خصوصی پیغام
میں نے آج مشورے کے بعد یہی فیصلہ کیا ہے کہ دفتر سے ہی خطبے کے بجائے ایک پیغام کی شکل میں آپ سے بات کر لوں اور مخاطب ہو جاؤں
ملفوظات میں سے یا جماعتی کتب میں سے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دوسری کتب میں سے یا الفضل میں سے یا الحکم سے یا کسی اور رسالے سے کوئی بھی اقتباس پڑھ کر خطبہ دیا جا سکتا ہے اور گھر کے افراد میں سے کوئی بالغ لڑکا یا مرد جمعہ بھی پڑھا سکتا ہے اور نمازیں بھی پڑھا سکتا ہے
جب گھروں میں لوگ جمعہ پڑھائیں گے اور اس کی تیاری کریں گے تو مطالعہ کریں گے اس سے علم بھی بڑھے گا اور یوں حکومتی پابندی کی وجہ سے گھر بیٹھنا بھی دینی اور روحانی فائدے کا موجب ہو جائے گا، علمی فائدے کا موجب ہو جائے گا
ایم۔ٹی۔اے پر بڑے اچھے پروگرام آتے ہیں۔ کچھ وقت ان پروگراموں کو بھی اکٹھے بیٹھ کر دیکھنے کی کوشش کریں
سب سے بڑھ کر دعاؤں کی طرف بہت توجہ دیں۔ دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو ہم جذب کر سکتے ہیں اور اپنی روحانی اور جسمانی حالت کو صحت مند کر سکتے ہیں
اپنے گھروں میں نماز باجماعت کی عادت ڈالیں۔ بچوں کو یہ علم ہو گا کہ نمازیں پڑھنا ضروری ہیں اور باجماعت پڑھنا ضروری ہے اور آج کل کے حالات کی وجہ سے ہم مسجد نہیں جا سکتے لیکن اس فرض کو اپنے گھروں میں نبھانا ضروری ہے، اس کو پورا کرنا ضروری ہے۔اس طرف خاص طور پر توجہ دیں
اللہ تعالیٰ اس وبا سے دنیا کو جلد پاک کرے اور سب دنیا کو انسانیت کے تقاضے پورے کرنے والا بنائے اور سب خدا تعالیٰ کو پہچاننے والے ہوں
خصوصی پیغام سیّدنا حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ 27مارچ 2020ء اسلام آباد، ٹلفورڈ، (سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
آج کل وائرس کی جو وبا پھیلی ہوئی ہے اس کی وجہ سے حکومت نے پابندیاں لگائی ہیں۔ دنیا میں بہت ساری حکومتوں نے اور یہاں برطانیہ کی حکومت نے بھی کہ مسجد میں باجماعت نماز ادا نہیں ہو سکتی یا اگر ہو سکتی ہے تو دو یا چند افراد سے زیادہ نہ ہوں اور وہ بھی قریبی لوگ ہوں۔ ابھی قانون واضح نہیں ہو رہا۔ کوئی تشریح کچھ کرتا ہے اور کوئی کچھ کہ یہ صرف جیسا کہ مَیں نے کہاکہ قریبی رشتے دار ہوں تبھی ہو سکتا ہے اور کوئی کہہ رہا ہے کہ دوست یا ساتھ رہنے والے ہوں تو بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ بہرحال ان حالات میں باقاعدہ جب تک واضح نہیں ہو جاتا جمعہ ادا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جمعے میں بھی بعض چیزیں وضاحت طلب ہیں۔ اس لیے میں نے آج مشورے کے بعد یہی فیصلہ کیا ہے کہ دفتر سے ہی خطبے کے بجائے ایک پیغام کی شکل میں آپ سے بات کر لوں اور مخاطب ہو جاؤں۔ جمعہ باقاعدہ نہ پڑھا جائے۔
جمعے کے روز ایم۔ٹی۔اے پر خطبہ سننا، خلیفۂ وقت کا خطبہ سننا ایسا ہے کہ جس کی اب لوگوں کو عادت پڑ چکی ہے۔ اگر آج اس وقت مَیں جماعت سے مخاطب نہ ہوا تو لوگوں کو بعض دفعہ مایوسی بھی ہوتی ہے اور پھر اس کے علاوہ مختلف قسم کی قیاس آرائیاں بھی شروع ہو جاتی ہیں۔ اس لیے میں نے یہی بہتر سمجھا کہ کسی نہ کسی رنگ میں جماعت سے مخاطب ہو جاؤں اور اس کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا گیا کہ دفتر سے بیٹھ کر ایک پیغام کی صورت میں آپ سے مخاطب ہو جاؤں۔
بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا آج جو جمعہ ہے وہ ہم تو نہیں پڑھیں گے اور آئندہ کے لیے ان شاءاللہ کیا طریق اختیار کرنا ہے وہ ان شاء اللہ تعالیٰ بتا دیا جائے گا۔ لمبا عرصہ ہم جمعہ چھوڑ بھی نہیں سکتے۔ میرا جماعت سے جیسا کہ میں نے کہا رابطہ بھی ضروری ہے اور آج کل کے حالات میں خاص طور پر اَور بھی زیادہ ضروری ہے۔ اس لیے وکلاء اور متعلقہ لوگوں کے ساتھ مشورے کے بعد ان شاء اللہ اس کا ہم حل نکال لیں گے۔
افرادِ جماعت کو بھی مَیں یہ کہوں گا کہ جیسا کہ مسجد میں آنے پر حکومت نے اس بیماری کی وجہ سے جہاں پابندی لگائی ہے یا پابندی تو نہیں لگائی مثلاً یہاں یوکے میں یہ ہے کہ انفرادی طور پر مسجد میں آ کر نماز پڑھ سکتے ہیں یا چند فیملی ممبران بھی آ کر نماز پڑھ سکتے ہیں لیکن وہاں یہی ہے کہ فاصلہ اتنا ہو کہ جو حکومت نے بتایا ہےکہ آپس میں قریبی رابطہ نہ ہو لیکن اس کے باوجود باجماعت نماز اس طرح نہیں پڑھی جا سکتی کہ سارے اکٹھے ہو کے آئیں۔ تو ایسی صورت میں گھروں میں احباب جماعت کو چاہیے کہ باجماعت نماز کا اہتمام کریں اور جمعہ بھی گھر کے افراد مل کر پڑھیں اور ملفوظات میں سے یا جماعتی کتب میں سے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دوسری کتب میں سے یا الفضل میں سے یا الحکم سے یا کسی اور رسالے سے کوئی بھی اقتباس پڑھ کر خطبہ دیا جا سکتا ہے اور گھر کے افراد میں سے کوئی بالغ لڑکا یا مرد جمعہ بھی پڑھا سکتا ہے اور نمازیں بھی پڑھا سکتا ہے۔ جمعوں کو بہرحال لمبا عرصہ ترک نہیں کیا جا سکتا۔
جب گھروں میں لوگ جمعہ پڑھائیں گے اور اس کی تیاری کریں گے تو خطبے کے لیےمطالعہ کریں گے۔ اس سے علم بھی بڑھے گا اور یوں حکومتی پابندی کی وجہ سے گھر بیٹھنا بھی دینی اور روحانی فائدےکا موجب ہو جائے گا، علمی فائدےکا موجب ہو جائے گا۔ بلکہ الحکم نے آج کل جو لوگوں کی رائے کا سلسلہ شروع کیا ہے کہ ہم اس پابندی کی وجہ سے گھر بیٹھ کر کس طرح وقت گزارتے ہیں اس میں اکثر لوگ یہ لکھ رہے ہیں کہ قرآن اور حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور جماعتی لٹریچر پڑھ کر ہم اپنے علم میں اضافہ کر رہے ہیں اور بہت سے تبصرے تو آج کل مختلف دنیاوی سائٹس پر دنیادار بھی کر رہے ہیں کہ اس وجہ سے ہمیں بھی اپنی گھریلو زندگی کو، اپنی حالتوں کو بہتر کرنے کی توفیق مل رہی ہے اور ہماری گھریلو زندگی واپس آ گئی ہے۔ پس ہمیں بھی اپنی گھریلو زندگی کو، اپنی حالتوں کو سنوارتے ہوئے اور بچوں کی تربیت کرتے ہوئے گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایم۔ٹی۔اے پر بڑے اچھے پروگرام آتے ہیں۔ کچھ وقت ان پروگراموں کو بھی اکٹھے بیٹھ کر دیکھنے کی کوشش کریں۔
اور اس کے علاوہ حکومت نے عوام کی بہتری کے لیے جیسا کہ پہلے بھی مَیں کہہ چکا ہوں آپ کی صحتیں قائم رکھنے کے لیے جو ہدایات دی ہیں، جو قانون بنائے ہیں اس کی بھی پوری پابندی کریں۔ اور سب سے بڑھ کر جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبات میں کہا تھا کہ دعاؤں کی طرف بہت توجہ دیں۔ دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو ہم جذب کر سکتے ہیں اور اپنی روحانی اور جسمانی حالت کو صحت مند کر سکتے ہیں اور یہی ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بار بار نصیحت فرمائی ہے اور ایسے حالات میں بھی یہی نصیحت فرمائی ہے کہ سب سے زیادہ ضروری بات یہی ہے کہ خدا تعالیٰ سے گناہوں کی معافی چاہیں۔ دل کو صاف کریں اور نیک اعمال میں مصروف ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دعا کا ایک بہت بڑا ہتھیار دیا ہے۔ ہمیں اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس طرف توجہ دینی چاہیے۔
جہاں تک جمعہ نہ پڑھنے کا سوال ہے بعض حالات میں باجماعت نماز اور جمعہ کی بعض حدیثوں سے بھی وضاحت ہوتی ہے کہ یہ چھوڑے جا سکتے ہیں۔ مثلاً بخاری کی ایک حدیث ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے بارش والے دن میں اپنے مؤذن سے فرمایا کہ تم أَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اور أَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہو تو اس کے بعد حَيَّ عَلَى الصَّلوٰةِ نہ کہنا بلکہ صَلُّوْا فِي بُيُوتِكُمْ کہ اپنے گھروں میں نماز پڑھو کے الفاظ کہنا۔ پس یہ بات گویا لوگوں کو نئی لگی اور انہوں نے اس پر تعجب کیا۔ اس پر حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ یہی فعل انہوں نے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا ہے جو مجھ سے بہتر تھے۔ اگرچہ جمعہ پڑھنا ضروری ہے مگر میں ناپسند کرتا ہوں کہ میں تم لوگوں کو اس تکلیف میں ڈالوں کہ تم کیچڑ اور پھسلن میں چلو۔
(صحیح البخاری کتاب الجمعة باب الرخصة لمن لم یحضر الجمعة فی المطر حدیث 901)
مسلم میں بھی یہ روایت بعض الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ اس طرح آئی ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے بارش والے دن میں اپنے مؤذن سے فرمایا کہ تم أَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اور أَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہو تو اس کے بعد حَيَّ عَلَى الصَّلوٰةِ نہ کہنا بلکہ صَلُّوْا فِي بُيُوتِكُمْ کہ اپنے گھروں میں نماز پڑھو کے الفاظ کہنا۔ راوی کہتے ہیں کہ لوگوں کو یہ بات نئی لگی تو حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ کیا تم اس بات پر تعجب کرتے ہو۔ یہ کام انہوں نے کیا تھا جو مجھ سے بہتر تھے۔ اگرچہ جمعہ پڑھنا ضروری ہے مگر میں اسے پسند کرتا ہوں کہ تمہیں اس حال میں باہر نکالوں کہ تم کیچڑ اور پھسلن میں چلو۔
(صحیح مسلم کتاب الصلاة باب الصلاة فی الرحال فی المطر حدیث 699)
علامہ امام نوویؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں بارش وغیرہ کی مجبوری کی بناپر جمعہ کو ساکت کرنے کی دلیل موجود ہے اور یہی مسلک ہمارا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہی مسلک ہمارا ہے اور دوسرے فقہاء کا ہے جبکہ امام مالک کا موقف اس کے خلاف ہے۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔
(المنہاج شرح صحیح مسلم جلد 5 صفحہ 208 کتاب الصلاة باب الصلاة فی الرحال فی المطر حدیث 699 مطبوعہ المصریة بالازھر1347ھ)
اسی طرح فقہاء نے جمعہ اور باجماعت نماز کوترک کرنے کے عذروں میں ایسی بیماری جس کے ساتھ مسجد میں حاضر ہونا مشکل ہو اس کو شامل کیا ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو قرار دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے دین میں کسی قسم کی تنگی روا نہیں رکھی۔ اسی بناپر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو آپؐ مسجد جانے سے رُک گئے اور فرمایا کہ ابوبکرؓ سے کہو کہ وہ لوگوں کی امامت کرائے۔ یہ صحیح بخاری میں بھی ہے اور مسلم میں بھی یہ حدیث ہے۔
(صحیح البخاری کتاب الآذان باب اھل العلم والفضل احق بالامامة حدیث 680-681)
(صحیح مسلم کتاب الصلاة باب استخلاف الامام اذا عرض لہ عذر حدیث 419)
اسی طرح کسی بیماری کے پیدا ہونے سے خوفزدہ شخص بھی معذور قرار دیا ہے اور اس کی دلیل حضرت ابن عباسؓ کی وہ روایت ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عذر کی تفسیر خوف اور بیماری سے فرمائی۔ یہ سنن ابی داؤد میں درج ہے۔
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاة باب التشدید فی ترک الصلاة حدیث 551)
بہرحال یہ بیماری جس میں بیماری پھیلنے کا بھی خطرہ ہے اور جس کے لیے حکومت نے بھی بعض قواعد اور قانون بنائے ہیں اور ملکی قوانین کے تحت ان پہ چلنا بھی ضروری ہے۔ ان صورتوں میں جمع ہونا، ایک جگہ جمع ہونا اور نماز باجماعت ادا کرنا یا جمعہ پڑھنا مشکل ہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا اپنے گھروں میں نماز باجماعت کی عادت ڈالیں۔ اس سے جہاں بچوں کو یہ علم ہو گا کہ نمازیں پڑھنا ضروری ہے اور باجماعت پڑھنا ضروری ہے اور آج کل کے حالات کی وجہ سے ہم مسجد نہیں جا سکتے لیکن اس فرض کو اپنے گھروں میں نبھانا ضروری ہے، اس کو پورا کرنا ضروری ہے۔ اس طرف خاص طور پر توجہ دیں۔ بعض دفعہ سفروں میں ایسے حالات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بھی آئے تھے جب آپؑ نے جمعہ ادا نہیں کیا۔
(الفضل مورخہ 24 جنوری 1942ء)
تو بہرحال بہت ساری ایسی روایات ہیں جن سے اس بارے میں بھی وضاحت ہوتی ہے کہ متعدی بیماریوں میں جمع ہونا یا بیماریوں میں ایک دوسرے سے ملنا ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے لیے علیحدہ رہنا چاہیے اور علیحدہ رکھو۔ بہرحال جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہم مستقل تو یہ نہیں چھوڑ رہے اور اس کے لیے متبادل انتظام بھی کر رہے ہیں کہ گھروں میں جمعہ ادا کریں۔ میں بھی کوئی انتظام کرنے کی کوشش کروں گا۔
اب یہ بھی ضروری ہے کہ یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اس وبا سے دنیا کو جلد پاک کرے اور سب دنیا کو انسانیت کے تقاضے پورے کرنے والا بنائے اور سب خدا تعالیٰ کو پہچاننے والے ہوں ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔
(الفضل انٹرنیشنل لندن 17۔اپریل 2020ء)