رسول اللہ ﷺ کی حدیث مبارکہ ألأمَامُ جُنّةٌ کا اصل ادراک اور ضرورت آج محسوس ہورہی ہے ۔ جب دنیا بھر کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً کسی ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو زمانے کے حالات سے ہم آہنگ وعظ و نصیحت کرتے ہوئے انسانیت کے لئے نجات دہندہ ثابت ہو۔ گویا دنیا کو کسی ایسے عروہ وثقی کی ضرورت ہے جو انسانیت کو اتحاد کی لڑی میں پرو کر امت واحدہ بنا دیں ۔
اس ضرورت کا شدت سے احساس آج عالمی وبا کے دور میں ہورہا ہے جہاں ہمارا امام ہمیں مختلف مواقع پر جہاں قیمتی نصائح اور بیش قیمت احتیاطی تدابیر کی طرف توجہ دلا رہا ہے وہیں مختلف اطباء کے مشوروں سے دوائی بھی تجویز کر رہا ہے۔ اور اپنی روحانی حالتوں کی اصلاح کا درس دے رہا ہے۔ کیا یہ وہ ڈھال نہیں جس کا ذکر آج سے 1400 سال قبل پیغمبر اسلام ﷺ نے ألأمَامُ جُنّةٌ کے الفاظ میں دیا تھا۔ مگر اس بات کا ادراک محض ان لوگوں کو ہوسکتا ہے جن کے پاس ایک امام ہے۔ جن کو سمجھانے والا، جن کو گاہے گاہے اُنگلی پکڑ کر نہرپار کروانے والا وجود موجود ہے۔ اور یہ صرف جماعت احمدیہ کا ہی طرہ امتیاز ہے کہ وہ ایک ہاتھ پر مجتمع ہے۔ جبکہ دوسری جانب تمام امت مسلمہ ایک عجیب سی کیفیت میں گھری ہوئی ہے۔ ایک متلاطم سمندر ہےچھوٹی سی کشتی اور بے بسی کی انتہا۔
آج بعض اسلامی ممالک میں تبلیغ کرنے اور مساجد میں جمعہ پڑھنے کی ضد کی وجہ سے کرونا بڑی تیزی سے پھیلا ہے۔
جبکہ ہمارے سامنے رسول اللہ ﷺ کے بعض واضح ارشادات اور رہنمائی موجود ہے۔ جن کے ہوتے ہوئے ان تمام واقعات کے ذمہ داروں کا تعین کرنا ہر کسی کیلئے نہایت آسان ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا واضح ارشاد ہے کہ جس جگہ وبا ہو وہاں پر نہ جایا جائے اور اگر وہاں پہلے سے موجود ہو تو واپس نہ آیا جائے۔ اس ارشاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے چاہئے تو یہی تھا کہ جو جہاں ہے وہ وہیں اپنے آپ کو محصور کرلیتا تا کہ اس وائرس کی مزید تشہیر اور پھیلاؤ نہ ہوپاتا۔ اسی طرح رسول اللہ نے امیر کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے۔ چنانچہ ان حالات میں حکومت وقت اور حاکم وقت کی طرف سے دی گئیں ہدایات پر عمل کرنا بھی از حد ضروری تھا جس کی طرف بھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ اس لئے آج ہم سب اس کے نتائج سے دوچار ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ ان تمام مذہبی جماعتوں کی رہنمائی کیلئے کوئی ایک راہ متعین نہیں نظر آتی، ان سب میں تضاد اور تفرقہ بہت حد تک واضح ہوگیا ہے۔ اس کا جواب ہمارے نبی پاک ﷺ نے آج سے 1400 سال قبل ألأمَامُ جُنّةٌ کے الفاظ میں دیا تھا۔ اور آج اس بات کی امت مسلمہ میں شدید تڑپ اور شدت محسوس ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
خدارا اب بھی ہوش کے ناخن لو اور اس امام اور اس جماعت کو پہچانو کہ جس کو تم سب نے مل کر جتنا دبایا آج وہ اس سے ہزار گنا زیادہ تنآور بن چکی ہے۔اور تائید الہٰی اور فضل الہٰی کی تازہ اور زندہ مثال ہے۔ جماعت احمدیہ کا ایک ہاتھ پر یکجا ہونا اور ایک امام کی اطاعت کرنا ایسا وصف ہے جس کے غیر بھی معترف ہیں۔ چنانچہ ایک شیعہ اخبار جماعت احمدیہ کے متعلق کچھ یوں رقمطراز ہے:
’’۔۔۔ان کا دینی سربراہ ایک ہے جس کی وجہ سے ان کی مرکزیت قائم ہے اور پورے طور پر منظم ہیں۔’’ پھر مزید لکھا:
’’آج کل اسلام اور ملک ووطن کی سب سے بڑی خدمت اتفاق واتحاد ،اپنے اختلافات مٹانے اور ایک اور صرف ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے میں مضمر ہے۔آئیے آج ہم آپ کو احمدی فرقہ کے ان کارناموں سے روشناس کرائیں جو انہوں نے آٹے میں نمک ہونے کے باوجود ……سرانجام دئیے ہیں۔ سب سے پہلا اور نمایاں وصف ان میں اتحاد وتنظیم کا ہے‘‘
(ہفت روزہ اخبار رضاکار (لاہور) 24 مئی 1973ء جلد 37 شمارہ 20)
حضرت مصلح موعودؓ نےاپنی جماعت کے لئے محبت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا:
’’میں دیانت داری سے کہہ سکتا ہوں کہ لو گوں کے لیے جو اخلاص اور محبت میرے دل میں میرے اس مقام پر ہونے کی وجہ سے جس پر خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے اور جو ہمدردی اور رحم میں اپنے دل میں پاتا ہوں وہ نہ باپ کو بیٹے سے ہے اورنہ بیٹے کو باپ سے ہو سکتا ہے۔‘‘
(الفضل 4 اپریل 1924ء)
’’جب سعودی، عراقی، شامی اور لبنانی، ترکی، مصری اور یمنی سو رہے ہوتے ہیں میں ان کے لیے دعا کر رہا ہوتا ہوں۔‘‘
(رپورٹ مجلس مشاروت 1955ء)
’’کیا تم میں اور ان میں جنہوں نے خلافت سے روگردانی کی ہے کوئی فرق ہے۔ کوئی بھی فرق نہیں۔ لیکن نہیں ایک بہت بڑا فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ تمہارے لیے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا، تمہاری محبت رکھنے والا، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا، تمہارے لیے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے۔ مگر ان کے لیے نہیں ہے۔ تمہارا اسے فکر ہے، درد ہے اور وہ تمہارے لئے اپنے مولیٰ کے حضور تڑپتا رہتا ہے لیکن ان کا ایسا کوئی نہیں ہے۔ کسی کا اگر ایک بیمار ہو تو اس کو چین نہیں آتا۔ لیکن کیا تم ایسے انسان کی حالت کا اندازہ کر سکتے ہو جس کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بیمار ہوں۔ پس تمہاری آزادی میں تو کوئی فرق نہیں آیا ہاں تمہارے لیے ایک تم جیسے ہی آزاد پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوگئی ہیں۔‘‘
(برکات خلافت، انوار العلوم جلد دوم صفحہ158)
اللہ کرے کہ یہ دنیااس امام اور پیشوا کو ماننے میں اب مزید دیر نہ کرے۔ اللّٰھم آمین
(ابو حمدان)