• 25 اپریل, 2024

جمعۃ الوداع اور ہماری ذمہ داریاں

رمضان کے مبارک اور مقدس مہینے کے آخری جمعہ کو جمعۃ الوداع کہا جاتا ہے۔

دینی اعتبار سے اس دن کا تقدس بھی جمعہ کے دوسرے دنوں کے برابر ہے۔ مگر روایتی طور پر یہ دن ایک یادگار جمعہ بن گیا ہے کہ روزے داروں کے لئے رمضان کے رخصت کا پیغام ہے۔

مساجد ضرورت سے زیادہ آباد ہوتی ہیں۔ نمازوں کے بڑے بڑے اجتماعات ہوتے ہیں۔ سارا سال نہ آنے والے عید پر تو نظر آتے ہی ہیں مگر سارے رمضان مسجدکارخ نہ کرنے والے بھی جمعۃ الوداع پر مسجدمیں آجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آج کی عبادت پہاڑ جیسے میرے بلند گناہوں کے بخشوانے کے لئے کافی ہے۔

یہ بات اسلا می عبادات کے فلسفہ کے منافی ہے۔ سارا رمضان عبادت نہ کرکے صرف جمعۃ الوداع یا لیلۃ القدر کی رات عبادت کر لینا کافی نہیں۔عبادات توایک تسلسل کانام ہےجس میں استقامت درکار ہے۔

ماں ایک مسلسل تکلیف دہ مرحلے سے گزر کر بچہ کو جنتی ہے تو پھر وہ خوشی مناتی ہے اور خوشی منانا اس کا حق بھی ہے۔ اپنے بچے سے پیار بھی اسی تکلیف دہ دور سے گزرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ورنہ دوسری عورت کے بچے کی دعویدار خاتون تو بچہ کو آدھا آدھا کروانے میں بھی کوئی عار نہیں سمجھتی۔یہی کیفیت رمضان کی ہے۔ جب ایک مومن اپنے اوپر عبادات کا بوجھ ڈالتا ہےتو اس تکلیف سے گزر کر اس کا حق ہے کہ وہ جمعۃ الوداع کو اور عید کی خوشیاں منائے۔

الوداع کا مفہوم خواہ کسی معنی میں لیا جائے اپنےا ندر ذمہ داریوں کے اضافے کے مضمون پر روشنی ڈالتا ہے۔ اپنے اندر افسردگی کا مفہوم لئے ہوتا ہے مگر نوید مسرت بھی ہے خواہ کسی بچی کو رخصت کیا جا رہا ہو، خواہ والد بچے کو حصول تعلیم یا حصول روزگار کے لئے بیرون ملک روانہ کر رہا ہو۔رمضان کو الوداع کرنے کے حوالہ سے دیکھا جائے تو یہی مضمون سامنے آتا ہے کہ چند دن رہ گئے ہیں۔ ذمہ داری بڑھ گئی ہےگو مومن افسردہ نظر آتے ہیں کہ نیکیاں کمانے کے دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں مگر بشارتیں دلاسا دیتی ہیں کہ اگر رمضان کو اپنا احتساب کرتے ہوئے گزارا تو تمہارے تمام گناہ بخش دئیے گئے ہیں۔ تم ایک معصوم نو مولود بچے کی طرح نیا جنم لے کر نئے سال میں داخل ہو رہے ہو۔ تم نے بدی سے نیکی کی طرف ہجرت کرنے کا سفر اختیار کیا ہے۔ تم نے اپنی سمت درست کی ہے اوریہ عیدکیاہےکہ رمضان کےبعدکےدنوں میں اس طرح عبادات بجا لاؤں گا۔ نیکیاں بجا لاؤں گا جیسے رمضان میں کیں اور جب اگلا رمضان آئے گا تو اس کو اس رمضان سے بہت بہتر پاؤں گا۔
یہی وہ مضمون ہے جو جمعۃ الوداع پر لاگو ہوتا ہے۔ ایسے لوگ جمعۃ الوادع پر حاضر ہو کر رمضان کو الوداع نہیں کہہ ر ہےہوتے بلکہ آئندہ نیکیاں بجالانےکااستقبال کررہےہوتے ہیں۔ان بشارتوں کا استقبال کر رہے ہوتے ہیں جو ان عبادات سے وابستہ کر دی گئی ہیں۔وہ ہر آنے والی نماز کا استقبال کر رہے ہوتےہیں۔ وہ ہر آنے والے جمعہ کو خوش آمدیدکہہ رہے ہیں۔ وہ سامنے نظر آنے والی ہر نیکی کو جی آیاں نوں کہہ کر استقبال کر رہے ہوتے ہیں۔ آج جمعۃ الوداع پر گو وہ اپنے گھر خالی کر آئے ہیں اور خدا کے گھروں کو بھرا ہواہے۔ حقیقت میں وہی اپنے گھروں کو خدا تعالیٰ کی نعمتوں، برکتوں اور فضلوں سے بھر آئے ہیں۔ وہ خالی نہیں۔

اس کے بالمقابل بعض ان معنوں میں آج رمضان کو الوداع کرنے آتے ہیں جیسے بعض دفعہ مہمان گھر میں آکر ٹھہرجاتے ہیں اور جانے کا نام نہیں لیتے۔ ان کے جانےپر اہل خانہ سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ ایک بھاری تعداد انہی معنوں میں جمعۃ الوداع کرنے آتی ہے۔ وہ تنگی محسوس کر تے ہیں کہ کب جائے یہ رمضان اور ہم پھر بدیوں کی طرف واپس لوٹیں۔

مگر اصل مفہوم الوداع کا وہی ہے جو اوپر بیان ہوا ہے۔ جس میں خوشیوں کی نوید اور بشارات کے پیغام کے ساتھ ساتھ ایک فکر ہے،ایک پریشانی ہے ایک سوچ و بچار ہے کہ ابھی کچھ بھی نہیں کمایا اور جمعۃ الوداع بھی آگیااور اگر کمایا ہے تو بہت کم۔ زیادہ کما لیتے اور جومعمولی سا ذخیرہ کیا ہے اس ذخیرہ کی حفاظت کی فکر کہ کہیں چور ہی اُچک کر نہ لے جائے۔

اسی روز وہ عہد و پیماں باندھتا ہے کہ میں ان نیکیوں میں تسلسل قائم رکھوں گا اور بجالائی گئی نیکیوں کی حفاظت کے لئے عبادات کے مزید مضبوط بند باندھوں گا۔ پُشتےبناؤں گا۔ یہی وہ مضمون ہے جو اس حدیث سے ظاہر ہے۔ جس میں آنحضورﷺ نے رمضان کے آخری عشرہ کو “رمضان کی کوہان” قرار دیا ہے۔ جس طرح اونٹ اپنی کوہان میں پانی کا ذخیرہ جمع کر لیتا ہے اور پھر اسے صحرا میں استعمال میں لاتا ہے۔ اسی طرح یہ روحانی ذخیرہ ایک مومن آنے والے دنوں کے لئے جمع کرتا ہے۔

چنددن، قیمتی دن باقی ہیں۔ یہ ہر گز خیال پیدا نہ ہو کہ ہم نے زیادہ دن تو ضائع کر دئیے ۔ کچھ بھی نہیں کمایا۔ ان چند دنوں میں کیا کر سکتے ہیں۔خدا کے کرم کی ایک نگاہ اس کی شفقت کی جھلک اورایک لمحہ کے لئے خدا تعالیٰ کی کسی انسان کی طرف توجہ اس کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ ابھی تو جمعہ کے مبارک دن کا آغاز ہوا ہے۔جس کے بارہ میں ارشاد ہے کہ ہر جمعہ کوایک گھڑی ایسی آتی ہے جب انسان کی ہر کی ہوئی دعا قبول کی جاتی ہے۔

ابھی تو ایک طاق رات آنی باقی ہے۔ جن میں ایسی رات کی خوشخبری ہے کہ جن کووہ نصیب ہو جائے اس کی زندگی بدل جاتی ہے۔یہ 83 سالوں سے بہتر ہے۔

ابھی تو ان کے لئے فطرانہ کی ادائیگی میں پیغام ہے جنہوں نے اس کی ادائیگی نہیں کی۔ آپؐ نے فرمایا۔

آپ کی عبادات زمین و آسمان کے درمیانی معلق کر دی جاتی ہیں اور آسمان کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاتی جب تک آپ فطرانہ ادا نہیں کرتے۔

ابھی تو آنحضورﷺ کے اس فرمان کا واسطہ دے کر خدا تعالیٰ کو اپنی طرف راغب کرنے کا وقت باقی ہے کہ اے اللہ! تیرے رسول نے اس عشرہ کو آگ سے نجات دلانے کا عشرہ قرار دیا ہے۔ پس ہمیں آگ سے نجات عطا فرما اور ہم جب رمضان سے نکل رہے ہوں تو ہمارا جسم ایک سفید دُھلی ہوئی چادر کی طرح ہو جس پر ہماری کوتاہی،غلطی، کمزوری کا کوئی دھبہ داغ نہ ہو۔ لیکن اس کے لئے وہی جتن کرنے ہیں جو دھوبی گندی چادر کو صاف کرنے کے لئے کرتا ہے۔ کبھی زور زور کے ساتھ پتھروں پر پٹکتا ہے۔ کبھی رنگ کاٹ ڈالتا ہے۔

بعینہٖ اپنے جسم کو مشکلات میں سے گزارنا ہوگا اور جس طرح سونا بھٹی سے گزرکر کُندن بن جاتا ہے اور لوہا بھٹی سے گزر کر اپنا رنگ چھوڑجاتا ہے۔ بعینہٖ صاف ستھرے ہو کر نئے سال میں داخل ہوناہے ۔

پس اس جمعۃالوداع کو نیکیوں کے لئے جمعۃ الاستقبال بنانے کی ضرورت ہے اور ہر نیکی اور اخلاق حسنہ کو جی آیاں نوں کہہ کر سینے سے لگانے کی ضرورت ہے۔ آنحضورﷺ نے حجۃ الوداع کے روز خطبہ دیتے ہوئے جو وصیت فرمائی تھی۔ اس پیغام کو جمعۃ الوداع کے روز اپنے اوپر لاگو کرنے اور دوسروں کو اس پیغام کی طرف بلانے کی ضرورت ہے۔

آپؐ فرماتے ہیں۔
“اللہ سے ڈرو۔ پانچوں وقت کی نماز پڑھو۔ ایک مہینے کے روزے رکھو۔ اپنے اموال کی زکوٰۃ دو اور جب کوئی حکم دوں تو اس کی اطاعت کرو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔”

(ترمذی ابواب الصلاۃ)

آج کے دن کا ایک ایک لمحہ آپ کو پکار پکار کر دُہائی دے رہا ہے کہ اے مومن! اُٹھ تجھے ایک ایسا دن ملا ہے جس میں تو اپنے نفس کے عرفان سے نکل کر عرفان الٰہی کی منازل طے کر سکتا ہے۔ اپنے خالق سے ٹوٹے رشتے جوڑ سکتا ہے۔اپنے رب کو راضی کر کے اپنی نجات کا سامان پیدا کر سکتا ہے۔ نور ایما ن سے اپنے سینے کو آباد کرسکتا ہے۔خدا اور رسول کی محبت مستحکم کر سکتا ہے۔اس پیارے رسول کا واسطہ دے کر گناہوں کی معافی مانگ سکتا ہے ۔ توبہ کر کے نومولود کی طرح معصوم بن سکتا ہے۔ کیونکہ آنحضورﷺ فرمایا ہے۔

التَّائِبُ مِنْ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنَبَ لَهُ

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

شفاؤں کے مالک شفا چاہئے

اگلا پڑھیں

توبہ کی تیسری شرط عزم ہے