مُجھ کو مٹانا بس میں تُمہارے رہا نہیں
مقتل حیاتِ عشق ہے مرگِ وفا نہیں
جو رائیگاں گیا ہو کبھی بزمِ یار میں
وہ اشک اپنی آنکھ سے اَب تک گِرا نہیں
پہرے بٹھاؤ کِتنے ہی گُفت و شُنید پر
اہلِ طلب کے واسطے ہم بے نوا نہیں
سمجھیں گے خاک عقدۂ فیضانِ مُصطفےٰ
اُن کو کو طلب تو ہے مگر ذہنِ رسا نہیں
“کرب و بلا کا خوف ہے ‘ مقتل سے ڈرگئے”
ہم نے کِسی یزید کو ایسے کہا نہیں
جور و ستم سے ہم کو تو ڈرنا نہیں اے دوست
کچھ پل کی بات ہےسُنو ایسے سدا نہیں
(پروفیسر کرامت راج۔کینیڈا)