مستریوں کے فتنہ کی تاریخ
اور اس سے حاصل ہونے والے سبق
ابتدائے انسانیت سے لے کر اب تک کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہےکہ خدائی جماعتوں کو بہت سے ابتلاؤں اور آزمائشوں سے گذرنا پڑتا ہے۔معاشرے کے مختلف گروہ آپس کے اختلاف بھلا کر اس جماعت پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اسے مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ان بیرونی حملہ آوروں کے علاوہ بہت سے اندرونی فتنے کھڑے ہو کر الہیٰ جماعت کو نابود کرنے اور نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔اور یہ تمام حملے اور فتنے اصلاح کے نام پر برپا کئے جا رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ سب اس آیت کریمہ کے مطابق یہ دعویٰ پیش کر رہےہوتے ہیں
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِۙقَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ
(البقرہ: 12)
ترجمہ: اور جب انہیں کہا جاتا ہے زمین میں فساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو محض اصلاح کرنے والے ہیں۔
فتنوں کی تاریخ کا مطالعہ کیوں ضروری ہے
باقی تمام الہیٰ جماعتوں کی طرح اپنی سو سال سے زائد تاریخ میں جماعت احمدیہ کو بھی بار بار بیرونی حملوں اور اندرونی فتنوں کا مقابلہ کرنا پڑا ہے۔اس مضمون میں آج سے نوے سال قبل برپا ہونے والے ایک اندرونی فتنہ کا تاریخی جائزہ لیا جائے گا۔ کس طرح یہ فتنہ شروع کیا گیا اور کس طرح دشمنوں کی مدد سے اسے پروان چڑھایا گیا ؟ اورکس طرح خلیفہ وقت کی قیادت میں جماعت نے اس کا مقابلہ کیا؟ اور کس طرح جماعت احمدیہ کے مخالفین نے ان فتنہ پردازوں کو استعمال کر کے ایک طرف کر دیا۔ یہ واقعات جماعت کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں۔سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ آخر تقریبا نوے سال قبل ختم ہوجانے والے فتنہ کے تجزیہ کا کیا فائدہ ہے؟
اس سلسلہ میں یہ بات ذہن میں رہنی ضروری ہے کہ جماعت احمدیہ کی تاریخ کا کوئی بھی فتنہ نہ تو تاریخ کا پہلا فتنہ تھا اور نہ آخری۔ یہ سلسلہ تو تاریخ میں ہمیشہ سے جاری ہے۔ اور اکثر فتنے بہت سے پہلوؤں سے ایک دوسرے سے گہری مماثلت رکھتے ہیں۔ یہ مطالعہ کہ یہ فتنے کس طرح شروع کروائے گئے، کس کس نے کس طرح اس آگ کو بھڑکانے کی کوششیں کیں اور ان کا انجام کیا ہوا؟ ہمیں مستقبل میں اس قسم کے واقعات سے نمٹنے کے لیے تیار کرتا ہے۔
فتنہ پردازوں کا پس منظر
اس فتنہ کے بانی کا نام مستری فضل کریم تھا۔ یہ شخص اور اس کا بیٹا عبد الکریم اس فتنہ کو شروع کرنے کا باعث بنے۔ اور جماعت احمدیہ کے دشمنوں نے کچھ سال دل کھول کر ان کی مالی اور عملی مدد کی اور ہا ہا کار مچا کر ان لوگوں کو توجہ کا مرکز بنایا گیا اور پھر جیسا کہ ایسی صورت حال میں ہوتا ہے جماعت احمدیہ کے مخالف گروہ نے اس فتنہ کے بانیوں کو استعمال کر کے ان کو چھوڑ دیااور اس سازش نے ایک بیرونی حملہ کا رنگ اختیار کر لیا۔
اس فتنہ کا بانی فضل کریم ایک لوہار تھا۔ اس شخص کی بیوی فوت ہو چکی تھی اور تین چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ یہ شخص نہایت خستہ حالی میں نقل مکانی کر کے جالندھر سے قادیان آیا۔اور کچھ مہینے اس کی رہائش بھی جماعت کے مہمان خانہ میں رہی۔اور پھر ایک دوکان کرایہ پر لے کر مٹی کے تیل کے کنستروں اور تالوں کی مرمت کا کام شروع کر دیا۔اور اس کے تین بچے جماعت کے تعلیمی اداروں میں تعلیم پانے لگے اور بڑے بیٹے نے مولوی فاضل بھی کر لیا۔ اس دور میں مولوی فاضل ہونا ایک حیثیث رکھتا تھا۔
شروع میں کرایہ کے گھر میں قیام تھا، پھر اسے اپنے مکان کی تعمیر کے لیے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنی زمین مفت میں دی۔اس کے کاروبار نے ترقی کی اور اس شخص نے سیویاں بنانے کی مشین بناکر اس کی فروخت شروع کی اور اور ایک چکی خرید کر اس کا کاروبار شروع کیا۔ کاروبار کی مزید ترقی کے لئے اسے قرضہ اور مالی مدد کی ضرورت پڑی اور یہی قرضہ اس کے لئےآزمائش اور فتنہ کا باعث بن گیا۔شاید بعض پڑھنے والے گمان کریں کہ ایک مستری اتنی بڑی جماعت میں کس طرح فتنہ برپا کر سکتا ہے؟
ٹھوکر کھانے کا عمل کس طرح شروع ہوتا ہے
فتنوں کا مطالعہ یہی سکھاتا ہے۔ فتنہ برپا کرنے والوں کے لئے ضروری نہیں کہ وہ اہم پوزیشن یا منصب رکھتے ہوں یا بہت بڑے عالم ہوں۔ ایک معمولی ترین شخص سے لے کر کوئی بظاہرنمایاں شخصیت بھی شامت اعمال کے باعث مخالفین جماعت کے ہاتھ میں آلہ کار بن کر فتنہ شروع کر نے کا باعث بن سکتی ہے۔اسی لیے دو تین دہائیوں کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے بیٹےمولوی عبد المنان عمر صاحب کے فتنہ کے موقع پر حضرت مرزا شریف احمد رضی اللہ عنہ نے ایک مضمون تحریر فرمایا تھا جو 3 اگست 1956ء کے الفضل میں شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں آپ نے یہی نصیحت فرمائی تھی کہ کسی فتنہ کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہیے۔ گو کہ اس میں شامل منافقین کی تعداد کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے لیکن باہر سے ان کی مدد کرنے والے کثیر تعداد میں موجود ہیں۔
ان حالات پر نظر ڈالنے سے یہ پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ بسا اوقات فتنہ شروع کرنے کا باعث ایسا شخص بن رہا ہوتا ہے جس پر ہر طرح کے احسانات کیے گئے ہوں۔ یہ شخص فضل کریم کسمپرسی کی حالت میں قادیان آیا اور پھر مہمان خانہ میں قیام سے لے کر مکان کے لئے مفت زمین دینے تک ہر طرح کے احسانات اس پر کیے گئے۔ اور جماعت کی برکت سے یہ شخص خاطر خواہ کاروبار کا مالک بن گیا۔ پھر اس شخص نے تمام احسانات فراموش کر کے یہ فتنہ شروع کر دیا۔ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ کئی اشخاص کسی کا احسان اُٹھانے کے بعد شکر گذار ہونے کی بجائے مزید مراعات اور توجہ تقاضہ کرتے ہیں اور یہ عمل بڑھتا جاتا ہے۔ اور جب ان کا کوئی مطالبہ پورا نہ ہو تو یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ان کے حق سے محروم کر دیا گیاہے اور محسن کشی کے مرض کے علاوہ ایسے لوگ ہمیشہ خودبھی افسردگی اور پریشانی کا شکار رہتے ہیں اور دوسرے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوتے جاتے ہیں۔
اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ بظاہرمستری فضل کریم اور عبد الکریم کاٹھوکر کھانے کا عمل کس طرح شروع ہوا؟ فتنوں کی تاریخ کا مطالعہ یہی بتاتا ہے کہ فتنہ کھڑا کرنے والے بالعموم کسی نظریاتی بات پر ٹھوکر نہیں کھاتے بلکہ یہ عمل بہت معمولی ذاتی باتوں پر رنجش سے شروع ہوتا ہے۔مستری فضل کریم نے اپنی کاروبار کی وسعت کے لئے ایک سٹور سے قرض لیا اور یہ قرض واپس ادا نہیں کیا۔دفتر امور عامہ میں فریقین کا تصفیہ کیا گیا اور فریقین کی رضامندی اور دستخطوں سے فیصلہ کیا گیا لیکن اس نے پھر بھی ماہوار اقساط ادا نہیں کیں۔ اور بد زبانی کے خطوط لکھنے شروع کر دیے اور سلسلہ کے ہر کارکن پر الزام لگانا شروع کر دیا۔ اپیل پر قابل ادا رقم میں تخفیف بھی کی گئی لیکن پھر بھی ادائیگی نہیں کی۔ تب معاملہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔اور حضور کی طرف سے بھی یہ ارشادموصول ہوا کہ وہ قرض کی رقم واپس ادا کریں۔اسی دوران ایک اور فریق کی واجب الادا رقم نہ دینے کا مقدمہ بھی شروع ہو گیا۔اور باوجود قضاء اور حضور اقدس کے احکامات کی تعمیل نہ کرنے کے اس کا بیٹا حضور اقدس کی خدمت میں یہ خط لکھتا رہا کہ ہم نے تو اپنی جانیں بیچی ہیں۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ حضور کے حکم کی تعمیل نہ کریں۔ اگر حضور کا وجود نہ ہوتا تو نا معلوم یہ لوگ ہم غریبوں سے کیا معاملہ کرتے۔اسی دوران انہوں نے ایک فریق کو گلے سے پکڑ کر گالیوں کا نشانہ بھی بنایا۔ اور کافی لیل و لعت کے بعد اس فریق سے معافی مانگی۔ لیکن واجب الادا رقم ادا نہیں کی۔
فتنہ سر اٹھاتا ہے
اس کے بعد مستری فضل کریم نے حضور کی خدمت میں خط لکھ کر ایک بیوہ سے شادی کا پیغام دیا جو کہ ان کے داماد کی رشتہ دار تھی۔ وہ خاتون اس رشتہ پر راضی نہ ہوئی۔ اس لئے یہ رشتہ نہ ہوا۔خاتون کی مرضی کے بغیر کوئی رشتہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ اور اس کے داماد بھی اس رشتہ بھجوانے پر ناراض ہوئے اور 1926ء میں ان کا نکاح ثانی اسی خاتون سے ہو گیا۔ اب اس ذاتی معاملہ میں نظام جماعت کو یا جماعت کے امام کو کس طرح الزام دیا جا سکتا تھا ؟ لیکن اس گروہ نے اس کا قصوروار بھی نظام جماعت کو قرار دیا۔
(تحفہ مستریان یعنی فتنہ مستریان کی حقیقت مصنفہ میر قاسم علی دسمبر 1928ء صفحہ45-46)
خواہ سرسری نظر پر یہ امور معمولی نظر آئیں۔ خواہ یہ حقائق پڑھ کر ہنسی آئے کہ ان معمولی اور ذاتی باتوں سے بڑھ کر ایک فتنہ شروع ہوا۔ اور اس وقت ملک کے مشہور اخبارات اور اہم مخالفین جماعت بھی اس آگ میں کود پڑے لیکن تاریخ یہی سبق سکھاتی ہے۔ خواہ اولین کا دور ہو یا آخرین کا دور ہو۔اکثر فتنے نہایت معمولی ذاتی اختلافات سے شروع ہوئے۔
فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا ۚ وَلَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌۢ ۬ۙ بِمَا کَانُوۡا یَکۡذِبُوۡنَ
(البقرہ: 11)
ترجمہ: ان کے دلوں میں بیماری ہے۔ پس اللہ نے بیماری میں ان کو بڑھا دیا۔ اور ان کے لئے بہت دردناک عذاب (مقدر )ہے بوجہ اس کے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔
تاریخ میں اکثر فتنے اس طرح شروع کیے گئے کہ پہلے پہل خلیفہ وقت سے بہت اظہار عقیدت بھی کیا گیا اور یہ کہا کہ ہمارا اختلاف تو صرف فلاں فلاں عہدیدار سے ہے ورنہ ہم تو ہر طرح خلافت کے وفادار ہیں اور دلوں کی گہرائی سے جماعت احمدیہ کے عقائد پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور آخر کار خلیفہ وقت کی ذات پر اور جماعت کے عقائد پر گھٹیا ترین حملے شروع کر دیئے گئے اور پھریہ اظہار شروع کیا کہ ہمارا اختلاف تو صرف خلیفہ وقت سے ہے ورنہ ہم اپنے عقائد پر مضبوطی سے قائم ہیں۔اور آخر کار بنیادی عقائد سے بھی انکار کر کے کھلم کھلا دشمنوں کے ساتھ مل کر جماعت کی مخالفت شروع کر دی۔اور قرائن یہی ظاہر کرتے رہے ہیں کہ یہ سب کچھ ظاہر ہونے سے بہت قبل ہی ان گروہوں کے جماعت احمدیہ کے اشد ترین مخالفین سے روابط قائم ہو چکے ہوتے تھے۔
مستریوں کے فتنہ کے زہریلے وار
یہی تاریخ اس فتنہ کے وقت دہرائی گئی۔اور ہر فتنہ میں ایک ایسا مرحلہ آتا ہے جب اندر کا بغض پردے پھاڑ کر باہر آنا شروع ہوتا ہے اور بیرونی مخالفین سے خفیہ روابط خفیہ نہیں رہتے بلکہ کھل کر سامنے آ جاتے ہیں اور ہر قسم کی شرم کو بالائے طاق رکھ کر کھلم کھلا حملے شروع ہو جاتے ہیں۔ اور پھر پستی کی طرف سفر تیز سے تیز تر ہوتا جاتا ہے۔مستریوں کے فتنہ میں یہ مرحلہ تقریباً ستمبر 1927ءمیں آیا جب انہوں نے قادیان میں اعلانیہ طور پر نہ صرف جماعت کے عہدیداروں بلکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ذات اقدس کو نہایت گرے ہوئے انداز میں حملوں کا نشانہ بنانا شروع کیا۔یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ اس گروہ کو ٹھوکر لگنے کا آغاز 1920ء میں ہوا تھا اور مالی معاملات میں قضا کے فیصلوں پر اعتراض کرنے سے شروع ہوا تھا اور فتنہ کا مکمل اظہار 7 سال بعد شروع ہوا۔ اس دوران نفاق کا لاوا پکتا رہا اور بالآخر پھٹ پڑا۔
اور یہ سلسلہ زبانی پرپیگنڈا تک محدود نہیں رہا بلکہ چند ماہ بعد ہی ان کی طرف سے چار اشتہارات شائع کئے گئے۔ ان اشتہارات کے عنوان تھے (1) قادیان کے فتنہ کی حقیقت (2) فتنہ قادیان کی اصل حقیقت (3) کھلی چٹھی بخدمت خلیفہ قادیان (4) انکشاف حقیقت۔ ان چیتھڑوں میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی مقدس ذات پر ہر قسم کے گندے اور گھناؤنے الزامات لگا ئے گئے۔ اس قسم کے غلیظ گند کو دہرانا مناسب نہیں ہے۔ نہ صرف احمدی بلکہ دنیا کا کوئی بھی شریف شخص ان کو پڑھنا پسند نہیں کرے گا۔ دنیا کے کسی عام شخص پر بھی کوئی الزام لگایا جائے تو اس کا ثبوت دینا اس شخص کا کام ہوتا ہے جو الزام لگا رہا ہو۔دنیا کا مسلمہ قاعدہ یہ ہے کہ ہر شخص کو معصوم سمجھا جاتا ہے جب تک کہ اس پر کوئی الزام ثابت نہ ہو جائے۔ لیکن فتنہ پروروں کی دنیا الٹی ہوتی ہے۔ دنیا کے ہر فتنہ پرور کی یہی عادت ہوتی ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ مجھے اس بات کا اختیار ہے کہ میں جب چاہے کسی مقدس ترین اور معزز ترین ہستی پر جب جی چاہے بے بنیاد الزام لگادوں اور میں اس قاعدہ سے مستثنی ٰ ہوں کہ کوئی ثبوت مہیا کروں بلکہ یہ میرا حق ہے کہ دوسروں سے اپنی پسند کے اوٹ پٹانگ مطالبات منوانے پر اصرار کروں۔بجائے اس کے کہ یہ فتنہ پرور اپنی گندہ دہنی پر کوئی شرمندگی محسوس کرتے، انہوں نے ایک بے سروپا مطالبہ پیش کر دیا۔ اپنے ایک اشتہار میں انہوں نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے لکھا
’’آخری اور کھلی راہ مباہلہ ہے۔ جو آپ کو اختیار کرنی چاہیے۔ اور آپ تمام لوگوں سے جو الزامات پر یقین کامل رکھتے ہیں مباہلہ کریں۔ تاکہ ایسے تمام لوگ جو آپ کے نزدیک بیجا الزامات لگاتے ہیں نیست و نابود ہوجائیں۔
اگر اس کا جواب نہ دیا جائے گا۔ تو یہ ثابت ہو جائے گا کہ تمام اعتراضات بالکل سچے ہیں۔ اور آپ قاصر ہیں کہ ان کا جواب دے سکیں۔‘‘
(انکشاف حقیقت صفحہ 4-5)
قادیان سے رسالہ کا اجراء
اس وقت ایک طویل بحث شروع ہو گئی کہ کب مباہلہ ہو سکتا ہے اور کب مباہلہ کرنا مناسب نہیں ہے۔ یہ اپنی ذات میں ایک علیحدہ بحث ہے، اس مضمون میں اس کی تفصیلات درج نہیں کی جائیں گی۔لیکن اگر کسی عام شخص پر بھی کوئی عام الزام یا اخلاقی الزام لگایا جائے تو الزام لگانے کا فرض ہے کہ وہ اس کا کوئی معقول ثبوت لے کر آئے۔ جب تک کوئی معقول ثبوت سامنے نہ لایا جائے، جس پر الزام لگایا گیا اس کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ الزام لگانے والے کے سامنے اپنی صفائیاں پیش کرے۔کجا یہ کہ اس قسم کے بے بنیاد الزامات لگا کر یہ فرمائش کی جائے کہ اب تم پر فرض ہے کہ مباہلہ کرو ورنہ ہم تمہیں مجرم سمجھیں گے۔ دنیا میں کہیں بھی اسے معقول رویہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔بہر حال فتنہ پروروں کو اپنی اس نام نہاد چال پر اتنا گھمنڈ تھا کہ جب انہوں نے قادیان سے ایک چیتھڑا شائع کرنا شروع کیا تو اس کا نام ’’مباہلہ‘‘ رکھا۔
اس رسالہ کا پہلا شمارہ یکم دسمبر 1928ء میں قادیان سے شائع ہوا۔اس کے سرورق پر یہ درج تھا کہ یہ رسالہ مجلس داعیان مباہلہ کی پیداوار ہے۔ اور اس کو نکالنے والا کا نام عبد الکریم تھا جو کہ فضل کریم کا بیٹا تھا۔اس پہلے شمارے سے ہی ظاہر تھا کہ یہ رسالہ جماعت احمدیہ میں پھوٹ ڈالنے کے لئے شروع کیا گیا ہے۔یہ اعلان شائع کیا گیا کہ یہ رسالہ احمدیوں میں مفت بھی تقسیم کیا جائے گا۔اور یہ اعلان شائع کیا گیا کہ جو احمدی جماعت کے موجودہ نظام سے بیزار ہوں لیکن اپنی مجبوریوں کی وجہ سے اس کا اعلان نہیں کر سکتے وہ خاص طور پر اس رسالہ کی مدد کریں۔
اس رسالے میں مقدس ترین شخصیات، ان کی بیویوں اور بچوں کے علاوہ جماعت احمدیہ کی نمایاں شخصیات پر ہر طرح کا کیچڑ اچھالا گیا۔ خواہ مالی الزامات ہوں، خواہ جبر و استبداد کے الزات ہوں، خواہ اخلاقی الزامات ہوں۔ ہر قسم کے الزامات سے اس رسالے کے صفحات سیاہ کئے گئے۔نہ صرف یہ کہ اس قسم کی تحریریں شائع کی گئیں بلکہ ایسی کہانیاں گھڑ کر جن میں جماعت احمدیہ کے بزرگوں کا فحش انداز میں مذاق اڑایا گیا تھا، اس رسالے میں شائع کیا گیا۔قادیان کے ماحول پر کیچڑ اچھالا گیا اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ ہم اس مقدس بستی کے نہاں در نہاں حالات بے نقاب کریں گے۔ ہر قسم کے الزام لگانے اور فحش کلامی کے با وجود جماعت احمدیہ یہ لوگ اس بات پر واویلا بھی کر رہے تھے جماعت احمدیہ کی تحریروں میں سخت الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔جماعتی خبریں اور قادیان کی خبریں مزاحیہ انداز میں شائع کی جاتی تھیں۔ان کا مقصد جماعت کی تبلیغی سرگرمیوں اور کاوشوں کا مذاق اڑانا تھا۔
بےسروپا پروپیگنڈا
فتنہ پروروں کا ایک خاص طریق یہ ہوتا ہے کہ ان کا اپنا نظریہ کوئی نہیں ہوتا۔ وہ صرف الہی ٰ جماعت کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور اس کے لئے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ اس غرض کے لئے وہ مختلف قسم کے لوگوں کو خوش کرنے اور ان کے جذبات ابھارنے کی کوششیں کرتے ہیں اور آخر میں ان کی تحریریں اور بیانات مجموعہ تضادات نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی ِٰ فرماتا ہے۔
وَ مَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیۡثَۃٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِیۡثَۃِۣ اجۡتُثَّتۡ مِنۡ فَوۡقِ الۡاَرۡضِ مَا لَہَا مِنۡ قَرَارٍ
(ابراہیم: 27)
ترجمہ:اور ناپاک کلمہ کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے۔جو زمین پر سے اکھاڑ دیا گیا ہو۔ اس کے لئے (کسی ایک مقام پر) قرار مقدر نہ ہو۔
ان لوگوں نے پروپیگنڈا کا یہ طریقہ اپنایا گیا کہ ایسے لمبے لمبے خطوط شائع کئے گئے جو کہ گمنام تھے۔ یعنی ان کے ساتھ نام نہیں شائع کئے جا رہے تھے۔ اور یہ ظاہر کیا جاتا تھا کہ خدانخواستہ ان احمدیوں کے خطوط ہیں جو کہ ان منافقین کے ہم خیال ہیں لیکن دبائو کی وجہ سے سامنے نہیں آ رہے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ ان سب کا انداز تحریر ایک جیسا ہوتا تھا۔ ان نام نہاد خطوط میں مختلف طریقوں سے مختلف ذہن کے لوگوں کے جذبات کو ابھارنے کی کوشش کی جاتی تھی۔مثال کے طور پر یکم فروری 1929ء کے شمارے میں اس رسالے میں ایک گمنام خط شائع ہوا جس کا عنوان تھا ’’قادیان کی دفتری حکومت۔جماعت قادیان اور اسلامی اخوت اور مساوات‘‘ اور مصنف کی جگہ صرف یہ لکھا تھا ’’ایک احمدی سوشلسٹ مجاہد نمبر 25 کی قلم سے‘‘۔ اس میں تمسخر کے انداز میں یہ پروپیگنڈا کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ جماعت میں اخوت اور مساوات بالکل نہیں ہے۔ اور غرباء پر ظلم ہو رہا ہے۔کبھی ایک اور فرضی خط لکھا جاتا کہ قادیان میں نوجوانوں کی حالت نہایت خراب ہو چکی ہے، انہیں کسی قسم کی آزادی رائے حاصل نہیں ہے۔اس طرح یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی کہ خدانخواستہ جماعت کا ایک بڑا حصہ اب جماعت سے بغاوت کرنے کو تیار ہے۔
پھر اس کے بر عکس اس بات پر بہت واویلا کیا جاتا تھا کہ احمدی تو خلیفہ وقت کی ہر بات تسلیم کر لیتے ہیں اور ان پر ہماری باتوں کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔ جیسا کہ رسالہ مباہلہ کے دوسرے شمارے میں، جو کہ یکم جنوری 1929ءکو شائع ہوا، جو اداریہ شائع کیا گیا، وہ ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے۔
’’خلیفہ قادیان کے اکثر مریدین کی عقیدت اس حد تک ترقی کر چکی ہےکہ ان کے لئے کوئی روشن سے روشن دلیل بھی اثر نہیں کر سکتی۔خلافت مآب اگر یہ اعلان کر دیں کہ سچا اعتراضات کرنے والابھی ہلاک ہوتا ہے تو اس کلیہ کو بھی بلا دلیل تسلیم کر لیا جائے گا۔اگر جناب حضرت عمر پر آزادی سے سوال کر لینے والوں کو آج 1300 سال بعد منافق کا خطاب دے دیں تو بلا چوں و چرا آمنا و صدقنا کی صدا بلند کر دی جائے گی۔‘‘
کبھی یہ پراپگنڈا کیا جاتا تھا کہ قادیان میں خواتین پر بہت ظلم ہو رہا ہے۔اور اگر قادیان میں عورتوں کے لئے لائبریری قائم کی جاتی تو یہ مسخراپن کیا جاتا کہ کیا اس میں فحش ناول رکھے جائیں گے۔کبھی یہ ماتم کیا جاتا کہ جماعت احمدیہ نے قادیان میں اپنی متوازی حکومت قائم کی ہوئی ہے اور وہاں پر برطانوی حکومت کا تسلط نہیں ہے۔اور کچھ ہفتوں بعد یہ رونا رویا جاتا کہ جماعت اس طبقہ کے خلاف ہے جو کہ برطانوی تسلط سے آزادی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اور پھر یہ اعلان کرتے کہ جماعت احمدیہ تو برطانوی حکومت کے لئے خطرہ ہے۔
ایک طرف اس بات پر اعتراض تھا کہ قادیان میں خلیفہ قادیان کی حکومت ہے اور ان کی مرضی کے بغیر کوئی وہاں پر بھی نہیں مار سکتا۔ کسی قسم کی مذہبی آزادی نہیں ہے۔ اور کچھ عرصہ بعد اس بات پر تمسخر کیا جا رہا تھا کہ قادیان میں مقیم اچھوت کہلانے والے لوگوں میں سے کچھ کو پادریوں نے مسیحی بنا لیا ہے۔ قادیانی امریکہ اور برطانیہ جا کر مسیحی افراد کو قادیانی بنا رہے ہیں، پہلے اپنے قصبہ کی تو خبر لیں۔ایک طرف تو اس بات پر اعتراض تھا کہ احمدی باقی مسلمانوں سے علیحدہ رہتے ہیں اور ان کے ساتھ کسی سرگرمی میں شامل نہیں ہوتے۔ دوسری طرف جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپیل کی تمام فرقوں کے مسلمان سیرت رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر جلسے کریں جس میں مسلمان اور غیر مسلم سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر لیکچر دیں تو اس پر شور مچانا شروع کر دیا کہ اصل میں یہ تحریک تو مسلمانوں کی جیبوں پر ڈاکہ مارنے کے لئے شروع کی گئی ہے۔ اور مسلمان ان لوگوں کے ساتھ کس طرح مل سکتے ہیں؟
مخالفین جماعت کی مدد
اس رسالہ کے پہلے شمارے سے ہی یہ واضح ہوگیا کہ یہ کارروائی جماعت احمدیہ کے اشد مخالفین کی مدد سے کی جا رہی ہے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ ظفر علی خان صاحب تمام عمر جماعت احمدیہ کے اشد ترین مخالف رہے تھے۔ اور ان کا اخبار ’’زمیندار‘‘ پوری گندہ دہنی کے ساتھ جماعت احمدیہ کی مخالفت کے لئے وقف تھا۔ رسالہ ’’مباہلہ‘‘ کے پہلے شمارے میں ظفر علی خان صاحب اور زمیندار کے ایڈیٹر قاضی احسان اللہ صاحب کے تعاون پر خاص طور پر شکریہ ادا کیا گیا تھا۔
کچھ عرصہ بعد بڑے فخر سے یہ اعلانات کئے جا رہے تھے کہ ہم نے مباہلہ کے چیلنج سے احمدیوں کو اتنا خوف زدہ کر دیا ہے کہ اب احمدی کبھی مباہلہ کا نام تک نہیں لیں گے۔ جس طرح مباہلہ کی جولائی 1929ء کی اشاعت میں یہ تعلی کی گئی۔
’’بفضلہ تعالیٰ آیندہ یہ لوگ کسی مسلمان کو مباہلہ کی دعوت نہ دیں گے بلکہ اگر ان لوگوں نے علیحدہ کوئی ڈکشنری بنائی تو مباہلہ کا لفظ تک اس میں درج کرسکنے کی جرائت نہ کر سکیں گے۔ مبادا کسی کو اس لفظ سے گذشتہ تمام واقعات یاد نہ آ جائیں۔‘‘
یہ تو وہ زہر تھا جو کہ پھیلایا جا رہا تھا اور اب یہ فتنہ صرف چند فتنہ پردازوں تک محدود نہیں تھا بلکہ ہندوستان کے چوٹی اخبار اور جماعت کے نمایاں ترین مخالفین بھی کھلم کھلا ان دریدہ دہنوں کی پشت پناہی کر رہے تھے۔
علماء سلسلہ کی خدمات
اس زہر کے تدارک کے لئے سلسلہ احمدیہ کی بعض نمایاں شخصیات کی موثر تحریریں سامنے آنے لگیں۔ حضرت مولانا ابو العطاء نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے اجازت لے کر ان کے مقابلہ کے لئے ٹریکٹ نکالنے شروع کئے۔ ان کا نام ’’جواب مباہلہ‘‘ تھا۔ اس سلسلہ میں جو ٹریکٹ 30 جون 1929ء کو شائع ہوا، اس میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ایک اہم خط شائع ہوا۔ اس میں حضور نے اس بات کے جواب میں کہ مباہلہ کا چیلنج کیوں قبول نہیں کیا جاتا یہ تحریر فرمایا:
’’مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اگر مولوی محمد علی صاحب یا ان کے ساتھی جو مباہلہ کی اشاعت میں خاص حصہ لے رہے ہیں۔ مجھ سے متفق نہیں بلکہ ایسے امور میں مباہلہ کے مطالبہ کو جائز سمجھتے ہیں اور انکا یقین ہے کہ جو شخص ایسے مطالبہ کو منظور نہیں کرتا وہ گویا اپنے جرم کا ثبوت دیتا ہے تو انکو چاہیے کہ اس امر پر مجھ سے مباہلہ کر لیں۔ پھر اللہ تعالیٰ حق و باطل میں خود فرق کر دے گا۔‘‘
حضور کا ایک تفصیلی خط ایک شخص کی طرف سے اُٹھائے گئے اعتراضات کے جواب میں تحریر کیا گیا تھا۔ یہ خط اس ٹریکٹ میں شائع ہوا۔اس کے چند اقتباسات پیش ہیں۔ حضور نے تحریر فرمایا
’’عقل بھی اسکو تسلیم نہیں کر سکتی کہ الزام لگانے والے کے مقابلہ میں انسان (بہر صورت) مباہلہ کرے۔ کیا کوئی بھی شریف آدمی جسے ذرا بھی اللہ تعالیٰ نے عزت دی ہو وہ یہ پسند کرے گا کہ ایسے امور میں مباہلہ کرے۔ اس طرح کئی شریر النفس لوگ روز اُٹھ کر لوگوں پر الزام لگا دینگے۔ اور جب انہیں ملامت کی جائے تو کہہ دینگے کہ ملامت اور غصہ کی بات نہیں مباہلہ کر لو۔ اگر ایک شریف انسان سے ایک بد معاش جا کر یہ کہہ دے کہ اس کی بیوی سے اس نے زنا کیا ہے۔ تو وہ آدمی اس پر ناراض ہو گا یا اپنی بیوی سے جا کر کہے گا کہ اس نیک بخت سے کھڑی ہو کرمباہلہ کر۔‘‘
فحش تحریروں پر حکومت کی کارروائی
جب اس رسالہ کی بد زبانی کو حد سے بڑھے ہوئے ایک عرصہ گذر گیا اور اب صاف نظر آ ہا تھا کہ اس سے امن کو خطرہ ہے تو ڈپٹی کمشنر گورداسپور نے دفعہ 144 کے تحت اس رسالہ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ پر گندے اور بے بنیاد الزامات لگانے سے روک دیا۔ اس پر ملک کے بہت سے مسلمان اور ہندو اخبارات اس فتنہ پرور گروہ کی مددکے لئے میدان میں اتر آئے۔ اخبارات میں سے زمیندار، اہلحدیث، مہاجر، پرتاپ، ملاپ، پرکاش، پارس اورشعلہ نے اس بات پر احتجاج کیا کہ اس رسالہ پر یہ پابندی کیوں لگائی جا رہی ہے۔
مخالفین جماعت کو قادیان بلایا جاتا ہے
1930ءکے آغاز میں یہ واضح ہو رہا تھا کہ یہ فتنہ ایک تمہید تھا جس کے ذریعہ قادیان کے اندر جماعت احمدیہ کے مخالفین کی کارروائیوں کو شروع کرایا جائے گا۔چنانچہ مباہلہ کے فروری 1930ءکے شمارے میں یہ اعلان شائع کیا جا رہا تھا کہ قادیان میں ’’مباہلہ کانفرنس‘‘ منعقد کی جائے گی۔ اور اس کے ساتھ ایسے مضامین شائع کئے جا رہے تھے جن میں یہ بے بنیادپرپیگنڈا کرنا مقصود تھا کہ نعوذُ باللہ احمدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہیں۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ مسلمانوں کو احمدیوں کے خلاف اکسایا جائے۔اور اب اس فتنہ میں شامل عبدالکریم اور جماعت احمدیہ کے اشد ترین مخالفین مل کر قادیان سے باہر بھی جلسے کر رہے تھے تا کہ مسلمانوں کو جماعت کے خلاف اکسایا جائے۔چنانچہ مارچ 1930ءکے شمارے میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ملتان میں عبد الکریم نے عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کی صدارت میں قادیانیت کے خلاف دو گھنٹہ تقریر کی اور اس کے بعد عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے اس تقریر کا ریویو کیا۔
مجلس احرار کا قیام
انہیں دنوں میں دسمبر 1929ء میں اس پنڈال میں جس میں آل انڈیا نیشنل کانگریس کا جلسہ ہو رہا تھا مجلس احرار اسلام کی بنیاد رکھی گئی تھی اور عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کو اس کا پہلا صدر بنایا گیا تھا۔ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ اس کے بعد 1950ء کی دہائی تک مجلس احرار جماعت کے خلاف پر تشددمہم چلانے اور گندہ دہنی سے کام لینے میں سب سے آگے تھی۔ اور تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس گروہ نے سب سے پہلے مستری فتنہ کے کرتا دھرتا افراد کے ساتھ مل کر احمدیوں کے خلاف جلسے کرنا شروع کئے تھے۔اور احرار کے قائدین میں صرف عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب ہی نہیں بلکہ دوسری نمایاں شخصیات کی طرف سے بھی مستری فتنہ کی پشت پناہی کی گئی۔ ان میں مولوی ظفر علی خان صاحب، حبیب الرحمن دہلوی اور مولوی احمد علی لاہور کا نام قابل ذکر ہے۔ یہ لوگ مجلس احرار کے بانیوں میں شامل تھے۔
(حیات امیر شریعت مصنفہ جانباز مرزا۔ثنائی پریس لاہور نومبر 1969ءصفحہ 151-155)
اب یہ اعلان کیا جارہا تھا کہ مئی 1930ءمیں ہندوستان بھر سے جماعت احمدیہ کے مخالفین اکھٹے ہو کر جلسہ کریں گے۔
(مباہلہ جنوری فروری 1930ء)
بعض پولیس افسران کی مدد
اب تک یہ واضح ہو چکا تھا کہ پولیس کے بعض مقامی افسران جان بوجھ کر فتنہ پردازوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اور افسران بالا کو بھی غلط رپورٹیں بھجوا رہے ہیں۔ اس پر حضور نے 4 اپریل 1930ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا
‘‘ اگر یہ قیاس درست ہے تو کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ جس پولیس کو افسروں نے اس لئے مقرر کیا تھا کہ جرائم کی روک تھام کے علاوہ وہ احمدیوں کی حفاظت کرے اس کے بعض افسر نہایت مفسدانہ طریق پر احمدیوں کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔یہ بات کبھی چھپی نہیں رہے گی۔ ان افسروں کی ناجائز کارروائیاں آخر ظاہر ہو کر رہیں گی۔۔۔۔۔
پس ایسے افسروں کو یاد رکھنا چاہیے کہ احمدی خوشامد ہر گز نہیں کریں گے اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو میں اسے سخت سزا دوں گا کیونکہ وہ قوم کی ناک کاٹنے والا ہو گا۔‘‘
(خطبات محمود جلد 12صفحہ 351-352)
معلوم ہوتا ہے کہ 1930ءکے آغاز میں ان فتنہ پردازوں کو اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کویہ احساس ہو گیا تھا کہ تمام تر شرمناک پراپیگنڈا کرنے کے بعد اور ملک کے نمایاں ترین اخباروں کی مدد حاصل کرنے کے باوجود ان کی توقعات پوری نہیں ہو رہیں۔اور جماعت احمدیہ کے اندر رخنہ پیدا کرنے کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں۔ سوائے گنتی کے چند منافقین کے کوئی بھی ان کے پرپیگنڈا سے متاثر نہیں ہوا۔اس لیے انہوں نے ایک اور چال چلی تا کہ جماعت احمدیہ کو بیرونی حملہ کا نشانہ بنایا جائے۔اپریل 1930 کے شروع میں مستریوں نے شور مچانا شروع کیا کہ احمدیوں نے ظلم کی انتہا کر دی اور ہمارے گھر کو آگ لگا دی گئی ہے اور ہمارا سامان جلا دیا گیا۔جب پولیس ان کے گھر پہنچی اور تلاشی لی گئی تو علم ہوا گھر کا تمام سامان اور ان کے رسالے کے دفتر کا تمام سامان محفوظ تھا۔ اور صرف گھر کے ایک ایسے حصہ میں جہاںکوئی قابل ذکر سامان نہیں تھا ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے آگ لگائی گئی تھی۔اور اس آگ لگنے کا علم بھی ان مستریوں کو ہی ہوا تھا۔چنانچہ مستری فضل کریم اور اس کے بیٹوں کو وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے۔اور بٹالہ سے گرفتاری عمل میں آئی ہے۔
(الفضل 11؍ اپریل 1930ء)
اس پر مستریوں نے یہ پرپگنڈا شروع کیا کہ ہمارے پر قاتلانہ حملہ کیا گیا اور ہمارے مکان کو نذر آتش کیا گیا ہے لیکن پولیس پھر بھی ہماری داد رسی نہیں کر رہی۔
(مباہلہ اپریل 1930ء)
فتنہ بٹالہ کا رخ کرتا ہے
اب اس گروہ نے بٹالہ کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا اور احمدیوں کے خلاف اشتعال پھیلانا شروع کیا۔ یہاں تک کہ یہ افواہ بھی اڑائی گئی کہ بٹالہ کے لوگ اکھٹے ہو کر قادیان پر حملہ کرنے والے ہیں۔ اور اس غرض کے لئے انجمن شباب المسلمین بھی قائم کی گئی۔ یہاں تک کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے خطبہ میں فرمایا کہ بٹالہ میں شرفاء بھی رہتے ہیں اور میں یہ گمان نہیں کر سکتا کہ سارا بٹالہ متحد ہو کر قادیان پر حملہ کر دے گا۔
(الفضل 16؍ اپریل 1930ء)
ان افواہوں کا مقصد یہی تھا کہ کسی طرح اتنی غلط فہمیاں پیدا ہو جائیں کہ کسی غلط فہمی کی چنگاری فسادات کو بھڑکانے کا باعث بن جائے۔
اب جب کہ یہ واضح ہو چکا تھا کہ اس قسم کےخبیثانہ الزامات لگا کر احمدیوں کو مشتعل کیا جا رہا ہے تا کہ کسی طرح امن و امان کا مسئلہ پید ہو کیونکہ اگر کسی صوبے میں لاکھوں احمدی موجود ہیں اور دن رات اس طریق پر ان کو مسلسل مشتعل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس بات کا خدشہ موجود ہوتا ہے کہ کہیں پر حالات قابو سے باہر ہوں جائیں اور بات تصادم تک پہنچے۔ اس احتمال کے پیش نظر مختلف جماعتوں نے قراردادیں منظور کر کے پنجاب کی حکومت سے اپیل کی کہ وہ اس گرے ہوئے انداز میں مسلسل کردار کشی کے سلسلہ کو بند کرے تا کہ کہیں پر امن و امان کے مسائل پیدا نہ ہوں۔
(الفضل 15؍اپریل 1930ء)
اشتعال انگیزیوں کا انجام
جلد ہی ایسا واقعہ ہوا جس سے یہ ثابت ہو گیا کہ یہ تمام خدشات بجا تھے۔ ایک نو احمدی قاضی محمد علی صاحب جو کہ نوشہرہ کلاں کے رہنے والے تھے اور چند سال پہلے ہی احمدی ہوئے تھے ایک بس میں سفر کر رہے تھے۔ اور اس بس میں وہ اکیلے احمدی تھے اور مستریوں اور ان کے ہمدردوں کا ایک گروہ بھی اس بس میں سفر کر رہا تھا۔ مستری فضل کریم نے مباہلہ کا پرچہ قاضی محمد علی صاحب کو دے کر بد زبانی شروع کی۔ قاضی محمد علی صاحب نے انہیں اس دل آزاری سے منع کیا لیکن مستریوں کا گروہ باز نہیں آیا اور ہاتھا پائی شروع ہوئی اور مستری فضل کریم نے چاقو نکالا، اس کے جواب میں قاضی محمد علی صاحب نے بھی چاقو نکالا اور لڑائی شروع ہوئی۔ قاضی صاحب کا بیان کہ میں ان کی مار پیٹ سے بیہوش ہو گیا اور جب مجھے ہوش آئی تو مستریوں میں سے ایک شخص محمد حسین زخمی حالت میں پڑا تھا۔ انہیں یہ بھی علم نہیں تھا کہ یہ شخص کس طرح اور کس کے وار سے زخمی ہوا تھا۔ یہ شخص ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لا کر موت کا شکار ہو گیا۔ عدالت میں مقدمہ چلا۔ قاضی محمد علی صاحب عدالت میں تمام واقعات بلا کم و کاس بیان کئے۔ ان میں سے کئی واقعات کو قانونی طور پر ان کے لئے بیان کرنا ضروری بھی نہیں تھا اور وکیل انہیں بتایا بھی کہ یہ بیانات ان کے خلاف جائیں گے لیکن انہوں نے جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سچ کا دامن نہیں چھوڑا۔ عدالت نے انہیں سزائے موت سنائی۔ اس سزا پر عمل درآمد کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا
’’قانون دان انہیں مشورہ دیتے کہ ان کی جان بچ سکتی تھی اور الفاظ کے معمولی ہیر پھیر سے وہ پھانسی کی سزا سے بچ سکتے تھے مگر انہوں نے معمولی سا اختلاف بھی پسند نہیں کیا اور تختہ دار پر لٹک جانا گوارا کر لیا۔ بلکہ سچائی کی خاطر ان کے اندر اس قدر غلو تھا کہ انہوں نے بعض ایسی باتیں بیان کر دیں جن کا سچاِ ئی کے لئے بھی بیان کرنا ضروری نہیں تھا۔‘‘
(خطبات محمود جلد 13 صفحہ 124)
جو شخص سچائی پر اتنی سختی سے قائم ہو کہ اپنی جان کی پرواہ بھی نہ کرے تو اس کے اس بیان پر بھی شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ مجھے پتہ نہیں کہ قتل کس کے ہاتھ سے ہوا ہے کیونکہ اس وقت لڑائی ہو رہی تھی اور کئی لوگوں نے مجھ پر حملہ کر دیا تھا اور میں اپنا دفاع کر رہا تھا۔ مخالفین اور فتنہ پردازوں سر توڑ کوشش تھی کہ کسی طرح اس مقدمہ میں اور اس قسم کے دوسرے مقدمات میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ پر جھوٹا الزام لگا کر ان پر بھی مقدمہ قائم کیا جائے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس میں انہیں مکمل ناکامی ہوئی۔ لیکن جب اس مقدمہ کا فیصلہ سنایاگیا۔ تو وہ اس موضوع پر تفصیلی تحریریں شائع کر کے دل کی بھڑاس نکالتے رہے کہ یہ ایک منظم سازش تھی۔
(مباہلہ یکم نومبر 1930ء)
مباہلہ کا چیلنج اور جواب میں خاموشی
جب اس گروہ اور ان کی حمایت کرنے والے نا عاقبت اندیش مخالفین جماعت کے ناپاک الزامات کی انتہا ہو گئی۔ اور پورے ہندوستان میں مخالفین بھانڈوں کی طرح بغلیں بجا رہے تھے کہ ہم تو مباہلہ کا چیلنج دے رہے ہیں لیکن احمدی اس کو قبول نہیں کر رہے تو جماعت احمدیہ کی طرف سے بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم اور دوسرے بزرگان نے اس فتنہ کے قائدین اور ان کے حمایتی گروہ کو مباہلہ کا چیلنج دے دیا۔ اس کو ایک اشتہار کی صورت میں شائع بھی کیا گیا اور رجسٹری کر کے ان لوگوں کے نام بھجوایا گیا۔ ان کو اس بات پر مباہلہ کی طرف بلایا گیا کہ ہمارے نزدیک یہ تمام الزامات جھوٹ اور افتراء سے پر ہیں اگر آپ کے نزدیک یہ الزامات درست ہیں تو مسنون طریق پر مباہلہ کر لیں۔
یہ چیلنج 24 اپریل 1930ء کو شائع کیا گیا۔جن بزرگان کی طرف سے یہ چیلنج شائع کیا گیا تھا، ان میں حضرت مولانا شیر علی، حضرت مولانا یعقوب علی عرفانی، حضرت مفتی محمد صادق، حضرت مولانا ذوالفقار علی خان، حضرت مولانا سرور شاہ صاحب،چوہدری فتح محمد سیال صاحب، حضرت سید عبد الستار صاحب، صاحبزادہ احمد ابو الحسن ابن حضرت صاحبزادہ عبد الطیف شہید، حضرت مولانا غلام رسول راجیکی، حضرت مولانا ابو العطاء صاحب بھی شامل تھے۔ اور خاص طور پر جن لوگوں کے نام مباہلہ کا چیلنج جاری کیا گیا ان کے نام بھی اس اشتہار میں درج تھے۔اور یہ نام مولوی ظفر علی خان (روزنامہ زمیندار لاہور)، مولوی حبیب الرحمن لدھیانوی، مولوی احمد علی لاہور،مولوی بہاء الحق قاسمی، مولوی غلام محمد خطیب امرتسر، مستری عبد الکریم ایڈیٹر اخبار مباہلہ کے تھے۔ان میں سے خاص طور پر پہلے چار نام ایسے لوگوں کے ہیں جو بعد میں بھی جماعت احمدیہ کی مخالفت میں پیش پیش رہے۔
ایک طرف تو تقریباً تین سال سے یہ شور مچایا جا رہا تھا کہ ہم مباہلہ کا چیلنج دیتے ہیں اور کوئی ہمارا چیلنج قبول نہیں کرتا۔لیکن جب قادیان سے مباہلہ کے بارے میں یہ اعلان شائع ہوا تو ان تمام مخالفین کو سانپ سونگھ گیا۔ نہ ظفر علی خان صاحب آگےبڑھے کہ یہ چیلنج قبول کرتے نہ دوسرے مخالف علماء میں یہ ہمت پیدا ہوئی کہ وہ اس میدان میں اترتے اور نہ ہی اس رسالے کے ایڈیٹر نے یہ چیلنج قبول کیا۔ اس چیلنج کو قبول کرنا تو ایک طرف رہا انہوں نے تو ‘‘ مباہلہ ’’کے اگلے شمارے میں اس بات پر ٹسوے بہانے شروع کر دیے کہ اب یہ چیلنج کیوں دیا گیا ہے۔چنانچہ اس رسالے کا جو شمارہ مئی 1930 میں شائع ہوا، اس میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں تھا کہ ہم تو پہلے ہی بے تاب بیٹھے تھے اور اب ہم فوری طرف پر اس چیلنج کو قبول کرتے ہیں۔اس کی بجائے یہ لکھا کہ قادیان سے شائع ہونے والا یہ پمفلٹ پبلک کو مغالطہ میں ڈالنے کے لئے شائع کیا گیا ہے۔لیکن اس کے ساتھ یہ بھی اعتراف کیا گیا کہ وہ اب خدا کے غضب کانشانہ بن رہے ہیں۔ اور اس اداریہ میں بار بار یہ اعتراف کیا گیا کہ یہ فتنہ پرداز گروہ اب مصائب میں مبتلا ہو چکا ہے۔ اس اداریہ میں لکھا:
’’بے شک آج مرید یہ دیکھ کر خوش ہیں کہ خلیفہ قادیان اپنے مخالفین کو انتہائی مصائب میں مبتلا کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ مگر آخر کار خدا اپنی مخلوق کی راہبری کا کوئی ذریعہ نکالے گا۔‘‘
اس فتنہ میں سلسلہ احمدیہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ناپاک گند بولنے والے مخالفین تو شامل تھے، یہ امر قابل افسوس ہے کہ غیر مبایع پیغامی احباب کی تنظیم بھی اس کی پشت پناہی کر رہی تھی۔ رسالہ ’’مباہلہ‘‘ کے پیکٹ ان کی عمارت میں تیار کئے جاتے اور وہاں سے یہ گند تقسیم کیا جاتا اور وہاں اس کی فروخت کی جاتی۔ پہلے تو ان کی طرف سے یہ انکار کیا جاتا رہا کہ وہ اس گندہ دہنی کی کسی قسم کی مدد کر رہے ہیں۔ لیکن قادیان سے شائع ہونے والے ایک اخبار ’’فاروق‘‘ نے ان کے امیر کی تحریر کا عکس شائع کردیا، جس میں دفتر کو کہا گیا تھا کہ وہ یہ رقم عبد الکریم کو دے دیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ عبد الکریم اس چیتھڑے کا ایڈیٹر تھا۔ جب یہ بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوٹا تو سوائے غیر مربوط عذروں کے کوئی جواب نہ دیا جا سکا۔
(تفصیلات کے لئے ملاحظہ کریں فاروق 7 جون 1931ء)
بہر حال اب یہ فتنہ اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا تھا۔ یہ گروہ پہلے بٹالہ گیا اور پھر امرتسر منتقل ہو گیا۔ چند ماہ ان کا رسالہ ’’مباہلہ‘‘ نکلا اور پھر وہ بھی بند کر دیا گیا۔ جماعت کے مخالف مولویوں اور ہندوستان کے جن اخبارات کی طرف سے ان کی پشت پناہی کی جا رہی تھی انہوں نے بھی ان کو ایک گندے رومال کی طرح استعمال کر کے پھینک دیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعض اخبارات جو کہ ویسے جماعت احمدیہ کے مخالف تھے، ان لوگوں کی گندہ دہنی سے اتنے متنفر ہوئے کہ انہوں نے اس گندہ دہنی کی مذمت میں مضامین شائع کئے۔ ان میں اخبار ’’تازیانہ‘‘ اور ’’صادق‘‘ بھی شامل ہیں۔ اور قادیان کے غیر احمدی مسلمانوں بلکہ کئی غیر مسلموں نے بھی اس گندی مہم کی مخالفت اور تردید میں اشتہارات شائع کئے۔
اس فتنہ کو بیرونی مدد سے اس لئے بھڑکایا گیا تھا تا کہ جماعت احمدیہ کے مخالف مولویوں کو ایک سٹیج مہیا کیا جائے اور انہیں دنوں اس بنیاد سے فائدہ اُٹھا کرجماعت احمدیہ کے اشد ترین مخالفین نے اپنی ایک مذہبی سیاسی جماعت ’’مجلس احرار‘‘ کی بنیاد بھی رکھی۔ اور احرار کئی دہائیوں تک جماعت احمدیہ کی مخالفت اور بد زبانی میں سب سے آگے رہے۔ 1933 میں جب مجلس احرار نے قادیان میں اپنا دفتر قائم کیا تو یہ دفتر مستریوں کے مکان میں ہی قائم کیا گیا تھا۔ (حیات امیر شریعت مصنفہ جانباز مرزا ثنائی پریس لاہور نومبر 1969صفحہ 190)۔پہلے مستریوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم جماعت احمدیہ کو ختم کر دیں گے۔مستریوں کو استعمال کرنے کے بعد اب مجلس احرار اس متکبرانہ دعویٰ کے ساتھ اٹھی کہ اب ہم اس جماعت کو نیست و نابود کردیں گے۔اور اس وقت پنجاب کی حکومت ان کی بھر پور حوصلہ افزائی کر رہی تھی۔ 1939 میں مجلس احرار کے صدر افضل حق صاحب نے احمدیت کے بارے میں یہ اعلان کیا
’’احرا ر کا وسیع نظام با وجود مالی مشکلات کے دس برس کے اندر اس فتنہ کو ختم کر کے چھوڑے گا۔ باخبر لوگ جانتے ہیں کہ جانباز احرار نے کس طرح مرزائیت کو نیم جاں کر دیا ہے۔ موجودہ وزارت کے بدلنے کے ساتھ حالات بھی بدلیں گے۔ ملک میں انگریزی اثر و رسوخ جوں جوں کم ہوگا سرکار کا یہ خود کاشتہ پودا مرجھاتا چلا جائے گا۔‘‘
(خطبات احرار مرتبہ شورش کاشمیری جلد اول صفحہ 37)
حکومتیں آئیں اور گئیں۔ اندرونی فتنے اٹھے اور جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ احرار کا گروہ 1953ء کے فسادات میں بری طرح بے نقاب ہو کر ماضی کا باب بن گیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت ایک کے بعد دوسری کامیابی حاصل کرتی ہوئی آگے بڑھتی رہی۔ اس قسم کے دعووں کا انجام ہی ایک بہت بڑی فعلی شہادت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اورنصرت کس کے ساتھ ہے۔ایک مرحلہ پر اس گروہ کو ہندوستان کے بہت سے با اثر لوگوں کی حمایت حاصل رہی لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد کے سامنے کسی گروہ کی طاقت کام نہیں کر سکتی۔ اور ان فتنہ پردازوں کا انجام بھی ناکامی اور حسرت پر ہوا۔
(ابو نائل)