• 11 مئی, 2025

امت مسلمہ کے لئے دعا کی تازہ تحریک اور متحد رہنے کی تلقین

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 06 نومبر 2020ء کو خطبہ جمعہ کے آخر میں احباب جماعت کو دعاؤں کی طرف توجہ دینے کے لئے درج ذیل الفاظ میں متوجہ فرمایا:
’’اب میں اس طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آجکل بہت دعاؤں کی ضرورت ہے دعاؤں کی طرف توجہ کریں ہم اپنے لئے اور جماعت کے لئے تو دعائیں کرتے ہیں مسلمانوں کے لئے عمومی طور پر بھی دعاؤں کی ضرورت ہے۔ آجکل مسلمانوں کے خلاف غیر مسلم دنیا کے بعض ممالک کے لیڈر بڑے بغض اور کینہ کے جذبات رکھتے ہیں اور ظاہر ہے لیڈر جو ہیں وہ اس جمہوری دور میں عوام کو خدا سمجھ کر ان کی خواہش کے مطابق اپنے بیان اور پالیسیاں بنانے کی کوشش کرتے ہیں یا خود ہی بعض دفعہ ان کو غلط رہنمائی کر کے اس طرف لے جانے کی کوشش کرتے ہیں ،کہ خدا نہیں ہے بلکہ تم ہی سب کچھ ہو۔ جہاں کھل کر بیان نہیں بھی دیتے وہاں بھی دلوں میں اسلام کے خلاف نفرتیں اور تحفظات لئے ہوئے ہیں یہ لوگ اور عوام الناس کا ایک بڑا حصہ بھی اسلام سے صحیح واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف ہیں بہرحال ہم نے دعاؤں کے ساتھ کوشش کے ساتھ دنیا کو بتانا ہے کہ اسلام کی حقیقت کیا ہے۔ گذشتہ دنوں کھل کر اگر کسی مغربی لیڈر کا بیان آیا ہے ویسے تو آتے رہتے ہیں کسی نہ کسی طرح فقرات لپٹے لپائے کچھ نہ کچھ سیاسی طور پر بیانات کر کے یا اس طرح گول مول سے الفاظ میں لیکن کھل کے کسی لیڈر کا بیان آیا تو وہ فرانس کا صدر تھا۔ اس نے اسلام کو کرائسس کا شکار مذہب قرار دیا ہے۔ کرائسس کا شکار تو ان کا خود اپنا مذہب ہے، جس کو اگر ہے تواول تو وہ مانتے ہی نہیں کسی مذہب کو عیسائیت کو بھی بھول بیٹھے ہیں۔ کرائسس کا شکار تو یہ ہے۔ اسلام تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے زندہ مذہب ہے اور پھلنے پھولنے والا مذہب ہے اور پھل پھول رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر زمانے میں اس کی حفاظت کی ذمہ داری لئے ہوئے ہے اس زمانے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے اس کی تبلیغ دنیا کے چاروں کونوں میں پھیل رہی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ اسلام کی مخالف قوتیں یا لوگ جو ہیں اس لئے اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں اور بیان دیتے ہیں کہ انہیں پتا ہے کہ مسلمانوں میں آپس میں ایکا نہیں ہے یہاں کینیڈا کے وزیراعظم کو بہرحال میں تعریف کے رنگ میں ذکر کر دوں۔ انہوں نے فرانس کے صدر کے بیان پر بڑا اچھا بیان دیا ہے کہ یہ سب کچھ غلط ہے اور یہ نہیں ہونا چاہئے اور ایک دوسرے کے جذبات کا مذہبی جذبات کا اور مذہبی لیڈروں کا خیال رکھنا چاہئے۔ کاش کہ باقی دنیا کے لیڈر بھی وزیراعظم کینیڈا کے سوچ اور بیان کو ذرا غور سے دیکھنے والے ہوں اور دنیا کے امن اور سکون کو قائم کرنے کے لئے اس پر عمل کریں۔ بہرحال یہ کینیڈا کے وزیراعظم صاحب اس لحاظ سے قابل تعریف ہیں اور ہمیں ان کے لئے دعا بھی کرنی چاہئے اللہ تعالیٰ مزید ان کا سینہ کھولے۔

بہرحال یہ تو ظاہر ہے کہ مسلمانوں میں ایکا نہیں ہے اس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ ہر ایک ملک دوسرے ملک کے خلاف ہے مسلمانوں کا۔ فرقہ واریت نے باہر کی دنیا میں یہ ظاہر کر دیا ہے کہ مسلمانوں میں پھوٹ ہے۔ اگر دنیا کو پتا ہو کہ مسلمان ایک ہیں ایک خدا اور ایک رسول کے ماننے والے ہیں اور اس کی خاطر قربانیاں دینا جانتے ہیں تو کبھی ایسی حرکتیں نہ ہوں غیر مسلم دنیا کی طرف سے۔ کبھی کسی اخبار کو آنحضرتﷺ کے خاکے چھاپنے کی جرأت نہ ہو۔ چند سال پہلے بھی جو خاکے چھپے تھے ڈنمارک میں بھی اور فرانس میں بھی اسے وقتی شور مچا کر اور ان کی چیزوں کا بائیکاٹ کر کے نہ خریدنے کا اعلان کر کے پھر خاموش ہو کر بیٹھ گئے کچھ بھی نہیں ہوا چند مہینوں کے بعد خاموشی ہو گئی۔ اس وقت بھی جماعت احمدیہ نے ہی صحیح ردّ عمل دکھایا تھا اور ان کے سامنے آنحضرت ﷺ کی خوبصورت سیرت پیش کی تھی۔ جس کی بہت سے غیروں نے پڑھے لکھے طبقے نے لیڈروں نے عوام الناس نے تعریف کی تھی اور پسند کیا تھا اور یہی کام ہم آج بھی کر رہے ہیں اور بتاتے ہیں کہ چند سرپھرے لوگوں کے اسلام کے نام پر غلط عمل کو اسلام کا نام نہ دو۔ کسی ملک کے صدر کا یہ کام نہیں ہے کہ کسی شخص کے غلط عمل کو اسلام کی تعلیم اور مسلمانوں کے لئے کرائسس کا نام دے کر پھر اپنے لوگوں کو مزید بھڑکایا جائے کہ ان کے خلاف ہماری یہ لڑائی ہے اور یہ لڑائی ہم جاری رکھیں گے۔ اس شخص کو غلط عمل پر بھڑکانے والے بھی تو یہ خود ہی ہیں۔ میں نے پہلے بھی یہ بیان دیا تھا کہ یہ خاکے وغیرہ بنانا یا آنحضرتﷺ کی توہین کسی رنگ میں کرنا کسی بھی غیرت مند مسلمان کو برداشت نہیں ہے اور بعض مسلمانوں کے جذبات کو یہ حرکتیں بھڑکا سکتی ہیں اور بھڑکاتی ہیں اور اس سے خلاف قانون پھر کوئی حرکت سرزد ہو جائے اگر کسی سے اگر کوئی شخص قانون اپنے ہاتھ میں لے لے تو اس کے پھر ذمہ دار یہ غیر مسلم لوگ ہیں یہ حکومتیں ہیں یا نام نہاد آزادی ہے جس کو فریڈم ایکسپریشن کا نام اظہار خیال کا نام دیا جاتا ہے۔ بہرحال یہ غیر مسلم دنیا ہے جو ان کے جذبات بھڑکاتی ہے۔ میں نے اس وقت بھی جب پہلی دفعہ یہ معاملہ اٹھا تھا خطبات کے ایک سلسلہ میں صحیح ردّعمل کی وضاحت کی تھی کہ ہمیں کس طرح صحیح ردّ عمل کرنا چاہئے اور کیا دکھانا چاہئے اور اس کا جیسا کہ میں نے بتایا کہ لوگوں پر اچھا اثر بھی ہوا تھا اور ابھی تک ہم مسلسل کئے جا رہے ہیں اس طریقے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

پھر ہالینڈ کے سیاستدان نے ایک جو بیان دیا تھا تو اس وقت بھی ہالینڈ میں میں نے ایک خطبہ دیا تھا اور اس کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا تھا بلکہ اس پر اس نے ہالینڈ کی حکومت کو درخواست بھی دی تھی کہ اس نے مجھے موت کی دھمکی دی ہے اور میرے خلاف اس نے یہ ہالینڈ کی حکومت کو کہا تھا کہ اس کو یہاں آنا بین کیا جائے بلکہ اس پہ مقدمہ چلایا جائے تو بہرحال ہم تو جہاں تک ہو سکتا ہے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اسلام اور آنحضرت ﷺ کے مقام کے خلاف ہونے والی ہر حرکت کا جواب دیتے ہیں اور دیتے رہیں گے اور اس کا اثر بھی ہوتا ہے اور یہی حل پیش کرتے ہیں کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر قدم ہمیں اٹھانا چاہئے اور سب سے بڑھ کر آنحضرتﷺ پر درود بھیجنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے اور گذشتہ کئی خطبات میں یہ اس بات کی تحریک کر چکا ہوں اور باوجود ہمارے بارے میں غیر احمدی علماء کے سخت بیان کے ہم اسلام کے دفاع میں اسلام کی حقیقی تعلیم کی روشنی میں اپنا کام کرتے چلے جائیں گے اور کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ

ایک یا دو یا چار آدمی کو قتل کرنے سے وقتی جوش تو نکل جاتا ہے لیکن یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے مسلم امہ اگر مستقل حل چاہتی ہے تو تمام مسلمان دنیا اکٹھی ہو۔ اب بھی فرانس کے صدر کے جواب میں ترکی کے صدر نے جواب دیا یا ایک دو اور ملکوں نے ردّ عمل ظاہر کیا تو یہ بات اتنا اثر نہیں ڈال سکتی جتنا کہ تمام مسلمانوں کے ایک ردّ عمل کا اثر ہو سکتا ہے گو یہ کہا جاتا ہے کہ ترکی وغیرہ کے ردّ عمل پر فرانس کے صدر نے اپنا بیان بدلہ اور کچھ نرم کیا کہ میرا مطلب یہ نہیں تھا میرا مطلب یہ تھا لیکن ساتھ ہی اپنی بات پر بھی قائم رہا ہے کہ جو ہم کر رہے ہیں وہ ٹھیک کر رہے ہیں لیکن اگر چوّن پچپن مسلمان ممالک ایک زبان ہو کر بولتے تو پھر وہ اگر مگر کی بات نہ کرتا فرانس کا صدر پھر اس کو مجبوراً بہرحال معافی مانگنی پڑتی گھٹنے ٹیکنے پڑتے۔ بہرحال یہاں مختصر میں اتنا ہی یہ کہنا چاہتا تھا کہ دعا کریں کہ مسلمان ممالک کم از کم غیروں کے سامنے ایک ہو کر آواز اٹھائیں پھر دیکھیں کتنا اثر ہوتا ہے۔ ہم تو اپنا کام کئے جا رہے ہیں اور کرتے رہیں گے ان شاء اللہ تعالیٰ کہ مسیح محمدی کے ماننے والوں کا یہ کام ہے یہ فرض ہے کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں پھیلائیں۔ آنحضرت ﷺ کے خوبصورت چہرے کو دنیا کو دکھائیں اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں جب تک تمام دنیا کو آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے نہ لے آئیں۔ دنیا کو بتائیں کہ تمہاری بقاء اسی میں ہے کہ خدائے واحد کو پہچانو اور ظلموں کو ختم کرو۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے چند سربراہان حکومت کو دوبارہ خط لکھے تھے چند مہینے پہلے انہی کووڈ کے دوران میں تو فرانس کے صدر کو بھی میں نے لکھا تھا اور اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے الفاظ میں یہ تنبیہ بھی کی تھی کہ یہ عذاب اور آفات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظلموں کی وجہ سے آتے ہیں اس لئے تمہیں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ظلموں کو ختم کرو اور انصاف کو قائم کرو اور حق پر مبنی بیان دو۔ ہم نے جو اپنا فرض تھا پورا کیا ہے اور کرتے رہیں گے۔ اب کسی کی یہ مرضی ہے چاہے وہ اس کو سمجھے یا نہ سمجھے لیکن ہم نے بہرحال امت مسلمہ کو دعاؤں میں نہیں بھولنا۔ اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے کہ یہ آنحضرتﷺکے غلام صادق کو بھی پہچان لیں اور دنیا کو عمومی طور پر بھی سوچنا چاہئے کہ ایسی باتیں اگر خدا سے دور ہٹتے چلے گئے وہ تو ان کی تباہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور ہم نے عمومی طور پر ہم نے بھی یہ کوشش کرنی ہے کہ دنیا کو اللہ تعالیٰ کی توحید کے نیچے لائیں۔ آنحضرتﷺکے جھنڈے کے نیچے لانا یہی تحریک جدید کا مقصد بھی ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی عطا فرمائے اس کے علاوہ دنیا کے عمومی حالات کے لئے بھی دعا کریں۔ بڑی تیزی سے اس طرف بڑھ رہے ہیں اس بیماری سے جب جان چھوٹے تو یہ نہ ہو کہ ایک اور آفت جنگ عظیم کی صورت میں ان پر نازل ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو عقل اور سمجھ دے اور خدائے واحد کو پہچان کر اس کا حق ادا کرنے والے بنیں۔‘‘ (آمین)

پچھلا پڑھیں

آج کی دعا

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ