• 18 مئی, 2024

یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ کسی گناہ کو بھی انسان چھوٹا نہ سمجھے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
ہماری عملی اصلاح انہی چند باتوں پر ختم نہیں ہو جاتی۔ اسلام کی تعلیم کے تو بے شمار پہلو ہیں۔ بے شمار احکامات ہیں جو قرآنِ کریم نے ہمیں دئیے ہیں۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی تعلیم میں ہماری اصلاح کے لئے بڑا واضح فرمایا ہے کہ:
’’مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکموں میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے، وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے اوپر بند کرتا ہے۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ26)

پس ہمارے لئے یہ بڑا خوف کا مقام ہے اور ہمیں اپنا ہر عمل اور ہر قدم بہت سوچ سمجھ کر کرنے اور اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ مَیں گزشتہ خطبوں میں بھی کہہ چکا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد قرآنِ کریم کی حکومت کو ہم پر لاگو کروانا تھا، اُسے قائم کرنا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ اور آپ کی سنّت پر ہمیں چلانا تھا اور اس مقصد کے حصول کے لئے آپ علیہ السلام نے ہمیں بار بار توجہ دلائی ہے۔ اگر ہم ایمانداری سے اپنے جائزے لیں تو جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ یہ باتیں سن کر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمائی ہیں، کچھ دن کے لئے تو ہماری عملی اصلاح ہوتی ہے اور پھر واپس اپنی اُسی ڈگر پر ہم میں سے اکثر چلنا شروع کر دیتے ہیں جس پر پہلے تھے۔ پس ہم اُس گڈّے کی طرح ہیں جس کی مثال مَیں گزشتہ خطبوں میں بھی دے چکا ہوں۔ جس پر جب تک ڈھکنے کا دباؤ پڑا رہے، بند رہتا ہے اور ڈھکنا کھلتے ہی سپرنگ اُسے اچھال کر باہر پھینک دیتا ہے۔ اسی طرح جب تک ایک موضوع پر مسلسل نصیحت کی جاتی رہے اکثر لوگوں پر اثر رہتا ہے اور جب ان نصیحتوں اور توجہ کا دباؤ ختم ہوتا ہے تو پھر نفس کا سپرنگ یا برائیوں کا سپرنگ کسی نہ کسی برائی کو اچھال کر پھر ظاہر کر دیتا ہے۔ کئی مخلصین نے گزشتہ خطبوں کے بعد مجھے لکھا کہ ہم کوشش بھی کر رہے ہیں اور دعا بھی، اور آپ بھی دعا کریں کہ ان خطبات کے زیرِ اثر بہت سی برائیوں کا گڈّا جو ڈبے میں بند ہوا ہے یہ بند ہی رہے اور کچھ عرصے بعد باہر نہ نکل آئے۔ بہر حال ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا وجہ ہے کہ یہ جیک (Jack) یا گڈّا بار بار باکس سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔ کسی بھی چیز کی اصلاح تبھی ہو سکتی ہے اور اصلاح کی کوشش کے مختلف ذرائع تبھی اپنائے جا سکتے ہیں جب اس کمی کی وجوہات معلوم ہوں، اسباب معلوم ہوں تا کہ اُن وجوہات کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر وجہ قائم رہے تو عارضی اصلاح کے بعد پھر برائی عَود کرے گی، واپس آئے گی۔ اس پہلو سے جب مَیں نے غور کیا اور مزیدپڑھا تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک تجزیہ مجھے ملا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طریقِ تحریر اور تقریر کی یہ خوبی ہے کہ ممکنہ سوال اُٹھا کر اُن کا حل بھی مثالوں سے بتاتے ہیں۔ قرآن، حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کلام کی روشنی میں جس طرح آپ مسئلے کا حل بتاتے ہیں، اس طرح اور کہیں دیکھنے میں نہیں آتا۔ بہر حال اس وجہ سے میں نے سوچا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خطبات سے ہی استفادہ کرتے ہوئے اُس کی روشنی میں ان وجوہات کو بھی آپ کے سامنے بیان کروں۔ اعمال کی اصلاح کے بارے میں جو چیزیں روک بنتی ہیں یا اثر انداز ہوتی ہیں، اُن میں سے سب سے پہلی چیز لوگوں کا یہ احساس ہے کہ کوئی گناہ بڑا ہے اور کوئی گناہ چھوٹا۔ یعنی لوگوں نے خود ہی یا بعض علماء کی باتوں میں آ کراُن کے زیرِ اثر یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ بعض گناہ چھوٹے ہیں اور بعض گناہ بڑے ہیں اور یہی بات ہے جو عملی اصلاح میں روک بنتی ہے۔ اس سے انسان میں گناہ کرنے کی دلیری پیدا ہوتی ہے، جرأت پیدا ہوتی ہے۔ برائیوں اور گناہوں کی اہمیت نہیں رہتی۔ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ چھوٹا گناہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے یا اس کی سزا اتنی نہیں ہے۔

(ماخوذ ازخطبات محمود جلد17 صفحہ339 خطبہ جمعہ فرمودہ 29مئی 1936ء)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اگر کوئی بیمار ہو جاوے خواہ اُس کی بیماری چھوٹی ہو یا بڑی، اگر اُس بیماری کے لئے دوا نہ کی جاوے اور علاج کے لئے دُکھ نہ اُٹھایا جاوے، بیمار اچھا نہیں ہو سکتا۔ ایک سیاہ داغ منہ پر نکل کر ایک بڑا فکر پیدا کر دیتا ہے کہ کہیں یہ داغ بڑھتا بڑھتا کُل منہ کو کالا نہ کر دے۔ اسی طرح معصیت کا بھی ایک سیاہ داغ دل پر ہوتا ہے۔ صغائر ’’یعنی چھوٹے گناہ‘‘ سہل انگاری سے کبائر ’’یعنی بڑے گناہ‘‘ ہو جاتے ہیں۔ صغائر وہی داغ چھوٹا ہے جو بڑھ کر آخر کار کُل منہ کو سیاہ کر دیتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ7 ایڈیشن 2003ء)

پس یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ کسی گناہ کو بھی انسان چھوٹا نہ سمجھے۔

(خطبہ جمعہ 13؍دسمبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

چودھویں تربیتی کلاس ناصرات الاحمدیہ بانجل گیمبیا

اگلا پڑھیں

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 14)