• 26 اپریل, 2024

Check Your Fuel

چند دن ہوئے خاکسار اپنے بیٹے عزیزم سعید الدین احمد واقف زندگی کے ساتھ یوکے کی ایک مشہور و معروف سڑک A3 پر سفر کر رہا تھا۔ اچانک میری نظر ایک سائن بورڈ پر پڑی جس پر لکھا تھا کہ

Check your fuel

میں نے بیٹے سے اس بورڈ کی وجہ تسمیہ دریافت کی تو پتہ چلا کہ آگے چند میٹر پر پٹرول پمپ (گیس اسٹیشن) آنے والا ہے۔ اپنی گاڑی کا فیول چیک کرنے کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے۔

میں نے بیٹے سے کہا کہ پٹرول پمپ کی Advertisement کا ایک اچھا، پیارا اور اچھوتا انداز ہے۔ بیٹا مجھے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔

پاپا! آپ اس پر اداریہ بھی لکھ سکتے ہیں۔رمضان قریب آ رہا ہے وہ بھی ایک قسم کا روحانی پٹرول پمپ ہے۔ جہاں سے ایک مومن اپنے لیے فیول کا انتظام کرتا ہے۔ لہٰذا ہم سب کو رمضان کے آنے سے قبل اپنی روحانیت، نیکی کا معیار، تقویٰ اور دیگر نیکیوں اور حسنات کے میٹر کے گیج کو چیک کرنا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمیں کس حد تک اپنے اندر مزید تقویٰ، اخلاص، اپنے دین سے محبت، پیارے رسول حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت اور خلافت کے مقام کو سمجھنے اور اپنے اندر دلوں میں اس کو جگہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ مضمون ہے جس کو خاکسار نے گزشتہ سال رمضان میں ایک سپر اسٹور پر جگہ جگہ لکھے اس فقرہ کو موضوع بنا کر بیان کیا تھا کہ When its gone, its gone یعنی ابھی یہ اشیاء خرید لو اگر یہ اشیاء چلی گئیں یعنی فروخت ہو گئیں تو پھر آپ کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ اس اداریہ کو اس لنک پر دیکھا جا سکتا ہے۔

https://www.alfazlonline.org/02/06/2021/37260/

جس میں خاکسار نے بیان کیا ہے کہ یہ رمضان جب گزر گیا تو گزر جائے گا پھر آپ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔

بانی اسلام حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم جن پر رمضان کے مبارک مہینہ کے متعلق آیات قرآنیہ نازل ہوئیں اور رمضان کے مقدس مہینہ کی اہمیت اور افادیت آپؐ پر عیاں تھی اور آپؐ روزے رکھ کر اپنے روحانی معیار کو بڑھاتے رہتے تھے۔ آپ کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ جب رمضان آتا تو

1۔ آپؐ کمر کس لیتے۔ بغرض پریکٹس ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے۔
2۔ آپؐ اپنے گھر میں اہل خانہ کے ساتھ، اپنی دیگر محافل میں روزہ کی اہمیت، افادیت اور روزہ کی برکات پر گفتگو فرماتے تا روزوں کے لیے عزم باندھے جا سکیں اور اپنا محاسبہ کیا جا سکے۔آپؐ کی تقلید میں رمضان کی برکات و حسنات سے وافر حصہ لینے کے مضبوط اردے کیے جا سکیں۔

رمضان کے حوالہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ احباب جماعت کو اپنے اپنے جائزے لینے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’رمضان کے اس خاص ماحول میں ہمیں یہ جائزے لینے چاہئیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں کو کس حد تک اپنی زندگیوں کا حصہ بنا رہے ہیں۔ اگر یہ نہیں تو ہمارے یہ زبانی دعوے ہوں گے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں کو قبول کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار حکم دئیے ہیں ہمیں ہمیشہ ان حکموں کو سامنے لاتے رہنا چاہئے تاکہ اصلاح نفس کی طرف ہماری توجہ رہے۔‘‘

(الفضل آن لائن 10؍دسمبر 2022ء صفحہ9)

پھر اس سلسلہ میں آپ ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہمیں اس بات کو جاننے کی ضرورت ہے اور جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہم دیکھیں کہ ہم میں سے کتنے ہیں جنہیں یہ شوق ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ رمضان میں ایک مہینہ نہیں یا ایک مرتبہ اعتکاف بیٹھ کر پھر سارا سال یا کئی سال اس کا اظہار کر کے نہیں بلکہ مستقل مزاجی سے اس شوق اور لگن کو اپنے اوپر لاگو کر کے، تا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب مستقل طور پر حاصل ہو،ہم میں سے کتنے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ پیار کا سلوک کرتے ہوئے دعاؤں کی قبولیت کے نشان دکھاتا ہے، اُن سے بولتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان کر یہ معیار حاصل کرنا یا حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہر احمدی کا فرض ہے۔‘‘

(الفضل آن لائن 26؍نومبر 2022ء صفحہ9)

حضور انور فرماتے ہیں کہ:
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا اللہ تعالیٰ کو اس چیز کی قطعاً ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔

(صحیح بخاری کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور والعمل بہ فی الصوم حدیث نمبر 1903)

پھر ایک روایت ہے کہ روزہ ڈھال ہے جب تک کہ وہ اس ڈھال کو جھوٹ اور غیبت کے ذریعے نہیں پھاڑتا۔

(الجامع الصغیر للسیوطی حرف الصاد حدیث نمبر 5197 جزء اول و دوم صفحہ 320 دارالکتب العلمیة بیروت ایڈیشن 2004ء)

کیونکہ روزہ تو ایک مومن رکھتا ہے۔ جب جھوٹ آگیا تو ایمان تو ختم ہو گیا۔ خدا تعالیٰ کی خاطر روزہ رکھا جاتا ہے۔ جب جھوٹ آگیا تو خدا تعالیٰ تو بیچ میں سے نکل گیا۔ تب تو شرک پیدا ہو گیا۔ اس لئے روزہ بھی ختم ہو گیا۔ یہ تو خاص روزے کے حالات کے لئے ہے۔ لیکن عام حالات میں بھی جیسا کہ مَیں نے پہلے بیان کیا جھوٹ کو شرک کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ پس اس رمضان میں اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی بعض کمزوریوں کا جائزہ لے کر انہیں دور کرنے کی کوشش کریں تبھی ہم اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بن سکتے ہیں۔ ایمان میں مضبوطی کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی باتوں پر لبیک کہنے والے بن سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اِنِّیْ قَرِیْبٌ کی آواز کو سن سکتے ہیں۔‘‘

(الفضل آن لائن 11؍اکتوبر 2022ء اپنے جائزے لیں قسط 7)

پھر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اس رمضان میں یہ جائزہ لینا چاہئے کہ گزشتہ رمضان میں جو منزلیں حاصل ہوئی تھیں کیاان پر ہم قائم ہیں۔ کہیں اس سے بھٹک تو نہیں گئے۔ اگر بھٹک گئے تو رمضان نے ہمیں کیا فائدہ دیا اور یہ رمضان بھی اور آئندہ آنے والے رمضان بھی ہمیں کیا فائدہ دے سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے کہ اگر یہ فرض روزے رکھو گے تو تقویٰ پر چلنے والے ہو گے، نیکیاں اختیار کرنے والے ہو گے، اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہو گے۔ لیکن یہ کیا ہے کہ ہمارے اندر تو ایسی کوئی تبدیلی نہیں آئی جس سے ہم کہہ سکیں کہ ہمارے اندر تقویٰ پیدا ہو گیا ہے۔یہ بات تو سو فیصد درست ہے کہ خداتعالیٰ کی بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی۔ بندہ جھوٹا ہو سکتا ہے اور ہے۔ پس یہ بات یقینی ہے کہ ہمارے اندر ہی کمزوریاں اور کمیا ں ہیں یا تو پہلے رمضان جتنے بھی گزرے ان سے ہم نے فائدہ نہیں اٹھایا، یا وقتی فائدہ اٹھایا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں سے چلے تھے۔ حالانکہ چاہئے تو یہ تھاکہ تقویٰ کا جو معیار گزشتہ رمضان میں حاصل کیا تھا، یہ رمضان جو اَب آیا ہے، یہ ہمیں نیکیوں میں بڑھنے اور تقویٰ حاصل کرنے کے اگلے درجے دکھاتا۔

(اپنے جائزے لیں، الفضل آن لائن 27؍اگست2022ء)

الغرض ہم سب کو اپنے جائزے لیتے ہوئے اپنا محاسبہ و محاکمہ کرتے ہوئے رمضان میں داخل ہونا ہے تاہم ان شرائط کے تحت روزوں کے حقوق ادا کر سکیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے مستحق ٹھہریں۔ اللہ تعالیٰ آنے والے رمضان کو ہم سب کے لیے، جماعت کے لیے، امت مسلمہ کے لیے رحمتوں، برکتوں کا موجب بنائے۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام پیغام

اگلا پڑھیں

فی امان اللہ