنگین ہے کہ شراب نوشی اور بدکاری سے اگر کوئی شخص صدق دل کے ساتھ توبہ کرلے تو وہ اسی لمحے معاف ہوسکتا ہے، لیکن رشوت کا تعلق چونکہ حقوق العباد سے ہے، اس لئے جب تک ایک ایک حقدار کو اس کی رقم نہ چکائے یا اس سے معافی نہ مانگے، اس گناہ کی معافی کا کوئی راستہ نہیں، عام طور سے جب انسان کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اسے اپنی آخرت کی فکر لاحق ہو ہی جاتی ہے، اگر اس وقت عارضی دنیوی مفاد کے لالچ میں ہم یہ گناہ کرتے رہے تو یقین کیجئے کہ موت سے پہلے ہی جب آخرت کی منزل سامنے ہوگی تو یہ اعمال دنیا کے ہر آرام و راحت کو مستقل عذاب جان بنا کر رکھ دیں گے اور اس عذاب سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہ ہوگی۔

رشوت کی صورتیں

حدیث شریف:

عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ

(سنن أبو داؤد باب فی کراھیۃ الرشوۃ)

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے پر لعنت فرمائی ہے

انسان کی طبیعت بلحاظِ آزمائش کچھ ایسی بنائی گئی ہے کہ وہ مادیت کا دیوانہ ہوتا ہے، دنیا کے زیادہ سے زیادہ حصول کا جذبہ اس کے دل میں ہر وقت کار فرما رہتا ہے، اس انسانی کمزوری کا ذکر قرآنِ مجید میں متعدد جگہ وارد ہے چنانچہ وہ سورتیں جو نمازوں میں عام طور پر پڑھی اور سنی جاتی ہیں کئی ایک سورت میں اس پر تنبیہ ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الۡخَیۡرِ لَشَدِیۡدٌ

(العاديات: 9)

اور یقیناً مال کی محبت میں وہ بہت شدید ہے۔

وَتَاۡکُلُوۡنَ التُّرَاثَ اَکۡلًا لَّمًّا ﴿ۙ۲۰﴾ وَّتُحِبُّوۡنَ الۡمَالَ حُبًّا جَمًّا ﴿۲۱﴾

(الفجر: 20-21)

اور تم ورثہ تمام تر ہڑپ کر جاتے ہو اور مال سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں۔

اَلۡہٰکُمُ التَّکَاثُرُ ۙ﴿۲﴾ حَتّٰی زُرۡتُمُ الۡمَقَابِرَ ﴿۳﴾

(التكاثر: 2-3)

تمہیں غافل کر دیا ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی ڈور نے یہاں تک کہ تم نے مقبروں کی بھی زیارت کی۔

یہی وجہ ہے کہ انسان کو جو کچھ حلال و جائز طریقے سے ملتا ہے وہ اس پر صبر نہیں کرتا بلکہ مزید حصول کے لئے ہر ناجائز و حرام طریقے اختیار کرتا ہے حالانکہ اگر وہ سوچے تو اللہ تعالیٰ نے بڑے واضح طور پر فرما دیا ہے کہ حلال ذرائع سے جتنا مال حاصل ہو جائے اگر انسان اس پر صبر کرے تو اتنا ہی اس کے حق میں بہتر ہے،

بَقِیَّتُ اللّٰہِ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ

(هود: 87)

اور اللہ کی طرف سے جو (تجارت میں) بچتا ہے وہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم (سچے) مومن ہو۔

حلال و پاک کمائی پر صبر نہ کرکے انسان جن حرام و ناجائز وسائل کا استعمال کرتا ہے ان میں سے ایک رشوت کا لین دین ہے جس کا ذکر حدیث میں ہو چکا ہے۔

چونکہ اسلام، دینِ حق، دینِ عدل اور دینِ قویم ہے اس لئے اس نے رشوت کی جملہ صورتوں کو ناجائز اور حرام قرار دیا ہے، اس کے مرتکب اور اس کے معاون کو سخت عذاب کی دھمکی دی ہے اور ایسے شخص کو ملعون اور اپنے در سے دھتکارا ہوا بتلایا ہے۔

وَلَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ وَتُدۡلُوۡا بِہَاۤ اِلَی الۡحُکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِیۡقًا مِّنۡ اَمۡوَالِ النَّاسِ بِالۡاِثۡمِ وَاَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ

(البقرہ: 189)

اور اپنے ہی اموال اپنے درمیان جھوٹ فریب کے ذریعہ نہ کھایا کرو۔اور نہ تم انہیں حکام کی سامنے (اس غرض سے) پیش کرو کہ تم گناہ کے ذریعہ لوگوں کے (یعنی قومی) اموال میں سے کچھ کھا سکو حالانکہ تم (اچھی طرح) جانتے ہو۔

حدیث میں ہے:
’’رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں‘‘

(الطبرانی الکبیر مجمع الزوائد:4/199 بروایت ابن عمرو)

اس حدیث میں بھی رشوت کا لین دین کرنے والوں کو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ملعون قرار دیا گیا ہے کسی عمل پر اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول کی طرف سے لعنت کا معنی ہے کہ اسے انتہائی ناراضگی و بے زاری کا اعلان ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سےلعنت کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ رحمٰن و رحیم نے اس شخص کو اپنی وسیع رحمت سے محروم کردینے کا فیصلہ فرما دیا ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لعنت کا مطلب یہ ہے کہ رحمۃ للعالمین شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص سے بے زاری کا اظہار فرمانے کے ساتھ ساتھ ارحم الراحمین کی رحمت سے محروم کئے جانے کی بد دعا فرما رہے ہیں۔

رشوت کی بعض صورتیں: بد قسمتی سے اس واضح شرعی حکم کے باوجود رشوت اور اس سے ملتی جلتی بہت سی شکلیں آج ہمارے درمیان عام ہیں جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ ہلاکتوں کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے، امانت داری اور خیر خواہی اہل کاروں سے رخصت ہوچکی ہے، اور مصلحت پسندی و خود غرضی ہر ایک کا مذہب بنا ہوا ہے۔

  1. منصب کے حصول کے لئے:قاضی وجج بننے کے لئے، کسی اعلی منصب کے حصول کے لئے یا نوکری کے حصول کے لئے رشوت دینا، خواہ یہ رشوت رقم کی شکل میں ہو، خدمت کی شکل میں یا استعمال کی جانے والی اشیاء کی شکل میں ہو، کیونکہ اس سے صاحب حق کا حق مارا جاتا ہے اور نا اہل لوگ ایسے منصب پر پہنچ جاتے ہیں جس کے اہل نہیں ہوتے۔
  2. فیصلہ کے لئے: حاکم، قاضی و جج یا پویس افسر وغیرہ کو کچھ دیا جائے تاکہ فیصلہ ہمارے حق میں ہو، یہ اس صورت میں کہ خود انسان غلط موقف پر ہو یا اپنا موقف واضح نہ ہو۔
  3. کام نپٹانے کے لئے: ایک اہلکار اپنے کام پر گورنمنٹ یا کمپنی سے تنخواہ لیتا ہے، لیکن لوگوں کا معاملہ نپٹانےکے لئے ٹال مٹول سے کام لیتا ہے اور اس کے لئے اپنی زبانِ حال و مقال سے کچھ معاوضہ طلب کرتا ہے اسی طرح اگر کوئی شخص کسی اہلکار کو مال یا کسی اور شکل میں کچھ دیتا ہے تاکہ اس کا کام اوروں سے پہلے نپٹا دے تو یہ بھی رشوت کی ایک شکل ہے۔
  4. پاس ہونے کے لئے ٹیوشن: آج کل اسکول و کالج میں ٹیوشن کی بیماری بہت عام ہے، بلکہ جو طالب علم اس میں شریک نہیں ہوتا وہ اپنے پورے نمبر نہیں حاصل کرپاتا، یہ بھی رشوت کی ایک شکل ہے کیونکہ استاذ اسکول و کالج کے ذمہ داروں اور گورنمنٹ سے پوری تنخواہ لیتا ہے۔

استاذ، مفتی کا ہدیہ و تحفہ: جو طالب علم یا اس کے والدین استاذ کو ہدیہ و تحفہ دیتے ہیں انکی خاطر و مدارات کرتے ہیں یا کوئی خدمت بجا لاتے ہیں تو استاذ اس طالب علم کی طرف خصوصی توجہ اور اس کے نمبرات پورے دیتا ہے اسی طرح مفتی اگر سائل سے ہدیے قبول کرتا ہے تو فتوی دینے میں اس کے بارے میں تساہل سے کام لیتا ہے اور حکم لگانے میں نرم رویہ اختیار کرتا ہے، واعظ و خطیب کو ہدایا وتحائف اور نذرانے جہاں سے اچھے ملتے ہیں وہاں کے لئے وقت بڑی آسانی سے دیتا ہے اور جہاں سے کم کی امید ہوتی ہے وہاں جانے کے لئے ٹال مٹول سےکام لیتا ہے خواہ وہاں کے لوگ وعظ و تذکیر کے زیادہ محتاج ہوں، یہ ساری چیزیں رشوت سے ملتی جلتی صورتیں ہیں۔ کسی کا حق مارنے کے لئے کسی حاکم، قاضی یا اہلکار کو کچھ دینا رشوت وحرام ہے لیکن اگر کوئی قاضی و اہلکار ظالم ہو، اور لوگوں کے حقوق بھی اس کے پاس محفوظ نہ رہتے ہیں اور وہ لوگوں سے طلب کرتا ہو یا اسے دینا پڑتا ہو جیسا کہ آج ہمارے یہاں عام دستور ہے تو اس سلسلے میں صرف اور صرف اپنے جائز حق کے لئے مجبوری کی صورت میں کچھ دینا پڑے تو دینے والے پر کوئی گناہ نہیں ہے البتہ لینے والا دہرے گناہ کا مرتکب ہورہا ہے ایک رشوت لینے کا اور دوسرے صاحب کو ایک حرام کام پر مجبور کرنے کا۔

لوگوں کے دلوں میں اللہ کا خوف نہیں رہا اور نہ ہی جنت و جہنم پر ایمان و یقین ہے ’’لہذا رشوت لینے کے سو بہانے ہیں‘‘ راشی ملازمین کہتے ہیں:

’’اب تنخواہ میں گزارہ کہاں؟‘‘

’’اوپر کی کمائی تو ضروری ہے‘‘

’’اب رشوت لئے بغیر گزارہ کہاں؟‘‘

جی ہاں

’’اب رشوت لئے بغیر گزارہ کہاں؟‘‘

لیکن۔۔۔۔

رشوت کیلئے ملک کو جہنم بنانا گوارا ہے۔

رشوت کیلئے انصاف کا خون کرنا گوارا ہے۔

رشوت کیلئے عوام الناس کا خون پینا گوارا ہے۔

رشوت نہ دینے والے کے حق کو کھا جانا گوارا ہے۔

رشوت کیلئے کمزوروں پر ظلم کرنا اوران کی حق تلفی کرنا گوارا ہے۔

رشوت لے کر لوگوں کی جان، مال، عزت و آبرو کا سودا کرنا گوارا ہے۔

رشوت لے کر قاتلوں، لٹیروں، ڈاکووں، رہزنوں کی حفاظت کرنا گوارا ہے۔

رشوت لے کر لوگوں کو زندہ جلانے کے مجرموں کو سزا نہ دینا گوارا ہے۔

رشوت لے کر ظالم و جابر ہوس پرست درندوں کی حفاظت کرنا گوارا ہے۔

رشوت لے کر قاتلوں اور جاسوسوں کو بحفاظت ان کے ملک تک پہنچانا گوارا ہے۔

رشوت لے کر ملک و ملت کی جڑیں کھوکھلی کرنا اور دشمنوں سے سازباز کرنا گوارا ہے۔

رشوت لے کر ہمیشہ کیلئے میر جعفر اور میر صادق کی طرح لعنتی بننا گوارا ہے۔

اور رشوت لے کر جہنم میں جانا گوارا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’رشوت ہرگز نہیں دینی چاہیے یہ سخت گناہ ہے مگر میں رشوت کی یہ تعریف کرتا ہوں کہ جس سے گورنمنٹ اور دوسرے لوگوں کے حقوق تلف کیے جاویں میں اسے سخت منع کرتا ہوں۔ لیکن ایسے طور پر کہ بطور نذرانہ یا ڈالی اگر کسی کو دی جاوے جس سے کسی کے حقوق کے اتلاف مدنظر نہ ہو بلکہ اپنی حق تلفی اور شر سے بچنا مقصود ہو تو یہ میرے نزدیک منع نہیں،اور میں اس کا نام رشوت نہیں رکھتا۔ کسی کے ظلم سے بچنے کو شریعت منع نہیں کرتی،بلکہ وَلَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ فرمایا ہے۔‘‘

(فتاوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ220-221 جدید ایڈیشن)

رشوت اور ہدیہ میں فرق

آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’رشوت وہ مال ہے جو کسی کے حق تلفی کے واسطے دیا یا لیا جاوے ورنہ اگر کسی نے ہمارا ایک کام محنت سے کر دیا ہے اور حق تلفی بھی کسی کی نہیں ہوئی تو اس کو جو دیا جاوے گا وہ اس کی محنت کا معاوضہ ہو گا۔‘‘

(فتاوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ221 جدید ایڈیشن)

اسی طرح اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’جو شخص پورے طور پر ہر ایک بدی سے اور ہر ایک بد عملی سے یعنی شراب سے قمار بازی سے بد نظری سے اور خیانت اور رشوت سے اور ہر ایک ناجائز تصرف سے توبہ نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ18-19)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’خدا تعالیٰ سے ڈریں اور اپنی زبانوں سے اور اپنے ہاتھوں سے اور اپنے دل کے خیالات کو ہر ایک ناپاک اور فساد انگیز طریقوں اور خیانتوں سے بچاویں اور پنج وقتہ نمازکو نہایت التزام سے قائم رکھیں اور ظلم اور تعدی اورغبن اور رشوت اور اتلافِ حقوق اور بے جاطرفداری سے باز رہیں اورکسی بدصحبت میں نہ بیٹھیں۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات، جلد3 صفحہ27 اشتہار موٴرخہ 29مئی 1898ء)

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس فرماتے ہیں:

وَلَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ وَتُدۡلُوۡا بِہَاۤ اِلَی الۡحُکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِیۡقًا مِّنۡ اَمۡوَالِ النَّاسِ بِالۡاِثۡمِ وَاَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۸۹﴾

(البقرہ: 189)

اور اپنے ہی اموال آپس میں جھوٹ فریب کے ذریعہ نہ کھایا کرو اور نہ تم انہیں حُکاّم کے سامنے اس غرض سے پیش کرو کہ تم گناہ کے ذریعہ لوگوں کے(یعنی قومی) اموال میں سے کچھ کھا سکو۔

تو یہ ہے کہ ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔ دوسرے کے مال کھانے کے لئے قومی مال نہ کھاؤ۔ وہ بھی ایک وجہ ہے۔ پھر رشوت دے کر غلط فیصلے اپنے حق میں نہ کراؤ۔ ایک دوسرے کے مال پر نظر رکھنے سے، ایک دوسرے کی جائیداد پر نظر رکھنے سے ہمیشہ بچنا چاہئے۔ کسی کی جائیداد کے بارے میں عدالت بے شک دوسرے کو حق بھی دلا دے لیکن اپنے اندر ہمیشہ ٹٹول کر دیکھنا چاہئے کہ کیا واقعی یہ میرا حق ہے؟ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اس طرح تم آگ کا گولہ اپنے پیٹ میں ڈالتے ہو۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍جون 2007ء)

پھر فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کو ناجائز منافع سے کمایا ہوا مال بھی پسند نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کو سود سے کمایا ہوا مال بھی پسند نہیں ہے بلکہ سختی سے اس کی مناہی ہے۔ رشوت کا پیسہ بھی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لینے والا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ31؍مارچ 2006ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ فرماتے ہیں:
’’پھر استاد ہیں-بعض اُستاد ہیں جو اس معزز پیشے کو جھوٹ کی وجہ سے بدنام کر رہے ہیں-رشوت لے کر،پیسے لے کر جھوٹے نمبر لگا دیتے ہیں-بلکہ بعض تو ایسے استاد بھی ہیں جو جھوٹی اسناد لے کر ملازمت میں آئے ہوئے ہیں، ان کی کو الیفیکیشن (Qualification) ہی نہیں ہوتی بعض ملکوں میں۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍دسمبر 2003ء)

بعض لوگ یہ سوچتےہیں کہ اگر تنہا میں نے رشوت ترک کردی تو اس سے پورے معاشرے پر کیا اثر پڑے گا؟ لیکن یہی وہ شیطان کا دھوکہ ہے جو معاشرے سے اس لعنت کے خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، جب ہر شخص دوسرےکا انتظار کرے گا تو معاشرہ کبھی اس لعنت سے پاک نہیں ہوگا۔ آپ رشوت کو ترک کرکے کم ازکم خود اس کے دنیوی اور آخرت کے نقصانات سے محفوظ ہوسکیں گے اس کے بعد آپ کی زندگی دوسروں کے لئے نمونہ بنے گی کیا بعید ہے کہ آپ کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اس لعنت سے تائب ہو جائیں، تاریکی میں ایک چراغ جل اٹھے تو پھر چراغ سے چراغ جلنے کا سلسلہ تناور ہو سکتا ہے کہ اس سے پورا ماحول بقعۂ نور بن جائے پھر جب کوئی شخص اللہ کے لئے اپنے نفس کے کسی تقاضے کو چھوڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال ہوتی ہے، دور دور سے ایک کام کو مشکل سمجھنے کے بجائے اسے کر کے دیکھئے، اللہ تعالیٰ سے اس کی آسانی کی دعا مانگئے۔ ان شاء اللہ اس کی مدد ہوگی ضرور ہوگی، بالضرور ہوگی اور کیا عجب ہے معاشرے کو اس لعنت سے پاک کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ ہی کو منتخب کیا ہو۔

الغرض رشوت کو ختم کر کے قوم ترقی کی منازل طے کر جاتی ہے۔ ملکی دولت کی مناسب تقسیم ہوتی ہے سیاہ اور سفید میں تمیز کی جاتی ہے۔تمام معاشرتی نقائص کی اصلاح ہوتی ہے۔خدا تعالیٰ کی ہزاروں رحمتیں اور برکتیں رسول عربی پر ہوں جس مبارک اور مطہر وجود نے رشوت کی لعنت اور قباحت کے اثرات کو نہایت جامع الفاظ میں اس وقت پیش فرمایا جبکہ اس کے وسیع مہلک اثرات کا اندازہ لگانا بھی ناممکن تھا۔

(محمد شاہد تبسّم)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ عید الاضحٰی مؤرخہ 10؍جولائی 2022ء

اگلا پڑھیں

فقہی کارنر