• 15 جولائی, 2025

’’خدمت دین کو اک فضل الٰہی جانو‘‘

انسان کی فطرت میں جہاں ایک طرف اپنے خالق کی جستجو کی خواہش رکھی گئی ہے وہاں دوسری طرف تسکین کی جستجو بھی پائی جاتی ہے۔ اور ان میں ایک نسبت یہ ہے کہ اگر اپنے پیدا کرنے والے سے تعلق قائم ہوجائے تو سکون خود بخود نصیب ہو جاتا ہے۔ مگر دنیوی خواہشات اور بےجا مصروفیات کی وجہ سے جہاں وہ اپنے پیدا کرنے والے کو بھول جاتا ہے وہاں بے سکونی کا شکار بھی رہتا ہے۔ پھر سکون کے حصول کے لئے تو نت نئے نئے طریقے ڈھونڈتا رہتا ہے۔ قدرت اس کی مدد بھی کرتی ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جتنی بھی مادی ترقی اور ایجادات ہوئی ہیں وہ اسی سکون اور آسانیوں کی تلاش میں ہی ہوئی ہیں۔ اس طرح ظاہری سکون تو شاید مل جاتا ہو مگر چونکہ خالق سے تعلق کی کوشش نہیں کرتا اس لئے حقیقی اور دائمی سکون سے محروم رہتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان بھی عمومی طور پر بے چینیوں کا شکار ہیں۔ حالانکہ وہ اپنے خالق سے تعلق کے دعوے دار ہیں، ان کے پاس قران کریم بھی ہے جس میں اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ ﴿۲۹﴾ کی تعلیم بھی ہے۔ لوگ ظاہری طور پر ذکر بھی کرتےہیں مگر پھر بھی سکون سے محروم ہیں۔ ہسپتال میں کام کے دوران اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جتنا ایک مسلمان اپنی بیماری سے بے چین ہوجاتا ہے اتنے دوسرے لوگ عموماً نہیں ہوتے۔ اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ ان کا ذکر ظاہری زبان سے آگے نہیں جاتا۔

پھر ہم احمدی مسلمان ہیں، دوسروں سے اپنے آپ کو بہتر سمجھتے ہیں۔ مگر ہم بھی بہت سی کمزوریوں کا شکار ہیں۔ ہمیں بھی دیکھنا ہے کہ کیا ہم اللہ اور اس کے رسول کی تعلیم پر اس طرح عمل کررہے ہیں کہ جس طر ح عمل کرنے کا حق ہے۔ کیا ہمیں حقیقی سکون حاصل ہے۔

ایک حقیقی مومن کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق قائم ہوجائے، اس کا قرب مل جائے۔اسکی محبت نصیب ہو۔ پھر ہر مومن ان ہستیوں سے بھی محبت کرتا ہے جنہوں نے خدا تعالیٰ کا پتا دیا۔ اسکی راہ دکھانےمیں انسان کی راہنمائی کی۔ میری مراد انبیاء علیہ السلام ہیں۔ خاتم النبین حضرت محمد مصطفٰے ﷺ ہیں۔ اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعو د علیہ السلام ہیں۔

ہم میں سے بعض کی یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ کاش ہم آنحضورﷺ کے زمانے میں ہوتے یا پھر حضرت مسیح موعود ؑ کے وقت میں ہوتے اور براہ راست نبی سے فیض پاتے، صحابہ میں شمار ہوتے۔ اور انکی طرح قربانیوں کا موقع پاتے، دین کی خوب خدمت کرتے، ذکر کے اعلیٰ معیار پر ہوتے اور اس کا قرب پاکر اطمینان قلب پاتے۔ اب ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ ہم مادی طور پر اس زمانے میں جاسکیں۔ مگر تاریخ کے تناظر میں ایک خوش خبری میں آپ کو دے سکتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ انسان کو قرب الٰہی اور سکون قلب کے حصول کے مواقع عطا فرماتا ہے جن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اپنی اصلاح کر سکتا ہے۔ پہلے لوگوں کی طرح وہ قربانیاں پیش کرسکتا ہے اور اسی طرح دین کی خدمت کر سکتا ہے جنہیں وہ پہلے زمانہ کے لوگوں پر رشک کرتے ہوئے حسرت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ عموماً انسان ایسے موقعوں سے فائدہ نہیں اٹھاتا۔ خدمت اور قربانی کا وقت آتا ہے تو اس سے گریز کرتا ہے۔ اور اس طرح ذکر الٰہی بھی اس طرح نہیں کرتا جس طر ح اس کے کرنے کا حق ہے۔ وقت گذر جاتا ہے اور پھر انسان بعد میں اس وقت کو حسرت کی نظر سے دیکھتا ہے کہ کاش ان موقعوں سے فائدہ اٹھا لیا ہوتا مگر جیسے کہ آپ جانتے ہیں وہ وقت پھر ہاتھ نہیں آتا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’تمہیں خوش خبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے۔ ہر ایک قوم دنیا سے پیار کررہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اس کی طرف دنیا کی توجہ نہیں۔ وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازے میں داخل ہونا چاہتے ہیں ان کے لئے موقع ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویں۔‘‘

(الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ309-308)

اب ہم اس پر مزید غور کرتے ہیں کہ ’’دین کی خدمت‘‘ کیا ہے۔ دراصل دین کی خدمت تو یہی ہے کی اس کی ضرورتوں اور اسکے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر طرح کی قربانی دی جائے جس میں جان، مال، وقت، اولاد اور نفس کی قربانی شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطرپہلے خود اللہ کے تمام حکموں پر عمل کرنا اور پھر دوسروں کو اس کی ترغیب دینا ہی دین کا بنیادی تقاضہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مومنوں کی نشانی یہ بھی بتائی ہے کہ وَمِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۙ﴿۴﴾ یعنی ہم نے جو کچھ بھی ان کو عطا کیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اس میں صرف مال کی بات نہیں بلکہ ہر وہ نعمت شامل ہے جو اللہ نے عطا کی ہے۔ اس میں علم بھی ہے، وقت بھی ہے، اولاد بھی ہے۔ ا للہ تعالیٰ کی عطا کردہ تمام نعمتوں اور صلاحیتوں کے شکر کا بہترین طریق بھی یہی ہے کہ انہیں خدا کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ دوسروں کی خدمت کی جائے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی اپنی زندگی بڑھانا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ نیک کاموں کی تبلیغ کرے اور مخلوق کو فائدہ پہنچاوے۔

اب خدمت دین کا یہ کام اجتماعی طور پر بھی ہو سکتا ہے اور انفرادی طور پر بھی ہوسکتا ہے۔ اجتماعی طور پر مختلف تنظیموں کا قیام ہے جیسے مجلس انصاراللہ، خدام الاحمدیہ، لجنہ اماءاللہ وغیرہ اور ان کے عہدیداران ہیں۔ پھر واقفین زندگی کا نظام ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے پاس خلافت کے سائے میں دین کی خدمت کے لئے ایک مربوط نظام قائم ہے جس سے دوسرے محروم ہے۔ اور یہ خلافت ہی ہے کہ جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ خوف کی حالت کو امن میں بدل دیتا ہے۔

انفرادی طور پر اپنی حالتوں کو بہتر بنانا، اپنا ہر کام ایمانداری سے کرنا اور ہر کام کرتے وقت یہ مد نظر رکھنا کہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔ غرض اگر انسان کے دنیوی امور بھی اللہ کے حکموں کے ماتحت ہوں تو یہ امور بھی عبادت بن جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی رضا کا باعث ہو جاتے ہیں۔ کسی بزرگ نے اپنے بیٹے کو کسی دوسری جگہ تبلیغ کے لئے بھیجا تو یہ نصیحت کی کہ کوشش کرنا کہ تبلیغ کے لئے الفاظ اور دلائل پیش نہ کرنے پڑیں۔ (یعنی لوگ آپ کے اخلاق اور کردار سے متاثر ہوں)۔

اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم پہلے خود عباد الرحمٰن کی صفات پیدا کریں پھر اسکی تعلیم دوسروں کو دیں۔ خود قول سدید سے کام لیں، دوسروں کے حق کا خیال رکھیں، انکے کام آئیں، بے حیائی کی باتوں سے بچیں، یتیم کے مال کا خیال کریں، عدل وانصاف کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ ہماراناپ تول درست ہو، زمین پر اکڑ کر نہ چلیں، وہ موقف اختیار نہ کریں جس کا ہمیں کوئی علم نہیں، ہر کام میں خدا تعالیٰ کی رضامندی پیش نظر رکھیں۔

اگر ہم حقیقی سکون کی تلاش میں ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہوں پر چلنے سے ہی حاصل ہوتا ہے جن میں سے ایک راہ خدمت دین ہے۔ اللہ تعالیٰ جس سے محبت کرتا ہے اسےدین کی خدمت کے لئے چن لیتا ہے۔ یعنی یہ قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔ اور یہ محض اس کا فضل ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ المائدہ آیت 55میں فرماتا ہے

ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ۔ یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ جب خدا ہی کسی کو اسکی توفیق دیتا ہے تو پھر ہمیں چاہیئے کہ ہم اسی سے ہی اسکی توفیق بھی مانگیں۔ اسی طرح ہم اسکے انعامات کے امیدوار بن سکتے ہیں۔

خدمت دین کا اجر

سورۃ النساء آیات 96-97 میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کے دو گروہوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

لَا یَسۡتَوِی الۡقٰعِدُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ غَیۡرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالۡمُجٰہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِہِمۡ وَاَنۡفُسِہِمۡ ؕ فَضَّلَ اللّٰہُ الۡمُجٰہِدِیۡنَ بِاَمۡوَالِہِمۡ وَاَنۡفُسِہِمۡ عَلَی الۡقٰعِدِیۡنَ دَرَجَۃً ؕ وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الۡحُسۡنٰی ؕ وَفَضَّلَ اللّٰہُ الۡمُجٰہِدِیۡنَ عَلَی الۡقٰعِدِیۡنَ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿ۙ۹۶﴾ دَرَجٰتٍ مِّنۡہُ وَمَغۡفِرَۃً وَّرَحۡمَۃً ؕ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۹۷﴾

’’مومنوں میں سے بغیر کسی بیماری کے گھر بیٹھ رہنے والے اور (دوسرے) اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور جانوں کے ذریعہ جہاد کرنے والے برابر نہیں ہوسکتے۔ اللہ نے اپنے اموال اور جانوں کے ذریعہ جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر ایک نمایاں مرتبہ عطا کیا ہے۔ جبکہ ہر ایک سے اللہ نے بھلائی کی ہی وعدہ کیا ہے۔ اور اللہ نے مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر ایک اجر عظیم کی فضیلت عطا کی ہے۔ (یہ) اس کی طرف سے درجات اور بخشش اور رحمت کےطور پر (ہے)۔ اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔‘‘

ان آیات سے یہ بڑا واضح طور پر تا چلتا ہے کہ ویسے تو اللہ تعالیٰ نے سب مومنین سے حسن سلوک کا وعدہ فرمایا ہے لیکن مجاہدین کے ساتھ جو غیر معمولی فضلوں کا سلوک ہے اس کی بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ کوئی نسبت نہیں۔ اب آج جب کہ رسول کریم ﷺ کے دور کی طرح تلوار کے جہاد کا زمانہ تو نہیں رہا مگر ہمیں کئی قسموں کے جہاد کا سامنا ہے۔ اس میں ایک قلم کا جہاد کا ہے، دین کی تبلیغ کا جہاد ہے، برائیوں سے بچنے کا جہاد ہے، تربیت اولاد اور سب سے بڑھ کر اپنے نفس کا جہاد ہے۔ تو وہ لوگ جو ایسے جہاد میں شامل ہونگے اللہ تعالیٰ انہیں بھی غیر معمولی فضلوں سے نوازے گا۔ اللہ تعالیٰ ایسے مجاہدین کو بھی اجر عظیم عطا فرمائے گا، درجات بلد کرے گا، اور ان کے ساتھ بخشش اور رحمت کا سلوک فرمائے گا۔ ان کے اعمال بہتر ہوجائیں گے اور انہیں روح کا سکون بھی نصیب ہوگا۔ اس سے زیادہ تو کوئی اجر ہو نہیں سکتا۔

حضرت مسیح موعود ؑ نےفرمایا ہے۔
’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک قدر منزلت اسی شخص کی ہے جو دین کا خادم اور نافع الناس ہو۔ ورنہ وہ کچھ پرواہ نہیں کرتا کہ لوگ کتوں اور بھیڑوں کی موت مر جاویں‘‘

(الحکم 7 فروری 1936ء)

اب یہ بھی دیکھنے کی بات ہے کہ جن لوگوں نے خدمت دین کی انکے ساتھ اور انکی نسلوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کیا واقعی ایسا سلوک کیا۔ جماعت میں ایسی سینکڑوں مثالیں ملتی ہیں کی جن بزرگوں نے اپنی زندگی خدمت دین میں گذاری انکی نسلیں آج تک اس کا پھل کھا رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی کا احسان نہیں رکھتا اور جب بھی کوئی خلوص نیت کے ساتھ خدا کے دین کی خدمت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سب کاموں کا ذمہ خود لے لیتا ہے۔ اور غیب سے اسکی مدد کرتا ہے۔ اس کی صلاحیتوں کو بڑھا دیتا ہے۔ اور اسکی نسلوں تک کو جزا دیتا ہے۔ سننے والوں میں بہت سے اس چیز کے خود تجربہ کار ہیں۔

اب ہم میں سے ہر ایک کو اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ ہم دین کی خدمت کے جہاد میں کس حد تک اپنا حصہ ڈال رہے ہیں؟

•ہم میں سے اکثر تو اللہ کے فضل سے دین کی خدمت کو ترجیح دیتے ہیں۔ آراموں کو پس پشت ڈال کر اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔ دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہیں۔

ہم میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اس قابل نہیں کہ دین کی خدمت کرسکیں۔ اتنے پڑھے لکھے نہیں۔ آج کل کےزمانہ میں کمپیوٹر وغیرہ پر کام نہیں کرسکتے۔ مگر مشاہدہ بتاتا ہے کہ جو بھی خلوص نیت سے کام شروع کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی صلاحیتوں کو جلاء بخشتا چلا جاتا ہے، کمزوریوں کو دور کردیتا ہے۔ اور اس کی توفیق بڑھا دیتا ہے۔

بعض خدمت دین کی خواہش رکھنے کے باوجود اپنی صحت کے مسائل کی وجہ سے اس سے محروم رہتے ہیں۔ مگر وہ بہرحال دعاؤں سے مدد کرتے ہیں۔

پھر شیطان بھی انسان کے پیچھے لگا ہوا ہے اور اسکے اعمال کو اسی کے ہاتھوں ضائع کر وانے کی کوشش کرتا ہے۔ مثلاً جب کوئی اپنی خدمت کے بدلے میں یہ چاہتا ہے کہ اسکو فوری بدلہ دیا جائے، خاص سلوک کیا جائے تو بعض دفعہ وہ اپنی خدمت ضائع کررہا ہوتا ہے۔ بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی عہدہ یا خدمت تو ہوتی ہے مگر وہ سستی کی وجہ سے اس کا حق ادا نہیں کرتے۔اور اس شعبہ کا کام اسطرح نہیں ہو رہا ہوتا۔

پھر ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہم کہیں ان لوگوں میں تو شامل نہیں جن کو لگتا ہے کہ ان کا وقت دینوی کاموں کے لئے بڑا قیمتی ہے اور دین کے کاموں کو معمولی سمجھ رہے ہوتے ہیں اور اپنی مصروفیت کا بہانا بناتے ہیں۔ اکثر اوقات ا یسی سوچ رکھنے والوں کا وقت غیر ضروی کاموں میں ضائع ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ کئی قسم کی چٹیوں میں پڑ جاتے ہیں۔

پھر بعض اسکے برعکس یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہی دین کی خدمت کرسکتے ہیں۔ ہم میں ہی وہ قابلیت اور اہلیت ہے۔ اس طرح تکبر کا شکار ہوکر اپنے اعمال ضائع کر دیتے ہیں۔ دین کے کام سے تو عاجزی آنی چاہیے۔ اگر دین کی خدمت میں ریاکاری کا پہلو شامل ہو جائے مثلاً اگر نیت یہ ہو کہ لوگ اسے عالم کہیں، بزرگ سمجھیں اور اس کی عزت کریں۔ تو ایسے لوگ اپنی خدمت خود ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔

اگر کوئی دین کی خدمت کرکے یہ سمجھتا ہے کہ گویا وہ اللہ تعالیٰ پر احسان کررہا ہے۔ تو اللہ کو تو دین کی خد مت کے لئے بندوں کی کمی نہیں۔ اور اگر ایک بندہ بھی خدمت کرنے ولا نہ ہو تو جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ وہ ایک نئی ایسی قوم لے آئے گا ہے جس سے وہ محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتی ہوگی۔ دین کا کام تو چلتا رہے گا۔ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں خدمت دین کی توفیق دے رہا ہے تو یہ محض اس کا فضل ہے۔ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ

بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ کسی عہدہ دار کے رویہ سے یا کسی اور وجہ سے ٹھوکر کھا کر اپنے آپ کو الگ کرلیتے ہیں۔ دراصل وہ نہ صرف اپنا نقصان کرتے ہیں بلکہ اپنی اولاد کو بھی دین سے دور کرنے والے ہوتے ہیں۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بھی بار بار عہدہ داران کو اپنے رویوں کی اصلاح کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں۔

خدمت دین دراصل اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کرنی چاہیئے اور اس راہ میں اگر نفس کی قربانی بھی دینی پڑے تو اس سے گریز نہیں کرنا چاہیئے۔

حضرت مصلح موعود ؓاپنے بیٹے مرزا مبارک احمد صاحب کو ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں۔
’’اللہ تعالیٰ کسی کا رشتہ دار نہیں۔ وہ ہستی لَمۡ یَلِدۡ ۬ۙ وَلَمۡ یُوۡلَدۡ ہے۔ اسکا تعلق ہر ایک سے اس احساس کے مطابق ہوتا ہے جو اس کے بندے کو اسکے متعلق ہو۔ جو اس سے سچی محبت رکھتا ہے وہ اس کے لئے اپنے نشانات دکھاتا ہے اور اپنی قدرت ظاہر کرتا ہے۔ دنیا کا کوئی قلعہ، کوئی فوج انسان کو ایسا محفوظ نہیں کرسکتا جس قدر کہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور اس کی امداد۔ کوئی سامان ہر وقت میسر نہیں آسکتا لیکن اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور اس کی امداد۔ کوئی سامان ہر وقت میسر نہیں آسکتا لیکن اللہ تعالیٰ کی حفاظت ہر وقت میسر آتی ہے۔ پس اسی کی جستجو انسان کو ہونی چاہئے۔ جسے وہ مل گئی اسے سب کچھ مل گیا، جسے وہ نہ ملی اسے کچھ بھی نہ ملا۔‘‘

(یادوں کے دریچےصفحہ38)

آخر میں حضرت مسیح موعود ؑ کے اس اقتباس پر اپنی گذارشات کو ختم کرتا ہوں۔ حضور فرماتے ہیں:
’’اب وقت تنگ ہے۔ میں بار بار یہی نصیحت کرتا ہوں کہ کوئی جوان یہ بھروسہ نہ کرے کہ اٹھارہ یا انیس سال کی عمر ہے اور ابھی بہت وقت باقی ہے۔ تندرست اپنی تندرستی پر ناز نہ کرے۔ اسی طرح اور کوئی شخص جو عمدہ حالت رکھتا ہے وہ اپنی وجاہت پر بھروسہ نہ کرے۔ زمانہ انقلاب میں ہے۔ یہ آخری زمانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ صادق اور کاذب کو آزمانا چاہتا ہے۔ اس وقت صدق وفا کے دکھانے کا وقت ہے اور آخری موقع دیا گیا ہے۔ یہ وقت پھر ہاتھ نہ آئے گا۔ یہ وہ وقت ہے کہ تمام نبیوں کی پیشگوئیاں یہاں آکر ختم ہو جاتی ہیں۔ اس لئے صدق اور خدمت کا آخری موقع ہے جو نوع انسان کو دیا گیا ہے۔ اب اس کے بعد کوئی موقع نہ ہوگا۔ بڑا ہی بد قسمت وہ ہے جو اس موقع کو کھو دے۔ نرا زبان سے بیعت کا اقرار کرنا کچھ چیز نہیں بلکہ کوشش کرو اور اللہ سے دعائیں مانگو کہ و ہ تمہیں صادق بنا دے۔ اس میں کاہلی اور سستی سے کام نہ لو بلکہ مستعد ہوجاؤ اور اس تعلیم پر جو میں پیش کر چکا ہوں عمل کرنے کو کوشش کرو اور اس راہ پر چلو جو میں نے پیش کی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد6 صفحہ263-264 ایڈیشن 1984ء)

پھر حضور اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:

اے دوستو پیارو عقبیٰ کو مت بسارو
کچھ زاد راہ لے لو کچھ کام میں گذارو
دنیا ہے جائے فانی دل سے اسے اتارو
یہ روزکر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانیِ

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم اپنی اصلاح کرنے والے ہوں۔ اللہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو ایمان اور یقین میں بڑھاتا چلا جائے۔ مقبول خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری کمزوریوں اور کوتاہیوں کی پردہ پوشی فرمائے۔ آمین۔

(ڈاکٹر احمد رضوان صادق۔صدر مجلس انصار اللہ ناروے)

پچھلا پڑھیں

دعا کی تازہ تحریک

اگلا پڑھیں

فقہی کارنر