• 24 اپریل, 2024

عید سعید کی برکات اور ایک مومن کی ذمہ داریاں

پُرانے زمانے میںجب سفر بہت کٹھن ہوتے تھے اُس کو آسان بنانے کے لئے وقفے وقفے بعد پڑاؤ ڈالا جاتا تھا۔ جہاں مسافر کچھ عرصہ ٹھہر کر، سستا کر، اپنی تھکن اُتار کر، تازہ دم ہو کر نئے حوصلہ، تازہ ولولہ اورپختہ ارادوں کےساتھ اپنی منزل کی طرف سفرکو رواں دواں رکھتا تھا۔ آج کے جدید اور مہذب دور میں اسے Rest Areaکا نام دے دیا گیا ہے۔ جو بڑی بڑی سڑکوں پر نظر آتے ہیں۔ یا بڑے شہروں سے قبل زیروپوائنٹس بنا دئیے گئے ہیں جہاں سے مسافر اپنی سمت درست کرتا ہے۔

انسانی زندگی بھی ایک سفر ہے اور اس زندگی کے دوران بھی اللہ تعالیٰ نے کئی پڑاؤ مقرر فرمارکھےہیں۔ ان میں سے ایک پڑا ؤ رمضان کا مہینہ ہے۔ جس میں ایک مومن تازہ دم ہو کر اپنے سفر حیات میں آنے والی صعوبتوں اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے عزم اور ارادہ کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور اپنے ساتھ رمضان کے فیوض و برکات اور خیرات وحسنات کے بے پایاں ذخیرے لے کر عید کے پڑاؤ میں داخل ہوتا ہے۔ ایک ماہ کے کٹھن سفر جس میں دن بھر بھوکےرہ کر، ٹھنڈا پانی اور لذیذ کھانے میسر ہونے کے باوجود اپنے آپ کو ان سے روک کر، حلال چیزوں سے اپنے آپ کو دور رکھ کر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں سے کِھیسے(کیِسا) بھر کر جب یہاں پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حقیقی مومن کو بشارت دی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کومخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے میرے فرشتو! ان مزدوروں کا پورا پورا بدلہ چکا دو۔ اور اے میرے فرشتو! یہ میرے بندے اور بندیاں اس فرض کو ادا کرنے کے بعد جو میں نے ان پر مقرر کیا تھا اب عاجزانہ طور پر دعا کے لئے نکلے ہیں۔ مجھے اپنی عزت،اپنے جلال، اپنی سخاوت، اپنی بلند شان اور بلند مرتبہ کی قسم ہے کہ میں آج ان کی دعاؤں کو ضرور قبول کروں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں سے کہتا ہے کہ تم اس حال میں واپس جاؤ کہ میںنے تمہارے سب گناہ معاف کر دئیے ہیں اور تمہاری بدیوں کونیکیوں سے بدل دیا ہے۔

(مشکوٰۃ المصابیح کتاب الصوم لیلۃ القدر الفصل الثالث)

اور پھر بشارت دیتے ہوئے فرمایا۔

مَنْ قَامَ لَيْلَتَيْ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلهِ لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ

( سنن ابن ماجہ جلد اول باب68)

کہ جو محض للہ اپنا احتساب کرتے ہوئے دونوں عیدوں کی راتوں میں عبادت کرتا ہے اس کا دل ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیاجاتا ہے اور وہ نہیںمرتا جبکہ دنیا کے دل مر جائیںگے۔

اسی لئے چاند رات کو لیلۃ الجائزہ کہا گیا ہے۔ جس میں انسان کو اس کے نیک اعمال کی جزاء دی جاتی ہے۔ اسی لئے حضرت عمرؓ عید کے روز بہت روتے اور فرمایا کرتے تھے کہ جن کے اعمال رمضان میںاچھے رہے ان کے لئے یہ دن عید کا ہے اور جن کے اعمال رمضان میںاچھے نہیں رہے ان کے لئے یہ دن عید سعید نہیں۔ بلکہ وعید کا دن ہے۔

رمضان المبارک ہمیں جن امور کی طرف توجہ دلاتا ہے وہ دو باتوں پر محیط ہیں ایک عبادت الٰہی اور دوسرا بنی نوع انسان کے ساتھ سچی ہمدردی، خدمت خلق اور لوگوں کے دُکھ سکھ میں شریک ہوتا اور رمضان کے اختتام پر نتیجہ کے طور پر ان دونوں امور کی عید کے روز پریکٹس کروائی جاتی ہے۔ جہاں تک عبادت الٰہی کا تعلق ہے تو اس روز عام نمازوں کے علاوہ ایک اجتماعی نماز بھی بطور فرض ادا کی جاتی ہے اور اس میں عام طریق سے ہٹ کر نماز کو پہلے ادا کیا جاتا ہے۔ دراصل اس میں یہ عظیم حکمت پنہاں ہے کہ وہ محب جنہوں نے رمضان کا سچا فیض حاصل کیا اپنے محبوب کو پانے کے لئے دن کوبهی اسے یاد کرتے رہے اور راتیں بھی اس کے حضور حاضر ہو کر اوربھوک اور پیاس کی مشقتوں سے گزر کر لقائے باری تعالیٰ کی طرف اپنے سفر میں تیزی لانے کی کوشش کی وہ بطور شکرانے کے طور پر دو رکعت ادا کریں اور پھر اللہ و رسول کی باتیں خطبہ میں سن کر اپنے خدا سے تعلق کو گہرا اور مزید مستحکم کرکے رمضان میں کئے گئے عہدو پیمان میں مزید مضبوطی لانے کا عزم کریں۔

اور جہاں تک مخلوق سے ہمدردی اور پیار بالخصوص اپنے سے کم حیثیت کے لوگوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کی دادرسی کا تعلق ہے تو رمضان میں بھوکا پیاسا رہ کر مومن کو اس طرف دعوت عام دی جاتی ہے کہ دنیا میں، معاشرہ میں اور ماحول میں بہت سی ایسی مخلوق خدا موجود ہے جن کو سارا سال پیٹ بھر کر کھانا بھی میسر نہیں آتا۔ ان کی طرف نگاہ تلطف رکھنا ضروری ہے۔ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم عام دنوں میں بھی غریبوں مسکینوں، بیواؤں، بے کسوں اور بے سہارا لوگوں کا سہارا بنا کر تے تھے مگر رمضان المبارک میں آپ کی سخاوت تیز رفتار آندھی سے بھی بڑھ جاتی تھی۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ سب سے افضل اور بہتر صدقہ وہ ہے جو رمضان میں کیا جائے اور فرمایا کرتے تھے۔

وَابْغُوْنِيْ فِی الضُّعَفَاء کہ مجھے ضعفاء اور کمزوروں میں تلاش کیا کرو۔ صدقۃالفطر کی ادائیگی بھی دراصل اس تعلیم کا ایک جزو ہے۔ مسلمانوں میں عام طور پر زکوٰة بھی رمضان میں ہی نکالی جاتی ہے کیونکہ بھوکا اور پیاسا رہ کر مومنوں کے دل پسیج جاتے ہیں اور غرباء و مساکین سےہمدردی ان کےدل کی آواز بن چکی ہوتی ہے۔ عید کے روز یہ پریکٹس بہت نمایاں طور پر نظر آتی ہے جب مومن اپنی خوشیوں کو ان لوگوں کے ساتھ Share کرتے ہیں۔ جو Deservingہوتے ہیں، ان کے گھروں میں جا تے، میل ملاقات کرتے، تحفے تحائف دیتے ہیں اور وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ کی تعلیم پر عمل پیرا ہو کر صحابہ رضوان اللہ علیہم کے ساتھ جا ملتے ہیں۔

آنحضورؐ نے ایک دفعہ عید سے واپسی پر کچھ بچوں کو نئے کپڑے پہنے خوشی کے ساتھ آپس میں اس امر کا اظہار کرتے دیکھا کہ ہمیں والدین نے فلاں فلاں چیز (ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) عیدی کے طور پر دی ہے جبکہ ایک غریب بچہ گندے اور میلے کچیلے کپڑوںکے ساتھ بے حد غمگین اور اداس الگ کھڑا تھا۔ آنحضورؐ اس منظر کو دیکھ مضطرب ہوئے۔ آپؐ اس بچے کے پاس تشریف لے گئے۔ معلوم ہوا کہ یہ بچہ یتیم ہے اور اسے کوئی نیا کپڑا پہنانے والا نہیں۔یہ دیکھ کر آپؐ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ آپؐ بچے کا ہاتھ پکڑ کر اسے گھر لے آئے اور حضرت عائشؓہ سے فرمایا کہ اسے نہلاؤ اور اسے نئے کپڑ ے پہناؤ اور بچے کو مخاطب ہو کر فرمایا۔ بیٹا فکر مت کرو۔ آج سے محمدؐ تمہارا باپ ہے۔ عائشہؓ تمہاری ماں۔ فاطمہؓ تمہاری بہن اور حسیؓن تمہارا بھائی ہے۔ یہ خوش قسمت بچہ نئے کپڑوں کے ساتھ اپنے دوست بچوں کے پاس گیا اور بغیر کسی احساس کمتری کے گھل مل کر کھیلنے لگا بلکہ اس بات پر فخر کر رہا تھا کہ میں تو حضرت محمدؐ کا بیٹا ہوں۔ الله اللہ! یہ ہے وہ تعلیم اور نمونہ جو ہمارے آقا صلى الله علیہ وسلم نے ہمارے لئے مشعل راہ چھوڑا ہے۔

رمضان میں غرباء پروری اور عید پر مستحقین اور غرباء کے حقوق ادا کرنے کا جو قریبی تعلق ہے اس کا ایک دلچسپ پہلو اور بھی ہے اور وہ یہ کہ ایک مومن رمضان میں اللہ تعالیٰ کی پیاری کتاب قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہوا رمضان کے آخری حصے میں ( جب عید قریب آئی ہوتی ہے) ختم کرتا ہے خواہ نماز تراویح کے ذریعہ کر رہا ہو خواہ درس القرآن کے ذریعہ خواہ انفرادی تلاوت کرتے ہوئے اسے قرآن کریم کے آخری حصہ میںمسکینوں، بیواؤں اور غرباء کے حقوق کی ادائیگی کی یاددہانی ہورہی ہوتی ہے اور عید کے اسباق میں سے اس اہم سبق کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہوتی ہے کہ عید قریب ہے اس موقع پریتیموں،مسکینوں اورغرباء کا حق ادا کرنا ہے۔

جماعت احمدیہ کے لئے بدرجہ اولیٰ اس سبق کی یاددہانی ہے کیونکہ قرآن کریم کے اس آخری حصہ میں جہاں امام مہدی اور آخری زمانہ کی علامات درج ہیں انہی میںیتامیٰ اور مساکین کی دیکھ بھال، ان سے حسن سلوک، غرباءسے جذبہ ہمدردی اور ضعفاء کی دستگیری کا بار بار ذکر لا کر یہ سبق دینا مقصود ہے کہ آخری زمانہ میں مسلمان اپنے سے کم حیثیت کے لوگوں کو ان کا صحیح درجہ نہیں دیں گے اور ان کی حق تلفی کریں گئے ایسے حالات میں صحابہؓ جیسی اعلیٰ اسلامی سوچ رکھنے والی جماعت اللہ تعالیٰ امام مہدی کو عطا کرے گا۔ جو معدوم تعلیم کو دوبارہ دنیا میں قائم کریں گے۔ اور غرباء کو ان کا حق دلانے والے ہوں گے۔ ان کا عملی اظہار عید کے موقع پر ہوتا ہے جب ہر احمدی اپنے پیارے خلفاء کے ارشادات کی روشنی میں اپنے عزیز و اقارب کے علاوہ اپنے سے کم حیثیت کے لوگوں کے گھروں خواہ ان کا تعلق احمدی جماعت سے ہو یا باہر سے، تحفے تحائف بانٹتا اور محبتوں کوShare کرتا ہے۔

امسال تو آنے والی عید گزشتہ سالوں سے بہت بڑھ کر اس تعلیم پرعمل پیرا ہونے کی دعوت دے رہی ہے جب تمام دنیا کرونا کی لپیٹ میں ہے۔ نوکریاں،ملازمتیں اور کاروبار جاتے رہے ہیں۔ ان حالات میں حالات میں ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا رمضان کا ایک اہم سبق ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ فر ماتے ہیں۔ بنی نوع انسان پر شفقت اور اس سے ہمدری کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور الله تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ ایک زبردست ذریعہ ہے۔

( ملفوظات جلد چہارم صفحہ438)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا۔آج کے دن ہر ایک پر لازم ہے کہ سارے کنبے کی طرف سے محتاج لوگوں کی خبر گیری کرے۔

(الحکم 17 نومبر 1908ء)

حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے فرمایا۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم پر ایسا افضل نازل کرے تا کہ ہم میں سے ہر شخص کو حقیقی عید میسر ہو کہ وہ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔ کہ ہم نہ صرف اپنے لئے عید منا ئیں۔ بلکہ دوسروں کے لئے بھی، جو مصائب اور دکھوں میں گرفتار ہیں عید کا سامان مہیا کر دیں۔

(خطبہ عید الفطر 9 فروری 1932ء از خطبات محمودجلد اول ص 146)

پھر فرمایا:

جو کچھ تمہارے پاس ہے اسے بھی غرباء کی فلاح اور بہبود کے لئے خرچ کرو۔ یہ روح جس دن مسلمانوں میں پیدا ہوگی درحقیقت وہی دن ان کے لئے حقیقی عید کا دن ہو گا۔ کیونکہ رمضان نے ہمیں بتایا ہے کہ تمہاری کیفیت یہ ہونی چاہئے کہ تمہارے گھر میں دولت تو ہو مگر اسے اپنے لئے خرچ نہ کرو۔ بلکہ دوسروں کے لئے کرو۔

(خطبہ عید الفطر 12 مئی ء1956 از خطبات محمودجلد اول ص 342)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے آغاز خلافت میں ہی اس امر کی خواہش ظاہر فرمائی کہ کوئی احمدی رات کو بھوکا نہیں سونا چاہئے۔ آپ اس سلسلہ میں عہدیداروں کو مخاطب ہو کر فرماتے ہیں۔

آج میں ہر ایک کو جو ہماری کسی جماعت کا عہدیدار ہے متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ذمہ دار ہے اس بات کا کہ اس کے علاقہ میں کوئی احمدی بھوکا نہیں سوتا۔ دیکھو میںیہ کہہ اپنے فرض سےسبکدوش ہوتا ہوں کہ آپ کو خدا کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا۔

(خطبہ جمعہ 17دسمبر1965ء از خطبات ناصر جلداول صفحہ 52)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے عید کے اس اہم سبق کی طرف بار بار جماعت کو توجہ دلائی۔ آپ ایک موقع پر فرماتے ہیں۔
میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آج کے دن امراء اپنے غریب بھائیوں کے گھروں میں جائیں اور وہ تحفے جو آپسں میں بانٹتے ہیں۔ آپس میںبھی ضرور کچھ نہ کچھ بانٹیں۔کیونکہ حق ہے یہ ذوی القربیٰ کا بھی حق ہے۔دوستوں کا بھی حق ہے۔وہ حقوق بھی ادا ہونے چاہئیں…….

کوشش کریں کہ حتی المقدور ایک سے زیادہ گھر بانٹیں مگر بہرحال یہ کوئی تکلیف مالایطاق دینے والی بات تو نہیں ہے عیدمنانی ہے آپ نے۔ جتنی عید بھی آپ منا سکیں آپ کی توفیق کے مطابق ہے۔ آپ ان گھروںمیں جائیں، ان کے حالات دیکھیں، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بعض لوگ ایسی لذتیں پائیں گے کہ ساری زندگی کی لذتیں ان کو اس لذت کے مقابل پر ہیچ نظر آئیں گی اورحقیر دکھائی دیںگی……

یہ ہے عید جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عید ہے یہ وہ عید جو درحقیقت ہر سچے مذہب کی عید ہے……پس جس کو یہ عید نصیب ہو جائے اس کو اور کیا عید چاہئے۔ اس کی عیدیں ہی عیدیں ہے۔یہی وہ عید جو اسلام کی عید ہے۔

(خطبہ عیدالفطر 12جولائی1983ء از خطبات طاہر عیدین صفحہ20-18)

آپ نے ایک اور موقع پر خطبہ جمعہ میں احمدی احباب کو اپنی عید کی خوشیاں غرباء کے ساتھ منانے کا ارشاد کرتے ہوئے فرمایا۔
عید کے موقعوں پر اپنے غریب ہمسایوں،ضرورت مندوں کے ساتھ شامل ہونے کی کوشش کریں۔ ان کے کچھ غم ان کے گھروں میں جا کر د یکھیں اور ان کے غم بانٹیں اپنی خوشیاں ان کے پاس لے کر جائیں اور اپنی خوشیاں ان کے ساتھ بانٹیں یا اپنے گھروں میں ان کو بلائیں۔غرض یہ کہ غریبوں کے ساتھ عید کرنے سے بہتر دنیا میں اور کوئی عید نہیں۔

(خطبہ جمعہ 19مارچ1993ء)

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس اہم امر کی طرف یوں توجہ دلائی۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ احسان کرنے کے ساتھ ساتھ رشتہ داروں، رشتہ دار ہمسایوں اور غیر رشتہ دار ہمسایوں، یتیموں، اسیروں، مسکینوں، مسافروں اور غرباء کے ساتھ احسان اور ہمدردی کا سلوک کرنے کی تعلیم دی ہے۔ اس تعلیم پرمکمل کر کےحقیقی دینی معاشرہ قائم ہو گا۔ اور ان کے ساتھ سلوک محض للہ کرنا ہے اور احسان کا سلوک کرنا ہے جس کے بدلہ کی خواہش پیدا نہ ہو۔ اللہ کا پیار حاصل کرنے کے لئے اس کی رضا کے حصول کے لئے ہمدردی کرنی ہے غرباء کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے ان کو تحائف دیتے ہوئے ان کی عزت نفس کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے، استعمال شدہ اشیاءتحفہ دیتے وقت پہلے بتانا چاہئے اور اشیاء کو صاف ستھرے طریق پر پیش کرناچاہئے۔

پھر فرمایا۔
عید کے دن ہر احمدی اپنے ماحول میں جائزہ لے اور ضرورت مندوں کا خیال کرے۔ یہ عمل خدا کے فضل سے ذاتی اور جماعتی سطح پر ہو رہا ہے لیکن ابھی بہت گنجائش موجود ہے۔ یہ کام اچھا کھلانے اور پہنانے تک ہی ختم نہیں کرنا۔ جس طرح عید کے دن ان کا خیال رکھا جارہا ہے ان رابطوں کو توڑنا نہیں بلکہ ان پر نظر رکھیں خود بھی ان کا دھیان رکھیں اور نظام کو مطلع کریں۔ ان کو کام پر لگائیں ان کی ہمت بندھائیں یہ ان پر جاری احسان ہو گا۔ اس طرح کم استطاعت والوں کو اٹھانے کی کوشش کریں تو ہو سکتا ہے کہ وہ شخص اگلے سال عید پر دوسروں کی مدد کر رہا ہو۔اس طرح پر معاشی استحکام سے اخلاقی معیار بھی بلند ہوں گے اور پاکیزہ معاشرے کا قیام عمل میں آئے گا۔

(خطبہ عید الفطر 26 نومبر 2003ء از الفضل 3دسمبر 2003ء)

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

جماعتِ احمدیہ کا آغاز اور شاندار مستقبل

اگلا پڑھیں

کیا ساری دنیا میں ایک ہی دن عید یا رمضان کا آغاز ہو سکتا ہے؟