• 16 مئی, 2024

درود شریف کی اہمیّت اور برکات

آنحضرت ﷺ کے انسانیّت پر بے شمار احسانات ہیں۔آپ ؐخود بھی سرا سر نور ہیں اور آپ کی لائی ہوئی کتاب بھی نور ہی نور ہے جس کے ذریعے آپؐ نے لوگوں کو اس طور سے اندھیروں سے نکالا کہ اُن کے آگے بھی نور چلنے لگا اور پیچھے بھی۔ آپ نے مُردوں کو جلایا اور وحشیوں کو انسان اور انسانوں کو باخدا انسان بنا دیا۔ لوگوں کی ہدایت کے لئے اس قدر تڑپتے اور رو رو دعائیں کرتے اور اپنی جان کو دُکھ میں ڈالتے کہ عرش کے خدا نے آپ کی اس حالت کو دیکھ کر فرمایا لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّایَکُونُوْا مُؤْمِنِیْن (الشعراء:4) یعنی شاید تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالے گا کہ وہ کیوں نہیں مومن ہوتے۔

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘ وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرہ گزرا کہ لاکھوں مُردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑگئے اور ا ٓنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے اور دُنیا میں یک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سُنا ۔ کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دُعائیں ہی تھی جنہوں نے دُنیا میں شور مچا دیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس اُمّی بیکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں۔ اللّٰھم صل و سلم و بارک علیہ و اٰلہ بعدد ھمہ و غمہ و حزنہ لھٰذہ الامۃ و انزل علیہ انوار رحمتک الی الابد

(برکات الدعا، روحانی خزائن جلد۶ صفحہ 10-11)

آپ کے طفیل دنیا کو ایسی پاک اور کامل تعلیم عطا کی گئی جو انسان کی ہر طرح کی کامیابیوں اور کامرانیوں کا ذریعہ ہے ۔ زندگی کا کوئی ایک بھی ایسا شعبہ نہیں جس میں آپ نے اس تعلیم پر خود عمل کرکے لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے کامل نمونہ نہ دکھایا ہو۔

چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں ‘‘ وہ انسان جس نے اپنی ذات سے اپنی صفات سے اپنے افعال سے اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قویٰ کے پر زور دریا سے کمال تام کا نمونہ علماً و عملاً و صدقاً و ثباتاً دکھلایا اور انسان کامل کہلایا ۔۔۔۔۔وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہوگیا وہ مبارک نبی حضرت خاتم االانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلین فخر النبیین جناب محمد مصطفٰی ﷺ ہیں ۔اے پیارے خدا اس پیارے نبیؐ پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو ۔ ’’

(اتمام الحجہ صفحہ 28)

آپؐ مخلوقِ خدا کے لئے سرا سر رحمت اور عافیّت کا ایک حصار تھے ۔ آپ کی اس پہلو سے بھی امتیازی شان ہے کہ جملہ انبیاء میں سے صرف آپ کو ہی رحمۃ لّلعالمین کا لقب عطا ہوا ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَااَ رْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ (الانبیاء 108) اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت کے طور پر ۔ پھر اپنے متبعین اور مومنین کے لئے آپ کے خصوصی پیار اور محبت ، رأفت و شفقت اور رحم کے جذبات اور سلوک کا خدا تعالیٰ نے قرآن پاک میں یوں ذکر فرمایا ہے کہ لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِا اْمُؤْمِنِیْنَ رَ ءُوْفٌ رَّحِیْمٌ

(التوبۃ :128)

یقیناً تمہارے پاس تمہیں میں سے ایک رسول آیا۔ اسے بہت شاق گزرتا ہے جو تم تکلیف اٹھاتے ہو (اور ) وہ تم پر (بھلائی چاہتے ہوئے) حریص (رہتا)ہے۔مومنوں کے لئے بے حد مہربان (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

انسانی وہم و گمان سے بلند و برتر شانِ مُصطفوی، آپ کے محامد اور احسانات بے حدو حساب ہیں جن سے قرآن و احادیث بھرے پڑے ہیں۔ پس وہ جورحمۃ للعٰلمین تھا اور اپنے ماننے والوں کے لئے خاص طور پر مہربان اور سراپا رحمت و شفقت تھا اور جس پر ان کا تکلیف میں پڑنا شاق گزرتا تھا اس کا حق بنتا ہے کہ ہم جو آپ کے ماننے والے ہیں ہم بھی شکر گزاری اور احسان مندی کے جذ بات سے معمور ہوکر آپ کے لئے سلامتی اور رحمت کی دعائیں کیا کریں ۔

روایت میں آتا ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر دنیا میں آئے لیکن انسانیّت کے اس محسنِ اعظم کے بلند ترین روحانی مقام کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان سب انبیاء میں سے اللہ تعالیٰ نے صرف آپ ؐ پر اپنے اور فرشتوں کی طرف سے درود بھیجنے کا ذکر کر کے تمام مومنین کو ترغیب دلائی ہے کہ وہ بھی آپ پر درود بھیجا کریں ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاَ یُّھَا ا لَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب : 57 ) یعنی اللہ اور اس کے فرشتے اس نبی پر درود بھیجتے ر ہتے ہیں پس اے مومنو! تم بھی اس نبی پر درود بھیجتے رہا کرو اور اس کے لئے سلامتی مانگتے رہا کرو ۔

مذکورہ بالا آیت سے ظاہر ہے کہ اس میں

(1) اللہ تعالیٰ نے درود خوانی کو ایمان کی علامت قرار دیا ہے ۔پس ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ اپنے عمل سے اس علامت کو ظاہر کرے۔

(2) درود شریف پڑھنے سے انسان کو خدا اور فرشتوں کی ہمنوائی کا شرف حاصل ہوتا ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے درود خوانی کو اپنا اور اپنے ملائکہ کا فعل قرار دیا ہے ۔

(3) نماز پنچگانہ کی ادائیگی ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے اس کے علاوہ بھی نمازیں ہیں درود شریف کو ہر نماز کا جزو قرار دیا گیا ہے

(4) جس طرح نماز کے لئے قرآن مجید میں صلوٰۃ کا لفظ آیا ہے اسی طرح درود کے لئے بھی قرآن مجید میں صلوٰۃ کا لفظ آیا ہے ۔

پس اس نام سے بھی درود کی اہمیّت ظاہر ہے ۔لاریب حضرت محمد رسول اللہ ﷺ انسانیّت کے محسنِ اعظم ہیں اور ہر محسن کے احسانات کا شکر ادا کرنا واجب ہے اور درود خوانی شکر گزاری کا ایک ذریعہ ہے ۔پس اس کا پڑھنا اس لحاظ سے بھی نہایت ضروری ہے ۔کیونکہ جو بندوںکا شکر ادا نہیں کرتا اس کو خدا کا شکر ادا کرنے کی بھی توفیق نہیں ملتی ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسّلام فرماتے ہیں۔ “ آپ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے یہ حکم دیا ۔کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر درود بھیجیں۔ ان کی ہمت اور صدق وہ تھا ۔کہ اگر ہم اوپر یا نیچے نگاہ کریں ۔تو اس کی نظیر نہیں ملتی ۔’’

( اخبار الحکم جلد 7 نمبر 25 پرچہ 10 جولائی 1902ء)

کون سا درود پڑھا جائے

یاد رکھنا چاہئے کہ درود وہی بابرکت ہے جس کے پڑھنے کا خود آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔ حدیث شریف میں حضرت کعب ؓ بیان فرماتے ہیں۔

بَأَ لْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَقُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ کَیْفَ الصَّلٰوۃُ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ فَاِنَّ اللّٰہَ قَدْ عَلَّمَنَا کَیْفَ نُسَلِّمُ قَالَ قُوْلُوْ ا اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْم وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

(صحیح بخاری کتاب الا نبیاء)

ہم لوگوں نے (ایک دفعہ )حضرت رسول کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم آپ لوگوں یعنی آپ کے گھر کے ساتھ تعلق رکھنے والے تمام لوگوں پر درود کس طرح بھیجا کریں۔سلام بھیجنے کا طریق تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا ہے مگر درود بھیجنے کا طریق ہم نہیں جانتے ۔آپ نے فرمایا یوں کہا کرو ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْم وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔اے اللہ محمد ﷺ پر اور محمدؐ کی آل پر درود بھیج ۔جیسا کہ تو نے حضرت ابراہیم پر اور حضرت ابراہیم کی آل پر درود بھیجا ہے ۔تو بہت ہی حمد والا اور بزرگی والا ہے ۔اے اللہ تو محمدﷺ پر اور محمد ؐ کی آل پر برکات بھیج ۔جیسا کہ تونے حضرت ابراہیم اور حضرت ابراہیم کی آل پر برکات بھیجے ہیں تو بہت ہی حمد والا اور بزرگی والا ہے ۔

درود شریف کس طرح پڑھا جائے

حضرت مسیح موعود ؑ اپنے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں۔
“درود شریف اس طور پر نہ پڑھا کریں کہ جیسا عام لوگ طوطے کی طرح پڑھتے ہیں۔نہ ان کو جناب حضرت رسول اللہ ﷺ سے کچھ کامل خلوص ہوتا ہے اور نہ وہ حضور ِ تام سے اپنے رسول مقبول ؐ کے لئے برکاتِ الہٰی مانگتے ہیں ۔بلکہ درود شریف سے پہلے اپنا یہ مذہب قائم کر لینا چاہئے کہ رابطہء محبت آنحضرت ﷺ اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ ہر گز اپنا دل تجویز نہ کرسکے کہ ابتدائے زمانہ سے انتہاء تک کوئی ایسا فرد بشر گزرا ہے جو اس مرتبہ محبت سے زیادہ محبت رکھتا تھا یا کوئی ایسا فرد آنے والا ہے جواس سے ترقی کرے گا ۔اور قیام اس مذہب کا اس طرح پر ہوسکتا ہے کہ جو کچھ محبانِ صادق آنحضرت ﷺ کی محبت میں مصائب اور شدائد اٹھاتے رہے ہیں یا آئندہ اٹھا سکیں یا جن جن مصائب کا نازل ہونا عقل تجویز کرسکتی ہے وہ سب کچھ اٹھانے کے لئے دلی صدق سے حاضر ہو ۔اور کوئی ایسی مصیبت عقل یا قوّتِ واہمہ پیش نہ کرسکے کہ جس کے اٹھانے سے دل رک جائے اور کوئی ایسا حکم عقل پیش نہ کرسکے کہ جس کی اطاعت سے دل میں کچھ روک یا انقباض پیدا ہو اور کوئی ایسا مخلوق دل میںجگہ نہ رکھتا ہو جو اس جنس کی محبت میں حصہ دار ہو ۔۔۔۔پس جب اس طور پر یہ درد شریف پڑھا گیا تو وہ رسم اور عادت سے باہر ہے اور بلا شبہ اس کے عجیب انوار صادر ہوں گے ۔

اور حضور ِ تام کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ اکثر اوقات گر یہ و بکاساتھ شامل ہو اور یہاں تک یہ توجہ رگ اور ریشہ میں تاثیر کرے کہ خواب اور بیداری یکساں ہوجائے ۔’’

(مکتوبات جلد 1صفحہ13)

اسی طرح ایک دوسرے خط میں نصیحت کرتے ہیں ۔ ‘‘ آپ درود شریف کے پڑھنے میں بہت ہی متوجہ رہیں ۔اور جیسا کہ کوئی اپنے پیارے کے لئے فی الحقیقت برکت چاہتا ہے ۔ایسے ہی ذوق اور اخلاص سے حضرت نبی کریم ﷺ کے لئے برکت چاہیں ۔اور بہت ہی تضرع سے چاہیں ۔اور اس تضرع اور دعا میں کچھ بناوٹ نہ ہو۔بلکہ چاہئے کہ حضرت نبی کریم ﷺ سے سچی دوستی اور محبت ہو ۔اور فی الحقیقت روح کی سچائی سے وہ برکتیں آنحضرت ﷺ کے لئے مانگی جائیں ۔کہ جو درود شریف میں مذکور ہیں ۔۔۔۔اور ذاتی محبت کی یہ نشانی ہے کہ انسان کبھی نہ تھکے اور نہ ملول ہو ۔اور نہ اغراض نفسانی کا دخل ہو ۔اور محض اسی غرض کے لئے پڑھے کہ آنحضرت ﷺ پر خداوند کریم کے برکات ظاہر ہوں ۔’’

(مکتوبات احمدیہ جلد اول صفحہ 24-25)

درود شریف کا اجر

نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ عَشْراً (مسلم ) یعنی جو شخص مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجے اللہ تعالیٰ اس پر دس دفعہ رحمت نازل کرتا ہے ۔پس اس بشارت سے بھی درود شریف کی فضیلت ظاہر ہے ۔یاد رہے کہ اعمال کی جزاء میں نیت کا بہت کچھ دخل ہوتا ہے نیت میں جس قدر صدق و اخلاص اور وسعت ہوگی اجر بھی اسی نسبت سے ارفع و اعلیٰ اور وسیع ہوگا ۔پس آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کا کہ جو شخص مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجے اللہ تعالیٰ اس پر دس دفعہ رحمت بھیجتا ہے یہ منشاء ہرگز نہیں ہوسکتا کہ جو شخص کامل اخلاص اور کامل محبت اور کامل معرفت سے درود پڑھے گا اس کو بھی اس سے زیادہ جزاء نہیں ملے گی بلکہ یہ مطلب ہے کہ ایک دفعہ درود پڑھنے کی کم از کم جزاء دس گنا ہے چنانچہ عبد اللہ بن عمروؓ سے مروی ہے کہ جو شخص آنحضرت ﷺ پر عمدگی سے ایک دفعہ درود بھیجے گا اس پر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے ستر بار درود بھیجیں گے۔

(جلاء الا فھام بحوالہ مسند احمد بن حنبل )

پس اس حدیث سے بھی ظاہر ہے کہ جزاء وسعتِ نیت پر موقوف ہے ۔

حضرت عبداللہؓ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت نبی کریم ﷺ کو فرماتے سنا کہ جب تم مؤذن کو اذان دیتے ہوئے سنو تو تم بھی وہی الفاظ دہراؤ جو وہ کہتا ہے ۔پھر مجھ پر درود بھیجو ۔جس شخص نے مجھ پر درود پڑھا اللہ تعالیٰ اس پر دس گنا رحمتیں نازل فرمائے گا ۔پھر فرمایا: “میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ مانگو جو جنت کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے جو اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ کو ملے گا ۔اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہ میں ہی ہوں گا ۔جس کسی نے بھی میرے لئے اللہ سے وسیلہ مانگا اس کے لئے شفاعت حلال ہوجائے گی ۔”

(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب القول مثل قول المؤذن سمعہ ثم یصلی علی النبی ﷺ)

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے نزدیک وہ شخص ہوگا جو ان میں سے مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہو گا ۔

(ترمذی کتاب الصلوٰۃ باب ما جا ء فی فضل الصلوۃ علی النبی ﷺ)

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ قَالَ مَامِنْ اَحَدٍ یُسَلِّمُ عَلَیَّ اِلَّا رَدَّاللّٰہُ عَلَیَّ رُوْحِیْ اَرُدُّ عَلَیْہِ السَّلَامَ

(ابوداؤد کتاب المناسک باب زیارۃ القبور)

حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص بھی مجھ پر سلام بھیجے گا اس کا جواب دینے کے لئے اللہ تعالیٰ میری روح کو واپس لوٹا دیگا تاکہ میں اس کے سلام کا جواب دے سکوں ۔(یعنی آنحضرت ﷺ پر سلام بھیجنے والے کو اس درود کا ایسا اجر اور ثواب ملے گا جیسے خود حضور ؐ سلام و درود کا جواب مرحمت فرما رہے ہوں۔

درود شریف خود ہمارے لئے بھی دعا ہے

آنحضرت ﷺ کا وجود باوجود بحکم وَمَااَ رْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ (الانبیاء :108) دنیا کے لئے سرا سر رحمت ہے اور تمام دنیا کی فلاح و بہبود آپؐ کے اغراض و مقاصد میں شامل ہے اس لئے آپ ؐ کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے دعا کرنا دراصل اپنے اغراض و مقاصد کے لئے ہی دعا کرنا ہے ۔دوسرے اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کے الفاظ میں آنحضرت ﷺ کے علاوہ آپ ؐ کی آل کے لئے بھی دعا کی جاتی ہے اور آل میں تمام امت شامل ہے اس لئے درود نہ صرف آنحضرت ﷺ کے لئے ہی دعا ہے بلکہ خود ہمارے لئے بھی ایک دعا ہے ۔چنانچہ حضرت اُبیّ بن کعب ؓ سے مروی ہے کہ میں نے ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں اپنی دعا کا کتنا حصہ حضور کے لئے مخصوص کیا کروں؟ فرمایا جتنا چاہو ۔عرض کیا ایک چوتھائی ؟ فرمایا جتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ کردو تو زیادہ بہتر ہوگا ۔میں نے عرض کیا نصف حصہ ؟ فرمایا جتنا چاہو اور اگر اس سے بھی بڑھا دو تو اور بھی بہتر ہوگا ۔میں نے عرض کیا دو تہائی؟ فرمایا جتنا چاہو اور اگر اس سے بھی زیادہ کردو تو اور بھی بہتر ہوگا ۔میں نے عرض کیا کہ آئندہ میں اپنی تمام دعا کو حضور کے لئے ہی مخصوص رکھا کروں گا ۔آپؐ نے فرمایا اس میں تمہاری سب ضرورتیں آجائیں گی اور اللہ تعالیٰ تمہارے سارے کام درست کردیگا اور تمہاری ساری مرادیں پوری کردےگا (جامع ترمذی )پس اس حدیث سے بھی ظاہر ہے کہ درود شریف نہ صرف آنحضرت ﷺ کے لئے دعا ہے بلکہ خود ہمارے لئے بھی ایک دعا ہے ۔

درود شریف کے بغیر نماز ہے نہ دعا

حضرت سہیل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا جو شخص (نماز میں ) خدا کے نبی پر درود نہ بھیجے اس کی کوئی نماز نہیں ہے۔

(اجلاء لا فہام بحوالہ سنن نسائی )

حضرت عمر بن خطاب ؓ فرماتے ہیں کہ دعا آسمان اور زمین کے درمیان ٹھہر جاتی ہے اور جب تک تُوا پنے نبی ﷺ پر درود نہ بھیجے اس میں سے کوئی حصہ بھی (خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہونے کے لئے) اوپر نہیں جاتا ۔

(ترمذی کتاب الصلوۃ باب ما جاء فی فضل الصلوۃ علی النبی ﷺ)

آنحضرت ﷺ تک درود کیسے پہنچتا ہے

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَ نَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ قَالَ اِنَّ لِلّٰہِ مَلٰٓئِکَۃً سَیَّا حِیْنَ یُبَلِّغُوْ نَنِیْ عَنْ اُمَّتِیَ السَّلَامَ

(جلاء الافہام ص 30 بحوالہ سنن نسائی )

ترجمہ : ’’ حضرت عبد للہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے بعض فرشتے ایسے ہیں جو زمین پر پھرتے رہتے ہیں اور وہ مجھے میری امت کی طرف سے سلام پہنچاتے ہیں

عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ قَالَ حَیْثُمَا کُنْتُمْ فَصَلُّوْا عَلَیَّ فَاِنَّ صَلٰوتَکُمْ تَبْلُغُنِیْ

(جلاء الافھام بحوالہ معجم کبیر طبرانی )

حضرت امام حسن ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے تم جہاں بھی ہو مجھ پر درود بھیجا کرو۔تمہارا درود مجھے پہنچ جائے گا ۔

حضرت مسیح موعود ؑ سے سوال کیا گیا کہ السلام علیکم یا اھل القبور جو کہا جاتا ہے کیا مُردے سنتے ہیں؟

آپ نے جوابًا فرمایا
“دیکھو وہ سلام کا جواب و علیکم السلام تو نہیں دیتے ۔خداتعالیٰ وہ سلام ان کو پہنچا دیتا ہے ۔اب ہم جو آواز سنتے ہیں ۔اس میں ہوا ایک واسطہ ہے لیکن یہ واسطہ مُر دہ اور تمہارے درمیان نہیں۔ لیکن السلام علیکم میں خداتعالیٰ ملائکہ کو واسطہ بنادیتا ہے ۔اسی طرح درود شریف ہے کہ ملائکہ آنحضرت ﷺ کو پہنچادیتے ہیں ۔’’

درود شریف کی تاکید، فضائل اور برکات
(بیان فرمودہ حضرت مسیح موعود ؑ)
شرط بیعت

درود شریف کی اہمیّت کے پیش نظر حضرت مسیح موعود ؑ نے اس کا ذکر اپنی دس شرائط بیعت میں بھی کیا ہے چنانچہ تیسری شرط کے الفاظ یہ ہیں۔ “یہ کہ بلا ناغہ پنچ وقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا ۔اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا ۔اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کرکے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنائے گا ۔’’

درود شریف واستغفار اور نماز بہترین وظیفہ ہے

ایک شخص نے بیعت کے بعد حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں عرض کیا ۔کہ حضور مجھے کوئی وظیفہ بتائیں ۔اس پر حضور ؑنے فرمایا کہ “نمازوں کو سنوار کر پڑھو کیونکہ ساری مشکلات کی یہی کنجی ہے۔اور اس میں ساری لذت اور خزانے بھرے ہوئے ہیں ۔ صدق د ل سے روزے رکھو ۔صدقہ و خیرات کرو ۔درود و استغفار پڑھا کرو ۔’’

(الحکم جلد 7۔28 فروری 1903ء)

درود شریف دنیا وآخرت کے محمود ہونے کا ذریعہ ہے

اپنے ایک خط بنام چوہدری رستم علی صاحب ؓ میں فرمایا ’’بعد سلام مسنون آپ کا عنایت نامہ پہنچا ۔بعض اوقات یہ عاجز بیمار ہو جاتا ہے اس لئے ارسال جواب سے قاصر رہتا ہے ۔آپ کے لئے دعا کی ہے ۔خدا تعالیٰ دنیا و آخرت محمود کرے ۔بعد نماز عشاء درود شریف بہت پڑھیں ۔اگر تین سو مرتبہ درود شریف کا ورد مقرر رکھیں تو بہتر ہے ۔اور بعد نماز صبح اگر ممکن ہوتو تین سو مرتبہ استغفار کا ورد رکھیں ۔والسلام

(مکتوبات جلد 5 نمبر 3 صفحہ 3)

درود شریف غموم اور پریشانیوں کے دور ہونے کا ذریعہ ہے

سیٹھ عبدا لرحمٰن ؓ کے نام اپنے ایک خط میں آپ فرماتے ہیں۔
‘‘عنایت نامہ پہنچا ۔یہ عاجز دعا میں بدستور مشغول ہے اور انشاء اللہ القدیر اسی طرح مشغول رہے گا جب تک آثار خیر وبرکت ظاہر ہوں۔ دیر آید درست آید ۔میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ بھی اس تشویش کے وقت اکیس مرتبہ کم سے کم استغفار اور سو مرتبہ درود شریف پڑھ کر اپنے لئے دعا کرلیا کریں ۔ اگر اس کی دلی ذوق اور محبت سے مداومت کی جائے تو زیارت رسول کریم ﷺ بھی ہوجاتی ہے ۔ اور تنویر باطن اور استقامت دین کے لئے بہت مؤ ثر ہے ۔’’

(مکتوبات احمدیہ جلد 5نمبر 3 صفحہ7-6)

حضرت شاہزادہ حاجی عبد المجید خان لدھیانویؓ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں ‘‘ جب یہ عاجز حضرت مسیح موعود ؑ کی بیعت کرچکا۔ تو حضور نے فرمایا کہ مشکلات کے وقت بعد از نماز عشاء دو رکعت نماز قضائے حاجت ادا کرکے سو دو سو دفعہ یا اس سے کم و بیش استغفار اور ایسا ہی سو دو سو دفعہ یا کم و بیش درود شریف پڑھ کر خوب دعا مانگو اللہ تعالیٰ حاجتوں کو نہیں اٹکاوے گا ۔

(از رسالہ درود شریف صفحہ 132)

حضرت مولانا غلام رسول راجیکی ؓ کی روایت ہے‘‘ جب میں نے حضرت مسیح موعود ؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تو حضور ؑنے مجھے درود شریف اور استغفار کثرت سے پڑھنے کا ارشاد فرمایا ‘‘ اسی طرح اور دوستوں کو بھی حضور درود شریف اور استغفار کی تاکید فرماتے ایک دوست نے کوئی وظیفہ پوچھا تو فرمایا۔ ہمارے ہاں تو کوئی ایسا وظیفہ نہیں ہے ہاں استغفار بہت کیا کریں اور حضرت نبی کریم ﷺ کے احسانات کو یاد کرکے آپ پر کثرت سے درود بھیجا کریں بس یہی وظیفہ ہے ’’

حضرت پیر سراج الحق نعمانی ؓ نے بھی آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ کوئی وظیفہ بتائیں تو آپ نے فرمایا کہ‘‘ آپ درود شریف پڑھاکریں۔’’

درود شریف کی برکت سے زیارت نبوی ﷺ

ایک دفعہ ایک صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں آنحضرتﷺ کو خواب میں دیکھنے کا بہت خواہش مند ہوں ۔آپ نے فرمایا :‘‘ آپ درود شریف بہت پڑھا کریں ’’

( بدر جلد 3 نمبر 14)

درود شریف سے لذت ، انشراح اور حیات قلب

‘‘درود شریف کے پڑھنے کی مفصل کیفیت پہلے لکھ چکا ہوں ۔۔۔۔ کسی تعدا دکی شرط نہیں ۔اسقدرپڑھا جائے ۔کہ کیفیت ِصلوٰۃ سے دل مملو ہو جائے ۔اور ایک انشراح اور لذت اور حیات قلب پیدا ہوجائے ۔اور اگر کسی وقت کم پیدا ہو ۔تب بھی بےدل نہیں ہونا چاہئے۔سو جس قدر میسر آوے ۔اس کو کبریت احمر سمجھے ۔اور اس میں دل وجان سے مصروفیت اختیار کرے’’

( مکتوبات احمدیہ جلد اول صفحہ 26)

رود شریف حصول استقامت اور قبولیت دعا کا ذریعہ ہے

‘‘رسول اللہ ﷺ کی محبت کے ازدیاد اور تجدید کے لئے ہر نماز میں درود شریف کا پڑھنا ضروری ہوگیا ۔تاکہ اس دعا کی قبولیت کے لئے استقامت کا ایک ذریعہ ہاتھ آئے ۔درود شریف جو حصول استقامت کا ایک زبردست ذریعہ ہے ۔بکثرت پڑھو ۔مگر نہ رسم اور عادت کے طور پر بلکہ رسو ل اللہ ﷺ کے حسن اوراحسان کو مد نظر رکھ کر اور آپ کے مدارج اور مراتب کی ترقی کے لئے اور آپ کی کامیابیوں کے واسطے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قبولیت دعا کا شیریں اور لذیذ پھل تم کو ملے گا ۔’’

(سلسلہ کلمات طیبات حضرت امام الزمان نمبر 1حضرت اقدس کی ایک تقریر صفحہ 22 رسالہ ریویو اردو جلد 3 نمبر1 صفحہ 14-15)

درود شریف کتنی دفعہ پڑ ھا جائے

‘‘اور کسی تعداد کی پابندی ضروری نہیں۔اخلاص اور محبت اور حضور اور تضرع سے پڑھنا چاہئے ۔اور اس وقت تک ضرور پڑھتے رہیں ۔کہ جب تک ایک حالت رقت اور بیخودی اور تاثر کی پیدا ہوجائے ۔اور سینہ میں انشراح اور ذوق پایا جائے ۔’’

( مکتوبات احمدیہ جلد اول صفحہ 18)

حضرت مولانا غلام رسول راجیکی ؓ فرماتے ہیں۔‘‘قادیان مقدس میں جب میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصوٰ ۃ والسّلام کی بیعتِ راشدہ سے مشرف ہوا تو حضور اقدس علیہ السلام نے ازراہ ِ نصیحت فرمایا کہ نمازوں کو سنوار کر پڑھنا چاہئے اور مسنونہ دعاؤں کے علاوہ اپنی مادری زبان میں بھی دعا کرنی چاہئے ۔مولوی امام الدین صاحب ؓ نے عرض کیا کہ حضور کیا مادری زبان میں دعا کرنے سے نماز ٹوٹ تو نہ جائے گی؟ حضور اقدس فداہ نفسی علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے فرمایا نماز ٹوٹی ہوئی تو پہلے ہی ہے ہم نے تو نماز جوڑنے کے لئے یہ بات کہی ہے ۔اس کے بعد حضرت اقدس علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے ہمیں کثرت سے درود شریف اور استغفار پڑھنے کا ارشاد فرمایا ۔مجھے ایک عرصہ تک درود و استغفار کی کثرت کے متعلق خلجان رہا کہ کثرت سے نہ معلوم کتنی تعداد مراد ہے۔تب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام مجھے بحالت کشف ملے اور میری بیعت لی اور فرمایا کہو استغفراللہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ ما ئۃ مرۃ ۔ یعنی سو مرتبہ استغفار پڑھو ۔اس سے مجھے معلوم ہوگیا کہ کثرت سے مراد عام حالات میں کم ازکم سو مرتبہ استغفار کا ورد ہے ۔ واللّٰہ اعلم با لصواب ’’

(حیات قدسی حصہ دوم )

موزوں تر وقت

‘‘ بعد نماز مغرب و عشاء جہاں تک ممکن ہودرود شریف بکثرت پڑھیں ۔اور دلی محبت و اخلاص سے پڑھیں ۔اگر گیارہ سو دفعہ روز ورد مقرر کریں یا سات سو دفعہ ورد مقرر کریں تو بہتر ہے ۔’’

حضرت مسیح موعود ؑ کی تعلیم کااثر

ایک موقعہ پرمکرم مصلح الدین راجیکی نے ایک غیر احمدی معترض کو جس نے اپنے خیال خام میں یہ سمجھ رکھا تھا کہ احمدی نعوذ باللہ آنحضرت ﷺ کی تعظیم نہیں کرتے کس طرح لاجواب کیا ۔ پشاور میں مقیم سلسلہ کے مربی مکرم مولوی چراغ دین اس چشمدید واقعہ کی تفصیل یوں بیان کرتے ہیں ۔’’پشاور میں جب 1956ء میں آپ کو پانچ چھ ماہ قیام کا موقع ملا تو ایک روز احمدیہ مسجد میں ایک غیراحمدی مولوی صاحب نے دوران گفتگو میں کہا کہ احمدی لوگ آنحضرت ﷺ کی تعظیم نہیں کرتے یہ بات سن کر مولوی مصلح الدین پاس آگئے اور غیر احمدی سے کہنے لگے کہ کیا وہ لوگ جو نبی کریم ﷺ پر دن میں ہزار دفعہ درود بھیجتے ہیں آپ ان کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ حضور ﷺ کی تعظیم نہیں کرتے ۔غیر احمدی نے کہا کہ کون حضور ﷺ پر دن میں ہزار مرتبہ درود بھیجتا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ایک احمدی تو میں ہوں کہ روزانہ کم از کم ہزار بار درود بھیجتا ہوں ۔یہ سن کر وہ صاحب دیر تک آپکی طرف دیکھتے رہے اور پھر خاموشی سے اٹھ کر چلے گئے ۔

(تابعین اصحاب احمد جلد دوم صفحہ 13)

درود اجابت دعا کی کلید ہے

حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں۔
‘‘ پھر درود سے ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ جو شخص درود کثرت سے پڑھتا ہے اس کی دعائیں کثرت سے قبول ہوتی ہیں ۔دنیا میں یہ طریق ہے کہ اگر کسی سے کچھ کام کرانا ہوتو اس کی پیاری چیز سے پیار کیا جاتا ہے ۔کسی عورت سے اگر کوئی کام کرانا ہو تو اس کے بچے سے محبت کرو ۔پھر دیکھو وہ کیسی مہربان ہوتی ہے۔ فقیر بھی جب خیرات لینے کے لئے دروازہ پر جاتا ہے تو یہ صدا کرتا ہے ‘‘ مائی تیرے بچے جیئیں’’ ۔کیونکہ فقیر بھی جانتے ہیں کہ اس صدا کا ماں پر بہت اثر ہوتا ہے جب ماں یہ آواز سنتی ہے تو دوڑی آتی ہے اور فقیر کو خیرات دیتی ہے ۔دیکھو اس آواز کے سنتے ہی جو اس کے پیارے بچے کے لئے ایک دعا ہوتی ہے وہ کس طرح دوڑی آتی ہے اسی طرح درود پڑھنے والے شخص کے متعلق جب خدا دیکھتا ہے کہ اس نے اس کے پیارے کے لئے دعا کی ہے تو کہتا ہے تو نے میرے پیارے کے لئے دعا کی، آ میں تیری دعا بھی قبول کرتا ہوں ۔۔۔ ہم مسجد وں میں جب آئیں تب بھی درود پڑھیں۔اور گھروں میں جب جائیں ۔تب بھی آ نحضرت ﷺ پر درود پڑھیں ۔ ’’

(الفضل جلد 13 نمبر 68 پرچہ 11 دسمبر 1925ء)

درود شریف میں تمام دعائیں آجاتی ہیں

روایت حضرت مفتی محمد صادق ؓ : “میں درود شریف کثرت سے پڑھتا تھا ۔اور اس میں بہت لذت اور سرور حاصل کرتا تھا۔ انہی ایام میں میں نے ایک حدیث میں پڑھا کہ ایک صحابی نے رسول کریم ﷺکے حضور میں عرض کیا کہ میری ساری دعائیں درود شریف ہی ہوا کریں گی ۔یہ حدیث پڑھ کر مجھے بھی پر زور خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی ایسا ہی کروں ۔چنانچہ ایک روز جب کہ میں قادیان آیا ہوا تھا ۔اور مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں حاضر تھا ۔میں نے عرض کیا کہ میری یہ خواہش ہے کہ میں اپنی تمام خواہشوں اور مرادوں کی بجائے اللہ تعالیٰ سے درود شریف ہی کی دعا مانگا کروں ۔حضور ؑ نے اس پر پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور تمام حاضرین سمیت ہاتھ اٹھا کر اسی وقت میرے لئے دعا کی ۔تب سے میرا اس پر عمل ہے کہ اپنی تمام خواہشوں کو درود شریف کی دعا میں شامل کرکے اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہوں ۔اور یہ قبولیت دعا کا ایک بہت بڑا ذریعہ میرے تجربہ میں آیا ہے ۔ وما توفیقی الا با اللّٰہ العلی العظیم۔ محمد صادق 18 اپریل 1934ء ’’

(بحوالہ رسالہ درود شریف صفحہ 138)

درود شریف سے اجرائے نبوت کا استدال

درود میں جو دعا مانگی جاتی ہے اس کا صحیح مطلب یہ ہوا کہ الہٰی حضرت ابراہیم ؑ نے آپ سے جو مانگا ، انہیں آپ نے اس سے بڑھ کر دیا ۔اب محمد ﷺ نے جو مانگا ، انہیں بھی مانگنے سے بڑھ کر عطا کیجئے ۔دوسرے لفظوں میں اس کے یہ معنی ہوئے کہ جو کچھ حضرت ابراہیم ؑ کو ملا ‘ محمد ﷺ کو اس سے بڑھ کر دیا جائے۔اور وہ چیز جس کے لئے حضرت ابراہیم ؑ سے بڑھ کر ر سول کریم ﷺکو دینے کی دعا کی گئی ہے ، یہی ہے کہ حضرت ابراہیم نے امت مسلمہ مانگی ۔ان کی نسل میں نبوت قائم کردی گئی ۔ رسول کریم ﷺنے اپنی امت کے لئے ان سے بڑھ کردعا کی ۔اس لئے آپ کی امت کو ان کی امت سے بڑھ کر نعمت دی جائے اس نکتہ کو مدّنظر رکھتے ہوئے درود کو دیکھیں تو معلوم ہوسکتا ہے کہ کتنے عظیم الشان مدارج کے حصول کے لئے اس میں دعا سکھائی گئی ہے ۔ درود شریف کی اس عظیم الشان برکت کا ذکر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ کے الفاظ میں ملاحظہ فرماویں :

“اور جب ہم درود پڑھتے ہیں تو رسول کریم ﷺپر احسان نہیں کررہے ہوتے ہیں ۔کیونکہ اس میں رسول کریم ﷺکی امت کی ترقی کی دعا ہے ۔۔۔۔۔ کہ وہ رحمتیں جو حضرت ابراہیمؑ کے ذریعہ ظاہر ہوئیں ان سے بڑھ کر رسول کریم ﷺکے ذریعہ نازل کی جائیں ۔یعنی جس طرح ان کو مانگنے سے بڑھ کر دیا گیا اسی طرح رسول کریم ﷺنے جو کچھ مانگا اس سے بڑھ کر دیا جائے۔’’

(الفضل 13 جنوری 1928ء )

ایک مرتبہ حضرت قاضی محمد نذیر فاضل (المعروف لائل پوری ) کی ایک فاضل دیو بندی مولوی سے ختم نبوت پر دو دن بحث ہوتی رہی اس بحث میں دو ثالث بھی مقرر کئے گئے تھے ۔با لآخر قاضی صاحب نے اس مولوی سے کہا کل سے آپ مجھ سے یہ بحث کررہے ہیں کہ رسول کریم ﷺکے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آسکتا ۔مگر میں حیران ہوں کہ کہتے آپ کچھ ہیں اور عمل آپ کا کچھ اور ہے آپ نے اپنی اس بات کی وضاحت یوں فرمائی۔

قاضی صاحب : خداتعالیٰ کے حضور پانچ وقت نماز میں تو آپ دعا کرتے ہیں کہ خدایا امت میں نبی بھیج اور مجھ سے آپ یہ بحث کررہے ہیں کہ اب امتی نبی بھی نہیں آسکتا ۔
مولوی صاحب : (جھنجھلا کر ) میں ایسا کب کرتا ہوں ؟
قاضی صاحب : ذرا وہ درود شریف تو پڑھ کر سنائیں جو آپ نماز میں پڑھتے ہیں ۔
مولوی صاحب : (درود شریف پڑھنے لگے)
قاضی صاحب : مولوی صاحب وہ رحمتیں اور برکتیں جو آل محمد ﷺ کے لئے آپ طلب کرتے ہیں ‘ آیا وہ وہی رحمتیں اور برکتیں ہیں جو آل ِ ابراہیم ؑ کو ملی تھیں؟
مولوی صاحب : ہاں ۔ٹھیک وہی ہیں
قاضی صاحب :مولوی صاحب ان رحمتوں اور برکتوں میں تو نبوّت بھی شامل ہے جو آپ آل محمدؐ کے لئے طلب کرتے ہیں ۔
یہاں تک بات ہوئی تھی کہ مولوی صاحب کا مقرر کردہ ثالث بول اٹھا ۔وہ کہنے لگا ۔قاضی صاحب آپ ذرا تشریف رکھیں ۔میں مولوی صاحب سے کچھ پو چھنا چاہتا ہوں ۔یہ کہہ کراس ثالث اور مولوی صاحب کے درمیان مندرجہ ذیل مکالمہ چل پڑا :
ثالث مولوی صاحب کیا آپ درود شریف میں آل محمد ؐ کے لئے حلوہ مانڈہ طلب کرتے ہیں ؟
مولوی صاحب : نہیں ۔روحانی نعمتیں طلب کرتا ہوں ۔
ثالث: اچھا یہ بتائیں کہ آپ آل محمدؐ کے لئے وہی رحمتیں اور برکتیں طلب کرتے ہیں جو آلِ ابراہیم ؑ کو ملیں یا کچھ اور ؟
مولوی صاحب : وہی رحمتیں اور برکتیں طلب کرتا ہوں ۔
ثالث : اچھا ، مولوی صاحب فرمائیے آل ابراہیم ؑ کو کون کون سی رحمتیں اور برکتیں ملیں؟
مولوی صاحب: آل ابراہیم ؑ میں بڑے بڑے اولیاء کرام پیدا ہوئے ۔
ثالث : الحمد للہ ۔تو پھر درود شریف کی دعا سے آل محمدؐ میں بھی بڑے بڑے اولیاء ہونے چاہئیں ۔
مولوی صاحب : ہاں ۔
ثالث : اچھا فرمائیے ۔آل ابراہیم ؑ کو اور کیا کیا رحمتیں اور برکتیں ملیں ؟
مولوی صاحب: ان میں بڑے بڑے مقربین بار گاہ ِ الہٰی پیدا ہوئے ۔

ثالث: پھر درود شریف کی دعا سے آل محمد ؐ میں بھی مقربین بار گاہِ الہٰی پیدا ہوسکتے ہیں یا نہیں؟
مولوی صاحب : ہو سکتے ہیں ۔
ثالث: اچھا مولوی صاحب یہ بھی بتائیے کہ آل ابراہیمؑ میں کوئی نبی بھی ہوا ہے یا نہیں؟
مولوی صاحب : ہاں نبی بھی ہوئے ہیں ۔

حضرت قاضی صاحب موصوف فرماتے ہیں : ‘‘ اس پر وہ ثالث فی الفور کہنے لگا کہ اچھا ، مولوی صاحب اگر یہ بات ہے تو پھر میں آپ کے خلاف ، اور قاضی صاحب کے حق میں ڈگری دیتا ہوں ۔ کیونکہ جب آل ابراہیم ؑ میں نبی ہوتے رہے ، تو آل محمد ﷺ میں بھی نبی ہونے چاہئیں ‘‘

( خلاصۃً از شانِ خاتم النبییّن ؐ صفحہ 104-107مصنفّہ قاضی محمد نذیر فاضل سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ)

اب سنئے حضرت مسیح موعود ؑ اپنی نبوت اور اپنے دعویٰ کے متعلق کیا فرماتے ہیں “ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ درود شریف کے پڑھنے میں یعنی آنحضرت ﷺپر درود بھیجنے میں ایک زمانہ تک مجھے بہت استغراق رہا ۔کیونکہ میرا یقین تھا کہ خدا تعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں وہ بجز وسیلہ نبی کریم ؐ کے مل نہیں سکتیں۔ جیسا کہ خدا بھی فرماتا ہے وابتغو االیہ الوسیلۃ تب ایک مدت کے بعد کشفی حالت میں میں نے دیکھا کہ دو سقّے یعنی ماشکی آئے اور ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راستے سے میرے گھر میں داخل ہوئے ہیں اور ان کے کاندھوں پر نور کی مشکیں ہیں اور کہتے ہیں ھذا بما صلیت علیٰ محمد

(حاشیہ حقیقۃ الوحی صفحہ 131)

اسی طرح آپ ؑ نے فرمایا ‘‘ یاد رہے کہ بہت سے لوگ میرے دعوے میں نبی کا نام سنکر دھوکہ کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے اس نبوت کا دعویٰ کیا ہے جو پہلے زمانوں میں براہ راست نبیوں کو ملی ہے لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں میرا ایسا دعویٰ نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت ﷺکے افاضہ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا ۔اس لئے میں صرف نبی نہیں کہلا سکتا بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امّتی اور میری نبوّت آنحضرت ﷺکی ظل ہے نہ کہ اصلی نبوّت ۔اسی وجہ سے حدیث اور میرے الہام میں جیسا کہ میرا نام نبی رکھا گیا ایسا ہی میرا نام امّتی بھی رکھا ہے تا معلوم ہو کہ ہر ایک کمال مجھ کو آنحضرت ﷺکی اتباع اور آپکے ذریعہ سے ملا ہے ’’

(حاشیہ حقیقۃ الوحی صفحہ154)

حضرت مسیح موعودؑنے کیا خوب فرمایا۔

اس نور پر فداہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں
وہ ہے میں چیز کیاہوں بس فیصلہ یہی ہے
مصطفٰی ؐ پر تیرا بیحد ہو سلام اور رحمت
اس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے

درود شریف کے بعض ظاہری فوائد درود شریف تنگی دور ہونے کا ذریعہ ہے

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ السَّوَائِیْ عَنْ اَبِیْہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ کَثْرَۃُ الذِّ کْرِ وَالصَّلوٰۃِ عَلَیَّ تَنْفِی الْفَقْرَ

ترجمہ : حضرت جابر بن سمرہ سوائی ؓ سے روایت کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا ہے کثرت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا اور مجھ پر درود بھیجنا تنگی کے دور ہونے کا ذریعہ ہے ۔

(جلاء الافہام بحوالہ حلیہ ابی نعیم اختصار ا صفحہ51)

درود شریف دماغی پریشانی کا علاج ہے

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ اَبِیْ رَافِعٍ مَوْلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ اِذَا طَنَّتْ اُذُنُ اَحَدِکُمْ فَلْیَذْکُرْنِیْ وَ لْیُصَلِّ عَلَیَّ (جلاء الا فہام بحوالہ طبرانی)

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن ابی رافع ؓ آزاد فرمودہ آنحضرت ﷺ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے جب تم میں سے کسی شخص کو (دماغی پریشانی کے باعث ) سوائے پریشان سی آواز کے (جو مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی سی ہوتی ہے ) اور کچھ سنائی نہ دے ۔تو وہ میرے تعلق (اور میرے احسانات ) کو یاد کرکے مجھ پر درود بھیجے ۔(اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس کی اس پریشانی کو دور کرکے اسے چین بخشے گا )

درود شریف بھولی ہوئی بات کے یاد آنے کا ذریعہ ہے

عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ اِذَا نَسِیْتُمْ شَیْئًا فَصَلُّوْ عَلَیَّ تَذْکُرُوْہُ اِنْ شَاءَاللّٰہُ

(جلاء الا فہام صفحہ 357)

ترجمہ : حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا ۔کہ جب تمہیں کوئی بات بھول جائے ۔تو اس کا خیال چھوڑ کر مجھ پر درود بھیجو ۔اس کی برکت سے اللہ چاہے گا تو تمہیں وہ بات (بھی) یاد آجائیگی ۔

درود شریف حل مشکلات کی کلید ہے

حافظ نبی بخش صاحب متوطن فیض اللہ چک ( والد حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ ) جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ سابقین اولین میں سے ہیں ۔اور براہین کے زمانہ کے اصحاب میں سے ہیں ۔بیان کرتے ہیں کہ میں نے متعدد مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے کہ درود شریف تمام فیوض کے حصول کی کلید ہے اور یہ کہ جو مشکل اور جو حاجت پیش آئے ۔اس کے لئے درود کا پڑھنا اس کے حل ہونے کا ذریعہ ہے۔

(رسالہ درود شریف صفحہ 295)

سر درد کاعلاج

ایک مرتبہ مولانا غلام رسول راجیکی ؓ کوخواب میں بتایا گیا کہ جس شخص کے سر میں درد ہو اس کے لئے یوں عمل کیا جائے کہ اس کی پیشانی پر لا کا حرف لکھتے جائیں اور درود شریف پڑھتے جائیں تو انشا ء اللہ درد دور ہو جائے گا ۔چنانچہ جب میں نے اس خواب کا ذکر ایک مرتبہ موضع پٹی مغلاں میں کیا تو وہاں کے ایک احمدی ؐ دوست مرزا فضل بیگ صاحب نے اس کا بارہا تجربہ کیا اور لوگوں کو فائدہ پہنچایا ہے الحمد للہ علیٰ ذالک

(حیات قدسی حصہ دوم صفحہ 45-47)

علاج بے روز گاری

ایک احمدی خاتون نے ایک دفعہ مولانا غلام رسول راجیکیؓ کو خط لکھا کہ میرے دو لڑکے باوجود اچھی تعلیم رکھنے کے ابھی تک بیکار ہیں آپ ان کے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی روزگار کی صورت پیدا کردے مولانا صاحب نے اس کے لڑکوں کے لئے متواتر کئی روز تک دعا کی یہانتک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رویا ء کے ذریعہ انہیں بتایا گیا کہ اگر اس کے لڑکے تین لاکھ مرتبہ درود شریف کا ورد کریں گے تو ان کی تین سو روپیہ تنخواہ لگ جائے گی اور اگر ڈیڑھ لاکھ مرتبہ درود شریف کا ورد کریں گے تو ڈیڑھ سو روپیہ ان کی تنخواہ لگ جائے گی ۔

(حیات قدسی حصہ اول صفحہ 61-62)

درود نہ پڑھنے والوں کے لئے لمحہ فکریہ

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ مَنْ لَّمْ یُصَلِّ عَلَیَّ فَلَا دِیْنَ لَہٗ (جلاء الافہام بحوالہ محمد بن حمدان مروزی ) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا ہے جو شخص مجھ پر درود نہیں بھیجتا ۔اس کا کوئی دین ہی نہیں ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ مَنْ نَسِیَ الصَّلٰوۃَ عَلَیَّ خَطِیَٔ طَرِیْقَ الْجَنَّۃِ (سنن ابی ماجہ) حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا ہے ۔جس شخص نے مجھ پر درود بھیجنا چھوڑا وہ جنت کی راہ کو کھو بیٹھا ۔

عَنْ قَتَادَۃَ( تَا بِعِیٌّ) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ مِنَ الْجَفَاءِ اَنْ اُذْکَرَ عِنْدَالرَّجُلِ فَلَا یُصَلِّیَ عَلَیّ( جلاء الافہام بحوالہ سعید بن الا عرابی حضرت قتادہ سے ( مرسلاً ) روایت ہے کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا ہے :یہ ایک کج خلقی اور بد اطواری کی بات ہے کہ ایک شخص کے پاس میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے ۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا اس شخص کی ناک خاک آلودہ ہو جس کے پاس میرا نام لیا گیا لیکن اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا ۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ ا للّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ ثُمَّ تَفَرَّقُوْاعَنْ غَیْرِ ذِکْرِاللّٰہِ عَزَّوَ جَلَّ وَ صَلٰوۃٍ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ اِلَّا قَامُوْا عَنْ اَنْتَنِ جِیْفَۃٍ

(جلاءالافہام بحوالہ سنن کبیر نسائی )

حضرت جابر بن عبدا للہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ۔جس مجلس میں لوگ جمع ہوں اور اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے اور خدا کے نبی ﷺ پر درود بھیجنے کے بغیر چلے جائیں۔وہ ایک نہایت سڑے ہوئے اور سخت بدبودار مردار کی طرح ہوگی اور اس میں شامل ہونیوالے لوگ مردار خور جانوروں میں شمار ہونے کے قابل ہوں گے ۔

درود شریف انسان کو خدا تعالیٰ سے بے نیاز نہیں کر دیتا

حضرت مولوی محمد اسمٰعیل صاحب حلالپوری نے اپنے رسالہ ‘‘درود شریف’’ میں لکھا ہے کہ مکرم شیخ کرم الہٰی صاحب پٹیالوی جو حضرت مسیح موعود ؑ کے بہت پرانے مخلصین میں سے تھے انہیں اپنے ایک خط میں لکھا کہ حضور ؑ نے فرمایا ’’درود شریف کے جس قدر بھی فضائل بیان کئے جائیں کم ہیں ۔میں خود اس کا صاحب تجربہ ہوں ۔مجھ پر جو خدا تعالیٰ کے انعامات ہیں ۔درود شریف کی برکات اور تاثیر ات کا اس میں زیادہ حصہ ہے ۔درود شریف کا ورد کرنے والا نہ صرف ثواب اخروی پاتا ہے بلکہ وہ اس دنیا میں بھی عزت پاتا ہے۔ لیکن باوجود اس کے میں کسی ایسے درود کا قائل نہیں کہ جو انسان کو خدا سے بے نیاز کردے ۔اور جس کے ورد کے بعد قضاوقدر کے احکام خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں نہ رہیں بلکہ درود خواں ان پر حاکم ہوجائے ۔اس مقام پر حضور کے کلام میں جوش کے آثار نمایاں ہوگئے اور چہرہ پر سرخی آگئی ۔اور فرمایا کہ بے شک درود شریف کی بڑی برکات اور تاثیرات ہیں اور اس کی کثرت سے انسان پر برکات نازل ہوتی ہیں ۔اور اس کی برکت سے دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اس کے بے شمار فضائل ہیں ۔لیکن باوجود اس کے انسان کو خدا تعالیٰ کی بے پروائی اور بے نیازی سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہئے کبھی ایسا بھی وقت ہوتا تھا کہ جس نبی اکرم ﷺ پر درود بھیج کر لوگ خیرو برکت پاتے ہیں خود اسے بھی خدا کے احکام کے آگے تسلیم و رضا کے سوا چارہ نہ تھا پس درود خوب پڑھو اور کثرت سے پڑھو مگر اس بات کو بھی ہمیشہ پیش نظر رکھو اور خدا تعالیٰ کو قادر مطلق اور بے نیاز خدا سمجھو اور تسلیم اور رضاپر ایمان کی بنیاد رکھو”

( رسالہ درود شریف صفحہ 293-294)

میں اپنے مضمون کو حضرت رسول کریم ﷺ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود ؑ کے دو اقتباسات پر ختم کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اس عظیم محسن پر درود بھیجنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کی برکات سے بھی مستفیض فرمائے۔ آمین یارب العالمین
‘‘اے لوگو اس رسول پر درود اور سلام بھیجو جس کے قدم پر تمام لوگوں کو جمع کیا گیا اور وہ اپنے خداوند رحیم و کریم کی طرف کھنچے چلے آئے ۔جس نے بہت سی مخلوق کو مہلک اور پر مشقت جنگلوں سے نکال کر امن وامان کے سبزہ زاروں اور باغوں میں پہنچایا ۔اور دہشت زدہ دلوں کو دلیری اور بہادری بخشی تھک کر چور ہو چکی ہوئی اور درماندہ ہمتوں کو قوی کیا ۔اور مفقود ہوچکے ہوئے انوار کو پھر موجود کیا ۔اور حقائق و معارف کے نہایت درخشاں اور خوبصورت موتی اور یاقوت اور مرجان لایا اور اصول قائم کئے اور عقول کو آداب سے زینت بخشی ۔اور پھر لوگوں کو کفر اور گمراہی اور سرکشی کی زنجیروں سے نکالا ۔اور مومنوں اور اسلام لانے والوں کو جو آپ کی خیرو برکت کے طالب تھے اور ہیں یقین اور جمیعت اور اطمینان کا پیالہ پلایا اور انہیں شر اور خسارہ کی راہوں سے بچایا اور خیر اور سعادت اور نیکو کاری کی تمام راہوں پر چلایا ’’

(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد5 صفحہ 4)

ایک اور عربی کتاب میں بھی اس کے متعلق فرماتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے : “اس محسن نبی پر درود بھیجو جوخداوند رحمان و منان کی صفات کا مظہر ہے کیونکہ احسان کا بدلہ احسان ہی ہے اور جس دل میں آپکے احسانا ت کا احساس نہیں اس میں یا تو ایمان ہے ہی نہیں اور یا پھر وہ اپنے ایمان کو خود تباہ کرنے کے درپے ہے ۔اے اللہ اس امی رسول اور نبی پر درود بھیج جس نے آخرین کو بھی سیراب کیا ہے جیسا کہ اس نے اولین کو سیراب کیا تھا اور اپنے رنگ میں رنگین اور پاک لوگوں میں داخل کیا تھا ’’

(ترجمہ ازعربی عبارت اعجازالمسیح صفحہ 4-3)

بھیج درود اُس محسن پر تُو دن میں سوسو بار
پاک محمد مُصطفٰے نبیوں کا سردار
حضرت سید ولد آدم ﷺ
سب نبیوں میں افضل و اکرم ﷺ
نام محمد کام مکرم ﷺ
ہادیٔ کامل رہبر اعظم ﷺ
یارب صلی علی نبیک دائما
فی ھذہ الدنیا و بعث الثان

(حیدر علی ظفر۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

مطالعہ کتب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اہمیت وبرکات

اگلا پڑھیں

حروف مقطعات از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ