• 29 اپریل, 2024

مطالعہ کتب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اہمیت وبرکات

اسلام کے اس دور آخرین میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کےمطا بق مسجدیں ویران ہوگئیں، ہدایت کے چراغ بجھ گئے،علماء بگڑگئے اور اسلام محض نام کا رہ گیا اور امت واحدہ مختلف فرقوں اور حصوں میں تقسیم ہو گئی۔دوسری طرف غیر اقوام اور دجّالی قوتوں نے دن رات اسلام اور بانئ اسلام پر تابڑتوڑ حملے کرنا شروع دئیےاور قریب تھا کہ اسلام کا نام ونشان مٹ جائےاور باطل اپنی فتح کے ڈنکے بجا نے لگے کہ خدائے اسلام کو اس امتِ مرحو مہ پر رحم آگیااور اس نے اپنے محبوب اور پیارے رسولﷺ کی زبان مبارک سے دی گئی پیشگوئیوں کے مطا بق حضرت امام مہدیؑ،مسیح موعود علیہ السلام کوتمام دوسرے ادیان پراسلام کو غالب کرنے کے لئے مبعوث فرمایا۔آپؑ نے غلبہ اسلام کےلئے مختلف ذرائع اختیار فرمائے۔ان میں سے ایک تحریروتقریراور اشاعت کتب ہے۔آپ نے 85کے قریب کتابیں تحریر فرما ئیں۔اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سلطان القلم کے خطاب سے نوازا ہے اور آپ کو روحانی خزائن سے نوازا۔ اس نے آپ کی تحریر میں وہ سحر رکھ دیا جس سے صد یوں کے مردے زندہ ہوگئے، اندھوں کو بینا ئی عطا ہوئی ،گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوگئے ۔انسانیت ہمیشہ کے لئے زندہ ہوگئی اور ایسی حیات سے آشنا ہوئی جو موت کے نام سے نا آشنا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا سچ فرما یا تھا کہ‘‘جو شخص میرے ہا تھ سے جام پیئے گا جو مجھے دیا گیاہےوہ ہرگزنہیں مرےگا۔’’

(ازالہ اوہام ،روحانی خزائن جلد3 ص104 )

اسلام کا دلکش اور خوبصورت چہرہ ظا ہر کر نے کے لئے اور اس کے کما لات و محاسن کو منظرعا م پرلانے کے لئے حضور علیہ السلام کے دل میں کس قدردرد تھا اس کا اندا زہ لگا نے کے لئےحضور علیہ السلام کے ان الفا ظ پر غور کریں ۔آپ ؑ فرما تے ہیں۔

‘‘اسی میں میرا سرور ہے اور اسی میں میرے دل کی ٹھنڈک ہے کہ جوکچھ علوم اور معارف میرے دل میں ڈالا گیا ہے میں خدا کے بندوں کے دلوں میں ڈا لوں ۔ دور رہنے والے کیا جا نتے ہیں مگر جوہمیشہ آتے جا تے ہیں وہ جانتے ہیں کہ کیونکر میں دن رات تالیفات میں مستغرق ہوں اور کس قدرمیں اپنے وقت اور جان کے آرام کواس راہ میں فدا کر رہا ہوں ۔ میں ہر دم اس خدمت میں لگا ہوا ہوں۔ (مجموعہ اشتہا رات جلد3 )حضور علیہ السلام کی یہ کتب جن لوگو ں نے پڑھیں۔ جن لو گوں نے ان تحریرات کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنایا ، جن لوگوں نے علم و معرفت کے ان خزانوں سے اپنے قلب وجگر کو طراوت بخشی وہ کس قدر شاداں و فر حاں تھے اس کی ایک جھلک اس مضمون میں دکھلائی گئی ہے ۔
حضرت خلیفۃ المسیح ا لاول ؓجنہوں نے تحصیل علم کے لئے عرب و عجم کے اساتذہ کے آگے زا نوئے تلمذ طے کیا تھا فرماتے ہیں۔‘‘میں نے قرآن مجید کے لئے لاکھوں روپے کی کتا بیں خریدیں مکہ مدینہ میں بھی کئی برس اسی ذ وق وشوق سے رہا کہ یہ معلوم کروں کہ یہ آیت کہا ں نازل ہوئی مگر قرآن تو میں نے مرزا ہی سے سیکھا۔’’

(تاریخ احمدیت جلد 4 )

حضرت مسیح موعود علیہ السلا م کی مشہور زمانہ کتاب‘‘براہین احمدیہ’’ جب منظر عام پر آئی توحضرت منشی ظفر احمدؓ،حضرت منشی عبدالرحٰمن ؓ اورحضرت منشی اروڑا ؓ کی نظر سے بھی وہ کتاب گزری۔ وہ سب اس کتاب کو پڑھ کر اس کی فصاحت و بلاغت اورعلم ومعرفت پر عش عش کر اٹھے اور قادیان حا ضر ہو کر حلقہِ احمدیت میں آگئے۔صرف یہ 3بزرگ ہی نہیں بلکہ ابتداء میں جتنے احباب واصحاب احمدیت میں داخل ہوئے وہ سب براہین احمدیہ پڑھ کر ہی ہوئے کیونکہ انہوں نے اس کتاب میں اللہ تعالیٰ کی ہستی کے دلائل پائے۔ رسول اللہﷺ کے عشق کے نغمات اور قرآن کریم کی شان وعظمت کا بیا ن دیکھا۔اسی طرح انہوں نے دیکھا کہ اس میں اللہ تعالیٰ اور اسلام اور قر آن اور صاحب قرآن حضرت محمد ﷺ پر ہونے والے اعتراضات کا دندان شکن جواب دیا گیا ہے۔نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ہونے والے الہامات اور وحی کا نہ صرف مشاہدہ کیا بلکہ انہیں پورا ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔

حضرت مولانا غلام رسول راجیکی ؓ کا دل جیتنے والی کتاب کا نام‘‘آئینہ کمالات اسلام’’ ہے۔آپ فرماتے ہیں۔ایک دن ظہر کی نماز کے بعد میں اور مولوی امام الد ین مسجد بیٹھے ہوئے کسی مسئلہ کے متعلق گفتگو کر رہے تھے کہ حسن اتفاق سے پولیس کا ایک سپاہی نماز کے لئے اس مسجد میں آ نکلا۔ مولوی صا حب ؓنے جب اس کے صافہ میں بندھی ہوئی ایک کتاب دیکھی تو آپ ؓنےپڑ ھنے کے لئے اس سے لینا چاہی ۔ چنانچہ مولوی صاحب ؓنے وہ کتا ب سنبھال لی اور جاتے ہوئے گھر ساتھ لے گئے۔ دوسرے دن جب میرا کسی کام سے مولوی صا حبؓ کے یہاں جانا ہوا تو میں نے وہی کتاب جو حضرت سیّدنا اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصنیفِ لطیف آئینہ کمالات اسلام تھی۔حضور اقدس کی چند نظموں کے اوراق کے ساتھ مولوی صاحبؓ کی بیٹھک میں د یکھی ۔ جب میں نے نظموں کے اوراق پڑھنے شروع کئے تو ایک نظم اس مطلع سے شروع ہوئی۔

عجب نوریست در جان محمؐد عجب لعلیست در کان محمؐد

میں اس نظم نعتیہ کو اوّل سے آخر تک پڑ ھتا گیا مگر سوزو گداز کا یہ عا لم تھا کہ میری آ نکھو ں سے بے اختیار آنسو جا ری ہو رہے تھے جب میں آخری شعر پر پہنچا کہ

کرامت گر چہ بےنام و نشاں
است بیا بنگر ز غلمان محمد

تو میرے دل میں تڑپ پیدا ہوِئی کہ کاش ہمیں بھی ایسے صاحبِ کرامات بزرگو ں کی صحبت سے مستفیض ہونے کا موقع مل جاتا۔ اس کے بعد جب میں نے ورق اُلٹا تو حضرت اقدس علیہ السلام کا یہ منظومہ گرا می تحریر پایا۔

ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے
کوئی دیں دین محمدؐ سا نہ پایا ہم نے

چنا نچہ اسے پڑھتے ہوئے جب میں اس شعر پر پہنچا کہ

کافر و ملحد و دجّال ہمیں کہتے ہیں
نام کیا کیا غمِ ملّت میں رکھایا ہم نے

تو اس وقت میرے دل میں ان لوگوں کے متعلق جوحضوراقدس علیہ السلام کا نام ملحد ودجّال وغیرہ رکھتے تھے بےحد تاسف پیدا ہوا۔اب مجھےانتظار تھا کہ مولوی امام الدین صاحب ؓ اندرون خانہ سے بیٹھک میں آئیں تو میں آپ سے اس پاکیزہ سرشت بزرگ کا حال دریافت کروں۔چنانچہ جب مولوی صاحبؓ بیٹھک میں آئے تو میں نے آتے ہی دریافت کیا کہ یہ منظومات عالیہ کس بزرگ کے ہیں اور آپ کس زمانہ میں ہوئے ہیں۔مولوی صاحبؓ نے مجھے بتایا کہ یہ شخص مولوی غلام احمدہےجو مسیح ؑاور مہدیؑ ہونے کا دعوی کرتا ہے۔اور قادیان ضلع گورداسپور میں اب بھی موجود ہے اس پر سب سے پہلا فقرہ جو میری زبان سے حضوراقدس علیہ السلام کے متعلق نکلا وہ یہ تھا کہ

‘‘دنیا بھر میں اس شخص کے برابر کوئی رسول ﷺ کا عاشق نہیں ہوا ہوگا۔’’

اس کے بعد پھر میں نےحضور اقدس کے مطائبات ومنظومات پڑھنے شروع کر دیئے تو ایک صفحہ پرحضورانور کے یہ اشعار میرے سامنے آئے ۔

چُوں مرانورے پئے قوم مسیحی دَادہ اند
مصلحت را ابن مریم نام من بنہادہ اند
مے در خشم چوں قمر تا بم چوں قرص آفتاب
کور چشم آنانکہ درانکار ہا افتادہ اند
صادقم و از طرف مولا بانشانہا آمدم
صددر علم وہدی بر روئے من بکشادہ اند
آسماں باردنشاں الوقت میگوئد زمیں
اِیں دو شاہد از پئے تصدیق من استادہ اند

ان ارشادات عالیہ کے پڑھتے ہی مجھے حضور اقد سؑ کے دعویٰ عیسویت اور مہدویت کی حقیقت معلوم ہوگئی اور میں نے 1897ء میں غالباً ماہ ستمبر یا ماہ اکتوبر میں بیعت کا خط لکھ دیا۔ چنا نچہ حضور اقدس علیہ السلام کی طرف سے حضرت مولانا عبد الکریم ؓ کا نوشتہ خط جو میری قبو لیت بیعت کے متعلق تھا مجھے پہنچ گیا…اس کے بعد مولوی صاحب نے وہ مرسلہ رسا ئل جو حضور اقدس ؑنے قادیان سے میرے نام ارسال فرمائے تھے پڑ ھنا شروع کر دیئے۔ ان رسالوں کے مطالعہ سےیوں معلوم ہوا کہ جیسے میں ایک تاریک دنیا سے نکل کر روشنی کے عا لم میں آ گیا ہوں۔

(حیات قدسی صفحہ:16-19)

حضرت پیر سراج الحق ؓؓ اپنی بیعت کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں۔ ایک روز ایک شخص کے ہاں میری دعوت تھی جس وقت میں کھانا کھانے بیٹھا دوچار شخص اور بھی تھے ۔باہر دیکھا اتنے میں چٹھی رساں آیا اور 5،7 خط مجھ کو دیئے اور ایک اشتہار حضرت اقدسؑ کا بھی تھا … اشتہار دیکھا تو اس اشتہار کی سرخی یہ تھی۔ لِیُھْلِکَ مَنْ ھَلَکَ عَنْ بَیِّنَۃِِ وَ یُحْیِ مَنْ حَیَّ عَنْ بَیِّنَۃِِ۔ اس کا خلا صہ یہ ہے کہ حضرت عیسٰیؑ فوت ہو گئے ہیں اور ان کے رنگ میں رنگین ہو کر اور صفحات مسیحی لے کر رو حا نی طور سے میں آیا ہوں ۔جس مسیح ؑکے اس امت میں آنے کا وعدہ تھا۔ سو وہ موعود میں ہوں اس اشتہار کے پڑھتے ہی میری بھوک خوشی کے مارے جاتی رہی اور شادی مرگ کی سی حالت مجھ پر طاری ہو گئی ۔ ایک طرف تعجب اور ایک طرف خوشی، کھانا کھانا تو جاتا رہا اس اشتہار کو بار بار پڑھتا رہا ۔ نور محمد اور اللہ بندہ ہانسوی اس دعوت میں شریک تھے ۔انہوں نےجو میری یہ حا لت دیکھی تو وہ متعجب ہو گئے اورحال دریافت کیا اور نیز صاحبِ خانہ نے بھی پوچھا کہ اس اشتہارمیں ایسی کیا بات ہے کہ جس سے کھانا چھو ڑ دیا اور چہرہ پر آ ثارخوشی اور تعجب کے پائے جاتے ہیں۔ میں نے وہ صحیفہ گرامی اور اشتہار حضرت اقدس علیہ السلام ان کو پڑھ کر سنایا۔ ( اس کے دوسرے دن حضرت پیر صاحبؓ نے حضو ر اقدسؑ کی خدمت میں بیعت و تصدیق اور سلام کا خط لکھ دیا ۔) حضرت پیر صاحب ؓ فر ماتے ہیں اس عریضہ کے ڈاک میں ڈالنے کے بعد ایک رسالہ ‘‘فتح اسلام’’ کا اور‘‘تو ضیح مرام’’بھی مجھے مل گیا ۔ان دو رسالوں کے دیکھنے سے آنکھیں کھل گئیں اور میں لائق ہو گیا کہ مخالف کو کافی و شافی جواب دے سکوں ۔ دماغ کی قوت ذہن کی رسائی اور دل میں ایک روشنی پیدا ہو گئی ۔

(تذ کرہ المہد ی ص57 ۔61)

حضرت مولوی حسن علیؓ بھاگلپوری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی ملاقات کے لئے 1887ء میں قادیان آئے آپ حضور سے اپنی ملاقات کا ذ کر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔غرض میں مرزاصاحب ؑسے رخصت ہوا چلتے وقت انہوں نے اس کمتر کو‘‘براہین احمدیہ’’اور‘‘سرمہ چشمہ آریہ’’ کی ایک ایک جلد عنایت کی۔انہیں میں نے پڑھا ان کے پڑھنے سے مجھ کو معلوم ہوا کہ جناب حضرت مرزا صاحب ؑ بہت بڑے رتبے کے مصنف ہیں۔ خاص کر براہین احمدیہ میں سورۃفاتحہ کی تفسیر دیکھ کر مجھ کو کمال درجہ کی حیرت مرزاصاحبؑ کی ذہانت پر ہوئی۔اس کے بعد حضورؑ سے دوسری ملاقات کے لئےجب آپ 1894ء میں تشریف لائے تو بیعت کی توفیق ملی۔

(رفقاءاحمد جلد 14 صفحہ 49 بابت مولوی حسن صاحبؓ)

حضرت حاجی غلام احمد ؓ سکنی کریام پورکو احمدیت کا تعارف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ‘‘ازالہ اوہام’’ سے ہوا۔‘‘ازالہ اوہام’’ کے مطالعہ نے صداقت کی طرف رہنمائی کی۔بعدازاں ‘‘ست بچن’’ اور‘‘نُورالقران’’ ہر دو حصص نے راہ میں روکیں دور کردیں۔ استخارہ کرنے کے بعد 1903ء میں قادیان دارالامان آئے بیت اقصٰی میں عصر کی نماز کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کودرس دیتے ہوئے سنا۔ معارف قرانی اور تفسیر نے آپ پر خاص اثر کیا۔آپ نے ایک شخص سے پوچھا یہی مسیح موعود ؑہے؟اس نے کہا یہ تو مولوی نورالدیؓن ہیں اس پر آپ بہت خوش ہوئے کہ جس دربار کے مولوی ایسے باکمال ہیں وہ خود کیسے ہوں گے۔؟فرماتے ہیں ۔میں نے دریافت کیا آپ یعنی مسیح موعودؑ کہاں ملیں گے؟انہوں نے کہا حضور نماز مغرب کے لئے مسجدمبارک تشریف لائیں گے تو زیارت ہوگی۔مغرب کے وقت ایک چوبارہ پر چھوٹی سی مسجدتھی اس میں گئےنماز مغرب مولوی عبدالکریمؓ نے پڑھائی۔نماز سے فارغ ہو کر حضرت صاحبؑ بیٹھ گئے تو حاجی صاحبؓ نے آپ علیہ السلام سے مصافحہ کیا۔ آپ علیہ السلام کی شکل متبرک تھی۔

(اصحاب احمد جلد10 ص80)

حضرت حکیم محمد حسین ؓ المعروف مرہم عیسٰیؑ اپنے احمدی ہو نے کا باعث یہ بیان کیا کر تے تھے کہ وہ سر سید احمد خان مرحوم کی کتابیں پڑھا کر تے تھے۔ اس کے بعدحضرت صاحبؑ کا تذ کرہ سنا اور کچھ اشتہارات بھی دیکھے۔ برا ہین احمدیہ بھی پڑ ھنے کا مو قع ملا۔ اس سے آپ کے دل میں حضرتؑ کی محبت کا جوش پیدا ہوا اور آپ قادیان تشریف لے گئے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی وساطت سے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور شرف بیعت سے مشرف ہوئے۔

(تا ریخ احمد یت لاہور)

حضرت مفتی محمد صادق ؓ کو 1890ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف لطیف فتح اسلام پڑ ھنے کا موقع ملا تو آپ کشاں کشاں قادیان کھینچے آئے ۔آپ بتا تے ہیں کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے مجھے حضرت صاحبؑ کی صداقت قبول کر لینے کی طر ف کشش کی، سوائے اس کے کہ آپؑ کا چہرہ مبارک ایسا تھا جس پر یہ گمان نہ ہو سکتا تھا کہ وہ جھو ٹا ہو۔

(ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادقؓ)

قارئین کرام ،حضرت اما م آخرالزماں علیہ السلام کی کتب مبارکہ اور پاک تحریرات کا کیا اثر ہے اور کس طرح اس نے مخالفوں کی کچلیاں توڑنے اور ان کے طلسم کو ہوا میں اڑانے میں غیرمعمولی کردار ادا کیا۔ اس سلسلہ میں میں اپنا ذاتی مشاہدہ بھی پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ ان دنوں کی با ت ہے جب خانقاں ڈوگراں میں عیسائیوں کے ساتھ مباحثہ کی طرح پڑھی۔خاکسار اس وقت کے ناظر صا حب اصلاح و ارشاد صاحبزادہ مرزا غلام احمد سے اجازت حاصل کرنے کے بعد مناظر اسلام استاذی المکرم مولانا مبشر احمد کاہلوں کی خدمت میں رہنمائی کے لئےحاضر ہوا۔آپ مجھے بتا رہے تھے کہ میں مسیح پاک علیہ السلام کی کتب جنگ مقدس ، چشمہ مسیحی، نورالقرآن وغیرہ کا مطالعہ کروں۔اس دوران جب آپ مجھے یہ بتا رہے تھے ایک صاحب آئے اور مدّعا معلوم ہونے کے بعد کہنے لگے کہ مولانا جلال الدین شمس کے مضامین جو الفرقان رسالہ میں شا ئع شدہ ہیں بھی د یکھ لیں۔ مولانا کاہلوں صاحب فرمانے لگے۔یہ بتاؤ کہ شمس صاحب کو کس نے سکھایا تھا اور انہوں نے کہاں سے سیکھا تھا۔ وہ صاحب کہنے لگے۔انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے یہ مضامین اخذ کئے تھے اس پر کاہلوں صاحب نے کہا ۔ جو خدا مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے شمس صاحب کو سکھا سکتا ہے وہ اس کو نہیں سکھا سکتا۔ پھر مجھے کہا جاؤ اور مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطا لعہ کرو ۔ چنانچہ میں نے آپ کی ہدایت کے مطابق تیاری کی اور پھر دیکھنے والوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل کے سامنے عیسائی طلسم کے پرخچے اُڑتے دیکھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے قلم نے سیف کا کام د کھا تے ہوئے معبودان ِباطلہ کو نیست و نابود کر دیا تھا۔ اور خدائے واحد و یگانہ کی توحید کا پرچار کرنے کے لئے اسلام کا یہ بطل جلیل، جری اللہ، سیف کا کام قلم سے لیتے ہوئے قلمی اسلحہ پہن کر سائنس اور علمی تر قی کے میدان کار زار میں اترا اور اسلام کی روحانی شجاعت اور باطنی قوت کا ایسا کرشمہ دکھایا کہ ہر مخالف کے پرخچے اڑا دیئے اور محمدﷺ اور اسلام کا پر چم پھر سے ایسا بلند کیا کہ آج بھی اس کے پھریرے آسمان کی رفعتوں پر بلند سے بلندتر ہو رہے ہیں۔ اور ساری دنیا پر اسلام کا یہ پیغام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کے ذریعے پھیل رہا ہے۔ اور پھیلتا رہے گا۔مسیح محمدیؑ کی زندگی بخش تحریرات کی ہی یہ برکت ہے کہ ایک جہان روحانی اور جسمانی احیاء کی نو ید سے مستفیض ہو رہا ہے اور صدیوں کے مردے ایک دفعہ پھر زندہ ہو رہے ہیں۔ یہی وہ چشمہ رواں ہے کہ جو اس سے پیئے گا اورہمارے سید و مولا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی پیشگوئی یَفِیْضُ ا لْمَا لَ حَتّٰی لَا یَقْبُلُہُ اَحَد (ابن ماجہ ) کے مطابق یہی وہ مہدی ہے جس نے حقائق و معارف کے ایسے خزانے لٹائے ہیں کہ انہیں پا نے والا کبھی ناداری اور بےکسی کا منہ نہ دیکھے گا۔یہی وہ روحانی خزائن ہیں جن کی بدو لت خدا جیسے قیمتی خزانے پر اطلاع ملتی ہے ۔ اور اس کا عرفان نصیب ہوتا ہے۔ ہر قسم کی علمی اور اخلاقی ، روحانی اور جسمانی شفاء اور ترقی کا زینہ آپ کی یہی تحریرات ہیں اس خزانے سے منہ موڑنے والا دین و دنیا ، دونوں جہا نوں سے محروم قرار پاتا ہے۔ اور خدا کی بارگاہ میں متکبر شمار کیا جا تا ہے۔

آپؑ نے فر مایا کہ“وہ جو خدا کے ما مور اور مرسل کی با توں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑ ھتا اُس نے بھی تکبر سےحصہ لیا ہے ۔ سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو۔ تا کہ ہلاک نہ ہو جاؤ اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ۔’’

(نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد18 ص403)

آپؑ نے ایک جگہ یہ بھی فرمایا ۔‘‘سب دوستو ں کے واسطے ضروری ہے کہ ہما ری کتب کم از کم ایک دفعہ ضرور پڑھ لیا کریں، کیونکہ علم ایک طا قت ہے اور طا قت سے شجاعت پیدا ہو تی ہے۔’’

(ملفوظات جلد 4 ص 361)

یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمیں اس امام مہدیؑ اور مسیح محمدیؑ کو ما ننے کی تو فیق ملی۔ رو حا نی خزائن کاہمیں وارث ٹھہرا گیا ہے اس لئے ہمیں چا ہئےکہ ہم ان با بر کت تحریروں کا مطالعہ کریں۔ تا کہ ہمارے دل ، ہمارے سینے اور ہمارے ذ ہن اس روشنی سے منور ہو جائیں کہ جس کے سا منے دجال کی تمام تاریکیاں کافور ہو جائیں گی ۔ اللہ کرے ہم اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگیاں ان بابرکت تحریرات کے ذریعہ سنوار سکیں اور اپنے دلوں اور اپنے گھروں اور اپنے معا شرہ میں امن و سلا متی کے دئیے جلا نے والے بن سکیں۔ اور خدا اور اس کے رسول کی محبت اس طر ح ہمارے دلو ں میںموجزن ہو کہ اس کے طفیل ہم کل بنی نوع انسان کی محبت اور ہمدردی کی شمعیں فروزاں کر تے چلے جائیں ۔اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرما ئے۔ آمین

(عبدالقدیر قمر)

پچھلا پڑھیں

لباسِ تقویٰ

اگلا پڑھیں

درود شریف کی اہمیّت اور برکات