• 12 مئی, 2025

قرآن کریم کی کوئی آیت ناسخ یا منسوخ نہیں

قرآن کریم کا عظیم مقام ومرتبہ، اعلیٰ و ا رفع عظمت وشان اور بزرگی وہم وگمان سے برتر ہے

قرآن شریف نے اپنا بےنظیر ہونا آپ ظاہر فرما دیا ہے

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ، کامل کتاب،آخری اور ابدی شریعت ہے اس کا ہر حرف اورہر لفظ غیر متبدل اور قیامت تک قائم رہنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ اور ذِکْرٌ لِّلْعَالَمِیْن (صٓ:88) قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ھٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًی وَّ مَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ

(اٰل عمران:139)

یہ لوگوں کے لئے (کھوٹے کھرے میں تمیز کردینے والا) ایک بیان ہے اور ہدایت اور نصیحت ہے متقیوں کے لئے۔
یہ ساری دنیا کے تمام لوگوں کے لئے کتاب ہدایت ہے اسی لئے فرمایا کہ فَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَجَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا

(الفرقان:53)

(ترجمہ) پس کافروں کی پیروی نہ کر اور اس (قرآن) کے ذریعہ اُن سے ایک بڑا جہاد کر۔

حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: ’’ لَا رَیْبَ فِیہِ کہ اس میں کسی قسم کا کوئی عیب اور شک وشبہ اور اسی طرح کوئی کمی، کجی اور کمزوری نہیں ہے کیونکہ اس کا تو نزول ہی ایسے تمام شکوک، اندھیروں، ظلمات اور تاریکیوں کو دور کرنے کے لئے اور انسانی قلوب کو یقین کامل اور محبت وقرب الہٰی کے نور سے معمور کرنے کے لئے ہوا ہے۔یہ اپنی تفسیر آپ کرتا ہے اور اَلْقُرْاٰنُ یُفَسِّرُبَعْضُہٗ بَعْضًا کا مصداق ہے۔ قرآن کریم زندہ اور زندگی بخش کتاب ہے۔ اس کی ہر بات، ہر حکم اور ہر تعلیم واضح ، روشن اور ابہام سے پاک اور روشنی اور نور عطا کرنے والی ہے اور یہ کتاب حق کل عالم میں شکوک و شبہات کی تاریک وادیوں میں بھٹکنے والی تمام نسل ِ انسانی کے لئے حق وصداقت کا آفتاب ِ عالمتاب ہے۔

اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجاب اللہ نہیں ہوسکتا جو احکام فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کا تبدیل یا تغییر کرسکتا ہو۔ اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اور ملحد اور کافر ہے۔‘‘

(ازالہ اوہام ،روحانی خزائن جلد 3صفحہ 170)

’’خدا اُس شخص کا دشمن ہے جو قرآن شریف کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہے اور محمدی شریعت کے برخلاف چلتا ہے اور اپنی شریعت چلانا چاہتا ہے۔‘‘

(چشمۂ معرفت ،روحانی خزائن جلد 23صفحہ 340)

قرآن عظیم کی طرف ناسخ ومنسوخ کا عیب اور کمزوری منسوب کرنے کی بجائے اس کی عظمت وشان کے آگے اپنے سر جھکا دینے چاہئیں۔ اس کی ہدایات وتعلیمات کے نور سے اپنے سینوں کو منور کرکے اس کی برکتوں سے اپنی جھولیاں بھرنی چاہئیں۔ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ہمنوا ہوکر قرآن کریم کی محبت وعظمت کے یہ گیت گانے کاوقت ہے۔

جمال و حسنِ قرآں نورِ جان ہر مسلماں ہے
قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے
دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے۔
مَانَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِھَانَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَآ اَوْ مِثْلِھَا اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ

(البقرۃ:107)

جو آیت بھی ہم منسوخ کردیں یا اُسے بھلا دیں، اُس سے بہتر یا اُس جیسی ضرور لے آتے ہیں۔ کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے؟

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ مَانَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ کے لغوی معنی بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ
’’ نَسَخَ الشَّیْئَ کے معنے ہیں اَزَالَہٗ وَاَبْطَلَہٗ وَمَسَخَہٗ۔ اُس نے کسی چیز کو مٹادیا ۔ باطل کردیا اور مسخ کردیا۔ نُنْسِھَا:اَنْسَی الرَّجُلُ الشَّیْئَ کے معنے ہیں حَمَلَہٗ عَلٰی نِسْیَانِہٖ۔ اُسے بھول جانے پر آمادہ کردیا۔ پس نُنْسِھَا کے معنے ہیں ہم بھلوادیں اور ذہنوں سے محو کردیں ۔ اَلْاٰیَۃُ کے معنے ہیں اَلرِّسَالَۃُ۔ رسالت۔ ‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 95)

اس بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتےہیں:
’’اس سے یہ مراد نہیں کہ ہم قرآن شریف کی کسی آیت کو منسوخ کردیں ۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب ہم کسی نشان کو ٹلادیتے ہیں تو اس سے بہتر نشان لے آتے ہیں یا کم سے کم ویسا ہی نشان اور ظاہر کرتے ہیں تاکہ دنیا کے لئے ہدایت کا موجب بنے۔
مفسرین نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ جب قرآن کی کوئی آیت منسوخ کی جائے تو ویسی ہی آیت اور آجاتی ہے ۔ لیکن اگر کتاب ہی کی آیت مراد لینی ہو تو اس آیت کے یہ معنے لینے چاہئیں کہ اگر ہم تورات اور انجیل میں سے کسی حصہ کو منسوخ کریں، تو قرآن کریم میں یا تو ویسی ہی تعلیم نازل کردیں گے یا اس سے بہتر نازل کردیں گے ۔ قرآن کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں۔ نہ قیامت تک منسوخ ہوگی۔‘‘

(حاشیہ تفسیر صغیرزیر آیت سورۃ البقرہ:107)

جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ خدا تعالیٰ قرآن کریم کے بعض احکام کو منسوخ کردے یا اُن میں اضافہ کرے اور اپنے وعدہ کی خلاف ورزی کرے اور بھول جائے کہ وہ قرآن کریم کو کامل کرچکا ہے اور اس طرح دین متین میں فتنے پیدا ہونے کی راہ کھول دے۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 377)

’’حق یہی ہے کہ حقیقی نسخ اور حقیقی زیادت قرآن پر جائز نہیں کیونکہ اس سے اس کی تکذیب لازم آتی ہے۔‘‘

(الحق مباحثہ لدھیانہ ، روحانی خزائن جلد 4صفحہ 93)

جماعت احمدیہ کے پہلے خلیفہ حضرت مولانا نورالدین خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نسخ فی القرآن کے بارہ میں فرماتےہیں۔
’’یہ بات کہ (قرآن مجید میں ) نسخ ہے یا نہیں؟ اس کے متعلق جہاں تک میرا فہم ہے میں یہی کہوں گا کہ آج تک کوئی ایسی آیت نظر نہیں آئی جو منسوخ اور موجود فی القرآن ہو۔حضرت نبی کریمﷺ یا ابوبکر وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی زبان سے بھی کوئی ایسا لفظ مروی نہیں جس سے ایسی آیات کا موجود فی القرآن ہونا پایا جاتا ہو۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد اوّل صفحہ 216)

قرآن مجید کی آیت وَاِذَا بَدَّلْنَآ اٰیَۃً مَّکَانَ اٰیَۃٍ (النحل:102) الآیۃ جو اس بات کی دلیل ہے کہ منسوخ تلاوتًا وحکماً مرتفع ہے اور اس کی جگہ ناسخ نے لے لی ہے تو پھر ناسخ و منسوخ کا قضیہ ہی کیا رہا۔ اگر آیت کے وسیع معنی لے لیں جو بمعنی نشان ہے تو پھر قرآن کے ساتھ کوئی خصوصیت نہیں رہتی ۔قرآن کی آیات کو منسوخ قرار دینا بڑی جرأت کا کام ہے جب تک کہ خود اللہ تعالیٰ یا اُس کا رسولؐ کسی آیت کو ناسخ منسوخ نہ فرماویں ۔ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ منسوخ ہے یا ناسخ ۔بعض نے تو یہاں تک جرأت کی ہے کہ آیات ِاحکام تو ایک طرف آیات مشتملہ علی الاخبار کو بھی منسوخ قرار دے دیا۔ اَللّٰھُمَّ اَصْلِحْ اُمَّۃً مُحَمَّدٍ ﷺ۔

(تفسیر آیت 107 سورۃ البقرۃ۔ قرآن مجید مؤلفہ ومرتبہ حضرت مولانا مولوی میر محمد سعید صاحب قادری حنفی احمدی از درس قرآن حضرت خلیفۃ المسیح مولانا نورالدین ؓ)

سیدنا حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ
’’اس وقت جو قرآن کریم دنیا میں موجود ہے اُس میں ہرگز کوئی اختلاف نہیں جس کے مٹانے کے لئے قیاساًہمیں کسی نسخ کے جواز کا فتویٰ دینا پڑے ۔ وہ اپنی موجودہ صورت میں کامل اور بے عیب ہے اور اسلام کے تمام مخالفین مل کر بھی اگر اس میں کوئی اختلاف ثابت کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 101)

’’علامہ سیوطی ؒنے صرف بیس آیتوں کو منسوخ قرار دیا، ان کے بعد حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے …صرف پانچ آیتوں کو منسوخ فرمایا ہے …لیکن اس تقلیل کا یہ منشاء ہرگز نہیں ہوسکتا کہ مسئلۂ نسخ اسلام یا قرآن پر کوئی عیب تھا جس کے ازالہ کی کوشش چودہ سو برس تک چلتی رہی، آخری انکشاف حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کا ہوا ۔ جس میں گھٹتے گھٹتے (ناسخ ومنسوخ آیات کی تعداد۔ناقل) پانچ رہ گئی۔‘‘

(معارف القرآن جلد1۔سروسز بک کلب 2001ء صفحہ 283تا 286)

بعدازاں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے علامہ سیوطیؒ کی منسوخ قرار دی جانے والی 20 آیات میں سے مزید 15 آیات کو حل کرلیا اور منسوخ آیات کی تعداد محض 5 رہ گئی۔ مگر قرآن عظیم جیسی کامل کتاب ابدی شریعت، دائمی دستورالحیات اور زندہ اور زندگی بخش کتاب میں 5 منسوخ آیات کا پایا جانا بھی اُس کی عظمت وشان اور مقصد نزول کے سراسر منافی ہے اور یہ قرآن کریم کے روشن اور بے عیب چہرے پر ایک ہمالیہ جیسا بڑا داغ محسوس ہوتا ہے جسے مہدی دوران مسیح آخر الزمان حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے دور فرمایا اور یہ پرشوکت اعلان فرمایاکہ قرآن کریم کی کوئی ایک آیت بھی منسوخ نہیں حتی کہ حضور نے فرمایا کہ

’’قرآن کریم کا ایک شوشہ یا لفظ منسوخ نہیں۔‘‘

(نشانِ آسمانی ،روحانی خزائن جلد 4صفحہ 391)

(1) جناب مفتی محمد شفیع کے فرزند شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دارالعلوم کراچی اپنی کتاب ’’علوم القرآن‘‘ طبع جدید نومبر 2004ء میں قرآن کریم میں ناسخ ومنسوخ کا پرزور اثبات کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں۔’’جمہور اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ قرآن کریم میں ایسی آیات موجود ہیں جن کا حکم منسوخ ہوچکا ہے۔‘‘

مزید لکھتے ہیں۔

’’قرآن کریم کی آیتوں میں نسخ کا وجود کوئی عیب نہیں ہے جس سے قرآن کریم کو خالی دکھانے کی کوشش کی جائے …لہٰذا کسی آیت کی کسی تفسیرکو محض اس بنا پر ردّ نہیں کرنا چاہئے جس کے مطابق قرآن میں نسخ لازم آتا ہے۔‘‘

(علوم القرآن صفحہ 172)

(2) اسی آیت کریمہ کی تفسیر کے تحت ڈاکٹر اسرار احمد تحریر کرتے ہیں کہ
’’پھر ناسخ ومنسوخ کا مسئلہ قرآن میں بھی ہے۔قرآن میں بھی تدریج کے ساتھ شریعت کی تکمیل ہوئی ہے …تو یہ ناسخ ومنسوخ کا مسئلہ صرف سابقہ شریعتوں اور شریعت محمدیؐ کے مابین ہی نہیں بلکہ خود شریعت محمدیؐ ( عَلیٰ صَاحِبِہَاالصّلوٰۃ وَالسّلَام )۔ میں بھی زمانی اعتبار سے ارتقاء ہوا ہے۔‘‘

(بیان القرآن حصہ اول از ڈاکٹر اسراراحمد۔ شائع کردہ انجمن خدام القرآن سرحد، پشاور، اشاعت سوم اگست 2009ء صفحہ 315-314)

نسخ کے قائلین نسخ کی تائید میں قرآن کریم کی جو دوسری آیت پیش کرتے ہیں وہ درج ذیل ہے :
وَاِذَا بَدَّلْنَآ اٰیَۃً مَّکَانَ اٰیَۃٍ وَّ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوْٓا اِنَّمَا مُفْتَرٍ بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ

(النحل:102)

’’اور جب ہم کوئی آیت بدل کر اس کی جگہ دوسری آیت لے آتے ہیں اور اللہ بہتر جانتا ہے جو وہ نازل کرتا ہے، تو وہ کہتے ہیں کہ تُو محض ایک افترا کرنے والا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔‘‘

حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کی بصیرت افروز تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
(1)’’تاریخ سے کوئی ایک آیت بھی ثابت نہیں ہوتی جسے بدل کر اس کی جگہ دوسری آیت رکھی گئی ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو قرآن کے سینکڑوں حافظ جنہوں نے رسول کریمﷺ کی زندگی میں قرآن کریم کو حفظ کرلیا تھا اس امر کی شہادت دیتے کہ پہلے ہمیں فلاں آیت کے بعد فلاں آیت یاد کروائی گئی تھی لیکن اس کے بعد اسے بدل کر فلاں آیت یاد کرائی گئی ۔ اس قسم کی شہادت کا نہ ملنا بتاتا ہے کہ اس بارہ میں جس قدر خیالات رائج ہیں ان کی بنیاد محض ظنّیات پر ہے نہ کہ علم پر۔

میں اس کا منکر نہیں کہ بعض احکام زمانہ نبویؐ میں بدلے گئے ہیں ۔ مگر مجھے قرآن کریم کے کسی حکم کی نسبت ثبوت نہیں ملتا کہ پہلے اور طرح ہو اور بعد میں بدل دیا گیا ہو۔ میرے نزدیک جو احکام وقتی ہوتے تھے وہ غیر قرآنی وحی میں نازل ہوتے تھے ۔ قرآن کریم میں اترتے ہی نہ تھے ۔ اس لئے قرآن کریم کو بدلنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی تھی۔‘‘

حضرت مصلح موعود ؓ اپنی بیان فرمودہ مذکورہ بالا تشریح کے بارہ میں ذہن میں پیدا ہونے والے ایک شبہ کا ازالہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ
(2)’’اس پر یہ سوال ہوسکتا ہے کہ اگر آیاتِ قرآنیہ کو کبھی بدلا نہیں گیا تو اس آیت کے کیا معنے ہوئے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اٰیَۃ کے وہ معنے جن میں یہ لفظ بالعموم قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے نشان آسمانی کے ہیں اور وہی اس جگہ مراد ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم ایک نشان بدل کر اس کی جگہ دوسرا نشان لے آتے ہیں اور ایسا کرنا قابل اعتراض نہیں ہوتا کیونکہ اس امر کو تو اللہ ہی جانتا ہے کہ کون سا نشان کس موقع کے لئے مناسب ہے تو کفار اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تُو تو جھوٹا ہے۔ مگر یہ اعتراض ان کا جہالت پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ وہ قانون ہے جس کا ظہور ہر نبی کے زمانہ میں ہوتا ہے یعنی ہر نبی کو بعض انذاری باتیں بتائی جاتی ہیں جو درحقیقت مشروط ہوتی ہیں۔ مخاطب قوم کے قلوب کی حالت سے اگر وہ اپنے دل کی حالت بدل لیں تو وہ انذار کی خبر بھی ٹل جاتی ہے۔ جیسے قرآن کریم میں حضرت یونس ؑ کی قوم کا واقعہ بیان فرمایا ہے کہ ان کی ہلاکت کی خبر حضرت یونس ؑ کی معرفت دی گئی مگر بعد میں ان کی توبہ کی وجہ سے بدل دیا گیا۔

(یونس رکوع 10)

یہ عام قانون انذاری پیشگوئیوں کے متعلق ہے کہ اگر مخالف توبہ کرلیں تو مقدر عذاب روک دیا جاتا ہے۔ ہاں وعدہ کی خبر ضرور پوری ہوکر رہتی ہے مگر اس کے متعلق بھی سنت اللہ یہ ہے کہ اگر وہ قوم جس سے وعدہ ہو پوری قربانی سے کام نہ لے یا پوری فرمانبرداری نہ دکھائے تو اس کے پورا ہونے میں تاخیرکر دی جاتی ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب انہوں نے متواتر حضرت موسیٰؑ کی نافرمانی کی۔ تو وہ ارضِ موعودہ جس میں داخل کرنے کے لئے حضرت موسیٰ ؑ انہیں مصر سے نکال کر لائے تھے چالیس سال تک کے لئے اس کی فتح روک دی گئی اِ س کے موعود ہونے کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔

یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ (مائدۃ رکوع 4)۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ 238-237)

خاکسار اپنی اس تحریر کا اختتام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک دعا پر کرتاہے۔ حضور ؑ فرماتے ہیں:
’’اے قادر خدا! اے اپنے بندوں کے رہنما۔ جیسا تو نے اس زمانہ کوصنائع جدیدہ کے ظہور و بروز کا زمانہ ٹھہرایا ہے ایسا ہی قرآن کریم کے حقائق معارف ان غافل قوموں پر ظاہر کر اور اب اس زمانہ کو اپنی طرف اور اپنی کتاب کی طرف اور اپنی توحید کی طرف کھینچ لے۔ کفر اور شرک بہت بڑھ گیا اور اسلام کم ہوگیا۔ اب اے کریم ! مشرق اور مغرب میں توحید کی ایک ہوا چلا اور آسمان پر جذب کا ایک نشان ظاہر کر۔ اے رحیم ! تیرے رحم کے ہم سخت محتاج ہیں۔ اے ہادی ! تیری ہدایتوں کی ہمیں شدید حاجت ہے۔ مبارک وہ دن جس میں تیرے انوار ظاہر ہوں۔ کیا نیک ہے وہ گھڑی جس میں تیری فتح کا نقارہ بجے۔ تَوَکَّلْنَا عَلَیْکَ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِکَ وَ اَنْتَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْم۔ ‘‘

(آئینہ کمات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 213۔حاشیہ در حاشیہ)

اک کرم کر پھیر دے لوگوں کو فرقاں کی طرف
نیز دے توفیق تا وہ کچھ کریں سوچ اور بچار

(براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔ درثمین اردو)

(نذیر احمد خادم)

پچھلا پڑھیں

ڈاکٹر عبدالرحمان صدیقی اور ان کے بیٹے ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی کی خدمت خلق

اگلا پڑھیں

روزنامہ الفضل کا پرنٹ سے ڈیجیٹل میڈیا تک کا کامیاب سفر