• 19 اپریل, 2024

دلچسپ و مفید واقعات و حکایات (قسط 7)

دلچسپ و مفید واقعات و حکایات
بیان فرمودہ
حضرت مصلح موعودؓ 
قسط 7

صفائی ستھرائی

پچھلے دنوں ایک دوست جو عیسائی ہیں اور یہاں امتحانوں کے سپرنٹنڈنٹ بن کر آئے تھے، مجھ سے ملنے کے لئے آئے۔ باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ آپ کا جو سولہواں مطالبہ تھا اور جس میں اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی تاکید تھی، اس پر قادیان میں عمل نہیں ہوتا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں نے تو خود یہ نیّت کی ہوئی ہے کہ اس مطالبہ پر عمل کروں اور جماعت سے کراؤں لیکن آپ جن امور کی طرف توجہ دلا رہے ہیں آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ صرف ہماری نیت اور عمل سے درست نہیں ہو سکتے، ان کے متعلق حکومت کا تعاون بھی ضروری ہے اور وہ ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرتی اور اس لئے ہمارے لئے بہت سی مشکلات ہیں۔ پھر میں نے انہیں کہاآپ کو اس بارہ میں ایک لطیفہ بھی سنا دوں۔

ایک دفعہ پادری گارڈن صاحب ڈاکٹر زویمر صاحب کو لے کر قادیان آئے۔ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم اس وقت زندہ تھے میری ملاقات سے پہلے انہوں نے ڈاکٹر زویمر صاحب اور پادری گارڈن صاحب کو قادیان کے بعض مقامات دکھائے۔

قادیان کی سیر کرنے کے بعد ڈاکٹر زویمر کہنے لگے مجھے خواہش تھی کہ میں دیکھوں کہ اسلامی مسیح کی جماعت نے کہاں تک ترقی کی ہے، کم از کم ظاہری صفائی کے لحاظ سے تو اس کے مرکز نے کوئی ترقی نہیں کی۔ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم کہنے لگے، ابھی اسلامی مسیح کی حکومت نہیں آئی پہلے مسیح کی ہی حکومت ہے اس لئے قادیان کی صفائی کا الزام پہلے مسیح کی قوم پر ہی آتا ہے۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ231)

زندوں سے پہلے مردوں کا خیال

رستوں کا چوڑا ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اپنے رہنے کے لئے مکان بنانے سے پہلے مردوں کا انتظام کرنا چاہئے۔

آپؑ فرماتے تھے کسی شخص نے مکان بنایا تو زینے اس کے بہت چھوٹے رکھے۔ اتفاقاً ان کے گھر میں ایک موت ہو گئی۔ جو شخص مرا وہ بہت ہی موٹا تھا اسے چھت پر سے اتارنے کے لئے بڑی جدوجہد کرنی پڑی اور لاش کی سخت بے حرمتی ہوئی۔

تو آپ فرمایا کرتے تھے زندوں سے پہلے مردوں کا خیال رکھو۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ237)

ایفائے عہد کا شاندار نمونہ

تمہاری اکثریت ایسی ہونی چاہئے کہ اس کے منہ سے جو الفاظ نکل جائیں وہ اٹل ہوں اور جو اقرار وہ کرے اسے ہر قربانی کر کے پورا کرنے والی ہو۔ صحابہؓ پر دیکھو اس تعلیم کا کتنا اثر ہوا۔ انہوں نے یہاں تک اپنے وعدوں کو پورا کیا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ان کی تعریف کرتا اور فرماتا ہے۔ مِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَمِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ۔ کہ محمد ﷺکی امت نے ہماری اس نصیحت کو سن کر ایسا عمل کیا ایسا عمل کیا کہ ان میں سے بعض نے تو اپنے فرائض ادا کر دئیے اور بعض اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے پوری مستعدی سے تیار بیٹھے ہیں۔

حدیثوں میں آتا ہے کہ یہ آیت خصوصیت سے ایک صحابیؓ پر چسپاں ہوتی ہے اور اسی صحابیؓ کا واقعہ اس آیت کا شان نزول ہے۔ دراصل شان نزول کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ اس واقعہ کی وجہ سے آیت نازل ہوئی بلکہ اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اس آیت کی زندہ مثال فلاں صحابیؓ میں پائی جاتی ہے۔ تو صحابہؓ اس آیت کے زندہ ثبوت کے طور پر ایک صحابیؓ کا واقعہ پیش کیا کرتے تھے۔

بدر کی جب جنگ ہوئی تو وہ صحابیؓ اس میں شامل نہ ہو سکے۔ جب جنگ ہو چکی اور انہیں معلوم ہوا کہ اس طرح کفار سے ایک عظیم الشان لڑائی ہوئی ہے، تو انہیں اپنے شامل نہ ہونے کا بہت ہی افسوس ہوا اور اس کا ان کی طبیعت پر ایسا اثر ہوا کہ اس کے بعد جب کسی مجلس میں بدر کی جنگ کا ذکر آتا اور وہ سنتے کہ فلاں نے یوں بہادری دکھائی اور فلاں نے اس طرح کام کیا تو وہ سنتے سنتے کہہ اٹھتے، اچھا کیا، اچھا کیا لیکن اگر میں ہوتا تو بتاتا کہ کس طرح لڑا کرتے ہیں۔ لوگ سن کر ہنس دیتے کہ اب اس قسم کی باتوں کا کیا فائدہ۔ مگر ان کا جو جوش تھا وہ سچ مچ کا جوش تھا، کسی عارضی جذبہ کے ماتحت نہیں تھا بلکہ عشق و محبت کی وجہ سے وہ گھلے جا رہے تھے اور انہیں یہ غم کھائے جا رہا تھا کہ کاش! انہیں بھی خدا کی راہ میں اپنی جان قربان کرنے کا موقع ملے۔

آخر خداتعالیٰ نے احد کی جنگ کا موقع پیدا کر دیا۔ اس جنگ میں جب مسلمانوں نے کفار کے لشکر کو شکست دے دی اور ان کی فوجیں پراگندہ ہو گئیں تو ایک درّہ تھا جہاں رسول کریم ﷺنے دس آدمی چن کر کھڑے کئے تھے اور حکم دیا تھا کہ خواہ جنگ کی کوئی حالت ہو تم نے اس درّہ کو نہیں چھوڑنا۔ جب کفّار کا لشکر منتشر ہو گیا تو انہوں نے غلطی سے اجتہاد کیا کہ اب ہمارے یہاں ٹھہرے رہنے کا کیا فائدہ ہے ہم بھی چلیں اور غنیمت کا مال حاصل کریں۔

چنانچہ ان میں سے سات آدمی درّہ چھوڑ کر چلے آئے اور صرف تین پیچھے رہ گئے۔ ان کے سردار نے انہیں کہا بھی کہ رسول کریم ﷺکاحکم ہے کہ ہم یہ درّہ چھوڑ کر نہ جائیں مگر انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ مطلب تو نہ تھا کہ فتح ہو جائے تب بھی یہیں کھڑے رہو۔ آپ کے ارشاد کا تو یہ مطلب تھا کہ جب تک جنگ ہوتی رہے درّہ نہ چھوڑو۔ اب چونکہ فتح ہو چکی ہے اس لئے یہاں ٹھہرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ حضرت خالدؓ بن ولید جو اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے نوجوان تھے اور ان کی نگاہ بہت تیز تھی وہ جب اپنے لشکر سمیت بھاگے چلے جا رہے تھے تو اتفاقاً انہوں نے پیچھے کی طرف نظر جو ڈالی تو دیکھا کہ درّہ خالی ہے اور مسلمان فتح کے بعد مطمئن ہو گئے ہیں۔ یہ دیکھتے ہی انہوں نے لشکر میں سے چند آدمی منتخب کئے اور اس درّہ کی طرف سے چڑھ کر یک دم مسلمانوں کی پشت پر حملہ کر دیا۔

مسلمانوں کے لئے یہ حملہ چونکہ بالکل غیر متوقع تھا اس لئے ان پر سخت گھبراہٹ طاری ہو گئی اور بوجہ بکھرے ہوئے ہونے کے دشمن کا مقابلہ نہ کر سکے اور میدان پر کفار نے قبضہ کر لیا۔یہاں تک کہ رسول کریمﷺکے گرد صرف12صحابہؓ رہ گئے۔ جن میں حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ ، حضرت عثمانؓ ، حضرت علیؓ ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ بھی تھے اور ایک وقت تو ایسا آیا کہ 12 بھی نہیں صرف چند آدمی رسول کریم ﷺکے اردگرد رہ گئے اور کفار نے خاص طور پر رسول کریم ﷺپر تیر اندازی شروع کر دی۔

صحابہؓ نے اس وقت سمجھا کہ اب ہماری خاص قربانی کی ضرورت ہے۔ چنانچہ حضرت زبیرؓ رسول کریم ﷺکی پیٹھ کی طرف کھڑے ہو گئے تا اس طرف سے کوئی تیر رسول کریمﷺ کو آکر نہ لگے اور حضرت طلحہؓ آپ کے سامنے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اس جگہ جہاں سے تیر گزر کر آتے تھے اپنا ہاتھ رکھ دیا تاکہ تیر ان کے ہاتھ پر لگیں۔ رسول کریم ﷺ کے جسم تک کوئی تیر نہ پہنچ سکے۔ اسی طرح اور صحابی بھی اردگرد کھڑے ہو گئے۔ چونکہ اس وقت تیروں کی سخت بوچھاڑ ہو رہی تھی اس لئے جس قدر صحابہؓ رسول کریم ﷺکے ارد گرد کھڑے تھے، وہ گردن سے لیکر زانوں تک تیروں سے زخمی ہو گئے اور ایک انچ جگہ بھی ایسی نہ رہی جہاں انہیں تیر نہ لگا ہو اور حضرت طلحہؓ کا ہاتھ تو تیر لگتے لگتے بالکل شل ہو گیا اور ساری عمر کے لئے ناکارہ ہو گیا۔

بعد میں وہ ایک جگہ کسی مجلس میں بیٹھے تھے کہ ایک منافق نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اس ٹنڈے کی یہ بات ہے۔ حضرت طلحہؓ نے یہ سن کر کہا تمہیں پتہ ہے میں کس طرح ٹنڈا ہوا؟ پھر انہوں نے احد کی جنگ کا قصہ سنایا اور بتایا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے اپنا ہاتھ پھیلائے کھڑا رہا اور جو تیر بھی آیا وہ میں نے اپنے ہاتھ پر لیا یہاں تک کہ تیروں کی بوچھاڑ نے اسے شل کر دیا۔

کسی نے کہا آپ اس وقت درد سے کراہتے نہ تھے؟ وہ کہنے لگے میں درد سے کس طرح کراہ سکتا تھا اگر کراہتا تو میرا جسم ہل جاتا اور تیر رسول کریمﷺ کو لگ جاتا۔

جب دشمنوں کی تیر اندازی بھی رائیگاں گئی تو انہوں نے یکدم ریلہ کر دیا اور وہ 12آدمی بھی دھکیلے گئے اور رسول کریم ﷺ زخمی ہو کر ایک گڑھے میں گر گئے۔ آپ پر بعض اور صحابہؓ جو آپ کی حفاظت کر رہے تھے شہید ہو کر گر گئے اور اس طرح رسول کریمﷺتھوڑی دیر کے لئے نگاہوں سے اوجھل ہو گئے اور لشکر میں یہ افواہ پھیل گئی کہ رسول کریمﷺ شہید ہو گئے ہیں۔ یہ سن کر بعض کمزور تو مدینہ کو واپس چلے گئے کہ وہاں کے لوگوں کو اطلاع دیں اور باقی صحابہؓ میدان جنگ میں گھبرائے گھبرائے پھرنے لگ گئے۔ حضرت عمرؓ پر اس خبر کا یہ اثر ہوا کہ آپ ایک چٹان پر بیٹھ کر رونے لگ گئے۔

اس وقت بعض صحابہؓ ایسے بھی تھے جنہیں اس امر کی اطلاع نہ تھی کیونکہ وہ فتح کے بعد ایک طرف ہو گئے تھے اور انہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ کفار نے دوبارہ حملہ کر دیا ہے۔ انہی میں وہ صحابی بھی تھے جو ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ اگر میں جنگ بدر میں شامل ہوتا تو یوں کرتا اور یوں کرتا۔ انہیں اس وقت بھوک لگی ہوئی تھی اور وہ ٹہلتے ٹہلتے کھجوریں کھا رہے تھے۔ چلتے چلتے وہ حضرت عمرؓ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں۔ گھبرا کر پوچھا کہ عمرؓ یہ رونے کا کونسا مقام ہے؟ اسلام کو فتح حاصل ہوئی ہے اور آپ رو رہے ہیں حضرت عمرؓ نے کہا تم کو پتہ نہیں دشمنوں نے دوبارہ حملہ کیا ہے اور رسول کریم ﷺ شہید ہو گئے ہیں۔ انہوں نے جب یہ سنا تو کہنے لگے عمر! تمہاری عقل بھی خوب ہے جب رسول کریم ﷺ شہید ہو گئے ہیں تو پھر ہمارے اس دنیا میں رہنے کا کیا فائدہ ہے؟

یہ کہہ کر انہوں نے کھجور کی طرف دیکھا اور کہا میرے اور جنت میں کیا چیز حائل ہے صرف یہ کھجور؟ یہ کہتے ہوئے انہوں نے کھجور کو زمین پر پھینک دیا۔اور کہا عمرؓ ! رو کیوں رہے ہو؟ جہاں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہیں وہاں ہم بھی جائیں گے۔

چنانچہ تلوار لے کر دشمنوں پر ٹوٹ پڑے اور اس قدر جوش سے لڑے کہ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر شہید ہو گئے۔ بعد میں صحابہ نے ان کی نعش کو دیکھا تو ان کے جسم پر ستّر زخم تھے۔

تو صحابہؓ یہ مثال پیش کیا کرتے تھے مِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ کی کہ بعضوں نے اپنے فرائض کو جو ان پر خداتعالیٰ کی طرف سے عائد ہوتے تھے ادا کر دیا اور بعض یقین اور صدق سے بیٹھے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ ان کا وجود بھی اسلام کی خدمت کے لئے کام آئے گا۔ یہ گواہی ہے جو صحابہؓ  کے متعلق خداتعالیٰ نے دی۔ اس کو اپنے سامنے رکھو اور پھر غور کرو۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْ مَا لَاتَفْعَلَمُوْنَ خداتعالیٰ کے حضور یہ سخت ناپسندیدگی کی بات ہے کہ تم کہتے ہو مگر کرتے نہیں۔فرماتاہے بعض چیزیں جبری ہوتی ہیں اور بعض طوعی۔جبری تو بہرحال پوری کرنی پڑیں گی اور جو طوعی ہوں ان کے متعلق ہم یہ کہتے ہیں کہ یا تو وہ وعدہ ہی نہ کرو اور اگر وعدہ کرو تو پھر اسے پورا کرو،چاہے تمہیں کس قدر قربانی کرنی پڑے۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ244-247)

خدا کی خاطر مرنے والے کبھی نہیں مرتے

ہندؤں میں ایک قصہ مشہور ہے وہ ہے تو قصہ مگر ہم اس سے بہت کچھ سبق حاصل کر سکتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ کوئی راجہ تھا جس کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تھی۔ ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ تین خدا ہیں۔ برہما، وشنو اور شوجی۔ برہما پیدا کرتا ہے، وشنو رزق دیتا ہے اور شوجی مارتا ہے۔ اس تقسیم کی وجہ سے ہندؤں میں برہما کی پوجا نہیں کی جاتی۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں پیدا تو ہم ہو ہی گئے ہیں اب ہمیں روٹی کی ضرورت ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ زندہ رہیں۔ پس وہ وشنو اور شوجی کی پوجا کرتے ہیں، برہما کی نہیں کرتے۔

لیکن اس راجا کے ہاں چونکہ اولاد نہیں ہوتی تھی اور اولاد دینا برہما کا کام تھا اس لئے اس نے برہما کی پرستش شروع کر دی۔ آخر اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔ جب وہ گیارہ سال کا ہوا اور عقل اس کی پختہ ہونی شروع ہوئی تو اس نے اپنے باپ سے کہا کہ آپ برہما کی کیوں پرستش نہیں کرتے اور اس کے احسان کے بدلہ میں بیوفائی کیوں دکھاتے ہیں؟ باپ نے کہا اب برہما نے ہمارا کیا کر لیناہے، اب تو ہم شوجی کی پوجا کریں گے تا وہ تم کو زندہ رکھیں۔ بیٹے نے کہا میں تو برہما کی پرستش کروں گا اسی نے مجھے پیدا کیا ہے اور اسی کے احسان کا میں شکر ادا کروں گا۔ اس پر باپ بیٹے میں اختلاف ہو گیا اور یہ اختلاف اتنا بڑھا کہ باپ نے غصہ میں آکر دعا کی کہ شوجی میرے بیٹے کو مار ڈالو، یہ بڑا ناخلف اور نالائق ہے۔ چنانچہ شوجی نے اسے مار دیا۔ برہما کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ کہنے لگے ہیں! میری پرستش کرنے کی وجہ سے یہ لڑکا مارا گیا ہے میں اسے زندہ کروں گا چنانچہ انہوں نے اسے زندہ کر دیا۔ شوجی نے اسے پھر مار دیا۔ برہما کو پھر جوش آیا اور انہوں نے اسے پھر زندہ کر دیا۔ غرض ایک لمبے عرصہ تک برہما زندہ کرتے اور شوجی ماردیتے۔ شوجی مارتے اور برہما زندہ کرتے۔

یہ ہے تو قصہ اور قصہ کے لحاظ سے لغو بھی مگر سبق سے خالی نہیں۔ اس میں یہ سبق ہے کہ جب خداتعالیٰ کے لئے کوئی شخص اپنی جان دیتا ہے تو کون ہے جو اسے مار سکے۔ وہی تو پیدا کرنے والا ہے اور جب وہی پیدا کرنے والا ہے تو اس پر موت آکس طرح سکتی ہے۔

پس اس قصہ میں کم از کم یہ سبق ضرور ہے کہ اگر کوئی شخص خداتعالیٰ کے لئے مرتا ہے تو وہ مرتا نہیں۔ دیکھ لو حضرت اسماعیلؑ کو خداتعالیٰ کے لئے حضرت ابراہیمؑ نے قربان کیا مگر کیا وہ قربانی رائیگاں گئی اور کیا حضرت اسماعیلؑ ہمیشہ کے لئے زندہ نہ ہو گئے؟

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ247-248)

وعدہ وہ ہے جو نیکی پر مبنی ہو

وہی اقرار انسان پورا کرنے پر مجبور ہوتا ہے جو نیکی کا اقرار ہو اور جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہو۔ بدی کے متعلق اقرار کوئی اقرار نہیں ہوتا۔

حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے ایک شخص کو نصیحت کی کہ فلاں عورت سے تم نے ناجائز تعلق رکھا ہوا ہے یہ سخت گناہ کی بات ہے اسے چھوڑ دو۔ تو وہ کہنے لگا مولوی صاحب! وہ عورت ہو کر اپنے اقرار پر قائم ہے تو کیا میں مرد ہو کر بے ایمان ہو جاؤں اور اس کو چھوڑ دوں؟

گویا اس کے نزدیک کسی غیر عورت کو اپنے گھر میں ڈال لینا اور آپس کے اقرار کو پورا کرنا یہ ایمان تھا حالانکہ شرارت کا وعدہ کوئی وعدہ نہیں ہوتا۔ وعدہ وہ ہے جو نیکی پر مبنی ہو۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ250)

میں آج سے پختہ احمدی ہوں

ایک مہمان عورت نے آکر میری بیوی کو سنایا کہ جب احمدیوں میں میری شادی ہو گئی تو میرے رشتہ داروں نے کہا کہ اپنے خاوند کو پھسلانا۔ میرا بھی یہی خیال تھا کہ جب موقع ملے ایسا کروں۔ ظاہراً تو خاوند کے کہنے پر میں نے بیعت کر لی لیکن میرے دل کی کیفیت اسی طرف مائل تھی اور ہر موقع پر میں نے یہی کوشش کی کہ کسی طرح اپنے خاوند کو بھی اپنے ساتھ ملا لوں۔ وقت گزرتا گیا مگر مجھے اس میں کامیابی نہ ہوئی حتّٰی کہ وہ دن آن پہنچا کہ ہمارا نوجوان بیٹا جس کے ساتھ ہماری امیدیں وابستہ تھیں فوت ہو گیا۔ ہماری رشتہ دار عورتیں تعزیت کے لئے آئیں اور کہنے لگیں کہ دیکھا! تمہارے احمدی ہونے کی وجہ سے یہ لڑکا فوت ہو گیا ہے اگرتواحمدی نہ ہوتی تو یہ فوت نہ ہوتا۔

مگر میں سمجھتی تھی کہ میں نے تو صرف ظاہراً بیعت کی ہوئی تھی اور دل میں پکی غیر احمدی تھی اس لئے مجھے یہ سزا خدا کی طرف سے ملی ہے اس لئے میں نے ان سے اسی وقت کہا کہ جاؤ! میں آج سے پختہ احمدی ہوں۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ271)

عقلمندی وحاضر دماغی

حضرت عمرؓ کے زمانہ کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ حضرت مغیرہ یمن کے گورنر مقرر ہوئے۔ اس علاقہ کے لوگوں نے کہا کہ یہ شخص چونکہ ٹیکس سختی سے وصول کرتا ہے اس لئے کوشش کرو کہ یہاں آئے ہی نہیں۔ ان میں سے ایک شخص بہت ہوشیار تھا۔ اس نے کہا کہ مجھے ایک لاکھ درہم جمع کر دو تو میں جا کر شکایت کرتا ہوں کہ یہ روپیہ مغیرہ نے رشوت لی ہے۔ وہ شخص حدیث العہد تھا اور جھوٹ کی قباحت کو پوری طرح نہیں سمجھا تھا۔

چنانچہ اس نے وہ روپیہ حضرت عمرؓ کو پیش کیاکہ یہ مغیرہ نے رشوت لی ہے۔ حضرت مغیرہؓ نہایت سمجھدار اور عقلمند تھے اور صحابہ میں بہت نیک سمجھے جاتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے ان کو بلایا اور پوچھا کہ کیا تم نے یہ روپیہ رشوت لیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں لیا ہے مگر ایک لاکھ نہیں دو لاکھ اور وہ میں نے اسی کے پاس جمع کر دیا تھا۔ اس پر وہ شخص گھبرا گیا اور کہا کہ یہ بات بالکل غلط ہے اور انہوں نے کوئی رقم دراصل وصول کی ہی نہیں۔ یہ محض ان کی سختی کی وجہ سے ہم نے سازش کی تھی تا آپ ان کی جگہ دوسرے والی کو بھجوا دیں۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ281)

یہ بھی دھوکہ ہے

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ میرے پاس کرایہ نہیں تھا۔ میں بغیر ٹکٹ کے گاڑی پر سوار ہوگیا اور یہاں آگیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے یہ سن کر اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور روپیہ دو روپے جتنا کرایہ بنتا تھا نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا اور فرمایا جاتی دفعہ ٹکٹ خرید لینا۔

اور فرمایا یہ بھی ویسا ہی دھوکا ہے جیسے دنیا میں کوئی اور دھوکا کیا جاتا ہے۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ285)

قافیہ نہیں ملا

کہتے ہیں کسی پٹھان نے کہا ’’جاٹ رے جاٹ تیرے سر پر کھاٹ۔‘‘ یہ سن کر وہ کہنے لگا ’’پٹھان رے پٹھان تیرے سر پر کولہو۔‘‘

کسی نے پوچھا کہ قافیہ نہیں ملا۔ وہ کہنے لگا قافیہ تو نہیں ملا مگر کولہو اتنا وزنی ہے کہ اس کا سر توڑ دے گا۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ287-288)

جنگ حوصلوں سے جیتی جاتی ہے سامان سے نہیں

جنگ عظیم کے دنوں میں رنگروٹوں کو صرف دو ماہ کی ٹریننگ کے بعد آگے بھیج دیا جاتا تھاحالانکہ عام حالات میں یہ عرصہ د و سال کا ہوتا ہے۔ اس وقت صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ اسے بندوق کندھے پر رکھنا آتی ہو اور وہ ڈرے نہیں اوریہ اس لئے کیا جاتا تھا کہ میدان خالی نہ رہے۔

میں نے جنگ عظیم کے متعلق پڑھا ہے کہ ایک موقع ایسا آگیا تھا کہ سات میل کا رقبہ بالکل خالی ہو گیا تھا۔ اس موقع میں انگریزی فوج کے آدمی یا توشکست کھا کر ہٹ چکے تھے اور یا مارے جا چکے تھے۔ اگر جرمن افواج کو اس کا علم ہو جاتا تو جنگ کا نقشہ بالکل بدل جاتا۔

جب جنرل HAUG کو اس کا علم ہوا تو اس نے ایک ماتحت جرنیل کو جو شاید آسٹیرین یا کینیڈین تھا بلایا اور کہا کہ ایسا ایسا واقعہ ہو گیا ہے۔ ہمارے پاس اس وقت فوج نہیں جو اس خلاءکو پورا کر سکے۔ میں یہ کام تمہارے سپرد کرتا ہوں کہ جس طرح بھی ہو سکے انتظام کرو کہ یہ خلا پر ہوجائے۔

چنانچہ وہ جرنیل موٹر میں بیٹھا اور دھوبیوں اور باورچیوں اور دوسرے ملازموں سے جو فوج کے پیچھے کام کرتے ہیں جا کر کہا کہ تم لوگ ہمیشہ جنگ میں شریک ہونے کی خواہش کیا کرتے ہو۔آج تمہارے لئے بھی حوصلے نکالنے کا موقع آگیا ہے۔ جو ہتھیار جس کے ہاتھ میں آئے لے لو اور چلو۔ بعض کو بندوق چلانی آتی تھی انہیں تو بندوقیں دے دی گئیں مگر دوسروں نے کدالیں اور پھاوڑے وغیرہ لے لئے۔ بعض نے کفگیر ہی اٹھائے اور چار پانچ گھنٹے اس خلا کو پر کئے رکھا اور دشمن کو یہ خیال بھی نہ ہوا کہ یہاں کوئی فوج نہیں ہے حتی کہ پیچھے سے کمک آگئی۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ293-294)

دل میں اخلاص ہو تو بولنا خدا سکھا دیتا ہے

نہ اچھے بولنے والوں سے یہ کام چلتا ہے اور نہ اچھے لکھنے والوں سے، ضرورت ایمان اور اخلاص کی ہوتی ہے۔ جب دل میں اخلاص ہو تو بولنا اللہ تعالیٰ خود ہی سکھا دیتا ہے۔

دیکھو !حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اچھا بولنا نہیں آتا تھا اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کہا بھی کہ میرے بھائی کو بولنا آتا ہے لیکن وہی موسیٰ علیہ السلام جنہیں بولنا نہیں آتا تھا اور جن کے متعلق مفسرین لکھتے ہیں کہ ان کی زبان میں لکنت تھی اور قرآن شریف سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کو تقریر کی مشق نہ تھی۔ مگر جب خداتعالیٰ نے ان کو نبوت دی، ایمان کا چشمہ ان کے اندر سے پھوٹ پڑا تو فرعون کے سامنے جا کر خود ہی تقریر کی۔

حضرت ہارونؑ بھی ساتھ تھے مگر ان کو ایک لفظ تک آپ نے بولنے نہیں دیا اور خود اس زور سے اور ایسی شان سے تقریر کی کہ بڑے سے بڑا مقرر تسلیم کرے گا کہ آپ نے کمال کر دیا۔

دیکھو! مصیبت زدہ عورتیں جن کو ایک لفظ بھی بولنا نہیں آتا، غیر مرد کے سامنے ایک لفظ منہ سے نہیں نکال سکتیں بلکہ رشتہ داروں سے بھی بات نہیں کر سکتیں جب ان کابچہ کسی مصیبت میں ہو تو ایسی تقریر کرتی ہیں کہ سننے والا دنگ رہ جاتا ہے۔

تو ضرورت یہ ہوتی ہے کہ دل میں زخم ہو، بولنا خود بخود آجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ دعا سکھائی: رَبِّ اشۡرَحۡ لِیۡ صَدۡرِیۡ ﴿ۙ۲۶﴾ وَیَسِّرۡ لِیۡۤ اَمۡرِیۡ ﴿ۙ۲۷﴾ وَاحۡلُلۡ عُقۡدَۃً مِّنۡ لِّسَانِیۡ ﴿ۙ۲۸﴾ یَفۡقَہُوۡا قَوۡلِیۡ ﴿۲۹﴾ اس میں شرح صدر کو پہلے رکھا، جب شرح صدر ہو تو سہولتیں آپ ہی آپ پیدا ہو جاتی ہیں۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ296)

خدا کے بندے فاقوں نہیں مرتے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دنیا دار کا قصہ سنایا کرتے تھے کہ اس کے بہت سے نوکر چاکر تھے۔ ایک دن اس نے خیال کیا کہ انہیں علیحدہ کر کے بچت کی صورت کی جائے لیکن رات کو اس نے خواب دیکھا کہ اس کا خزانہ کھلا پڑا ہے اور کچھ لوگ گڈّے بھر بھر کر مال اس میں سے نکالتے جا رہے ہیں۔ اس نے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو اور میرا مال کہاں لے جا رہے ہو؟ انہوں نے کہا ہم فرشتے ہیں، پہلے کچھ لوگوں کا رزق تمہارے پاس تھا مگر اب تم نے ان کو نکالنے کا ارادہ کیا ہے اس لئے ان کے حصہ کا رزق اب دوسری جگہوں پر بھیجا جائے گا۔

تو رزق ہر ایک کاخداتعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور جب عام حالت میں یہ ہے تو خداتعالیٰ کے دین کا کام کرنے والے کیوں اپنا رزق ساتھ نہ لائیں گے۔ کون ہے جو خداتعالیٰ کا بندہ کہلائے اور پھر خداتعالیٰ اسے فاقہ سے مرنے دے۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ297-298)

جلدی کرو۔ طبیعت بہت خراب تھی

خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے پہلے سے تیاری کرنی چاہئے۔ اگر ہم قبل از وقت ان کے لئے تیار نہیں ہوں گے تو موقع آنے پر بالکل گھبرا جائیں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو اپنی والدہ سے بہت محبت تھی۔ غالباً آپ جن دنوں سیالکوٹ میں تھے یا کسی اور مقام پر قادیان سے باہر تھے کہ آپ کوخبر پہنچی کہ آپ کی والدہ سخت بیمار ہیں۔یہ سن کر آپ فوراً قادیان کی طرف روانہ ہو گئے۔ جب آپ بٹالہ سےیکہ میں بیٹھ کر قادیان کی طرف روانہ ہوئے تو جو شخص لینے آیا ہوا تھا وہ بار باریکہ والے سے کہنے لگا کہ ذرا جلدی کرو، بی بی صاحبہ کی طبیعت بہت ہی خراب تھی خدا خیر کرے۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد اور زیادہ یکہ والے کو تاکید کرنے لگا اور یوں کہنا شروع کیا کہ کہیں خدانخواستہ فوت ہی نہ ہو گئی ہوں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے تھے: میں نے اس فقرہ سے سمجھ لیا کہ وہ فوت ہو چکی ہیں اور یہ مجھے صدمہ کے لئے تیار کر رہا ہے اور میں نے اس سے کہا کہ تم ڈرو نہیں اور جو سچ سچ بات ہے وہ بتا دو۔ اس پر اس نے کہا کہ بات تو یہی ہے کہ وہ فوت ہو چکی ہیں۔

اب دیکھو! وہ اس قسم کے فقرات تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کہہ کر آپ کو صدمہ کی خبر سنانے کے لئے تیار کر رہا تھا۔ ورنہ جو حادثہ ہونا تھا وہ ہو چکا تھا تودنیا میں جو معمولی حادثات وقوع میں آتے ہیں ان کی برداشت کے لئے بھی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔

(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ332-333)

(محمد انور شہزاد)

پچھلا پڑھیں

چودھویں تربیتی کلاس ناصرات الاحمدیہ بانجل گیمبیا

اگلا پڑھیں

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 14)