• 18 اپریل, 2024

رمضان المبارک اور حقیقی عید

ایک روایت میں ہے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺنے فرمایاجو شخص محض للہ دونوں عیدوں کی راتوںمیں عبادت کرے گا اس کا دل ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا جائے گا اور اس کا دل اس وقت بھی نہیں مرے گا جب سب دنیا کے دل مر جائیں گے۔

(ابن ماجہ کتاب الصیام۔ باب فی من قام فی لیلۃ العیدین)

پس رمضان کی پاک تبدیلیوں کو جودل میں پیدا ہوتی ہیں ان کو مستقل بنانے کے لئے آنحضرت ﷺنے کیسے خوبصورت انداز میں ترغیب دلائی ہے۔ عید کی خوشیوں میں اکثر لوگ بھول جاتے ہیںکہ نماز بھی وقت پہ پڑھنی ہے کہ نہیں، تو رات کی عبادت کی طرف، نوافل کی طرف توجہ دلا کر یہ بتا دیا کہ فرائض تو تم نے پورے کرنے ہی ہیں لیکن اگرہمیشہ کی رضا اور خداتعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنی ہے تو ان دنوں میں راتوں کو بھی عبادات سے سجاؤ۔ رمضان کے بعدبھی اور خاص طور پر ایسے موقعوں پر جو کہ خوشی کے مواقع ہوتے ہیں ۔ جب آدمی کو دوسری طرف توجہ زیادہ ہو رہی ہوتی ہے۔ صرف ڈھول ڈھمکوں اور دعوتوںمیں ہی نہ وقت گزار دو۔ پس یہ عبادتیں جو ہیں یہ زندگی کا مستقل حصہ بننی چاہئیں۔

عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ ﷺ یَخْرُجُ یَوْمَ الْفِطْرِ وَالْاَضْحٰی اِلَی الْمُصَلّٰی ، فَاَوَّلُ شَیْی یَبْدَأُ بِہٖ ، اَلصَّلاَۃُ ، ثُمَّ یَنْصَرِفُ فَیَقُوْمُ مُقَابِلَ النَّاسِ ، وَالنَّاسُ جُلُوْسٌ عَلٰی صُفُوْفِھِمْ فَیَعِظُھُمْ وَیُوْصِیْھِمْ وَیَأْمُرُھُمْ ـ فَاِنْ کَانَ یُرِیْدُ اَنْ یَّقْطَعَ بَعْثًا قَطَعَہٗ، اَوْ یَاْمُرَ بِشَیْئٍ اَمَرَ بِہٖ ثُمَّ یَنْصَرِفُ۔

(بخاری کتاب العیدین باب الخروج الی المصلی بغیر منبر)

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عید الفطر اور عید الاضحی کے دن عید گاہ میں جا کر سب سے پہلے نماز عید پڑھایا کرتے تھے۔ سلام کے پھیرنے کے بعد لوگوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے ۔آنحضور ﷺ کے خطاب کے دوران لوگ صفوں میں ہی بیٹھے رہتے۔آپ ان کو وعظ و نصیحت فرماتے ان کو تاکیدی احکام سے مطلع فرماتے۔ ان کو اپنے ارشادات سے نوازتے۔ اگر کسی گروہ کو کہیں روانہ کرنا ہوتا تو اس کا انتخاب فرما تے اور اگر کسی شے کا حکم دینا ہوتا تو حکم دیتے پھر عیدگاہ سے لوٹ آتے۔

عَنْ عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ قَالَ: مِنَ السُّنَّۃِ اَنْ تَخْرُجَ اِلَی الْعِیْدِ مَاشِیًا وَاَنْ تَاْکُلَ شَیْئًا قَبْلَ اَنْ تَخْرُجَ۔

(ترمذی کتاب العیدین ۔ باب ماجاء فی المشی یوم العید)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عید کے لئے پیدل جانا اور عید کے لئے جانے سے پہلے کچھ کھا لینا سنت ہے۔

عَنْ اُمِّ عَطِیَّۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ کَانَ یُخْرِجُ الْاَبْکَارَ وَالْعَوَائِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُوْرِ وَالْحُیَّضَ فِی الْعِیْدَیْنِ ، فَاَمَّا الْحُیَّضُ فَیْعَتَزَلْنَ الْمُصَلّٰی وَیَشْھَدْنَ دَعْوَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ، قَالَتْ اِحْدَاھُنَّ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّھَا جِلْبَابٌ؟ قَالَ فَلْتُعِرْھَا اُخْتَھَا مِنْ جِلْبَابِھَا۔

(ترمذی کتاب العیدین ۔ باب فی خروج النساء فی العیدین)

حضرت اُمِّ عَطِیَّہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کنواری لڑکیوں اور جوان لڑکیوں ، پردہ نشین خواتین اور حائضہ عورتوں کو عید گاہ کے لئے جانے کا ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ البتہ حائضہ خواتین نماز پڑھنے والی جگہ پر نہیں جاتی تھیں مگر دعا میں شامل ہوتی تھیں۔ ایک عورت نے عرض کی اگر کسی خاتون کے پاس (پردہ کے لئے) چادر نہ ہو تو وہ کیا کرے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ چاہئے کہ اس کی بہن اس کو عاریتاً چادر دے۔

عید گاہ میں مختلف راستوں سے آنا اور جانا

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدِاللّٰہِ بْنِ اَبِیْ رَافِعٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ کَانَ یَأْتِی الْعِیْدَ مَاشِیًا وَ یَرْجِعُ فِیْ غَیْرِ الطَّرِیْقِ الَّذِیْ اِبْتَدَأَ فِیْہِ۔

(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوۃ و السنۃ فیہا)

محمد بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ عید کے لئے پیدل جایا کرتے تھے اور جس راستے سے تشریف لے جاتے اس سے مختلف راستے سے واپس لوٹتے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
آج عید کا دن ہے اور رمضان شریف کا مہینہ گزر گیاہے ۔ یہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ایام تھے جبکہ اس نے اس ماہ مبارک میں قرآن شریف کا نزول فرمایا اور عامہ اہل اسلام کے لئے اس ماہ میں ہدایت مقدر فرمائی۔ راتوں کو اُٹھنا اور قرآن شریف کی تلاوت اور کثرت سے خیرات و صدق اس مہینہ کی برکات میں سے ہے۔ آج کے دن ہر ایک کو لازم ہے کہ سارے کنبہ کی طرف سے محتاج لوگوں کی خبر گیری کرے۔ دوبُک گیہوں کے یا چار جَوکے ہر ایک نفس کی طرف سے صدقہ نماز سے پیشتر ضرور ادا کیا جاوے اور جن کو خدا نے موقع دیا ہے وہ زیادہ دیویں۔

(خطبات نور صفحہ 179)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
رمضان گزر گیا اور وہ دن آگیا جسے عید کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رمضان ہمیشہ ختم ہو جاتے ہیں اور خدا اپنے بندوں کے لئے عیدیں بھیج دیتا ہے ۔لمبے سے لمبا عرصہ امتحان کا جو خدا نے اپنے بندوں کے لئے رکھا ہے رمضان کا مہینہ ہے۔ تیس دن خدا کے بندے روزے رکھتے ہیں، بھوکے رہتے ہیں، پیاسے رہتے ہیں، شہوانی تقاضوں سے بچتے ہیں، راتوں کو جاگتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں، تلاوت قرآن کریم زیادہ کرتے ہیں، ذکر الہیٰ کرتے ہیں اور بعض تراویح بھی پڑھتے ہیں۔ غرض یہ تیس دن کا مہینہ دینی لحاظ سے عجیب لطف اور مزے کا مہینہ ہوتا ہے لیکن جسمانی لحاظ سے ایک امتحان ہوتا ہے کیونکہ خدا کے بندے بھوکے اور پیاسے رہتے اور شہوانی تقاضوں سے اپنے آپ کو مجتنب رکھتے ہیں لیکن یہ ابتلاء ایک مہینہ کے بعد ختم ہو جاتا ہے اور خدا اپنے بندوں کے لئے عید کا دن لے آتا ہے۔ اس طرح مومنوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے مشکلات پیدا ہوتی ہیں تو وہ ہمیشہ عارضی ہوتی ہیں اور ان کے بعد جلد ہی خوشی اور راحت کا دن آجاتا ہے۔ لیکن بندہ جب خود اپنے لئے کوئی مصیبت پیدا کرتا ہے تو بعض دفعہ وہ اتنی لمبی ہو جاتی ہے کہ نسلاً بعد نسلٍ وہ مصیبت چلتی جاتی ہے اور بعض دفعہ تو صدیوں تک وہ مصیبت سروں پر مسلط رہتی ہے اور عید آنے میں ہی نہیں آتی بلکہ روزبروز دور ہوتی چلی جاتی ہے۔

(خطبات محمود جلد 1 صفحہ321)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
حقیقی عید وہی ہے جس میں انسان کو عمل میں لذت محسوس ہونے لگے اور وہ خدا کے لئے ہر قسم کی قربانیوں کی آگ میں کودنے کے لئے تیار رہے اور کبھی ترک عمل کے قریب بھی نہ جائے۔ یہ مقام جب کسی فرد یا قوم کو حاصل ہو جاتا ہے تو اسے حقیقی عید میسر آ جاتی ہے اور دینی اور دنیوی مقاصد میں وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔پس کوشش کرو کہ تمہیں یہ عید میسر آئے اور تمہاری تمام تر لذت اور تمہاری ساری خوشی اسی بات میں ہو جائے کہ تم خدا کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردو اور اسی کو اپنی عید سمجھو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور وہ تمہیں اس حقیقی عید سے حصہ دے جس کے میسر آنے کے بعد دنیا کی کوئی تکلیف انسان کو پریشان نہیں کر سکتی۔

(خطبات محمود جلد1 صفحہ265)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 12جولائی 1983ء کوعید الفطر کے روز خطبۂ عید میں فرمایا۔
رمضان المبارک کے کئی اسباق ہیں ان میں سے دو بڑے گہرے سبق ہیں جو دراصل رمضان ہی کا نہیں بلکہ ہر مذہب کا خلاصہ ہیں ان میں سے ایک عبادتِ الہیٰ ہے اوردوسرا بنی نوع انسان کے ساتھ سچی ہمدردی اورپیار اور خدمتِ خلق اور لوگوں کے دُکھ سُکھ میں شریک ہونا ہے۔ یہ دوگہرے سبق ہیں جو رمضان ہمارے لئے لے کر آتا ہے ……..جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے عید کا دوسرا پہلو خدمتِ خلق ہے۔ غریب کے دُکھ میں شریک ہونا اس کا دُکھ بانٹنا اور اپنا سُکھ اس کے ساتھ تقسیم کرنا یہ اور اس قسم کے دوسرے نیکی کے کام خدمتِ خلق سے تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ رمضان سے پہلے مَیں نے احباب جماعت پر بڑی تفصیل سے واضح کیاتھاکہ رمضان میں ایک بڑا گہرا سبق پایا جاتا ہے اور روزہ کے اندر دوسری بہت سی حکمتو ں کے علاوہ ایک بڑی گہری حکمت یہ ہے کہ امراء بھی غریبوں کے دُکھوں کو سمجھنے کے اہل ہو سکیں۔ ان تلخیوں میں سے گزریں جن تلخیوں میں سے اکثر غرباء ہمیشہ گزرتے ہیں اور وہ ایک طرف تو خُدا کا شکرکریں کہ یہ ایک مہینہ جو ہم نے گزارا ہے ہمارے بعض بھائی ایسے ہیں جن کے بارہ مہینے اسی طرح گزرتے ہیں اور پھر اس شکر کے ساتھ ان کے بارہ مہینے کے دُکھ آسان کرنے کی کوشش کریں۔ یہ وہ دوسرا سبق ہے جو رمضان شریف نے ہمیں عطا کیا ہے۔

پس لازمًا اس عید میں بھی خدمتِ خلق کا پھل لگنا چاہئے۔ یہ دوسرا میٹھا پھل ہے جو اس عید کو قدرتی طور پر عطا ہونا چاہئے۔ لیکن اگر آپ اس پھل کی طرف ہاتھ نہ بڑھائیں اور اپنی لذّتیں دوسری جگہ ڈھونڈیں تو آپ یقینًا بور ہوں گے کیونکہ یہ بات اور یہ سوچ انسان کو اپنے مقصد سے ہٹانے والی ہے۔ اس نقطۂ نگاہ سے جب ہم دیکھتے ہیں تو وہ مسئلہ بھی حل ہوجاتاہے جو بعض لوگوں کے لئے پید اہو جاتا ہے کہ مزاج خراب ہو رہے ہیں، مصیبت پڑی ہوئی ہے،بور ہو رہے ہیں،انہی گھروں میں اور اپنے رشتہ داروں میں جا جا کر جن کے گھروں میں ہمیشہ جاتے تھے۔……میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آج کے دن امراء اپنے غریب بھائیوں کے گھروں میں جائیں اور وہ تحفے جو آپس میں بانٹتے ہیں ان میں اپنے غریب بھائیوں کو بھی شامل کریں۔ آپس میں بھی ضرور کچھ نہ کچھ بانٹیں کیونکہ یہ حق ہے۔ ذی القربیٰ کا بھی حق ہے ۔ دوستوں کا بھی حق ہے، یہ حقوق بھی ادا ہونے چاہئیں۔ لیکن ایک حق جو آپ مار کر بیٹھ گئے ہیں جب تک وہ حق ادا نہیں کریں گے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نظارہ نہیں دیکھ سکیں گے اور و ہ حق جس کے متعلق میں نے کہا ہے مارکر بیٹھ گئے ہیں اس حق سے مراد ہے۔

فِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ۔ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ۔

( المعارج: 27,26)

کہ جن کو ہم نے بڑ ی بڑی نعمتیں عطا کی ہیں اور دولتیں بخشی ہیں ان کے اموال میں غرباء کا حق ہے۔ …اگر آپ غریب لوگوں کے گھروں میں جائیں گے اور ان کے حالات دیکھیں گے تو مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بعض لوگ ایسی لذتیں پائیں گے کہ ساری زندگی کی لذتیں ان کو اس لذت کے مقابل پر ہیچ نظر آئیں گی اور حقیر دکھائی دیں گی تو کچھ ایسے بھی واپس لوٹیں گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوں گے اور وہ استغفار کر رہے ہوں گے اور اپنے رب سے معافیاں مانگ رہے ہوں گے کہ اے اللہ ! ان لوگوں سے ناواقفیت رکھ کر اور ان کے حالات سے بے خبری میں رہ کر اور ان کے حالات سے بے خبر ی میں رہ کر ہم نے بڑے نا شکری کے دن کاٹے ہیں، ہم تیرے بڑے ہی ناشکر گزار بندے تھے، نہ ان نعمتوں کی قدر کر سکے جو تُونے ہمیں عطا کر رکھی تھیں نہ ان نعمتوں کا صحیح استعمال جان سکے جو تو نے ہمیں عطا کر رکھی تھیں اور واپس آ کر وہ روئیں گے خداکے حضور اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان آنسوؤں میں وہ اتنی لذّت پائیں کہ دنیا کے قہقہوں اور مسرتوں اور ڈھول ڈھمکوں اور بینڈ باجوں میں وہ لذتیں نہیں ہو ں گی۔ ان کو بے انتہاء ابدی لذتیں حاصل ہوں گی اور زائد نہ ہونے والے بے انتہاء سرور ان کو عطا ہوں گے۔

یہ ہے وہ عید جو محمد مصطفیٰ ﷺ کی عید ہے۔ یہ ہے وہ عید جو درحقیقت سچے مذہب کی عید ہے ۔ پہلے بھی یہی عیدیں تھی جو خدا نے عطا کی تھیں۔لیکن بعد میں آنے والوں نے ان عیدوں کے مزاج بدل ڈالے۔ ان کے مضمون کو بھلا دیا۔ اپنی عید کے رنگ بگاڑ دئیے تو وہ عیدوں کے مقاصد سے دُور جا پڑے ۔ ان کے لئے وہ عیدیں ، عیدیں نہ رہیں جو خدا اپنے مومن بندوں کو عطا کرنا چاہتا ہے۔’’

(الفضل26جولائی1983ء )

(اُم سبیکہ۔سیرالیون)

پچھلا پڑھیں

عید کی رات عبادت

اگلا پڑھیں

عید کا چاند