’’بعض گناہ ایسے باریک ہوتے ہیں کہ انسان اُن میں مبتلا ہوتا ہے اور سمجھتا ہی نہیں۔ جوان سے بوڑھا ہوجاتا ہے مگر اسے پتہ نہیں لگتا کہ گناہ کرتا ہے مثلاً گِلہ کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اس کو بالکل ایک معمولی اور چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں۔ حالانکہ قرآن شریف نے اس کو بہت بُرا قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے۔ أَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتاً خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے کہ انسان ایسا کلمہ زبان پر لاوے جس سے اس کے بھائی کی تحقیر ہو اور ایسی کارروائی کرے جس سے اس کو حرج پہنچے۔ ایک بھائی کی نسبت ایسا بیان کرنا جس سے اس کا جاہل اور نادان ہونا ثابت ہو یا اس کی عادت کے متعلق خفیہ طور پر بے غیرتی یا دشمنی پیدا ہو یہ سب برے کام ہیں‘‘۔
(الحکم۔ جلدنمبر ۱۰، نمبر ۲۲، صفحہ۳۔ بتاریخ۲۴؍جون ۱۹۰۶ ء۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد چہارم صفحہ ۲۱۸۔ ۲۱۹ )
پھر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :۔
‘‘غیبت کرنے والے کی نسبت قرآن کریم میں ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتاہے۔ عورتوں میں یہ بیماری بہت ہے۔ آدھی رات تک بیٹھی غیبت کرتی ہیں اور پھر صبح اٹھ کر وہی کام شروع کر دیتی ہیں۔ لیکن اس سے بچنا چاہئے۔ عورتوں کی خاص سورۃ قرآن شریف میں ہے۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ مَیں نے بہشت میں دیکھا کہ فقیر زیادہ تھے اور دوزخ میں دیکھا کہ عورتیں بہت تھیں۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ عورتوں میں چند عیب بہت سخت ہیں اور کثرت سے ہیں۔ ان میں سے یہ ہیں کہ شیخی کرنا کہ ہم ایسے ہیں، ایسے ہیں۔ پھر قوم پر فخر کرنا کہ فلاں تو کمینی ذات کی عورت ہے یا فلاں ہم سے نچلی ذات کی ہے۔ پھر یہ کہ اگر کوئی غریب عورت ان میں بیٹھی ہوئی ہے تو اس سے نفرت کرتی ہیں اور اس کی طرف اشارہ شروع کر دیتی ہیں کہ کیسے غلیظ کپڑے پہنے ہوئے ہیں، زیور اس کے پاس کچھ نہیں وغیرہ وغیرہ۔
(بدر ۷ جون ۱۹۰۶)