• 18 مئی, 2024

گھانا کے معلم Abdul Wahab Anderson کا ذکرِ خیر

آپ 28اکتوبر 1973ء کو Breman Asikuma میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدMr. Ahmad Saeed Anderson اور والدہ Mrs. Fatima Anderson تھیں۔ آپ نے 1993ء میں ٹی آئی احمدیہ سیکنڈری سکول ایسارچر، سینٹرل ریجن سے تعلیم مکمل کی۔اور اپنے بھائی کے کلینک پر تین سال تک کام کیا۔ آپ کے والد صاحب کی شدید خواہش تھی کہ ان کے تیرہ بچوں میں سے ایک بچہ اسلام احمدیت کی تبلیغ کے لئے اپنے آپ کو وقف کرے۔آپ نے اپنے والد صاحب کی خواہش کی تعمیل میں 1997ء میں احمدیہ مسلم مشنری ٹریننگ کالج سالٹ پانڈ میں معلم سلسلہ بننے کے لئے داخلہ لیا۔ آپ بعد میں ساری عمر اپنے والد صاحب کی اس خواہش کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے رہے اور وقف کر کے خدمتِ احمدیت کرنے کو ایک فخر جانا۔

آپ کالج میں بڑے ملنسار اور ساتھی طلباء دوستوں کے ہمدرد تھے۔ اسی وجہ سے سب آپ کو پیار سے اردو زبان میں ’’چاچا‘‘ بولتے تھے۔ آپ نے اس کالج کی تعلیم کے دوران قرآنِ مجید کے فانٹی زبان کے ترجمہ کرنے میں بھی مدد کرنے کی توفیق پائی۔ 2000ء میں آپ بطور معلم سلسلہ اپنی تعلیم مکمل کر کے فارغ ہوئے تو جنوری 2001ء میں پہلی تقرری گریٹر اکرا کے سرکٹ Nima میں ہوئی یہاں آپ نے بڑی محنت اور جانفشانی سے کام کیا۔مسلسل ڈیڑھ سال کی محنت سے آپ سرکٹ کی کانفرنس منعقد کروانے میں کامیاب ہوئے۔مکرم و محترم عبدالوہاب بن آدم صاحب سابق امیر ومشنری انچارج اس میں بنفسِ نفیس شامل ہوئے اور اس کاوش کو خوب سراہا۔

اسی محنت کا پھل ہی تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے آپ کا تقرر Islands Fiji میں بطور مربی کیا۔ دسمبر 2003ء میں آپ وہاں چلے گئے اور جماعت کی بھرپور خدمت کی توفیق پائی۔آپ کھل کر تبلیغ کرتے اور خدا کے فضل سے بیعتیں بھی ہوتیں۔

آپ نے فجی میں بنیادی طور پر جن مقامات پر خدمت کی ہے اس کے نام یہ ہیں (ولودا) Voloca، رامبی Rabi، تاویونی Taveuni، لٹوکا Lautoka۔ آپ نے جماعت کے ہیڈ کوارٹرز واقع Suva میں بھی وقتی طور پر خدمت بجا لانے کی توفیق پائی۔

آپ نے فجی میں مکرم نعیم محمود چیمہ صاحب (سابق امیر و مشنری انچارج فجی آئی لینڈز) کے تحت 2003ء تا 2008ء کام کی توفیق پائی۔ان کے بقول آپ عبادت گزار،خلافت سے محبت کرنے والے،اطاعت گزار محنتی اور منکسر مزاج تھے۔

آپ کا ایک انٹر ویو ایم ٹی اے افریقہ پر پروگرام ’’Story of Devotion‘‘ میں نشر ہوا۔ اس میں آپ نے بتایا کہ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کا الہام تھا کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ فجی بھی دنیا کا ایک کنارہ ہے۔ انہیں بھی پہلے مبلغین کی طرح یہاں تبلیغ کی توفیق ملی۔ آپ نے بتایا کہ وہاں بھی گھانا کی طرح چیفس کا نظام ہے۔ گاؤں کے چیف سے ملیں اسے کچھ تحفہ دیں، اور پھر وہ آپ کو گاؤں سے متعارف کروا دیتا ہے اور آپ انہیں با آسانی تبلیغ کر سکتے ہیں۔

آپ نے بتایا کہ ہر موقع پر حضورِ انور کو دعاکے لئے لکھتے اور انکی ہدایات پر عمل کرتے۔ آپ نے بتایا کہ ایک بار ایک جلسہ پر آپ کے امیرومشنری انچارج مکرم فضل اللہ طارق صاحب نے انہیں ایک بس بھر کر مہمان لانے کا ٹارگٹ دیا۔ شرط یہ تھی کہ مقامی لوگ ہوں۔ انڈین وغیرہ نہ ہوں۔جماعت کے ممبران نے کہا ایسا نا ممکن ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ میں بار بار لوگوں سے ملا اور بالآخر خدا کے فضل و کرم سے بس بھر کر مہمان لیکر گیا۔ جنہیں دیکھ کر مکرم امیر و مشنری انچارج صاحب فجی بے حد خوش ہوئے۔

آپ نے اس انٹر ویو میں اپنا موت کے منہ سے واپس آنے کا واقعہ بھی بتایا۔ایک مرتبہ آپ نے زہر آلود مچھلی کھا لی۔ یہ مچھلی کھانے سے بعض لوگ چند منٹ کے اندر اندر فوت بھی ہو جاتے ہیں۔ مچھلی میں کوئی زہر نہیں ملاتا بلکہ قدرتی طور پر بعض ایام میں اس میں زہر پیدا ہو جاتا ہے۔جب ان میں زہر کی علامات پیدا ہوئیں تو آپ کو کلینک لے جایا گیا۔ مکرم امیر صاحب کو اطلاع دی گئی۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو بھی دعا کی درخواست کی گئی۔ریجنل مشنری کے تعاون سے فوری طور پر کسی بڑے ہسپتال میں لے جایا گیا۔ خدا تعالیٰ نے معجزانہ طور پر آپ کو موت کے منہ سے بچا لیا اورنئی زندگی دی۔

آپ 2011ء میں گھانا واپس آئے تو آپ کو Mando سرکٹ میں تعینات کیا گیا۔ 2013ء میں آپ کی تقرری Nima سرکٹ میں ہوئی۔ خدا کے فضل سے آپ نے بڑی محنت سے جماعتی کام کرنے کی توفیق پائی۔

آپ کچھ عرصہ بیمار رہ کر 18جون 2020ء کو وفات پا گئے۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ آپ خدا کے فضل سے موصی تھے۔ مؤرخہ 19جون کو آپ کی تدفین مقبرہ موصیان میں ہوئی۔ مکرم و محترم محمد بن صالح صاحب امیر و مشنری انچارج گھانا نے ان کا نمازِ جنازہ پڑھایا۔

آپ نے تین سال قبل خواب دیکھا تھا کہ آپ حضور پرنور ایدہ اللہ تعالیٰ سے مل رہے ہیں۔ ان کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں۔ اس کی تعبیر اس طرح ظاہر ہوئی کہ 2018ء کے جلسہ سالانہ یو کے کے موقع پر حضور پر نور ایدہ اللہ تعالیٰ کی منظوری سے آپ کا نام گھانا کے وفد میں شامل ہوا اور اس طرح آپ کو جلسہ سالانہ یو کے میں شمولیت کے باعث حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔

ان کے ساتھی معلمین کا کہنا ہے کہ آپ بے حد محنتی، مخلص اور اپنے کاموں کو دیانتداری سے کرنے والے تھے۔ کھلے دل کے مالک تھے۔ آپ نے معلمین کے تحت قائم ہونے والے ویلفئر فنڈ میں کافی معاونت کی۔آپ نے اپنی فیملی ممبران کے لئے بھی Immuna کے مقام پر قائم ہونے والے ویلفئر فنڈ میں کافی مدد کی۔

انکی اہلیہ محترمہ Sara Anderson کہتی ہیں۔ ’’آپ بیوی بچوں سے بے حد محبت کرنے والے اور ہر طرح سے خیال رکھنے والے تھے۔ ایک بار میں نے شادی کے بعد ملازمت اختیار کرنے کی خواہش ظاہر کی تو کہنے لگے: اگر میں تمہاری ضروریات پوری کرنے کی ذمہ داری نہ نبھا سکتا تو تم سے ہر گز شادی نہ کرتا۔‘‘ آپ اکثر حضور پُر نور کو خطوط لکھتے۔ اگر کوئی کسی طرح کی مدد مانگنے آتا تو اسکی فوراً مدد کرتے۔

مکرم عبدالوہاب اینڈرسن صاحب نے فجی میں مکرم نعیم احمد اقبال صاحب ریجنل مبلغِ سلسلہ کے تحت کام کیا۔ وہ آپ کے بارے میں کہتے ہیں: ’’آپ کا ہر ایک سے دوستانہ تعلق تھا۔ اپنے ہوں یا غیر ہمیشہ ان کو مسکراتے دیکھا۔ انھوں نے میرے ساتھ بھی کام کیا۔میں نے انھیں ہمیشہ اطاعت کرنے والا اور ڈیوٹی کو اپنی پوری کوشش سے ادا کرنے والا پایا۔ بہت مہمان نواز تھے۔ اپنی بساط کے مطابق ہر آنے والے مہمان کی خاطر تواضع کرتے۔ ان میں صبر بہت تھا اور خدا پر توکل۔ایک بار انکو ہچکی کی شدید تکلیف ہو گئی۔ اسکی شدت اتنی تھی کہ اس نے سینے کے اندر زخم کر دئے۔جب میں انھیں اس تکلیف میں دیکھ کر پریشان ہوتا تو وہ الٹا مجھے تسلی دیتے اور صبر اور برداشت کے ساتھ صرف دعا کی درخواست کرتے۔ آپ کو تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ عیسائیت کا گہرا مطالعہ تھا۔ کافی مؤثر تبلیغ کرتے۔‘‘

آپ نے فجی کے ریجنل مبلغ مکرم طارق رشید صاحب کے تحت بھی کام کیا۔انہوں نے آپ کے بارے میں کہا۔ ’’آپ بڑے عاجز، نرم دل، نوجوانوں کے ساتھ ذاتی تعلقات بنا کر دوستیاں کرنے والے تھے۔ آپ اکثر قریبی جزائر میں جا کر عیسائیوں کی کمیٹیوں میں حصہ لیتے اور تبلیغ کرتے۔ ان میں یہ ’’عَبدُل‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ تبلیغ کرنے میں ماہر تھے۔ مختصر دلیل سے بات کرتے۔ بحث کی بجائے سادگی سے قائل کرتے۔ دوستوں کے دوست تھے۔ یہ نہ تو دوستوں کو بھولتے اور نہ دوستوں کو بھولنے دیتے۔ گھانا جا کر بھی مجھ سے رابطہ میں تھا۔ حتی کہ وفات تک مجھ سے رابطہ میں رہے۔‘‘

آپ کا کہنا ہے: مکرم عبدالوہاب صاحب میں حسِ مزاح بھی خوب تھی۔مذاق کرتے اور ماحول میں شگفتگی پیدا کر دیتے۔ وہ اکثر میرے ساتھ دورے پر جاتے تو ہم گاؤں کے چیف سے ملتے ۔چیف کو پتہ چلتا کہ یہ گھانا سے ہیں تو وہ گھانا کی آبادی پوچھتے تو آپ بتاتے: 21 ملین ہے۔ ایک بار کسی گاؤں میں چیف سے ملے اور دوسرے لوگ بھی تھے۔چیف صاحب نے گھانا کی آبادی پوچھی تو اس بار میں نے جواب دیا کہ 21ملین۔ آپ نے بر جستہ کہا کہ21 ملین پورے نہیں سوائے ایک کے اور وہ میں ہوں جو اب یہاں آ گیا ہوں۔ یہ سننا تھا کہ ساری مجلس میں خوب قہقہ لگا اور اس مزاح سے لطف اندوز ہوئے۔‘‘

آپ نے اپنے پیچھے اہلیہ مکرمہ سارہ اینڈرسن،ایک بیٹی عزیزہ رحیمہ اور ایک بیٹا عزیزم فارس احمد (جو فجی میں پیدا ہوا تھا) سوگوار چھوڑے ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ کے لواحقین کو صبرو رضا سے نوازے اور آپ کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین

٭…٭…٭

(مرسلہ: از فہیم احمد خادم۔ گھانا)

پچھلا پڑھیں

آج کی دعا

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ