• 27 اپریل, 2024

سانحہ ارتحال

مکرم ناصر احمد طاہر (مربی سلسلہ و استاد جامعہ احمدیہ) تحریر کرتے ہیں:

خاکسار کے والدِ مکرم عبدالستار ولد عبدالرحیم صاحب مؤرخہ 6اکتوبر 2021ء کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ آپ 18مارچ 1943ء کو بٹالہ کے قریب گاؤں تلونڈی جھنگلاں ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے۔ 2007ء میں موسی والا ضلع سیالکوٹ سے ہجرت کرکے مرکز میں رہائش پذیر ہوئے۔ وفات کے وقت کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھے۔ مرحوم پنجوقتہ نمازوں کے پاپند تھے۔ نماز کے لئے گھر سے آدھا پون گھنٹہ پہلے ہی مسجد پہنچ جایا کرتے تھے۔ بہت ملنسار اور مہمان نواز تھے۔ حلقہ احباب کا فی وسیع تھا۔بہادر اور نڈر انسان تھے۔ 1976ء میں اپنے والد کی شہادت کے بعد کچھ عرصہ اسیر راہ مولیٰ ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا تھا۔

خاندان میں احمدیت کا نفوذ

خاکسار کی پردادی حاکم بی بی صاحبہ سب سے پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کے ہاتھ پربیعت کرکے جماعت احمدیہ میں داخل ہوئیں ۔حاکم بی بی صاحبہ موصیہ تھیں اور پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل تھیں۔ خاکسار کے دادا عبدالرحیم صاحب کو 1976ء میں موسی والا ضلع سیالکوٹ میں عید کے روز عید گاہ میں شہید کیا گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے 25جون 1999ء کے خطبہ جمعہ میں اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’چودھری عبدالرحیم صاحب شہید اور چودھری محمد صدیق صاحب شہید۔ (تاریخ شہادت 26ستمبر 1976ء) چودھری عبدالرحیم صاحب 1910ء میں پیداہوئے۔ آپ کے والد صاحب کا نام چودھری شاہ نواز صاحب اور والدہ کانام حاکم بی بی صاحبہ تھا۔شہید مرحوم پیدائشی احمدی تھے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر تقریباً ساٹھ سال تھی۔ آپ کا گاؤں تلونڈی جھنگلاں قادیان سے چارمیل کے فاصلہ پر تھا۔ 1947ء میں ہجرت کرکے اپنے خاندان سمیت کھرولیاں تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ میں رہائش اختیار کی۔ چارسال کے بعد فیصل آباد میں سسرال کے ہاں چند سال گزارے۔ پھر 1961ء میں موسیٰ والا چلے ا ٓئے کیونکہ آپ کی زمین کی الاٹمنٹ موسیٰ والا میں ہوئی تھی۔

واقعہ شہادت

مسجد احمدیہ جوکہ 1974ء سے پہلے کی بنی ہوئی تھی۔اس میں احمدی اور غیر احمدی دونوں نمازپڑھتے تھے۔بعد میں ایک اور مسجد تیار کی گئی جو کہ غیر احمدیوں نے گاؤں میں ہی واقع اپنی زمین پر تعمیر کروائی۔فریقین نے اس میں حصہ ڈالا اور احمدی اور غیر احمدی دونوں اپنی اپنی نماز علیحدہ پڑھنے لگے۔گاؤں کے چند شرپسندوں اور ڈسکہ شہر سے مولویوں نے آکر شرارتیں شروع کر دیں۔ اندر ہی اندر انہوں نے شرارت کا منصوبہ بنایا۔ مسجد کے اردگرد آباد مقامی لوگ ایک برادری کے تھے اور آپس میں باہم رشتہ دار تھے جس کی وجہ سے ان کا یہ منصوبہ ظاہر نہ ہوسکا۔اس طرح 30رمضان کی رات آئی اور فیصلہ کے مطابق کہ نماز اسی عیدگاہ میں پڑھنی ہے جہاں پر غیراحمدی بھی پڑھتے تھے۔ صبح کی نماز کے بعد چودھری عبدالرحیم صاحب نے اپنے دو بیٹیوں کو کہا کہ صفیں وغیرہ عیدگاہ لے جائیں اور ساتھ ہی خود بھی تیار ہوگئے۔ شرپسندوں نے منصوبہ کے مطابق ان کے لڑکوں پر حملہ کر دیا۔ چودھری عبدالرحیم صاحب اور ان کے بھائی محمد صدیق صاحب جب عیدگاہ میں داخل ہوئے تو چند افراد نے ان دونوں پر بھی کلہاڑیوں اور ڈنڈوں کے ذریعہ اچانک حملہ کردیا جب کہ یہ دونوں خالی ہاتھ تھے۔ چودھری عبدالرحیم صاحب زخموں کی تاب نہ لاکر ایک گھنٹہ کے بعد خالق حقیقی سے جاملے اور چندگھنٹے بعد چودھری محمد صدیق صاحب نے بھی دم توڑدیا۔

اناللہ واناالیہ راجعون

چودھری عبدالرحیم صاحب جماعت احمدیہ موسیٰ والا میں پہلے شہادت پانے والے خوش نصیب ہیں۔

(خطبات طاہر بابت شہداء صفحہ 166-167)

مرحوم نے پسماندگان میں چاربیٹے اور تین بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں۔ خداتعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے، آمین۔

(ادارہ الفضل کی جانب سے تعزیت قبول کریں)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ