• 2 مئی, 2024

’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ کا ایک منہ بولتا ثبوت مایوٹ آئی لینڈ

’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘
کا ایک منہ بولتا ثبوت مایوٹ آئی لینڈ

15ویں صدی میں عربوں نے جزیرے پر حملہ کیا اور اس کے باشندوں کو جو غالباً بنتو اور مالائی اور انڈونیشی زبانیں بولنے والے پہلے لوگوں کی اولاد تھے، کو اسلام قبول کروا لیا۔ 16ویں صدی میں پرتگالی اور فرانسیسیوں نے میوٹے کا دورہ کیا۔ 18ویں صدی کے آخر میں مڈغاسکر سے تعلق رکھنے والے ملاگاسی قبیلے کے ساکالوا (Sakalava) نے اس جزیرے پر حملہ کیا اور اسے آباد کیا، جس سے ملاگاسی بولی آئی۔ فرانسیسیوں نے 1843ء میں مایوٹ پر نو آبادیاتی کنٹرول حاصل کر لیا، اور کوموروس جزائر اور مڈغاسکر کے دیگر جزائر کے ساتھ 20ویں صدی کے ادائل میں مایوٹ ایک واحد فرانسیسی سمندر پار علاقے کا حصہ بن گیا۔
مایوٹ کا نام پرتگالی ‘‘میوٹا’’ سے آیا ہے، جو سواحلی ‘‘ماوٹی’’ کی نقل ہے، جسے عربی میں “جزیرۃ الموت” کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے ‘‘موت کا جزیرہ’’ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ مرجان (Corail) کی چٹانیں جو جزیرے کو گھیرے ہوئے ہیں جو طویل عرصے سے بحری جہازوں کے لئے ایک جان لیوا خطرہ تھیں۔ جو بھی بحری جہاز یہاں آتا تھا وہ چٹانوں سے ٹکرا کر تباہ ہو جاتا اور جہاز میں موجود لوگ ڈوب کر مر جاتے تھے۔ پھر ملاحوں کو یہ بات سمجھ آ گئی کہ جہاز کو دور سمندر میں چھوڑ کر چھوٹی کشتیوں کی مدد سے جزیرے میں داخل ہوا جا سکتا ہے۔ اس طرح یہ جزیرہ آباد ہوا جسے آج Mayotte Island کہا جاتا ہے۔

موزمبین اور مڈغاسکر اور افریقہ کے درمیان واقع، مایوٹ 374 کلومیٹر کا ایک چھوٹا آتش فشاں جزیرہ نما ہے۔ مایوٹ دو اہم جزائر اور تقریباً تیس چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے اس کا مرکزی جزیرہ، Grande Terre کہلاتا ہے۔ جہاں جماعت احمدیہ کا مرکز قائم ہے۔

زیادہ تر لوگ ملاگاسی نژاد Mahorais ہیں اور سنی مسلمان ہیں اور فرانسیسی ثقافت سے سخت متاثر ہیں۔ یہاں ایک رومن کیتھولک اقلیت ہے۔ فرانسیسی سرکاری زبان ہے، لیکن زیادہ تر لوگ کوموریئن بولتے ہیں (جو کہ سواحلی سے قریبی تعلق رکھنے والی زبان ہے)۔ مایوٹ کے ساحل کے ساتھ کچھ گاؤں ہیں جن میں ملاگاسی بولی مرکزی زبان ہے۔ بنیادی آبادی کے مراکز ٹاؤن Koungou, Mamoudzou اور Dzaoudzi ہیں۔ زیادہ تر آبادی نوجوان ہے۔ آبادی کا دو پانچواں حصہ 15 سال سے کم عمر کا ہے، اور صرف ایک آٹھواں حصہ 45 یا اس سے زیادہ عمر کا ہے۔

خدمت کے شعبہ بشمول صحت کی خدمات، ٹیلی کمیونیکیشن، کمپیوٹر خدمات اور دیگر سرگرمیاں مایوٹ کے روزگار کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ زراعت صرف وسطی اور شمال مشرقی میدانی علاقوں تک محدود ہے۔ نقدی فصلوں میں ونیلا،یلنگ، کافی اور ناریل شامل ہیں۔کاساوا(مانیوک) کیلے، مکئی اور چاول رزق کے لئے اگائے جاتے ہیں۔ جزیرے کی اہم برآمدات یلنگ، یلنگ کا عرق اور مچھلیاں ہیں۔ کھانے پینے کی مصنوعات، مشینری، کیمیکل اور ٹرانسپورٹ کاسامان بڑی درآمدات ہیں۔ مایوٹ کا بڑا تجارتی پارٹنر میٹروپولیٹن فرانس ہے اور معیشت کا بڑا حصہ فرانسیسی امداد پر منحصر ہے۔ ایک سڑک کا نظام یوٹ جزیرے کے پرنسپل شہروں کو جوڑتا ہے اور ایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ Dzaoudzi میں واقع ہے۔

مایوٹ میں احمدیت کا نفوذ

Mayotte Island حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک الہام کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے جو خدائی وعدہ کے مطابق اپنی تمام تر صداقتوں کے ساتھ پورا ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔

2012ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں MTA کی برکات سے چند لوگوں تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچا، مزید تحقیق کے بعد انہوں نے جماعت احمدیہ سے رابطہ کیا اور جماعت میں شامل ہونے کی خواہش کاا ظہار کیا۔ ان میں ایک نام جو سرفہرست ہے وہ استاد زید صاحب کا ہے جو ایک مذہبی استاد کے طور پر مختلف مساجد میں بچوں کو پڑھاتے تھے، جنہوں نے سب سے پہلے احمدی ہونے کا شرف حاصل کیا۔ احمدی ہونے کے بعد آپ نے اپنے اہل خانہ، دوست اور عزیزواقارب،اسی طرح مدرسہ کے بچوں کو جماعت کی تبلیغ کرنا شروع کی اس طرح 2015ء تک 35 کے قریب ایک جماعت قائم ہو چکی تھی۔ زید صاحب کو ان کے ایک قریبی دوست نے مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کے بارے میں بتایا، موصوف عربی زبان کا گہرا علم رکھتے ہیں۔ انہوں نے MTA پر عربی زبان میں پروگرام دیکھے جس میں وفات مسیح کے بارے میں بات ہو رہی تھی موصوف نے مزید دلچسپی لی اور دن رات تحقیق کی جس کے بعد انہوں نے جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ استاد زید صاحب کو احمدیت قبول کرنے کی وجہ سے بہت سی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کو ان کی مسجد سے نکال دیا گیا، گھر تباہ کر دیا گیا نیز ایک سوشل بائیکاٹ کر دیا گیا۔ زید صاحب نے بالکل ہمت نہیں ہاری بلکہ ایک مخلصین کی جماعت اپنے ساتھ اکٹھی کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے۔

2015ء میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خاکسار کی بطور پہلے مبلغ سلسلہ مایوٹ میں تقرری فرمائی۔ جو آج مایوٹ میں مبلغ و نیشنل صدر کے طور پر خدمت بجا لا نے کی توفیق مل رہی ہے۔ آج 2021ء میں جماعت احمدیہ مایوٹ کی کل تعداد 250 کے قریب ہے جس میں چھوٹے بڑے سب شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مایوٹ آئی لینڈ کو اپنا پہلا جلسہ سالانہ 2018ء میں منعقد کرنے کی توفیق ملی۔ مایوٹ آئی لینڈ میں ایک معلم جامعۃ المبشرین غانا احمدیہ U.K سے فارغ التحصیل ہو کر خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ جبکہ ایک طالب علم حضور انور کی شفقت سے جامعہ احمدیہ یوکے میں زیر تعلیم ہے۔ استاد زید صاحب جو کہ خود بڑے عالم تھے اپنے علاقے میں قرآن و حدیث کا گہرا علم رکھتے ہیں وہ بھی مایوٹ میں بطور معلم خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔

مایوٹ آئی لینڈ میں اس وقت کوئی مسجد تو موجود نہیں ہے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک نماز سنٹر جو مرکزی حیثیت رکھتا ہے قائم ہے، جہاں پانچ وقت نماز باجماعت، درس و تدریس اور ہر قسم کی جماعتی سرگرمیاں منعقد ہوتی ہیں۔ اور ہیومینیٹی فرسٹ کے تحت ایک اسکول کھولا گیا ہے جس سے احمدی اور غیر احمدی بچے یکساں طور پر مستفید ہو رہے ہیں۔ الحمد للہ

(اسامہ عمر جوئیہ۔ نمائندہ الفضل مایوٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ