• 17 مئی, 2024

رمضان کا مہینہ اور قرآن کریم کی خاص نسبت

رمضان کے مہینے کو قرآن کریم سے ایک خاص نسبت ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا جو مَیں نے تلاوت کی ہے کہ شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ۔ یہ فرما کر واضح فرما دیا کہ رمضان کے مہینے کے روزے یونہی مقرر نہیں کر دئیے گئے۔ بلکہ اس مہینے میں قرآن کریم جیسی عظیم کتاب آنحضرتﷺ پر نازل ہوئی یا اس کا نزول ہونا شروع ہوا۔ اور احادیث میں ذکر ملتا ہے کہ جبریلؑ ہر سال رمضان میں آنحضرتﷺ پر قرآن کریم کا جو حصہ اُترا ہوتا تھا اس کی دوہرائی کرواتے تھے۔

(صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن باب کان جبریل یعرض القرآن علی النبیؐ حدیث 4997-4998)

پس اس مہینے کی اہمیت اس بات سے بڑھ جاتی ہے کہ خداتعالیٰ کی آخری اور کامل شریعت اس مہینے میں نازل ہوئی، یا اس کا نزول شروع ہوا۔ پس اللہ تعالیٰ نے جب ہمیں روزوں کا حکم دیا تو پہلے یہ فرمایا کہ روزے تم پر فرض کئے گئے ہیں اور پھر یہ ہے کہ دعاؤں کی قبولیت کی خوشخبری دی۔ اس کے بعد کی جو آیات ہیں ان میں پھر بعض اور احکام جو رمضان سے متعلق ہیں وہ دئیے۔ اور یہ واضح فرما دیا کہ روزے رکھنا اور عبادت کرنا صرف یہی کافی نہیں ہے، بلکہ اس مہینے میں قرآن کریم کی طرف بھی تمہاری توجہ ہونی چاہئے۔ اس کے پڑھنے کی طرف تمہاری توجہ ہونی چاہئے۔ روزوں کی اہمیت اس لئے ہے اور اس لئے بڑھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں انسان کامل پر اپنی آخری اور کامل شریعت نازل فرمائی جو قرآن کریم کی صورت میں نازل ہوئی۔ خداتعالیٰ کا قرب پانے اور دعاؤں کے اسلوب تمہیں اس لئے آئے کہ خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں وہ طریق سکھائے جس سے اس کا قرب حاصل ہو سکتا ہے اور دعاؤں کی قبولیت کے نشان ظاہر ہوتے ہیں۔ پس اس کتاب کو پڑھنا بھی بہت ضروری ہے۔ رمضان میں اس کی تلاوت کرنا بھی بہت ضروری ہے تاکہ سارا سال تمہاری اس طرف توجہ رہے۔ آنحضرتﷺ کے آخری رمضان میں جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو دو مرتبہ قرآن کریم کا دور مکمل کروایا۔

(صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن باب کان جبریل یعرض القرآن علی النبیؐ حدیث 4997-4998)

پس اس سنت کی پیروی میں ایک مومن کو بھی چاہئے کہ دو مرتبہ قرآن کریم کا دور مکمل کرنے کی کوشش کرے۔ اگر دو مرتبہ تلاوت نہیں کر سکتے تو کم از کم ایک مرتبہ تو خود پڑھ کر کریں۔ پھر درسوں کا انتظام ہے، تراویح کا انتظام ہے، اس میں (قرآن) سنیں۔ بعض کام پہ جانے والے ہیں کیسٹ اور CDs ملتی ہیں ان کو اپنی کاروں میں لگا سکتے ہیں، سفر کے دوران سنتے رہیں۔ اس طرح جتنا زیادہ سے زیادہ قرآن کریم پڑھا اور سنا جا سکے، اس مہینے میں پڑھنا چاہئے اور سننا چاہئے۔

اور پھر صرف تلاوت ہی نہیں بلکہ اس کے اندر بیان کردہ احکامات کی تلاش کرنی چاہئے۔ پھر سارا سال اُن تلاش شدہ احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پھر ان حکموں کے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تبھی رمضان کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے اور روزوں اور عبادتوں کا حق بھی ادا ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر یہ نہیں پتہ کہ جو کام کر رہا ہوں اس کا مقصد کیا ہے اور کیوں خداتعالیٰ نے احکامات دئیے ہیں توان اعمال کے حق ادا نہیں ہو سکتے۔ بلکہ اعمال کا بھی پتہ نہیں چل سکتا کہ کیا کرنا ہے۔ اگرصرف یہی سنتے رہیں کہ تقویٰ پر چلو اور اعمال صالحہ بجا لاؤ اور یہ پتہ نہ ہو کہ تقویٰ کیا ہے اور اعمال صالحہ کیا ہیں تو یہ تو دیکھا دیکھی ایک نظام چل رہا ہے رمضان کے دنوں میں یا عام تقریریں سن لِیں، آگے چلے گئے، خطبات سن لئے، چلے گئے۔ ایک کام تو ہو رہا ہو گا لیکن اس کی روح کا پتہ نہیں چلے گا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حقیقی مسلمان وہ ہیں جو اَلَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ یَتۡلُوۡنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ (البقرہ: 122) یعنی وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی اس کی اس طرح تلاوت کرتے ہیں جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے۔ یعنی غور بھی باقاعدگی سے ہو۔ اور غور بھی اچھی طرح ہو تلاوت میں بھی باقاعدگی رہے اور پھر جو پڑھا یا سنا اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی ہو۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 4ستمبر 2009ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

رمضان کے دوسرے عشرہ مغفرت اور اس میں بخشش طلب کرنے کی مناسبت سے حضرت مسیحِ موعودؑ کی دعائیں

اگلا پڑھیں

فقہی کارنر