• 26 اپریل, 2024

روزہ کی فرضیت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

’’مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے وجود سے اپنے آپ کو خد اتعالیٰ کی راہ میں دِلاور ثابت کردے۔جو شخص کہ روزے سے محروم رہتا ہے مگر اُس کے دل میں یہ نیت دردِدل سے تھی کہ کاش میں تندرست ہوتا اور روزہ رکھتا اور اس کا دل اس بات کے لئے گریاں ہے تو فرشتے اُس کے لئے روزے رکھیں گے بشرطیکہ وہ بہانہ جُونہ ہو تو خد اتعالیٰ اُسے ہرگز ثواب سے محروم نہ رکھے گا۔

یہ ایک باریک اَمر ہے کہ اگر کسی شخص پر (اپنے نفس کے کسل کی وجہ سے) روزہ گراں ہے اور وہ اپنے خیال میں گمان کرتا ہے کہ مَیں بیمار ہوں اور میری صحت ایسی ہے کہ اگر ایک وقت نہ کھاؤں تو فلاں فلاں عوارض لاحق ہوں گے اور یہ ہوگا اور وہ ہوگا تو ایسا شخص جو خداتعالیٰ کی نعمت کو خود اپنے اُوپر گراں گمان کرتا ہے۔کب اس ثواب کا مستحق ہوگا۔ہاں وہ شخص جس کا دل اس بات سے خوش ہے کہ رمضان آ گیا اور مَیں اس کا منتظر تھا کہ آوے اور روزہ رکھوں اور پھر وہ بوجہ بیماری کے روزہ نہیں رکھ سکا تو وہ آسمان پر روزے سے محروم نہیں ہے۔ اس دُنیا میں بہت لوگ بہانہ جُو ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم جس طرح اہل دُنیا کو دھوکا دے لیتے ہیں ویسے ہی خدا کو فریب دیتے ہیں۔بہانہ جُو اپنے وجود سے آپ مسئلہ تراش کرتے ہیں اور تکلّفات شامل کر کے ان مسائل کو صحیح گردانتے ہیں۔لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ صحیح نہیں۔تکلّفات کا باب بہت وسیع ہے اگر انسان چاہے تو اس (تکلف) کی رُو سے ساری عمر بیٹھ کر نماز پڑھتا رہے اور رمضان کے روزے بالکل نہ رکھے مگر خدا اُس کی نیت اور اِرادہ کو جانتا ہے جو صِدق اور اَخلاص رکھتا ہے۔خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ اُس کے دِل میں دَرد ہے اور خدا تعالیٰ اُسے ثواب سے زیادہ بھی دیتا ہے کیونکہ دردِ دل ایک قابل قدر شئے ہے۔حیلہ جُو انسان تاویلوں پر تکیہ کرتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ تکیہ کوئی شئے نہیں جب مَیں نے چھ ماہ روزے رکھے تھے تو ایک دفعہ ایک طائفہ انبیاء کا مجھے (کشف میں )ملا اور انہوں نے کہا کہ تونے کیوں اپنے نفس کو اس قدر مشقت میں ڈالا ہوا ہے اس سے باہر نکل۔اسی طرح جب انسان اپنے آپ کو خدا کے واسطے مشقت میں ڈالتا ہے تو وہ خود ماں باپ کی طرح رحم کرکے اُسے کہتا ہے کہ تو کیوں مشقت میں پڑا ہوا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم ص 564،563)

پچھلا پڑھیں

نعت

اگلا پڑھیں

برصغیر کے ممتاز شاعر، صاحبِ طرز ادیب و ناول نگار اور بلند پایہ صحافی