یہ مثل ہمیشہ سے مشہور ہے کہ حقیقی عاشق اپنے عشق کی انتہاء تب پاتا ہے جب وہ اپنے معشوق کے رنگ میں اس قدر ترقی کرلے کہ اسکے اور اسکے معشوق کہ درمیان فرق کرنا نا ممکن ہوجائے۔ دنیانے ایسے عشقِ حقیقی کی صرف ایک ہی اعلیٰ ترین مثال کا مشاہدہ کیا۔ ایسا عاشق جس کو اس کے معشوق نے خود انسان کامل قرار دیا۔ وہ انسان کامل جس نے ہر صفت، ہر جزبہ اور تمام قویٰ کا استعمال اخلاق کے بلند ترین مقام کو پاتے ہوئے کیا۔ اور ہر حال میں یہ چاہا کہ اسکی تمام زندگی اپنے معشوق یعنی اس خدائے رحیم و کریم کی صفات سے بہرہ مند ہو۔ وہ انسان کامل کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے آقا و مولیٰ محمدِ مصطفیٰ احمدِ مجتبیٰ ﷺ ہیں۔ آپﷺ نے اپنے رب کے عشق کا ایسا رنگ پکڑا کہ دنیا کی ہر دولت، ہر تعلق اور ہر آرام اس پر قربان کردیا۔ ہر مخالفت کو مول لیا اور ہر، محاز پر لڑے تا خدا کے نام کی سربلندی ہو۔ اور خدا تعالیٰ کی محبت میں ایسے سرشار ہوئے کہ حقیقی رنگ میں اسکی صفات کے مظہر بن گئے۔
خدا تعالیٰ قرآن مجید میں بارہا آپﷺ کے اعلیٰ اخلاق جو کہ اپنے اندر حقیقی خدائی رنگ رکھتے تھے کا کچھ یوں ذکر کرتا ہے:
قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ
(آل عمران: 32)
یعنی تُو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔
اور ایک اور جگہ فرمایا:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُو اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللہَ کَثِیْرًا
(الاحزاب: 22)
کہ یقیناً تمہارے لئے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے ہر اُس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتاہے۔
پس فرمانِ الہیٰ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اس اُسوۂ حسنہ پر چلنے کے بغیر مسلمان مسلمان نہیں کہلا سکتا۔ چناچہ آپﷺ کا اسوہ اور اسکی پیروی ایسا زندگی بخش جام ہے جس کو پئے بغیر الہیٰ رنگ میں رنگے جانا ممکن نہیں۔
؎محمدِؐ عَرَبی بادشاہِ ہَر دو سَرا
کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی
اُسےخدا تو نہیں کہہ سکوں پہ کہتا ہوں
کہ اُس کی مرتبہ دانی میں ہے خدا دانی
قرآن کریم کی پہلی سورت، الفاتحہ میں خدا تعالیٰ کی چار بنیادی صفات کا ذکر موجود ہے اور نبی کریم ﷺ اپنی ذات میں ان چاروں صفات کے اعلیٰ مظہر تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ اس آیت میں خدا تعالیٰ کے رب ہونے کا ذکر ہے کہ وہ تمام جہانوں، تمام مخلوقات کا رب ہے۔ اسکی ربوبیت تمام جن و انس پر قائم ہے۔ اسی طرح آپﷺ بھی اس صفت کے مظہر ہوئے، جیسا کہ خود خدائے تعالیٰ نے فرمایا وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ پس جس طرح خدا تعالیٰ کی ربوبیت نے تمام جہانوں کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ کے فیض و برکات اور آپکی تعلیمات بھی تمام انسانیت اور ہر زمانہ کے لوگوں کے لئے قابل تقلید قرار پائیں۔ آگے چل کر خدا تعالیٰ کی دو مزید صفات کا ذکر آتا ہے الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ یعنی وہ رب رحمٰن بھی ہے اور صفت رحیمیت سے بھی پر ہے۔
اگر ہم آپﷺ کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر دوڑائیں تو ہمیں آپکی زندگی کا ایک ایک لمحہ صفت رحمانیت اور رحیمیت سے پر نظر آتا ہے۔ آپکے پاکیزہ بچپن سے لے کر وفات تک آپ ہر ہر قدم پر تمام لوگوں الغرض جانوروں کے لئے بھی رحمانیت کا مجسم پیکر بنے رہے۔
خدمتِ انسانی کہ جذبہ سے سرشار آپ نے ہر خاص و عام، دوست و دشمن سب کی ہمیشہ مدد فرمائی، یہ جزبہ رحمانیت ہی تھا جس نے آپﷺ کو اس عورت کی عیادت اور مدد سے بھی نہ روک سکا جو بلاناغہ آپﷺ پر کوڑا پھینکا کرتی تھی۔ یہ رحمانیت ہی تو تھی جس کے پیش نظر آپﷺ نے اپنے پیاروں کو بے دردی سے قتل کرنے والوں کو بھی معاف فرمادیا۔ اور رحمانیت کی اعلیٰ ترین مثال اس وقت قائم فرمائی جب کہ طائف کے اوباش لڑکوں نے آپ ﷺ کو لہولہان کردیا یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی غیرت نے جوش مارا اور جبریل ؑ آپﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ کہ آپﷺ حکم دیں تو ان سنگدلوں کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس دوں مگر اس رحم اور عفو کہ پیکر نے یہ کہہ کر منع فرمادیا کہ میں انکی آنے والی نسلوں میں ایمان کی روشنی دیکھتا ہوں۔ اللہ اللہ !!!! اپنے محبوب کی صفات میں ایسے رنگے کہ پھر اپنی تکلیف کی کچھ پروا ہی نہ رہی۔
نام محمد کام مکرم ﷺ
اسکے بعد خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت کا ذکر آتا ہے۔ یہ صفت بھی ہمارے آقا محمدﷺ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ کوئی بھی ایسا شخص نہ تھا جو آپکی صحبت مبارک میں رہا ہو اور اس نے آپ ﷺ کے رحم سے حصہ نہ پایا ہو۔ رحم کی انتہاء تو آپﷺ کے طبقہ نسواں پر احسانات کی صورت میں نظر آتی ہے۔ وہ عورت جو کہ انسان کیا جانور سے بھی بدتر گمان کی جاتی تھی۔ اور ناموس تو اسکو کیا ملتی ترکہ میں بھیڑ بکری کی مانند بانٹی جاتی تھی۔ اسی عورت کے قدموں میں آپﷺ نے جنت کو رکھ دیا اور اسکو جائیداد، تعلیم، معاشرتی الغرض ہر قسم کے حقوق عطا کردئے۔ جس کا تصور بھی اس زمانہ میں بلکہ آپﷺ کے بعد صدیوں تک دنیا نہیں کرسکتی تھی۔ عورت کو جو عزت و تکریم آپﷺ کے رحم نے بخشی وہ رہتی دنیا تک آپﷺ کا اس طبقہ پر ایسا احسان رہے گاجس کی شکرگزاری مشکل ہے۔
وہ رحمت عالم (ﷺ) آتا ہے، تیرا حامی ہوجاتا ہے
تو بھی انساں کہلاتی ہے، سب حق تیرے دلواتا ہے
حضرت مسیح مہدی موعودؑ آپﷺ کے عالی مرتبہ اور اعلیٰ ترین صفات کے متعلق بیان فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ذات کے عاشقِ زار اور دیوانہ ہوئے اور پھر وہ پایا جو دنیا میں کبھی کسی کو نہیں ملا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ سے اس قدر محبت تھی کہ عام لوگ بھی کہا کرتے تھے کہ عَشِقَ مُحَمَّدٌ عَلٰی رَبِّہٖ۔ یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے رب پر عاشق ہو گیا (ہے)‘‘
(ملفوظات جلد6 صفحہ273 ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر ایک اور جگہ آپؑ فرماتے ہیں:
‘‘اور یہ کیفیت صرف دنیا میں ایک ہی انسان کو ملی ہے (یعنی وحی الٰہی کی اعلیٰ درجہ کی تجلّی کی جو کیفیت ہے وہ ایک ہی انسان کو ملی ہے) جو انسان کامل ہے جس پر تمام سلسلہ انسانیہ کا ختم ہو گیا ہے۔ اور دائرہ استعدادت بشریہ کا کمال کو پہنچا ہے (جتنی بھی انسانی طاقتیں تھیں، استعدادیں تھیں وہ کمال کو پہنچی ہیں) اور وہ درحقیقت پیدائش الٰہی کے خط ممتد کی اعلیٰ طرف کا آخری نقطہ ہے (یعنی اللہ تعالیٰ نے جو بھی انسانی پیدائش کی ہے اس کی جو انتہا ہے اگر لکیر کھینچی جائے تو اس کا آخری سرا ہے) جو ارتفاع کے تمام مراتب کا انتہا ہے۔ (جو انتہائی اونچے مقام پر پہنچا ہوا ہے۔ فرمایا کہ) حکمت الٰہی کے ہاتھ نے ادنیٰ سے ادنیٰ خلقت سے اور اسفل سے اسفل مخلوق سے سلسلہ پیدائش کا شروع کر کے اس اعلی درجہ کے نقطہ تک پہنچا دیا ہے جس کا نام دوسرے لفظوں میں محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ نہایت تعریف کیا گیا۔ یعنی کمالات تامہ کا مظہر۔ سو جیسا کہ فطرت کے رو سے اس نبی کا اعلیٰ اور ارفع مقام تھا ایسا ہی خارجی طور پر بھی اعلیٰ و ارفع مرتبہ وحی کا اس کو عطا ہوا اور اعلیٰ و ارفع مقام محبت کا ملافرمایا کہ ‘‘یہ وہ مقام عالی ہے کہ مَیں (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) اور مسیح (یعنی عیسیٰ علیہ السلام) دونوں اس مقام تک نہیں پہنچ سکتے’’
(توضیح مرام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ64)
پس آپﷺ نے صفات الہٰیہ سے جو اعلیٰ درجہ کا حصہ پایا اسکا احاطہ کرنا گو الفاظ کی قید سے آگے یہ۔ مگر یہ کہنا ہرگز غلط نہیں ہوگا کہ:
اُسےخدا تو نہیں کہہ سکوں پہ کہتا ہوں
کہ اُس کی مرتبہ دانی میں ہے خدا دانی
’’ہزاروں درود اور سلام اور رحمتیں اور برکتیں اس پاک نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوں جس کے ذریعہ سے ہم نے وہ زندہ خدا پایا‘‘
(نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد19 صفحہ363)
خدا تعالیٰ ہم سب کو محبت الہٰی میں ایسا اعلیٰ درجہ کا کردے کہ ہم بھی اپنی زندگیوں میں الہٰی صفات کو اپنانے والے بن جائیں اور اپنے آقا و متاع کہ نقش پا پر چلتے ہوئے۔ ایسے صاف اور پاک بن جائیں کہ جیسا کہ اس پیارے کی محبت کا حق ہے۔ آمین
اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ۔
(سدرۃ المنتہٰی۔ کینیڈا)