• 27 اپریل, 2024

تبرکات کی حقیقت

کبھی کبھی خیال آتا ہے!
تبرکات کی حقیقت

ایک لفظ کا ہماری روزمرہ زندگی میں اتنا استعمال ہے کہ شاید ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ وہ لفظ ہے ’’برکت‘‘، درود شریف میں آنحضرت ﷺ کے لیے برکت کی دعا ہو، کھانا کھاتے ہو ئے برکت کی دعا ہو، چندے کی ادائیگی سے مال میں برکت کا مشاہدہ ہو، خلافت کی برکات پر تحریر و تقاریر ہوں یا ذاتی تجربات غرض یہ چند مثالیں ہیں برکت کے استعمال کی اس کے علاوہ اگر ہم سوچیں تو شاید حیران رہ جا ئیں کہ ہماری زندگیوں میں اس لفظ کی کتنی اہمیت ہے۔ لیکن اکثر ہم بے دھیانی میں غور کیے بغیر آگے گزر جاتے ہیں اور ہم سمجھ نہیں پاتے کہ برکت ہے کیا؟ یہ اتنا وسیع مضمون ہے کہ اس پر کتابیں تحریر کی جاسکتی ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ کی انگوٹھی میں برکت

کچھ عرصہ پہلے خاکسار سے ایک نوجوان نے سوال کیا کہ کچھ احمدی الیس اللہ کی انگوٹھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انگوٹھی سے مَس کی گئی ہو وہ کیوں پہنتے ہیں، جواب میں فوراً منہ سے نکل گیا کہ برکت کے لیے۔ اس نوجوان نے ایک اور سوال داغ دیا کہ اچھا! اگر احمدی برکت کے لیے انگوٹھی پہنے اور باقی مسلمان اگر تعویذ وغیرہ برکت کے لیے پہنیں تو اس میں فرق کیا ہے؟ فوری طور پر منہ سے جواباً نکلا کہ فرق خلافت کا ہے اور خلیفہ وقت کی ذاتی برکت کا ہے جو روحانی تسلسل میں آنحضور ﷺ کی نیابت میں موجود ہے۔

یہاں میں خود حضور انور کے الفاظ میں ایک جواب درج کرتا ہوں جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
’’بسا اوقات جب میں ایسا کرتا ہوں تو میرے دل میں خیال آتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘۔ مزید برآں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی انگوٹھی اس الہام کو مدنظر رکھ کر بنائی گئی ہے کہ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔ یعنی کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس لیے میرا یقین ہے کہ ضرور اس میں برکت رکھی گئی ہے۔ اس لیے بسا اوقات میں دعا کے لیے کہنے والوں پر دعا کرتے ہوئے یہ انگوٹھی بھی مس کرتا ہوں۔ بہر حال میں ایسا اس وقت کرتا ہوں جب اللہ میرے دل میں یہ خیال ڈالے یا اگر کوئی بار بار مجھ سے ایسا کرنے کا کہے۔ میں کئی دفعہ ایسا اس لیے کرتاہوں کہ میرے دل میں اللہ کی طرف سے شدت سے ایسا کرنے کا خیال آتا ہے کہ ایسا کرنے میں مضائقہ نہیں۔ میں ایسا ہر ایک کے لیے نہیں کرتا بلکہ ان کے لیے کرتا ہوں جس کے بارے میں اللہ میرے دل میں خیال ڈالتا ہے۔

(روزنامہ لفضل آن لائن مورخہ 23؍اکتوبر 2021ء)

صحابہؓ اور آنحضورؐ کے تبرکات

آنحضورﷺ کے دور میں صحابہؓ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک لیا کرتے تھے۔ اور خود بھی تبرک لینے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ صلح حدیبیہ کے دوران جب آنحضورﷺ مکہ کے گرد و نواح میں مقیم تھے۔ قریش مکہ نے اپنا ایک سفیر مسلمانوں کی طاقت کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا۔ اس نے واپس جا کر سرداران کفار کو مشورہ دیا کہ مسلمانوں سے ہر گز لڑائی نہ کرنا میں نے موتیں دیکھی ہیں۔ وہ اپنے رسول ﷺ کے اردگرد محبت سے سرشار بیٹھے رہتے ہیں۔ ان کے رسول جب وضو کرتے ہیں تو وہ اس پانی کو نیچےگرنے نہیں دیتے بلکہ اس بچے ہوئے پانی کو اپنے مونہوں پر پیار سے ملتے اور بعض پی بھی لیتے ہیں۔دراصل یہ تبرک تھا جو صحابہؓ پی لیا کرتے تھے

(الفضل انٹرنیشنل 27 مئی 2021ء صفحہ 22-23)

تقاضائے محبت

ایک بار جب تعویذ اور دم وغیرہ سے متعلق ایک سوال حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں پیش ہوا تو ا س پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ جناب مولانا حکیم نورالدین رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ: ’’احادیث میں کہیں اس کا ثبوت ملتا ہے کہ نہیں؟‘‘ حضرت مولانا صاحب نے عرض کی کہ: لکھا ہے کہ خالد بن ولیدؓ جب جنگوں میں جاتے تو آنحضرت ﷺ کے موئے مبارک جو کہ آپ کی پگڑی میں بندھے ہوتے آگے کی طرف لٹکا لیتے۔ پھر آنحضرت ﷺ نے صرف ایک دفعہ صبح کے وقت سارا سرمنڈوایا تھا تو آپ نے نصف سرکے بال ایک خاص شخص کو دے دیئے اور نصف سرکے بال باقی اصحاب میں بانٹ دیئے۔ آنحضرت ﷺ کے جُبہ مبارک کو دھودھوکر مریضوں کو بھی پلاتے تھے اور مریض اس سے شفایاب ہوتے تھے۔ایک عورت نے ایک دفعہ آپ کا پسینہ بھی جمع کیا۔

یہ تمام اذکار سن کر حضرت اقدس ؑنے فرمایا کہ: ’’پھر اس سے نتیجہ یہ نکلا کہ بہر حال اس میں کچھ بات ضرور ہے جو خالی ازفائدہ نہیں ہے اور تعویذ وغیرہ کی اصل بھی اس سے نکلتی ہے بال لٹکائے تو کیا اور تعویذ باندھا تو کیا۔ میرے الہام میں جو ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ آخر کچھ تو ہے تبھی وہ برکت ڈھونڈیں گے مگر ان تمام باتوں میں تقاضائے محبت کا بھی دخل ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ357-358 ایڈیشن 1988ء)

جیسا کہ آپؑ نے فرمایا کہ ان تمام باتوں میں تقاضائے محبت کا بھی دخل ہے، آپ ﷺ کی وفات کے بعد خلفاء راشدین اور صحابہ رضوان اللہ علیہھم سے منسوب اشیاء سے برکت کے حصول کی کوششوں سے تاریخ اسلامی بھری پڑی ہے۔ ایک طرف اگر ہم ترکی کے توپ کاپی محل کے عجائب گھر کو دیکھیں تو وہاں موجود آنحضرتﷺ، خلفاء اور صحابہ رضوان اللہ علیھم سے منسوب تبرکات کو شیشوں میں بند اور محفوظ الماریوں میں دیکھنے کے لیے ہر سال ہزاروں لاکھوں لوگ وہاں جاتے ہیں۔ جہاں ان عجائب گھروں میں سجے اور منسوب تبرکات پر تاریخ کا پردہ پڑا ہوا ہے اور جہاں ان کی اصلیت پر شکوک و شبہات کا سایہ ہے اور جہاں غیر احمدی احباب کے تقاضائے محبت میں غلو اس دور میں اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ شرک تک جا پہنچا ہے وہاں صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جو خلیفہ وقت کے زندہ وجود سے اس برکت کو پا رہی ہےاور ہر جگہ اقلیت میں ہونے کے باوجود ترقیات کی منزلیں طے کرتے جا رہے ہیں۔

خلیفہ وقت کا خط اور برکات

اب اس مضمون کو آگے بڑھاتا ہوں یقینا تمام ہی لوگ خلیفہ وقت کو خط لکھتے ہوں گے اور بقول غالب

؎ خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے

اس کی برکات سے واقف ہوں گے کہ کس طرح خلیفہ وقت کی دعاؤں کے طفیل ہماری دعا ئیں قبول ہوتی ہیں اور کام بن جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت دفعہ سوشل میڈیا پر بھی یہ خوشکن نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ نئی نسل اور یورپ کے ملکوں میں پیدا ہوئی نسل کا بھی خلافت سے کتنا اچھا اور ذاتی تعلق ہے جب وہ خوشی سے مسرور ہو کے اظہار کر رہے ہوتے ہیں کہ پیارے حضور کا خط موصول ہوا ہے۔ یہ اظہار تعلق خود اس برکت کا زندہ ثبوت ہے یہ تعلق اور عشق کا اظہار ایک ایسی سرمستی کی کیفیت ہے کہ شاید جس کا بیان ممکن نہ ہو۔ اور جب کبھی خط کے جواب میں کچھ تاخیر ہو جائے تو ان عشاق کی تڑپ کو شاید حضرت امیر خسرو کا یہ مصرعہ مناسب طور پر بیان کر سکے

؎ نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں

حضرت مسیح موعودؑ حقیقۃ الوحی میں انبیاء واولیاء اللہ کے روحانی فیوض کے متعلق فرماتے ہیں: ’’اور بباعث نہایت درجہ فنا فی اللہ ہونے کے اسکی زبان ہر وقت خدا کی زبان ہوتی ہے اور اسکا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہوتا ہے …. ایسا ہی انکے ہاتھوں میں اور پیروں میں اور تمام بدن میں ایک برکت دی جاتی ہے جسکی وجہ سے ان کا پہنا ہوا کپڑا بھی متبرک ہوجاتا ہے اور اکثر اوقات کسی شخص کو چھونا یا اسکو ہاتھ لگانا اسکے امراض روحانی یا جسمانی کے ازالہ کا موجب ٹھہرتا ہے۔ اسی طرح انکے رہنے کے مکانات میں بھی خدائے عزوجل ایک برکت رکھ دیتا ہے وہ مکان بلاؤں سے محفوظ رہتا ہے خدا کے فرشتے اسکی حفاظت کرتے ہیں۔اسی طرح انکے شہر یا گاؤں میں بھی ایک برکت اور خصوصیت دی جاتی ہے۔ اسی طرح اس خاک کو بھی کچھ برکت دی جاتی ہے جس پر ان کا قدم پڑتا ہے‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ18-19)

ایک اور جگہ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اور اسکی زبان اور بیان اور تمام افعال اور اقوال اور حرکات و سکنات میں ایک برکت رکھی جاتی ہے‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ229)

چونکہ انکی ہر ہرکت و سکون اور اشیاء میں برکت رکھی جاتی ہے، انکی سانسیں دم ِ عیسیٰ ہوتی ہیں ان کے بدن کی ایک ایک پور سے برکت ٹپک رہی ہوتی ہے تو انکے قریب جانے اور انکی چیزوں کے قریب جانے والا بھی ان برکتوں سے حصہ پاتا ہے۔ اس آخری زمانے میں اللہ تعالیٰ نے جہاں اسلام کی ترقی و ترویج کو احمدیت سے متصل کر دیا ہے اور جہاں اللہ نے یہ مقدر کر دیا ہوا ہے کہ یہ تبلیغ زمین کے کناروں تک پہنچے گی وہیں اللہ نے کونے کونے تک ان برکتوں کو بھی پہنچانے کا انتظام کر دیا ہے اور غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایسا شاندار انتظام ہے کہ آج سے پہلے کسی زمانے میں بھی یہ انتظام نہیں تھا اور وہ ہے خلیفہ وقت کےخطوط کا انتظام۔ دنیا کا کون سا کونا ہو گا جہاں خلیفہ وقت کے دستخط والا خط نہیں پہنچا ہو گا اور ہم میں سے اکثر کے پاس کوئی نہ کوئی ایسا خط موجود ہو گا جس پر خلیفہ وقت کے دستخط موجود ہوں گے۔

کبھی کبھی مجھے یہ خیال آتا ہے کہ یہ جومیرے خط کے جواب میں حضور کا خط آیا ہے وہ تبرکات کا کیسا بڑا خزانہ ہے۔

کبھی کبھی خیال آتا ہے!

  • کبھی کبھی خیال آتا ہے! جب حضور نے ہاتھ بڑھا کے یہ کاغذ اٹھا یا ہو گا تو اس پر آپ کی نظر پڑی ہوگی یعنی یہ خط میرے محبوب کی نظر بھی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔
  • کبھی کبھی خیال آتا ہے! اس خط کو تھامے آپ ایدہ اللہ تعالیٰ کے لب دعا کے لیئے ہلے ہوں گے۔
  • کبھی کبھی خیال آتا ہے! جب آپ کی نظر اس خط کی سطروں اور الفاظ پر ہو گی تو آپ کے دل سے دعا نکلی ہو گی یعنی حرف حرف آپ کی نظر و دعا کا شاہد ہے۔
  • کبھی کبھی خیال آتا ہے! آپ کے مبارک ہاتھوں کا لمس اس خط کے کاغذ پر محفوظ ہوا ہو گا جو اس کاغذ کے ٹکڑے کو ہمارے لیے ہمیشہ کے لیے متبرک کر گیا ہے۔
  • کبھی کبھی خیال آتا ہے! آپ کے مبارک کپڑوں میں سے شاید آپ کی آستین یا آپ کی شیروانی اس خط سے مَس کی ہو اور وہ کپڑوں کی برکت بھی اس خط میں منتقل ہو گئی ہو۔
  • کبھی کبھی خیال آتا ہے! کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی وہ مبارک انگوٹھیاں جو حضورِ انور نے اپنے انگلیوں میں پہنی ہوتی ہیں شاید جب آپ نے یہ خط پکڑا ہو تو وہ بھی اس کو چھو گئی ہوں اور ایک نبی کے جسم کے لمس ۔ ہاں اُس نبی کے جسم کا لمس جو حضرت محمد ﷺ کا بروز ہے کا اثر بھی اس کاغذ میں منتقل ہو گیا ہو۔
  • کبھی کبھی خیال آتا ہے! یہ خط آپ کی ٹیبل پر پڑا رہا ہو گا جہاں نجانے کون کون سی روحانی لہریں اس کاغذ کے آر پار گئی ہوں گی۔
  • کبھی کبھی خیال آتا ہے! نجانے کتنی دیر یہ خط حضور کی ٹیبل پر پڑا رہا ہو اور حضور کی دلکش آواز و دعاوں کا شاہد رہا ہو اور حضور کی صحبت میں رہ کر یہ اب ہمارے ہاتھوں میں پہنچا ہے۔
  • کبھی کبھی خیال آتا ہے! کہ جب آپ نے قلم سے اس خط پر اپنے دستخط مہر ثبت کیے، اُس قلم سے جس سے شاہکار خطبات کا متن آپ لکھتے ہوں گے، کیا کیا بُت آپ کے اس قلم سے ٹوٹتے ہوں گے اور کتنے شیطان آپ کے اس قلم کی طاقت سے باطل ٹہرتے ہوں گے۔
  • کبھی کبھی خیال آتا ہے! شاید آپ کے سانسوں کی خوشبو بھی اس خط سے ٹکرائی ہو ، وہ سانس جو ہر لحظہ اسلام کی خدمت میں صرف ہوتے ہیں۔
  • کبھی کبھی خیال آتا ہے! اور سب سے بڑھ کرآتا ہے کہ کم از کم ایک سیکنڈ یا ایک لمحہ خلیفہ وقت نے اپنی زندگی کا اس خط پر صرف کیا ہو گا، اس خط پر جو اب میرے پاس ہے اور میں اس لمحے کا یا ان لمحوں کا امین ہوں۔

یہ خیالات جب دل میں پیدا ہوتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ شاید ہم اس تبرک کا وہ احترام نہ کر رہے ہوں جو ہمیں کرنا چاہیے اور شاید ہم خدا کا اس طرح شکر نہ کر رہے ہوں جس طرح اس نعمت کے ملنے کے بعد اس کا حق ہے۔

اللہ کرے ہم سب خلیفہ وقت کے وجود سے ہر طور برکتیں سمیٹنے والے ہوں۔ آمین

(طاہر احمد۔ فن لینڈ)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک مؤرخہ 18؍فروری 2022ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ