عید کے چاند کی پلکوں پہ ستارے آئے
خوشی کی رُت میں بھی غم یاد تُمہارے آئے
آج بھی ہو گا فروزاں وہ مِرا بام پہ چاند
آج بھی آہ نہ ہم دید کے مارے آئے
آج پھر خوشبو مِرے دیس کی بے چین کرے
آج پھر مہکی ہواؤں میں اِشارے آئے
دیکھو پردیسیوں کو دور سے ملنے کے لئے
بیٹھ کے ، سوچ کی رَتھ پہ یہ نظارے آئے
اب بھی دریا میں کھڑی آس کی سُوکھی کشتی
روز ہی راہ تکے اور کنارے آئے
دِل کی گہرائی سے ہو عید مبارک تم کو
مہکی خُوشبو میں بسے پھول ہمارے آئے
(عبدالجلیل عبادؔ ۔جرمنی)