ایڈیٹر کے نام خط
غیر از جماعت قارئین کی طرف سے الفضل میں ’’حجاب‘‘ پر آرٹیکلز لکھنے کی درخواست
مکرم علامہ محمد عمر تماپوری کوآرڈینیٹر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی۔ علیگڑھ انڈیا سے ایڈیٹر کے نام خط میں لکھتے ہیں۔
ان دنوں انڈیا کی ایک ریاست کرناٹک جنوبی ہند (خاکسار کا تعلق اسی ریاست کرناٹک سے ہے) حجاب (پردہ) کا معاملہ بہت طول پکڑ گیا ہے۔ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ تعلیمی اداروں اور حکومت سے بے قابو ہو گیا ہے۔ نہ صرف ریاست کرناٹک بلکہ سارے ملک بھارت میں اور پھر دنیا میں بین الاقوامی میڈیا میں چرچہ کا موضوع بنا ہوا ہے۔ بہت حساس شکل اختیار کر گیا ہے۔ برقعہ پوش طالبات ’’پہلے حجاب پھر کتاب‘‘ کے بینرز ہاتھوں میں لئے جگہ جگہ سڑکوں پر اتر آئی ہیں۔ صورتحال سنگین ہو گئی ہے۔ روز ہی ملک بھر کے اخبارات میں سرخیاں لگ رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ خوب چھا گیا ہے۔ روزانہ ہی ہر ریاست کی ہر زبان کے چینلوں میں حجاب موافق اور مخالفت میں گرما گرم بحث ہو رہی ہے۔ عبوری راحت دینے سے کرناٹک ہائیکورٹ نے انکار کر دیا ہے۔پھر یہ معاملہ تین رکنی بنچ کے سپرد ہوا۔ سماعت ہو رہی ہے۔اس بنچ نے بھی 14 فروری تک فیصلے کو سرکشت رکھا ہے۔ بگڑتی صورتحال اور فیصلہ میں ہو رہی تاخیر کی بنا پر یہ حجاب کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ چکا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہےہم ہائیکورٹ کرناٹک کے فیصلہ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان کے فیصلہ کے بعد ہم سماعت کریں گے۔ اس ضمن میں ایک آرٹیکل ’’حجاب پر عدالت کا جو بھی فیصلہ ہوگا منظور ہوگا‘‘ لف ہذا ہے۔ اور خوش کن بات یہ ہے کہ جو پہلے حجاب یا برقعہ نہیں پہنتے تھے وہ بھی اب اسلامی پردہ میں نظر آرہی ہیں اور صاف کہہ رہی ہیں کہ حجاب ہماری شناخت ہے۔
آپ کے اداریے اور مضامین عالمگیر سطح پر روزمرہ کے مسائل کو احاطہ کیے ہوتے ہیں۔ حقائق اور دلائل پر مبنی ہوتے ہیں اور یہ حجاب کا موضوع بھی خالص مذہبی اور سماجی مسئلہ ہے۔ سنجیدہ طبع طبقہ یہ بات جاننے کے لئے بےتاب ہے کہ مذہبِ اسلام میں قرآن اور حدیث میں حجاب کے متعلق کیا احکامات بیان ہوئے ہیں۔ روز ہی مختلف چینلوں پر حجاب کے موضوع پر بحث ہو رہی ہے۔ اینکر کی جانب سے سوال ہوتا ہے کہ اسلامی نظریہ کیا ہے؟۔ جو جواب ہوتا ہے اس سے نہ اینکر مطمئن ہوتا ہے اور نہ ہی سامعین اور ناظرین۔ میں نے اپنے ایک سابقہ خط میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ ’’الفضل آن لائن لندن کو غیر احمدی دنیا بھی دلچسپی سے پڑھتی ہے۔ یہ چند سطور جو میں نے آپ کو تحریر کیے ہیں اس کے محرک یہی لوگ ہیں۔‘‘ امید ہے کہ اول فرصت میں حجاب (پردہ) کے متعلق آپ کا اداریہ یا مضمون الفضل کا حصہ بنے گا۔ جو ہر سنجیدہ اور دانشور طبقہ کو اسلامی نقطہ نظر کو جانتے اور سمجھتے ہیں ممد و معاون ہوگا۔ ان شاءاللّٰہ۔ جزاکم اللّٰہ احسن الجزاء۔