یہ جولائی 2001 کے دنوں کی بات ہے، خاکسار مکرم چوہدری منور علی صاحب قائد ضلع کے ہمراہ کسی مجلس کے دورہ سے واپس دارالذکر کو لوٹ رہا تھا کہ راستے میں پروگرام بنا کہ جیل روڈ پر واقع پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ہسپتال میں زیر علاج عبد المالک صاحب کی عیادت کرنی ہے اوریوں ہم ہسپتال پہنچ گئے۔ عبد المالک صاحب سے ملاقات ہوئی،بظاہر بہت ہشاش بشاش دکھائی دے رہے تھے اور کچھ باتیں بھی ہوئیں۔ایک بات جو آج بھی یاد ہے وہ یہ کہ انہوں نے قائد صاحب سے اپنے بڑے بیٹے کے رشتہ کی تلاش کی بات ایک سے زائد بار کی تھی۔ان کا بڑا بیٹا بھی وہیں موجود تھا۔عیادت کرنے کے بعد ہم واپس لوٹ گئے اور اسی رات گئے دوبارہ ہارٹ اٹیک ہوا اور عبد المالک صاحب جانبر نہ ہوسکے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ اس کی خبر ہمیں اگلے دن ملی تھی۔یہ ہماری آخری ملاقات تھی ان سے۔آپ کی وفات19 جولائی 2001 کو ہوئی۔ہفتہ 21 جولائی کی صبح ان کی نماز جنازہ دارالذکر لاہور میں مکرم چوہدری حمید نصراللہ خان صاحب امیر جماعت لاہور نے پڑھائی۔ موصوف موصی تھے، ان کا جسد خاکی ربوہ لے جایا گیا جہاں بیت مبارک میں بعد نماز ظہر ان کی نماز جنازہ مکرم حافظ مظفر احمد صاحب ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد نے پڑھائی۔ بعد ازاں بہشتی مقبرہ میں تدفین کے بعد مکرم امیر صاحب لاہور نے دعا کرائی(روزنامہ الفضل ربوہ27 جولائی 2001)۔عبدالمالک صاحب کی وفات کے بعد اگلے ہی جمعہ دارالذکر میں امیر صاحب لاہور نے مرحوم عبد المالک صاحب کے اوصاف حمیدہ اور ان کی خدمات کے بارے میں بھرپور خطبہ دیا،جس میں ایک جملہ عبد المالک صاحب کے متعلق یہ بھی تھا کہ ان کی وفات سے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرا آدھا جسم ختم ہو گیا ہے۔حقیقت بھی یہی ہے کہ عملی طور پر عبد المالک صاحب ان کے پرائیویٹ سیکرٹری کی طرز کی ذمہ داری نبھاتے رہے۔روزنامہ الفضل ربوہ کے صفحہ اول پر ان کی وفات کی خبر شائع ہوئی جبکہ ان کی تدفین کی خبر بھی ایک ہفتہ بعدشائع ہوئی۔
روزنامہ الفضل ربوہ کی خبر کے مطابق موصوف نے اپنی زندگی عملاً خدمت دین میں گزاری۔ خدام الاحمدیہ میں نائب قائد ضلع کے عہدے تک پہنچے۔ کئی سال صدر مجلس موصیان لاہور رہے۔اس کے علاوہ اہم جماعتی عہدوں پر ہمیشہ دل و جان سے خدمات بجا لاتے رہے۔ماہنامہ خالد و تشحیذ کے نمائندہ رہے۔ پھر 1984 میں جب الفضل چار سال کی بندش کے بعد دوبارہ جاری ہوا تو الفضل کے نمائندہ برائے لاہور رہے۔اس وقت نمائندہ ماہنامہ انصاراللہ برائے لاہور تھے۔موصوف کو مضمون نگاری کا بے حد شوق تھا۔ان کے مضامین کا مجموعہ زیر طبع تھا کہ قدرت نے ان کو مہلت نہ دی۔انہوں نے بیرون ممالک کے متعدد سفر کئے اور اپنی یاداشتوں کو مضامین کی صورت میں مرتب کیا۔انہوں نے بیوہ کے علاوہ تین بیٹے اور ایک بیٹی یادگار چھوڑی(روزنامہ الفضل ربوہ 20؍جولائی 2001)۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ آپ کی وفات کے کچھ ہی سالوں بعد آپ کی اہلیہ کی بھی وفات ہو گئی تھی۔
خاندانی تعارف
مکرم عبد المالک ابن مکرم میاں دین محمد14 جون 1947ء کو بدوملہی (باٹھانوالہ) میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم کے بعد میٹرک مسلم ہائی سکول بدو ملہی سے کیا۔ اور پھر اپنے بڑے بھائی غلام نبی قمر صاحب کے پاس لاہور مغلپورہ میں رہنےلگے بعد ازاں لاہور ہی کے ہو کر رہ گئے۔کچھ عرصہ ریلوے میں ملازمت کے بعد ملٹری کے انجینئرنگ سٹور ڈپو میں بھی ملازمت کی۔26 سال کی عمر میں نظام وصیت میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔عبد المالک صاحب کے والد میاں دین محمد صاحب نے دو شادیاں کی تھیں۔ پہلی بیوی سے ایک بیٹا غلام نبی قمر صاحب پیدا ہوئے۔کچھ سالوں بعد ان کے والد صاحب نے دوسری شادی کی جن کے بطن سے چار بیٹے عبد المالک صاحب، عبد الخالق شاد صاحب،عبد الحق صاحب اور مبشر احمد جاوید صاحب پیدا ہوئے۔یہ چاروں بھائی اب وفات پا چکے ہیں۔سب سے بڑے بھائی غلام نبی قمر صاحب حیات ہیں اور 95 سال کی عمر میں بھی صحت اللہ کے فضل سے بہت اچھی ہے۔عبد المالک صاحب کی شادی دسمبر1971 میں مکرمہ سلیمہ طاہرہ بنت حبیب اللہ خان صاحب سے ہوئی۔جن سے ایک بیٹی اور چار بیٹوں کی پیدائش ہوئی۔ایک بیٹا چھوٹی عمر میں وفات پا گیاتھا۔حیات بچوں میں سے بیٹی لندن میں اور دو بیٹے کینیڈا میں مقیم ہیں جبکہ سب سے چھوٹا بیٹا عرفان احمد ناصر 28 مئی 2010 کو دارالذکر پر دہشت گردوں کے حملہ میں مین گیٹ پر ڈیوٹی کرتے شہید ہو گیا تھا۔(بشکریہ افضل قمر صاحب ابن غلام نبی قمر صاحب گلشن پارک لاہور، خاکسار کی درخواست پر یہ خاندانی کوائف مہیا کئے)۔
خاندان میں احمدیت کا نفوذ
عبد المالک صاحب اپنے ایک مضمون بعوان ’’حضرت مصلح موعود کی قبولیت دعا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’خاکسار کے والد محترم میان دین محمد صاحب مرحوم جو ضلع سیالکوٹ تحصیل نارووال کے ایک گاوٴں موضع باٹھا نوالہ میں رہائش پذیر تھے۔۔۔ ہمارے گاوٴں میں اس زمانہ میں ایک سکھ نمبردار تھے جن کا نام سردار جیون سنگھ تھا اور پڑھے لکھے تھے۔انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی گواہی بھی دی تھی۔ جس کا حضور نے اپنی کتاب تریاق القلوب میں ذکر فرمایا ہے اور ان لوگوں کے نام درج ہیں جنہوں نے لیکھرام کی وفات کو نشان سمجھا اور گواہی دی کہ وہ ایسا نشان تھا۔والد محترم نے اپنی ایک رویا کے ذریعہ احمدیت قبول کی تھی انہی سردار جیون سنگھ کے ذریعے بیعت کا پوسٹ کارڈ لکھوایا کیونکہ اس زمانہ میں ارد گرد کے تمام گاوٴں میں وہی پڑھے لکھے تھے۔ یہ1928 کی بات ہے۔‘‘
(ہفت روزہ بدر قادیان، مصلح موعود نمبرصفحہ18، شمارہ 13-20 فروری،1992 از قلم عبد المالک نمائندہ الفضل لاہور)
حضرت مصلح موعود ؓکی قبولیت دعا کا اک نشان
عبد المالک صاحب اپنی پیدائش سے متعلق حضرت مصلح موعود کی دعا کی قبولیت کے حوالہ سے اپنے اسی مضمون میں لکھتے ہیں ’’جب ہماری پہلی والدہ کا انتقال ہو گیا تو ہمارے والد صاحب نے دوسری شادی ہماری والدہ سے کی۔احمدیت کی مخالفت کا زور تھا۔ضلع سیالکوٹ کے گاوٴں کوٹلی کے ایک مولوی صاحب جو معاندین احمدیت میں چوٹی پر تھے، ہمارے گاوٴں آئے اور رات کو جلسہ کیا اور خوب الزام تراشی اور دشنام دہی سے کام لیا اور اعلان کیا کہ میاں دین محمد(میرے والد) نے چونکہ احمدیت قبول کر لی ہے اس لئے یہ لا ولد مریں گے اور کوئی نرینہ اولاد ان کے گھر نہ ہوگی اور ہم دیکھیں گے۔جب رات کو جلسہ ختم ہوا صبح ہوئی تو والد صاحب نے حضرت مصلح موعود ؓکی خدمت میں سارا واقعہ تحریر کیا اور دعا کی التجا کی۔جس پر حضرت مصلح موعود ؓکی طرف سے جواب ملا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو لڑکا دے گا،اس کا نام عبد المالک رکھنا اور وہ خادم دین ہو گا۔‘‘ (ہفت روزہ بدر قادیان، مصلح موعود نمبرصفحہ18، شمارہ 13-20 فروری،1992از قلم عبد المالک نمائندہ الفضل لاہور)۔ مزید آگے لکھتے ہیں کہ ’’یہ حضرت مصلح موعود ؓ کی دعاوٴں کا نشان ہے کہ آج میری عمر 45 سال ہے جو اس کا احسان ہے اور اس کے فضل اور رحم سے جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے مجھے خدمت دین کی توفیق مل رہی ہے جو اس کا بہت بڑا انعام ہے اور میں ذاتی طور پر حضرت مصلح موعود ؓ کی قبولیت دعا کا زندہ نشان ہوں۔‘‘
(ہفت روزہ بدر قادیان، مصلح موعود نمبرصفحہ18، شمارہ 13-20 فروری،1992 از قلم عبد المالک نمائندہ الفضل لاہور)
شخصیت کے مختلف پہلو
عبد المالک صاحب کو خاکسار نے دارالذکر میں بچپن ہی سے اس وقت دیکھا تھا جب ان کی رہائش گاہ دارالذکر کے اندر ہی ہوا کرتی تھی جس کی کچھ تفصیل میرے ایک مضمون بعنوان دارالذکر لاہور کی یادیں اور باتیں، تاریخ کے آئینہ میں شائع ہو چکی ہیں (الفضل انٹرنیشنل 9؍اپریل2021 قسط اول)۔ عبد المالک صاحب کا مخصوص لباس اچکن،شلوار تھا اور یہی زیادہ زیب تن کرتے تھے ساتھ جناح کیپ پہنتے تھے،کبھی کبھی شلوار قمیض کے ساتھ کوٹ بھی پہنتے تھے۔ان کے ساتھ اور ان کے بچوں کے ساتھ بہت ملنا جلنا رہتا تھا۔اکثر ان کے گھر میں بھی ملاقات ہوا کرتی تھی۔ عبد المالک صاحب خاندانی پس منظر میں بہت زیادہ آسودہ نہیں تھے نہ ہی بہت خوشحال خاندان سے تعلق تھا لیکن اپنی ذات کے اندر پوشیدہ کچھ صفات،خلافت سے والہانہ عشق، توکل علی اللہ اور دیگرصلاحیتوں کے باعث وقت کے ساتھ ساتھ نکھرتے چلے گئے تھے۔عبدالمالک صاحب گونا گوں صلاحیتوں کے مالک تھے۔دعا گو اور عبادت گزار تھے۔نوجوانی کے دنوں ہی میں اپنی شادی اور پھر اپنے بچوں کی پیدائش سےمتعلق ایمان افروز خوابیں دیکھیں جو شائع شدہ موجود ہیں۔جن کا ذکر مضمون کےآخر پر کیا گیا ہے۔خدمت دین کے کاموں میں خواہ وہ تنظیمی ہوتا یا جماعتی، ہر وقت کرنے کو تیار رہتے۔ان کا ذہن ایک تخلیقی ذہن تھا جو نیا سے نیا سوچتا رہتا تھا۔ ذہین اور پر اعتماد بھی انتہا کے تھے۔تمام بڑوں کا احترام کرتے تھے لیکن ساتھ ہی ان کے ساتھ بےتکلف ہو کر ہر موضوع پرگفتگو بھی کرتے تھے۔صاحب علم اور صاحب قلم تھے۔پڑھنے، لکھنے کا بہت شوق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ الفضل سمیت دیگر جماعتی تنظیمی رسائل اور قومی اخبارات میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہتے تھے۔ایک دن دارالذکر میں اتوار کی صبح ملاقات ہوئی تو بہت خوش تھے، ہاتھ میں جنگ اخبار کا سنڈے میگزین شمارہ پکڑا ہوا تھا۔ مجھے دیکھ کر بولےمنور،میرے ایک سفر نامے کا مضمون شائع ہو گیا ہے، پھر مجھے دکھایا اور پھر مجھے ساتھ لیکر مکرم میجر عبد اللطیف صاحب نائب امیر کے کمرہ میں چلے گئے۔دارالذکر میں جب موجود ہوتے تو چلتے پھرتے بھی مسکراہٹیں اور باتیں بانٹتے رہتے تھے۔ہمارے 100 سال، کے عنوان سےجماعت احمدیہ لاہور کے اس صد سالہ سووینئر کی اشاعت کمیٹی میں بطور ممبر بہت کام کیا۔ایک جماعتی معاملہ میں جب ملازمت چھوٹ گئی تو پھر آپ نے مکرم چوہدری حمید نصراللہ خان صاحب کے ذاتی کاروباری امور کی دیکھ بھال کرنے کی ذمہ داری سنبھالی اور تادم وفات یہی نبھاتے رہے اور یہی وہ دور تھا جب عبد المالک صاحب کے اندر چھپی صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں اور پھر خدمت دین میں وہ آگے سے آگے ہی بڑھتے چلے گئے،اللہ کا فضل بھی ہر دم ان کے ساتھ شامل رہا۔فیملی کے ذرائع کے مطابق حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ اور حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی شفقت بھی عبد المالک صاحب کو بہت زیادہ میسر رہی۔اسی طرح حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خانؓ ، پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام صاحب کے ساتھ بہت محبت، شفقت اور عقیدت کا تعلق رہا۔
آپ کے رابطوں کا دائرہ بہت وسیع تھا اور دنیا بھر میں پھیلا ہوا تھا۔قادیان میں درویشان کے ساتھ بہت تعلقات تھے۔ مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کے ساتھ بھی خصوصی مراسم تھے۔ ملک صلاح الدین صاحب آف قادیان کے ساتھ بہت رابطے میں تھے۔ آپ کو جماعت کی انتہائی تاریخی اور بابرکت تقریبات میں شامل ہونے کی توفیق ملی جس کے پس پردہ بھی معجزانہ مدد شامل حال رہی۔ان بابرکت تقریبات میں کسر صلیب کانفرنس لندن جون 1978 اور سپین میں مسجد مبارک کی افتتاحی تقریب ستمبر 1982شامل ہیں۔اسی طرح جلسہ سالانہ قادیان اور لندن یوکے میں بھی متعدد بار شرکت کرنے کی توفیق پائی۔
نمائندہ خالد و تشحیذ الاذہان برائے لاہور
یہ سال 1987-1988 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا یوم تاسیس کا سال تھا، پچاس سال پورے ہوئے تھے۔اسی سال مکرم عبد المالک صاحب نے بطور نمائندہ ماہنامہ خالد، تشحیذ کے بہت کام کیا اور خریداروں میں اضافہ کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کے حضور شکرانے کے طور پر نادار اور مستحقین کے نام ایک سال کے لئے مفت خالد اور تشحیذ جاری کروائے جن کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔ اسی طرح اگلا سال احمدیہ صد سالہ جشن تشکر کا سال تھا۔اس سال بھی بطور نمائندہ خالد، تشحیذ عبد المالک صاحب کو بہت خدمت کی توفیق ملی اور رسالے جاری کرائے،مالی اعانت کرائی۔مرکزی صد سالہ مجلہ کے لئے اشتہارات میں بہت مدد کی۔ان کی انہی خدمات کا اعتراف مکرم محمود احمد شاہد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے اس نوٹ سے ہوتا ہے جو تشحیذ الاذہان جشن تشکر میں شائع ہوا تھا۔ اس تحریر کے مطابق،
’’۔۔۔ مکرم عبد المالک صاحب خالد اور تشحیذ الاذہان کے لاہور میں کئی سالوں سے نمائندہ ہیں۔ان کی مساعی اس سلسلہ میں بالخصوص قابل تعریف ہے۔وہ پوری ذمہ داری اور بڑے شوق سے رسائل کی اشاعت و ترقی میں سرگرم اور مستعد ہیں۔خاکسار ان کی خدمات کے لئے ممنون ہے۔اللہ تعالیٰ انہیں احسن جزا دے۔۔۔میری دلی خواہش ہے کہ عبدالمالک جیسے فرض شناس اور مخلص کام کرنے والے دوست آگے آئیں اور دلچسپی اور لگن کے ساتھ ان رسائل کی ترقی کا موجب بنیں۔‘‘
(صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ تشحیذ الاذہان جشن تشکر نمبر صفحہ18)
بطور نمائندہ روز نامہ الفضل ربوہ برائے لاہور
عبد المالک صاحب مرحوم کو نمائندہ الفضل لاہورکے طور پر سالوں تک نمایاں خدمت کی توفیق ملی،اس دوران عام شماروں کے علاوہ خصوصی نمبر کے شماروں کے لئے لاہور سے کثیر تعداد میں اشتہارات کی اشاعت ہوا کرتی تھی جو انہی کی محنت،رابطوں اور بھاگ دوڑ کا نتیجہ ہوتی تھی۔
بندش کے بعد جب روزنامہ الفضل ربوہ کی دوبارہ اشاعت ہوئی تو پہلا شمارہ 28 نومبر 1988 کو شائع ہوا۔بندش کے بعد احباب جماعت کی تشنگی کس حد تک بڑھ چکی تھی اس کا کچھ اندازہ عبد المالک صاحب نمائندہ الفضل برائے لاہور کی اس تحریر سے ہوتا ہےجو روزنامہ الفضل ربوہ صد سالہ جوبلی سووینئر میں شائع ہوئی ہے، جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ 23 نومبر 1988 بدھ کے دن شام الفضل کے ایک کارکن خاکسار کے پاس دفتر میں آئے اور خوشخبری سنائی کہ عدالت سے اجازت مل چکی ہے، چند دنوں میں الفضل شائع ہو رہا ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ بطور نمائندہ الفضل لاہور احباب سے رابطہ کرکے پہلے شمارہ کے لئے اشتہارات حاصل کریں۔عبد المالک صاحب لکھتے ہیں کہ اسی گفتگو کے دوران وہاں موجود ایک احمدی دوست مکرم حمید احمد نے مداخلت کرتے ہوئے کہ کیا میں بھی مبارک باد کا اشتہار دے سکتا ہوں؟ میں نے کہا فوراً دیں، اس پر انہوں نے اسی وقت 300 روپے جیب سے نکال کر دےدیئے، یوں یہ بارش کاپہلا قطرہ تھا۔پھر تو موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔دوسرا قطرہ اسی کمرہ میں بیٹھے مکرم چوہدری عبد الرشید صاحب مینجر شاہنواز میڈیکل اسٹورز کا تھا۔ اس کے بعد خاکسار نے اس کارکن کو ساتھ لیا بازاروں کے چکر لگانے شروع کردیئے، ٹیلی فون پر رات گئے تک رابطے کئے،غرضیکہ اس رات اور اگلے دن تک اشہارات کاڈھیر لگ گیا گیا۔
(الفضل ربوہ صد سالہ جوبلی سووینئر2013 صفحہ232)
عبد المالک صاحب کی یادیں
ذیل کی سطور میں اختصار کے ساتھ عبد المالک صاحب مرحوم کے تین مضامین کے حوالے سے ان کی یادوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن سے ان کی قلمی کاوشوں کے ساتھ ساتھ خلافت اور بزرگان سلسلہ سے عقیدت و وفا کے تعلق کا پتہ چلتا ہے۔
حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی قبولیت دعا کا ایک نشان۔اس عنوان سے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’ستمبر 1971 کی بات ہے کہ خاکسار کی منگنی ہوئی۔حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ اسلام آباد میں قیام پذیر تھے۔خاکسار منگنی کے بعد اسلام آباد چلا گیا۔حضور کا قیام بیت الفضل میں تھا۔حضور عصر کی نماز پڑھا کر تشریف لا رہے تھے۔ ملاقات کی سعادت ملی۔عرض کی حضور! میری منگنی ہو گئی ہے۔فرمایا کہاں ہوئی؟ عرض کیا کہ محترم عبد الحق صاحب کی بیٹی سے۔ فرمایا مبارک ہو۔عرض کی حضور شادی کے لئے رقم کی ضرورت ہے دعا کریں۔فرمایا ’’تینوں پیسے دی کی لوڑ اے‘‘ (یعنی تم کو پیسے کی کیا ضرورت ہے)۔آگے لکھتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کے پاک بندے اور محبوب خدا کے منہ سے نکلے ہوئے کلمے اس طرح پورے ہوئے کہ میری شادی 5 دسمبر1971 کو ہوئی۔ مگر پاک بھارت جنگ 3 دسمبر 1971 کو شروع ہو گئی اور شادی ملتوی نہ ہوئی۔باوجود سب کو بلوانے کے کوئی نہ آیا اور کسی صاحب کو ہم سے شکوہ بھی نہ ہوا کیونکہ حالات کی وجہ سے وہ نہ آئے اس طرح اخراجات بھی نہ ہونے کے برابر ہوئے۔
(ہفت روزہ بدر قادیان،28 نومبر 1991صفحہ 7عبد المالک نمائندہ الفضل لاہور)
’’دو خلفاء-دو تحائف‘‘۔ اس عنوان سے لکھے اپنے ایک مضمون میں عبدالمالک صاحب لکھتے ہیں کہ ’’دسمبر 1971 میں خاکسار کی شادی ہوئی تھی، جب حالات سازگار ہوئے تو خاکسار حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوا۔معانقہ اور مصافحہ کیا۔حضورؒ نے مجھے شادی کی مبارکباد دی اور تحفہ دیا۔اور جب ملاقات ختم ہوئی تو حضورؒ نے ازراہ شفقت مجھے اپنا رومال جیب سے نکال کر دیا۔یہ وہ مبارک دن تھا جس نے مجھے اپنے پیارے کے طفیل برکتوں سے نوازا، بظاہر تو یہ رومال تھا مگر اس کے بعد کیا اپنے اور کیا پرائے، ہر دو میں یہ ہر دل عزیز بنادیا۔
(ہفت روزہ بدر قادیان،15 مئی 1997)
حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ سے ملاقات
اسی مضمون میں دوسرا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’1987 میں جلسہ سالانہ لندن پر حاضر ہوا۔حضور سے معانقہ مصافحہ کا شرف حاصل ہوا۔ حضورؒ کے ساتھ تصویر اتاری، جب رخصت ہونے لگا تو حضورؒ نے اپنے دست مبارک سے ایک چینی کی بنی ہوئی پلیٹ جس کے باڈر کا رنگ سنہری ہے اور پلیٹ کا رنگ آف وائٹ ہے اس کے درمیان خوبصورت طریق سے یہ عبارت لکھی ہوئی ہے لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ
(ہفت روزہ بدر قادیان،15 مئی 1997)
’’دو عظیم انسان‘‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں ’’۔۔۔انیسویں صدی کی آخری دہائی میں ایک شخص پیدا ہوا اور احمدیت کی پہلی صدی کی آخری دہائی میں اس دنیا سے رحلت کرگیا جس کے متعلق ان الفاظ میں بھی خراج تحسین پیش کیا گیاہے
دیکھنے میں لگتا تھا وہ مرد کم سخن
بولنے پر جب آیا تو زمانہ پر چھا گیا
میری مراد حضرت چوہدری سر محمد ظفراللہ خان کی ذات ہے۔ایک اور شخص جو بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں پیدا ہوا اور احمدیت کی دوسری صدی کی پہلی دہائی میں اس دنیا سے رخصت ہوا۔ میری مراد مکرم و محترم ڈاکٹر پروفیسر عبد السلام کی ذات ہے۔۔۔آگے چل کر مضمون نگار ان عظیم شخصیات سے ملاقاتوں کے ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ہر دو بزرگ ہستیوں سے مجھے ذاتی طور پر متعدد بار ملنے کا موقع ملا ہے۔حضرت چوہدری صاحب تو مجھے‘‘ مولوی ایسٹ اینڈ ویسٹ ’’کہا کرتے تھے اور مجھ پر بےحد مہربان اور میرے محسن تھے۔
مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام سے ملاقات کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’1987 میں لندن میں ملاقات ہوئی ہم مسجد فضل میں بیٹھے تھے۔محترم ڈاکٹر صاحب کے بارے میں علم ہوا کہ وہ تشریف لائے ہیں۔ملاقات کے لئے حاضر ہوئے،بہت اخلاص سے ملے۔گفتگو ہوئی۔آخر پر عرض کیا کہ ڈاکٹر صاحب ایک تصویر بنانی ہے۔ فرمایا ایک نہیں دو۔ میں نے کہا جزاکم اللہ۔جب خاکسار اور میرے دوستوں کےساتھ گروپ فوٹو ہو گیا اور ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ایک تصویر ہوئی ہے۔میں نے عرض کیا دو پوز لئے ہیں اور بدل کر تصویریں لے لی ہیں۔انہوں نے فرمایا مگر تصویر ایک ہوئی ہے اور رک کر کیمرے والے کو فرمایا ایک تصویر میری اور امام مالک کی لیں۔چنانچہ اس نے تصویر اتاری تو مکرم و محترم ڈاکٹر صاحب نے مخاطب ہوکر فرمایا دو تصاویر اب مکمل ہوئی ہیں۔ ملاقات کا دوسرا واقعہ لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’جب بحالت صحت آخری دفعہ لاہور تشریف لائے اور پرل کانٹینٹل ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ظہر کی نماز دارالذکر میں ادا کی۔محترم ناصر محمود صاحب نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب لاہور آئے ہوئے ہیں مل کر آتے ہیں۔ چنانچہ ہم ہوٹل پہنچ گئے۔استقبالیہ سے کمرہ میں فون کیا تو خود ڈاکٹر صاحب نے اٹھایا اور نام بتایا اور ملنے کا عرض کیا۔ فرمایا خود ملنے کے لئے نیچے آرہا ہوں۔۔ میں نے درخواست کی کہ ہم خود حاضر ہوتے ہیں۔فرمایا آپ میرے بزرگ ہیں میرا فرض ہے کہ خود آکر ملوں۔ چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد نیچے تشریف لائے۔مصافحہ اور معانقہ ہوا،گفتگو ہوئی، میرے دوست سے بھی مل کر کچھ دیر بعد واپس تشریف لےگئے
(دو عظیم انسان،ہفت روزہ بدر قادیان20 نومبر1997۔عبد المالک نمائندہ الفضل لاہور)
عبد المالک صاحب مرحوم نےاپنی یادوں پرمشتمل کتاب ’’میں اک غریب‘‘ کے عنوان سے لکھنی شروع کر رکھی تھی لیکن زندگی نے وفا نہیں کی اور مکمل نہ ہو سکی۔ان کے بیٹے محمود احمد ناصر صاحب نے اس کے کچھ صفحات بھیجے جس میں سپین میں چند روز، کبھی نہ بھولنے والی یادیں، کے عنوان کے باب میں سپین کی مسجد بشارت میں شرکت سے متعلق سفر اور حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ سے ملاقات کا ذکر موجود ہے۔اختصار کے ساتھ قابل ذکر باتیں درج ذیل ہیں۔ چوہدری فتح محمد صاحب نائب امیر لاہور، شیخ بشیر احمد صاحب سیکرٹری زکواتہ جماعت احمدیہ لاہور،شیخ اظہار احمد صاحب اور خاکسار 7 ستمبر کو قرطبہ پہنچے (صفحہ19)۔اگلی صبح8 ستمبر کو ہوٹل نزا ٹور سے ہم قرطبہ سے الحمرا محل کی سیر کی غرض سے غرناطہ کے لئے نکلے۔غرناطہ پہنچ کر گاڑی کھڑی ہی کی تھی کہ کیا دیکھتے ہیں کہ سیدنا حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ الحمرا کی سیر کرتے ہوئے تشریف لا رہے ہیں۔حضور سے شرف ملاقات حاصل کیا اور باقی کا عرصہ حضور کی معیت میں الحمرا محل کی سیر کی(صفحہ19)۔اس کے بعد حضور کے 9 ستمبر کو پیدرو آباد تشریف لے جانے اور وہیں حضور کی اقتداء میں نمازیں پڑھنے اور افتتاحی تقریب میں شامل ہونے اور آنکھوں دیکھے مناظر کی روئیداد لکھی ہے(روزنامہ الفضل ربوہ15 فروری1983)۔امت واحدہ کے عنوان کے باب میں عبد المالک صاحب لکھتے ہیں کہ10 ستمبر1982 کو جمعہ کے روز صبح 8بجے ہم مسجد قرطبہ کو دیکھنے کے بعد پیدروآباد میں وارد ہوئے۔وہاں اللہ تعالیٰ کی ایک نئی شان یہ دیکھی کہ ملک ملک سے دوست اپنے اپنے ملکی لباس میں ملبوس کشاں کشاں آرہے ہیں۔وہ ایک دوسرے کو مل کر خوش ہوتے اور کچھ یوں آپس میں ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے،
السلام علیکم۔ میرا نام عبد الوہاب بن آدم ہے اور گھانا سےآیا ہوں۔
السلام علیکم۔ میرا نام طلحہ قزق ہے اور میں اردن سے آیا ہوں۔
السلام علیکم۔ میرا نام حسین قزق ہے اور میں کویت سے آیا ہوں
السلام علیکم۔میرا نام مظفر احمد ظفر ہے اور میں امریکہ سے آیا ہوں
وعلیکم السلام۔ عبد المالک fromلاہور پاکستان
وعلیکم السلام۔اظہار احمد fromلاہور پاکستان
وعلیکم السلام۔احمد مختارfrom کراچی پاکستان
وعلیکم السلام۔ غلام احمدfrom بنگلہ دیش
وعلیکم السلام حمیداحمدfromانگلستان
(غیرمطبوعہ میں اک غریب صفحہ22-23)
چندایمان افروز واقعات
عبد المالک صاحب مرحوم کی زندگی کے بہت سے واقعات نہ صرف ایمان افروز ہیں بلکہ ان کی شخصیت کو بھی عیاں کرتے ہیں کہ آپ کس قد دعا گو، خلافت،نظام جماعت سے عشق کی حد تک وفا کرنے والے وجود تھےبہت سے ایسے واقعات کی گواہی اہل خانہ کے علاوہ لاہور کے احباب جماعت بھی دیتے ہیں۔ ان کے بڑے بیٹے محمود احمد ناصر(مقیم کینیڈا) نے خاکسار کو بتایا کہ ان کے والد محترم کو وفات تک مجلس شوریٰ ربوہ میں شرکت کی توفیق ملتی رہی ہے۔اس حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد نے شوریٰ میں پہلی بارشرکت کے متعلق بتایا تھا کہ1971 میں وہ ایوان محمود کے باہر کھڑے تھے کہ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ جب تشریف لائیں گے تو مصافحہ کی کوشش کروں گا، جب حضور تشریف لائے تو مصافحہ کا موقع مل گیا، تو حضور نے میرا ہاتھ تھامے رکھا اور شوریٰ ہال کے اندر جا کر چھوڑا۔یوں مجھے پہلی بار بغیر انتخاب کے 1971 کی مجلس شوریٰ میں شرکت توفیق ملی۔اس کے بعد لاہور جماعت کی نمائندگی میں ہر سال انتخاب کے بعد شرکت کی توفیق ملی۔الحمد للّٰہ ذالک
حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خانؓ کی علالت کے دنوں میں عبد المالک صاحب کو ان کے قریب رہنے اور ان کی خدمت کرنے کے بہت مواقع ملے تھے، چونکہ چوہدری صاحب کو نماز باجماعت پڑھنا زیادہ پسند تھا لہذا آپ کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھا کرتے تھے۔احباب جماعت لاہور اس بات کی تصدیق کرتے ہیں ان دنوں بھی کبھار نماز کی امامت عبد المالک صاحب مرحوم بھی کیا کرتے تھے۔ جس بناء پرحضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان ؓ ان کو پیار و شفقت سے امام مالک کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خانؓ کی بیماری کے دوران جب ضیاء الحق کوٹھی آیا تو تب عبد المالک صاحب کو بھی مکرم امیر صاحب لاہور کی ہدایات کے مطابق وہاں موجود رہنے اور ڈیوٹی دینے کی توفیق ملی تھی۔ان دنوں عبد المالک صاحب کے ساتھ کوٹھی میں اعجاز احمد صاحب بھی ہر موقع پر ساتھ شب و روز موجود رہتے تھے۔
ٹیلی فون پر سابق سیکرٹری وقف نو جماعت احمدیہ لاہور عبد الحفیظ گوندل صاحب (مقیم کینیڈا) سے ٹیلی فون پر بات ہو رہی تھی تو انہوں نے بتایا کہ امیر صاحب لاہور بوقت ضرورت عبد المالک صاحب کو سرکاری افسران سے ملنے کے لئے جماعت کی نمائندگی میں بھجوایا کرتے تھے اور وہ یہ کام بھی احسن طریق اور مکمل اعتماد سے نبھاتے تھے۔
کتاب ام رسولؐ لکھنے کی تحریک۔بڑے بیٹے محمود احمد ناصر صاحب کے مطابق ان کے والد محترم نےجماعت کے اہل علم، قلم سے درخواست کی تھی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کی سیرت پر قلم اٹھائیں اور کتاب لکھیں، کیونکہ اس موضع پر شاید کتاب نہیں لکھی گئی ابھی تک۔لیکن جب کوئی بھی اس میں کامیابی حاصل نہ کرسکا تو پھر پیام شاہجہان پوری صاحب نے اس چیلنج کو قبول کیا اور لکھنے کا عہد کرکے کام شروع کردیا۔ بالاآخر اس میں کامیابی حاصل کی اور ’’امّ رسول‘‘ کے نام سے پہلا ایڈیشن اکتوبر 1995 میں شائع ہو گیا جو کہ محمد حسن آرٹ پریس نیو انارکلی لاہور نے شائع کیا تھا۔کتاب کے دیباچہ میں پیام شاہجہان پوری لکھتے ہیں کہ۔۔۔ ’’ہاں ایک صاحب کا نام درج ہونےسے رہ گیا ہے جن کا نام سب سے پہلے درج ہونا چاہئے تھا، یہ ہیں میرے دوست عبد المالک صاحب، جنہوں نے مجھے یہ کتاب لکھنےکی تحریک کی اور بار بار کی۔یہ حقیقت ہے کہ اگر وہ اس قدر اصرار سے توجہ نہ دلاتے تو یہ کتاب اس وقت قارئین کے ہاتھوں میں نہ ہوتی۔اس لئے وہ کتاب کے ہر قاری کی طرف سے شکرئے اور دعا کے مستحق ہیں‘‘
(ام رسول،صفحہ 6، دیباچہ مصنف پیام شاہجہان پوری،23 این،عوامی فلیٹس ریوارز گارڈن لاہور،14 جون 1995)
بچپن اور بعد کی خوابیں
جیسا کہ لکھا جا چکا ہے کہ عبد المالک صاحب مرحوم کی زندگی دعاوٴں کے معجزانہ نشانات سے بھری تھی، ان کے بیرون ممالک کے سفر کے انتظامات بھی دعاوٴں کے ہی نتیجہ تھے۔ فضل الٰہی انوری صاحب مبلغ سلسلہ (سابق امیر و مبلغ انچارج جرمنی، الفضل انٹر نیشنل 4 جولائی 2021) نے ایک کتاب لکھی تھی جس میں جماعت کے مخلصین کی ایمان افروزخوابوں کو یکجا کیا گیا تھا۔ اس کتاب کا عنوان تھاْ بشارات سماویہ ’’جس کا دوسرا نام ’’درویشان احمدیت‘‘ ہے۔ (جلد پنجم حصہ دوم کے باب اول تا پنجم، پہلا ایڈیشن 2010 میں شائع ہوا جو رویا ہائے صالحہ، کشوف اور الہامات کی صورت میں ہے)۔ اس میں عبد المالک صاحب کی شادی سے پہلے اور بعد کی اور اپنے بچوں کی پیدائش سے متعلق اور دیگر ایمان افروز خوابیں شائع موجود ہیں جس کا آغاز صفحہ233 سے ہوتا ہے۔ ان خوابوں میں پہلی خواب چھٹی کلاس کے طالب علم کی حثیت سے تھی کہ کیسے دعاوٴں کے بعد خواب کے ذریعے انگریزی پرچہ میں کامیابی کی تھی۔ لکھتے ہیں کہ چھٹی کلاس کا امتحان تھا، انگریزی میں کمزور تھا۔ پرچہ سے ایک رات قبل دعا کرتا رہا کہ اللہ تعالیٰ امتحان میں مجھے پاس کردے اور خواب دیکھا کہ میرا انگریزی کا ٹیچر مجھے ملا ہے اور ایک کرسی کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ یہ کیا ہے؟ میں جواب دیتا ہوں کہ یہ کرسی ہے۔ پھر پوچھتا ہے کہ اسے انگریزی میں کیا کہتے ہیں؟ میں جواب دیتا ہوں کہChair۔ پھر اس نے پوچھا کہ ہجے Spelling کیا ہیں؟ میں کہتا ہوں کہ C H A I R، اس کے ساتھ ہی آنکھ کھل جاتی ہے۔ آگے فرماتے ہیں کہ یہ عجیب بات ہے کہ جب اگلے روز میں سکول گیا تو ممتحن نے بالکل یہی سوال پوچھے اور میں کامیاب ہو گیا (کتاب ہذا صفحہ233)۔اپنی شادی کے متعلق خواب دیکھتے ہیں کہ حضرت اقدس امیر المومنین خلیفة المسیح الثالثؒ تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ’’میں تمہارا رشتہ خود کروں گا‘‘۔ بعد کے حالات نے اس خواب کو بھی پورا کیا، جس کی تفصیل لکھی موجود ہے (صفحہ234)
بیٹا ہونے کی آسمانی بشارت، کے عنوان سے عبد المالک صاحب کی پہلے بیٹے کی پیدائش سے متعلق خواب کچھ یوں لکھی ہے کہ شادی ہو جانے کے دوسرے سال یعنی1972 میں ایک رویامیں دیکھا کہ میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے ہیں ’’لڑکا ہوگا، محمود نام رکھنا۔‘‘ چنانچہ اسی کے مطابق دو سال بعد22 اگست1974 کو پہلا بیٹا عطا فرمایا جس کا نام رویا کے مطابق محمود احمد رکھا گیا (صفحہ235)۔ یہ آج کل کینیڈا میں مقیم ہیں محمود احمد ناصر۔
دوسرے بیٹے عطاء القدوس کی پیدائش کے حوالے سے ان کی بہن عطیہ القدیر صاحبہ کے مطابق میرا یہ بھائی ابھی والدہ کے پیٹ میں تھا ابا جان نے حضور (حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ) کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور نام تجویز فرمائیں۔ حضور نے فرمایا ’’عطاء القدوس‘‘۔ ابا جان نے دوبارہ عرض کی کہ ’’حضور لڑکی والا نام بھی تجویز فرمائیں۔‘‘ حضور نے فرمایا ’’بس ایک ہی کافی ہے عطاء القدوس۔‘‘ انہوں نے پھر عرض کیا کہ ’’اگر لڑکی پیدا ہوئی تو؟‘‘ فرمایا ’’میں جو کہہ رہا ہوں، لڑکا ہو گا۔‘‘ اس پر ابا خاموش ہو گئے۔ پھر خدا کی قدرت کہ لڑکا ہی پیدا ہوا جس کا نام عطاء القدوس رکھا گیا (صفحہ236)، یہ بھی کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے والد کی وفات پر ملنے والی آسمانی تسلی کی خواب (صفحہ235) اس وقت عبد المالک صاحب عمر بمشکل 20 سال ہوگی۔مکرم راجہ غالب احمد صاحب کی جبری ریٹائرمنٹ اور بحالی سے متعلق (صفحہ237)، پہلے نواسے کی پیدائش سے متعلق اوردیگر خوابیں اگلے صفحات پر شائع موجود ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی انہی کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
(منور علی شاہد۔ جرمنی)