• 1 مئی, 2024

خوشی کے موقع پر تحائف دینے کے آداب

گزشتہ کچھ سالوں سے یہ بات دیکھنے میں آرہی ہے کہ عید جیسے اسلامی تہوار پر بھی عزیز واقارب اور دوست احباب ایک دوسرے کے گھروں میں جا کر عید مبارک دینے اورتحفے تحائف کا تبادلہ کرنے کے بجائے سوشل میڈیا کے ذریعہ عید مبارک اور ان میںسے بعض گفٹ پیک بنا کر یا مٹھائی سوشل میڈیا کے ذریعے بجھوا کر سمجھتے ہیں کہ ہم دوسروں کی خوشیوں میں شامل ہو گئے ہیں ۔

جبکہ دین مصطفیﷺ ہمیں میل ملاقات کرنے اور تحفے تحائف کے تبادلہ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ ایک موقع پر ہمارے پیارے رسول حضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ لوگ عبادت کے لئے جب جمع ہوتے ہیں تو روزانہ محلے کے لوگ ایک دوسرے کے حالات سے واقف ہوتے ہیں۔ سات (7) دنوں کے بعد جمعہ کے روز شہر کے لوگ ایک جگہ جمع ہو کر ایک دوسرے سے واقفیت حاصل کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا حال احوال دریافت کرتے ہیں۔ پھر سال میں عید کے موقع پر نہ صرف شہر بلکہ اردگرد کے علاقہ کے مسلمان ایک کھلی جگہ پر اکٹھے ہو کر نماز عید ادا کرتے ہیں اور آپس میں میل ملاپ کر کے محبت کے دیپ جلاتے ہیں اور پھر دنیا بھر کے مسلمان حج پر اکٹھے ہو کر تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔

ہمارا معاشرہ اور ہمارا ایشیائی کلچر بھی دینی تعلیمات کی تائید میں ایک دوسرے کے گھروں میں آنے جانے، تعلقات بڑھانے اور میل ملاپ سے پیار و محبت میں اضافہ کی عملی تاکید کرتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل عید سے قبل عزیزوں میں عید کارڈ بنوانے کے لئے ایک دوڑ لگی رہتی تھی ۔ خوبصورت سے خو بصورت کارڈز خرید کر یا بنا کر اپنے عزیزوں کو بھجواکر محبت کا اظہار کیا جاتا تھا اور عید کے تینوں روز عزیز و اقارب کے گھروں میں تحفوں کے ساتھ جانے کا سلسلہ نظر آتا تھا۔ لیکن جوں جوں دنیا میں مصروفیت بڑھی ہر طرف نفسا نفسی کا عالم دکھائی دینے لگا۔ بعض جگہوں پر خونی رشتوں میں دوری اور بیزاری بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ بعض ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے۔ اسلامی اور معاشرتی اقدار مجروح بھی ہو رہی ہیں جس میں کئی اور عوامل بھی کار فرما ہوں گے وہاں اس کلچر کو تباہ کرنے میں الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا نے بہت تیزی سے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ عید سے ایک روز قبل “چاند رات مبارک’’ کے پیغام ملنے شروع ہو جاتے ہیں اور پھر“عید مبارک ’’ کا نہ ختم ہونے والا ایک لامتناہی سلسلہ واٹس ایپ پر شروع ہوتا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ ایک ہی شہر یا قصبہ میں رہنے والے لوگ سوشل میڈیا کے ذریعہ بڑے بڑے خوبصورت گفٹ پیک بنا کر، نیٹ سے نت نئے ڈیزائن کی مٹھائیوں کی فوٹوز نکال کر سوشل میڈیا کے ذریعہ بھجواکر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنے عزیز سے بہت محبت کا اظہار کر دیا ہے۔ اور یہ نہیںسوچتے کہ حالات کی وجہ سے رشتہ داریاں اور تعلقات پہلے ہی بہت زخمی ہو چکے ہیں۔بعض مقامات پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہیں۔اسلامی اور معاشرتی اقدار کو ہم بھولے جارہے ہیں۔ اگر عید پر بھی کسی عزیز کے گھر جا کر سلام و دعا اورتحفے تحائف کا تبادلہ نہ کیا تو یہ زخمی رشتے داریاں دم توڑ دیں گی۔سوشل میڈیا کے ذریعہ ڈبے یا مٹھائیاںبھجوانے کا طریق بناوٹی،اوپرا اوپرا اور رسمی سا لگتا ہے۔ اگر ہم سوشل میڈیا کو اس طرح سے استعمال کر رہے ہیں تو پھر آج کی تیز ترین دنیا میں اور بھی بہت سے ذرائع آچکے ہیں جن کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جیسے کورئیر سروسں کے ذریعہ اصل مٹھائی یا پھول وغیرہ بھجوائے جا سکتے ہیں۔اگر کچھ عرصہ قبل عید کارڈز بھجوائے جا سکتے تھے تو آج کوریئر سروسز کے ذریعہ تحفوں کا تبادلہ کیوں نہیں ہو سکتا۔

پھر سوشل میڈیا کے ذریعہ ڈبے یا مٹھائیاں جہاں دکھاوا ہیں وہاں جھوٹ اور دھوکے کے زمرے میں بھی آتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بڑی جماعت جہاں میں بطور مربی متعین تھا۔ ایک سیکرٹری صاحب کے بچوں میں انعامات تقسیم کرنے کے لئے بڑے بڑے ڈبے تیار کئے جن کے اندر چھوٹے چھوٹے کھلونے رکھ کر اردگرد کاغذ کی کترن رکھ دیں۔

جب انعامات کی تقسیم کا وقت آیا تو مہمان خصوصی نے ان ڈبوں کو یہ سمجھتے ہوئے زور سے ہاتھ ڈالا کہ ہے بہت بھاری بھر کم ہوں گے۔ مگر وہ بہت ہلکے تھے۔ ان کو بتایا گیا کہ صرف بچوں کو خوش کرنے کے لئے بڑے بڑے ڈبے بنائے گئے ہیں اندر تو کھلونے ہیں۔جس کا مرکزی نمائندہ نے بہت برا منایا اور اپنے اختتامی خطاب میں اس امر کا اظہار کیا کہ یوں ہم اپنے بچوں کو جھوٹ اور دھو کہ سکھلا رہے ہیں ۔ جو مناسب نہیں۔ انعام کو اصل حقیقت میں پیش کرنا چاہئے۔

عید پر تحفے تحائف دینے اور میل ملاقات کرنے کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں۔ میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آج کے دن أمراء اپنے غریب بھائیوں کے گھروں میں جائیں ۔۔۔ ان کے حالات دیکھیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بعض لوگ ایسی لذتیں پائیں گے کہ ساری زندگی کی لذ تیں ان کو اس لذت کے مقابل پر ہیچ نظر آئیں گی اور حقیر دکھائی دیں گی۔۔۔ یہ ہے عید جومحمدﷺ کی عید ہے۔ یہ وہ عید ہے جو در حقیقت ہرسچے مذہب کی عید ہے۔ پس جس کو یہ عید نصیب ہوجائے اس کو اور کیاعید چاہئے۔ ان کی عیدیں ہی عیدیں ہیں۔ اوریہی وہ عید ہے جو اسلام کی عید ہے”

ایک اور موقع پر آپ فرماتے ہیں۔
“ عیدوں کے موقع پر اپنے غریب ہمسایوں اور ضرورت مندوں کے ساتھ شامل ہونے کی کوشش کریں۔ ان کے کچھ غم ان کے گھروں میں جا کر دیکھیں اور ان کے غم بانٹیں، اپنی خوشیاں ان کے پاس لے کے جائیں اور اپنی خوشیاں ان کے ساتھ بانٹیں یا اپنے گھروں میں ان کو بلائیں غرضیکہ غریبوں کے ساتھ عید کرنے سے بہتر دنیا میں اور کوئی عید نہیں ہے۔

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایده الله تعالی بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
عید کے دن ہراحمدی اپنے ماحول کا جائزہ لے اور ضرورت مندوں کا خیال کرے کم استطاعت والوں کو اٹھانے کی کوشش کریں تو ہو سکتا ہے کہ وہ اگلے سال عید پر دوسروں کی مدد کر رہا ہو۔ اس طرح پر معاشی استحکام سے اخلاقی معیار بھی بلند ہوں گے اور پاکیزہ معاشرہ کا قیام عمل میں آئے گا۔

تحفہ دراصل عربی لفظ ہے جو اردو زبان میں بھی مستعمل ہے اس کا مترادف لفظ نذرانہ استعمال ہوتا ہے۔عربی میں اسے ہدیہ اور تحیۃ بھی کہتے ہیں اورانگلش میں Gift کا لفظ بولا جاتا ہے۔ تمام زبانوں کی ڈکشنریز میں تحفہ کا لفظ کسی ایسی چیز کے لئے بولا جاتا ہے۔ جو نادر ہو، سوغات ہو، جو آنکھوں کو بھی بھلی محسوس ہو اور دل بھی اس کو دیکھ کر خوش ہو اور دل کو موہ لے۔

تحفہ کی اہمیت و افادیت اور اس کے آداب پر مختلف زبانوں میں سینکڑوں کتب مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ جن میں یہاں تک لکھا ہے کہ کون کون سے مواقع پر کون کون سا تحفہ مفید ہو سکتا ہے۔ بالخصوص آج کے دور میں مرد حضرات کس قسم کاتحفہ پسند کرتے ہیں اور خواتین کون سا۔ حتی کہ بچوں کے مزاج کے مطابق تحفوں پر بحث کی گئی ہے اور جس کو تحفہ دینا مقصود ہو اس کے مشاغل، دلچسپیاں، روزگار ، عمر ، تعلیم ، مصروفیات اور طرز زندگی کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ دفتر یا گھریلو تعلقات میں علیحدہ علیحدہ گفٹ کلچر ہے۔ اگر دفتر میں کسی دوست یا ملازم کوتحفہ دینا ہے تو اس کے لئے گفٹ کا چناؤ کیسے ہے اور گھر کے لئے کیسے۔ اورہمارے ہاں تحفے کے لئے گھر میں ہی موجود کسی چیز کا انتخاب کر دیا جاتا ہے۔ چلیں یہ تو ہر انسان کی مالی حیثیت کے مطابق ہے۔ گھر میں ہی کوئی اچھی چیز موجود ہے تو دےدی ۔ لیکن پیکنگ بھی موقع و محل کی مناسب سے ہونی چاہئے ، شادی بیاہ کے موقع پر Birth day کے پیپر میں نہ دیا جا رہا ہوتا ہے۔

ہدیہ کا لفظ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ملکہ سبا کے لئے سورہ نمل آیت 25 میں استعمال فرمایا ہے۔ جو اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں بھجوایا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ تحفوں کا لوگوں پر اچھا اثر ہوتا ہے اور وہ سمجھتی تھی کہ اس سے حضرت سلیمان علیہ السلام کا دل جیتا جا سکتا ہے۔ اور وہ یعنی سلیمان ملکہ سبا کی اقدار کو اپنائیں گے۔ لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام الله والے لوگ تھے۔ اللہ تعالیٰ سے براہ راست رہنمائی لیتے تھے ویسے بھی نبی اپنے لوگوں کو بتانے آتے ہیں نہ کہ سیاسی لوگوں کی طرح عوام کی آواز بن کر ان کے پیچھے چلتے ہیں۔ اسی لئے حضرت سلیمان نے اس تحفہ اور ہدیہ کو ٹھکرا دیا اور الله کا پیغام بطور تحفہ اس شان سے ملکہ سبا تک پہنچایا کہ وہ حضرت سلیمان کے دربار پر حاضر ہونے پر مجبور ہو گئیں۔

اللہ تعالی نے قرآن کریم میں تحفوں کے سلسلے میںہماری رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وَ اِذَا حُیِّیۡتُمۡ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوۡا بِاَحۡسَنَ مِنۡہَاۤ اَوۡ رُدُّوۡہَا اور اگر تمہیں کوئی خیر سگالی کا تحفہ پیش کیا جائے تو اس سے بہتر پیش کیا کرو یا کم از کم ویسا ہی لوٹادو۔

( النساء:87)

آنحضور ﷺ نے تحفے دینے کے بارے میں امت مسلمہ کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا: تحادوا تحابو تذھب السحناؤ( مؤطا امام مالک باب ما جاء في المهاجرة) کہ آپس میں تحفے دیا کرو۔ اس سے ایک دوسرے سے محبت بڑھے گی اور عداوت اور جوش دور ہو جائے گا۔

ایک روایت میں ہے کہ تحفہ دلوں کو صاف کرتا ہے۔ ایک جگہ اسے حاجتوں کی کلید قرار دیا۔ حضور ﷺ کا یہ فرمان ہمیں احادیث کی کتب میں اکیلا نہیں ملتابلکہ اس کے شروع میں مصافحہ کرنے اور تحفہ دینے کی ان الفاظ میں ہدایت ہے تصافحوا یذھب الغل کہ آپس میں مصافحہ کیا کرو اس سے بغض اور کینہ دور ہو جائے گا۔

اگر ان دونوں جملوں کو ملا کر پڑھا اور دیکھا جائے تو انسان اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ تحفہ بھی اگر ممکن ہو تو گھر پہنچ کر مصافحہ کر کے دیا جائے۔(آجکل تو کرونا کی وجہ سے پابندی ہے) کیونکہ مصافحہ کرنے اور تحفہ دینے کے نتائج جو اس حدیث میں بیان ہوئے ہیں ایک ہی ہیں۔ انسان خود حاضر ہو تو اگلے کے حالات سے بھی واقفیت ہوجاتی ہے اور پیار و محبت اور ہمدردی کے جذبات پہلے سے زیادہ پیدا ہوتے ہیں ۔ تعلق مضبوط ہوتا ہے اور باہمی بغض اور کدورتیں دور ہوتی ہیں ۔ انسیت اور اتحاد و اتفاق میں اضافہ ہوتا ہے۔

آنحضورﷺ ہدیہ قبول فرماتے تھے۔ اور اس کے بدلہ بھی چکایا کرتے تھے۔

(بخاری کتاب الھبہ)

احادیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ خوشبو، دودھ،دستی کا گوشت اور گائے بھیڑ کے پائے پسند فرماتے تھے۔ اور صحابہ یہ تحفے آنحضور ﷺ کو دیتے تھے۔ اور بسا اوقات صحابہ آپ کو دعوت پر بلایا بھی کرتے تھے۔ خود آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ دعوت کو قبول کریں۔

کسی کو مسکرا کر اور اچھے طریق سے ملنا بھی صدقہ (تحفہ) ہے۔ اچھے عمل سے کسی کا دل موہ لینا بھی تحفہ ہے۔ جیسے کسی کے لئے خوشیوں کے سامان مہیا کرنا، دکھ دور کر کے سکھ پہنچانا، یہ تحفہ کے زمرے میں آتا ہے۔ کیونکہ کسی کو سکون پہنچانا ہی تحفہ ہے۔ جو اچھے اخلاق سے ہر کوئی دے سکتا ہے۔ خواہ وہ غریب ہی کیوں نہ ہو۔ اس میں نہ تو کوئی رقم خرچ ہو رہی ہوتی ہے اور کوئی محنت کرنی پڑتی ہے اور معاشرہ کا ہر طبقہ بآسانی اسے کر سکتاہے۔

پُرسکون ، خوشحال اور صحت مند زندگی، اپنے خالق حقیقی کی طرف سے انسان کے لئے سب سے بڑا تحفہ ہے۔ یہ ایک نعمت اور دولت سے کم نہیں ۔ انسان کو اس کی قدر کرنی چاہئے اور الله تعالی کا شکر ادا کرتے رہنا چاہئے اور اپنے سے مال و صحت اور نعمتوں سے کم تر کو تحفے دینا نہ بھولے۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ اللہ کو یہ بات پسند ہے کہ وہ اپنے فضل اور اپنی نعمت کا اثر اپنے بندے پر دیکھے اور خوشحالی کا اظہار نظر آئے۔ مگر تکبر نہ ہو۔

تحفے و تحائف کے تبادلوں میں سے ایک اہم تحفہ ایک دوسرے کے لئے دعا کرنا ہے۔ حقیقت میں اس سے بڑھ کر اور کوئی تحفہ نہیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جس حد تک آپ اپنی دعاؤں میں ضرورت مندوں کو شامل کر یں گے آپ کی دعا شرف قبولیت پائے گی اس لئے دعاؤں کے تحفے بانٹنے میں بخل سے کام نہ لیا جائے۔

گھروں کو پُرسکون بنانے اور ماحول کو امن و آشتی والا بنانے کے لئے میاں اور بیوی بھی اگر آپس میں تحفوں کا تبادلہ کرتے رہیں اور ایک دوسرے کا شکریہ ادا کریں تو گھر جنت کا نظارہ پیش کر سکتا ہے۔ کیونکہ ہر کوئی تحفہ لینا پسند کرتا ہے یہ زخموں کا تریاق بھی ہے۔ ٹوٹے دل اس سے جڑ سکتے ہیں۔ تحفہ دیتے وقت تحفہ کی روح ضرور مدّنظر رہے۔ بعض لوگ رسمی تحفہ بھجوا دیتے ہیں۔ اس میں بسا اوقات دکھاوا مدّنظر ہوتا ہے سارا زور ظاہر پر ہوتاہے اور تحفہ دینے والے کے ذہن میں اپنے بڑے پن کا اظہار ہوتا ہے تا لوگ اسے فراخ دل کہیں دیالو کہیں اس کی تعریف کریں۔بعض اوقات ماتحت افسر کو خوش کرنے اور اپنے کام نکلوانے کی خاطر تحفے تحائف دیتا ہے۔ تحفہ کا اصل مقصد قائم رہنا چاہئے جو انس و محبت بڑھانے اور کینہ، کدورتوں کو دور کرنا ہے ۔ اور یہ ایک ایسا تحفہ ہی کر سکتا ہے جو اس حقیقی خلوص اور جذبات سے دیا جائے جو تحفہ دینے والے کے دل میں پید ا ہو اور تحفہ لینے والا اس کی قدر کرے۔ ورنہ رسمی تحفوں سے تو تعلقات میں رخنے قائم رہتے ہیں۔تحفہ بھجواتے وقت جن امور کی طرف زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے اس میں بنیادی بات اپنی مالی حیثیت دیکھناہے۔ اپنی حیثیت سے بڑھ کر ، مقروض ہو کر تحفہ نہ دیا جائے۔ موقع و محل کی مناسبت سے ہو تو بہتر ہے۔ بعض گھروں سے چیزیں نکال کر زائد المیعاد یا پرانے فیشن والی اشیاء تحفہ میں دےدیتے ہیں کہ خود تو پہننی نہیں فیشن Overہو چکا ہے یا اترن تحفہ میں دے ۔اگر ایسی بات ہے تو پہلے بتا دیں کہ اترن ہے۔ لیکن اسے بھی دھوکر استری کروا کر ڈرائی کلین کروا کر دی جائے۔

بہت قریبی یا جن سے Frankness ہو ان کے مزاج کا بھی علم ہوتا ہے۔ ان کے ذہن کو پڑھ کر تحفہ ویا جا سکتا ہے۔ آج کی تیز مادی دنیا میں مارکیٹنگ ایک اہم شعبہ ہے۔ جو اپنے کسٹمر کے ذہن کو پڑھ کر اس کے مطابق گفتگو کرتا ہے اور اپنا مال بیچتا ہے اس اصول کو یہاں بھی کارفرما رکھا جا سکتا ہے۔

اگر بجٹ اجازت دیتا ہو تو ڈسکاؤنٹ ڈیپارٹ منٹل اسٹورز سے اشیاء خریدنے سے اور Condemned اشیاء کے خریدنے احتراز کریں۔ ایک اور امر جس سے بچنا ضروری ہے وہ تحفہ مانگ کر لینا ہے۔ تحفہ کے آداب پر جو کتب مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ ان میں لکھا ہے کہ تحفہ کا تقاضا کرنا ایک بیہودہ حرکت ہے۔ پھر تحفہ دے کر واپسی کا تقاضا کرنا مناسب نہیں۔

آنحضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ تحفہ دے کر واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو اپنی ہی کی ہوئی قے کو چاٹتا ہے۔

(مسلم کتاب الھبات)

ایک اہم امر جس کا تحفہ کے آداب سے نہایت گہرا تعلق ہے وہ شکر ادا کرنا ہے۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ جو انسان کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خدا کا شکر گزار کیسے ہو سکتا ہے۔ آنحضور نے “جزاك الله خيرا ’’ کے الفاظ میں شکر کرنے کی تلقین فرمائی پھر فرمایا کہ اگر کوئی تحفہ دے تو اس کا بدلہ دے۔ اگر بدلہ دینے کی طاقت نہ ہو تو تحفہ کی تعریف اور شکر ادا کرے۔

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

ہمیشہ رہنے والی جنت اور نادار مریضان

اگلا پڑھیں

موسم کی سختی میں روزہ