• 28 اپریل, 2024

یقیناً اللہ نے مومنوں پر احسان کیا

ایک زمانہ تھا جب عرب دنیا کے لوگوں کو باہر کی دنیا، دوسری دنیا ایک معمولی حیثیت دیتی تھی اس لحاظ سے کہ بعض علاقے کے لوگوں کو بالکل جاہل اور اجڈ سمجھا جاتا تھا۔ اِکاّ دُکاّ ان کے شہروں میں پکے مکان یا پتھر کے مکان ہوتے تھے اور اکثریت جھونپڑا نما مکانوں میں رہا کرتی تھی۔ اور دیہاتی ماحول تو بالکل ہی عارضی جھونپڑیوں کا ماحول تھا۔ اور جس طرح دنیا ان کو جاہل اجڈ سمجھتی تھی عملاً تہذیب سے یہ بالکل عاری لوگ تھے۔ حالت ان لوگوں کی یہ تھی کہ ذرا ذرا سی بات پر لڑائیاں ہوتی تھیں تو سالوں چلا کرتی تھیں۔ اسی طرح کی ایک لڑائی کا قصہ ہے ایک جنگ کا، کہ ایک دفعہ ایک پرندہ ایک درخت پر گھونسلے میں اپنے انڈوں پر بیٹھا ہوا تھا تو عربوں کے سرداروں میں سے ایک جب وہاں سے گزرا اس نے اس کی طرف پسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور اس کو دیکھ کر کہا کہ تو میری پناہ میں ہے۔ اگلے دن گیا تو دیکھا کہ وہ انڈے ٹوٹے پڑے ہیں، زمین پہ گرے ہوئے ہیں، گھونسلہ بھی بکھرا ہوا ہے اور وہ چڑیا یا جو بھی پرندہ تھا بڑی درد ناک حالت میں درخت پر بیٹھا تھا۔ اس شخص نے اِدھر اُدھر دیکھا تو ایک اونٹنی نظر آئی جو وہاں چر رہی تھی، اسے یقین ہوگیا کہ یہ گھونسلہ گرانے والی یہی اونٹنی ہے۔ وہ اونٹنی ایک دوسرے قبیلے کے کسی سردار کے کسی مہمان کی تھی۔ وہ اس کے پاس گیا کہ آج تو مَیں نے اس اونٹنی کو چھوڑ دیا ہے لیکن اگر آئندہ یہ اس طرف آئی تو مَیں اس کومار دوں گا۔ چنانچہ چند دنوں کے بعد وہ اونٹنی اس پہلے شخص جس نے یہ وارننگ دی تھی اور چڑیا کو پناہ دی تھی اس کے ریوڑ کے ساتھ مل کر پانی پینے لگی۔ جانور مل جایا کرتے ہیں۔ اس نے اُس اونٹنی کو تیر مار دیا۔ وہ زخمی ہو کے دوڑی اور جہاں اس کا مالک ٹھہرا ہوا تھا وہاں دروازے پہ جا کے گری اور مر گئی۔ تو جس شخص کا یہ مہمان تھا جس کی اونٹنی مری وہاں شور پڑ گیا کہ دیکھو جی ہماری عزت برباد ہو گئی، ہمارے مہمان کی اونٹنی کو مار دیا۔ اس نے اس اونٹنی مارنے والے کو جا کے قتل کر دیا۔ اور اس طرح جنگ شروع ہوئی اور 40سال تک یہ جنگ جاری رہی۔ اس کی ایک لمبی تفصیل ہے، مَیں نے مختصر طور پر بتایا ہے۔ تو یہ تھی اس وقت عرب کے اجڈ پنے اور جہالت کی حالت۔ اور ان عربوں کو اپنی ان باتوں پر بڑا فخر تھا۔ عورت کی عزت نہیں تھی، لڑکی پیدا ہوتی تو اسے مار دیا جاتا۔ تکبر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ شراب خوری، جوا اور زنا کو بڑائی کا نشان سمجھا جاتا تھا۔ بڑے فخر سے اس کو بیان کیا جاتا تھا۔ غرض کہ ان لوگوں کے اخلاق انتہائی گرے ہوئے تھے۔ زندگی کا کوئی پہلو بھی لے لو ذلیل ترین حرکتیں ہوا کرتی تھیں۔ پھر وہ زمانہ آیا جس کا اللہ تعالیٰ، اس آیت میں جو مَیں نے تلاوت کی ہے، ذکر فرماتا ہے کہ یقیناً اللہ نے مومنوں پر احسان کیا جب اس نے ان کے اندر انہی میں سے ایک رسول مبعوث کیا۔ وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے جبکہ وہ اس سے پہلے کھلی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔ پس اس نبیﷺ نے اللہ تعالیٰ سے سیکھ کر ان لوگوں کو پاک کیا۔ ان کو حکمت کی باتیں سکھائیں۔ ان کو بتایا کہ معاشرے میں کس طرح رہنا ہے، تہذیب کیا ہے، تمدن کیا ہے۔ ان کو خاندان کی چھوٹی سے چھوٹی اکائی یعنی گھر کی سطح پر بھی جو رشتوں کی ذمہ داریاں ہیں ان کے بارے میں بتایا۔ آپس میں کس طرح ایک دوسرے کو اخلاق دکھانے ہیں اس کے بارے میں بتایا۔ اور پھر ایک شہری کی حیثیت سے کس طرح رہنا ہے وہ اخلاق سکھائے، ان کے بارے میں تعلیم دی۔ پھر تم نے اپنے ہمسائے کے ساتھ کس طرح رہنا ہے۔ اس کے کیا اخلاق تمہیں دکھانے چاہئیں۔ تم نے بحیثیت ماتحت کس طرح رہنا ہے، کن اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہے۔ تم نے بحیثیت افسر اپنی زندگی کس طرح گزارنی ہے۔ غرض کہ معاشرے کے مختلف درجات میں ایک فرد پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور جس جس حیثیت سے ایک شخص نے جس طرح اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہے وہ انہیں سکھایا یعنی اجڈ اور جاہل لوگوں کو بااخلاق انسان بنایا اور پھر انہیں باخدا انسان بنایا۔ وہ لوگ جو خدائے واحد کے تصور سے ناواقف تھے انہیں اعلیٰ اخلاق کے ساتھ ساتھ ایک خدا کے حضور جھکنے والا اور اس کا تقویٰ اختیار کرنے والا بنایا اور پھر اعلیٰ اخلاق کے بھی ایسے نمونے ان سے قائم کروائے جو مثال بن گئے۔

(خطبہ جمعہ 19 اگست 2005ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

خصوصی نمبر بر موقع 12 ربیع الاول

اگلا پڑھیں

نماز میں چھینک کا جواب دینا