حضرت مسیح موعودؑ کے دل میں غلبہ اسلام کے لئے تڑپ
اردو ترجمہ تقریر مکرم رفیق احمد حیات امیر جماعت احمدیہ برطانیہ بر موقع جلسہ سالانہ برطانیہ 2021ء
ہم تمام مذاہب میں آخری زمانہ میں ایک مسیحا کی آمد سے متعلق پیشن گو ئیاں پاتے ہیں۔ چاہے وہ ہندو، عیسائی، یہودی، زرتشتی، سکھ، بدھ مت یا مسلمان ہوں۔ یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر انبیاء کا آنا بند ہوگیا ہے تو کس طرح یہ تمام اقوام اس ایک حقیقت پر متفق ہو سکتی ہیں کہ آخری زمانہ کے مسیحا نے ابھی آنا ہے۔
اُمتِ مسلمہ کے پاس قرآن کریم کی برکت موجود ہے،جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور ہدایت ہے۔ سورۃ الجمعہ آیت 3 اور 4 میں اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم میں ایک موعود مسیح کی آمد کی بشارت ان الفاظ میں دیتا ہے:
ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۳﴾ وَّ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۴﴾
وہی خدا ہے جس نے ایک ان پڑھ قوم کی طرف انہی میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا جو ان کو خدا کے احکام سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے گو وہ اس سے پہلے بڑی بھول میں تھے۔
اور ان کے سوا ایک دوسری قوم میں بھی (وہ اسے بھیجے گا) جو ابھی تک ان سے ملی نہیں اور وہ غالب (اور) حکمت والا ہے۔
مسیح موعود حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام تھے۔ آپ 1835ء میں قادیان میں پیدا ہوئے۔ انڈیا کے صوبہ پنجاب میں واقع ایک چھوٹا سا گاؤں۔ آپ کی پیدائش ایک معزز زمیندار گھرانے میں ہوئی۔ آپ کی تعلیم کے لئے اساتذہ کا انتظام کیا گیا۔ ان اساتذہ سے آپ نے قرآن کریم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی، منطق، فلسفہ اور گرائمر کی ابتدائی تعلیم بھی حاصل کی۔ البتہ آپ کا علم و فراست دنیا کے کونوں تک پھیلنا مقدر تھا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس امر پر زور دیا کہ اب وقت کی ضرورت قلم کی ہے تلوار کی نہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اپنی تحریری صلاحیتوں کو سائنس کے میدان میں استعمال کریں اور اسلام کے روحانی معجزات دکھائے جائیں۔ آپ ؑ نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں، جو یہ چاہتا ہے کہ اس کے مذہب کا دفاع مسیح موعود کے ذریعہ ہو۔
حضرت مسیح موعود ؑ نے اردو، عربی اور فارسی میں 91 کتابیں شائع فرمائیں۔ آپ ؑنے الحکم اور ریویو آف ریلیجنز کی بنیاد ڈالی۔ آپ کی معرکۃ الآراء تصنیف براہین احمدیہ ہے۔ کتب کے اس سلسلہ کی بنیاد کلام الہٰی قرآن کریم ہے اور یہ کتب صداقت ِ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر مشتمل ہیں۔
حضرت مسیح موعود ؑ کو حضورﷺ سے انتہاء کا عشق تھا اس لئے ہمیشہ اپنے پیروکاروں کو حضورﷺ پر بکثرت درود بھیجنے کی ترغیب دیتے تھے۔ آپ اپنے دن کا کثیر حصہ آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے میں گزارتے تھے یہاں تک کہ آپ کو ایک دفعہ یہ خواب آئی۔
اس مقام میں مجھ کو یاد آیا کہ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ آب زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں۔ اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجی تھیں صلی اللہ علیہ وسلم۔
(براہین احمدیہ چہارحصص روحانی خزائن جلد4 صفحہ598 حاشیہ درحاشیہ نمبر3)
رؤیا و الہامات کا یہ سلسلہ جاری رہا یہانتک کہ 1882ء میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے مشن کی تکمیل کے لئے چنا۔ اس الہام کا کچھ حصہ یہ ہے:
یَآ اَحْمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ۔ قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔
یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ
(روحانی خزائن جلد17 صفحہ353-351)
حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام نے جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھتے ہوئے کچھ مقاصد کی تعین کی آپ نے فرمایا:
’’وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقعہ ہوگئی ہے اُس کو دُور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کرکے صلح کی بنیاد ڈالوں۔‘‘
(لیکچر لاہور۔روحانی خزائن جلد20 صفحہ180)
مغربی فلاسفی اور سائنس کتنی ہی ترقی یافتہ نہ ہو جائے لیکن وہ مغرب کی روحانی پیاس نہ بجھا سکی۔ حضور ﷺ نے ایک پیشگوئی فرمائی تھی کہ قیامت کے قریب سورج مغرب سے طلوع ہو گا۔ جس کا مطلب ہے کہ مغربی اقوام اسلام کو قبول کرلیں گی۔ مشرقی اقوام جنہیں یہ مذہب ورثہ میں ملا ہے وقت گزرنے کے ساتھ اسے بھول جائیں گے اور اس کی برکات سے فائدہ نہیں اُٹھائیں گے جبکہ مغربی اقوام اس طرح کی ہدایت کی پیاسی ہیں۔
حضرت مسیح موعود ؑ حضرت محمد ﷺ کی پیشگوئی کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :
’’میں نے دیکھا کہ میں شہر لنڈن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں۔ بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر کے جسم کے موافق ان کا جسم ہو گا۔ سو میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اگرچہ میں نہیں مگر میری تحریریں ان لوگوں میں پھیلیں گی۔ اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کے شکار ہو جائیں گے ۔۔۔ اب خدائے تعالیٰ ان لوگوں پر نظر رحمت ڈالنا چاہتا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد3 صفحہ377)
آج ہم اس کی سچائی کے عینی شاہد ہیں اور خلافت کا یوکے میں قیام اور مغربی اقوام میں احمدیت کا پھیلاؤ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیئے گئے تمام عظیم وعدوں کو جیسے جیسے ہم مستقبل کی طرف جارہے وہ خود پورے کر رہا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے کہ اسلام مغرب میں کس طرح پھیلا ہمیں ماضی پر نگاہ ڈالنی ہوگی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب انگریز برصغیر پر قابض تھے اور ان کی تقاریر لیکچرز پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دراصل وہ عیسائیت کو پھیلانے کے خواہاں تھے۔
سر چارلز ووڈ جو کہ انڈیا میں منسٹر آف سٹیٹ کہ طور پر خدمت انجام دے رہے تھے نے اظہارکیا تھا کہ:
عیسائی عقیدے کی قبولیت انگلینڈ کے ساتھ اتحاد کا ایک بندھن اور سلطنت کے لیے طاقت کا ایک اضافی ذریعہ تھا۔
یہ وہ وقت تھا جب عیسائی پادری بڑے فخر سے اپنی برتری کا اظہار کرتے تھے اور پوری دنیا کو عیسائی بنانے کے خواہاں تھے۔ چارلس ہنری روبنسن اپنی عیسائی مشنز کی تاریخ میں تازہ ترین انڈیا کی مردم شماری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ زیادہ تر مذہب عیسائیت کو قبول کرنے والوں کا تعلق پنجاب سے ہے۔روبنسن لکھتا ہے:
اگر گزشتہ 30سال کی رفتار سے جاری تعداد بڑھنے کی رفتار اگر اسی طرح جاری رہی تو آئندہ 50سال میں آبادی میں سے ہر 21افراد میں 1عیسائی ہوگا اسی طرح یہ تعداد 100سال میں ہر 5میں ایک عیسائی اور 160سال میں انڈیا کی تمام آبادی عیسائی ہوجائے گی۔
عیسائی مشن کی انتھک کوشش انڈیا میں موجود مسلمان آبادی کو کثرت سے عیسائی بنا رہی تھی۔مسلمانوں کی نا اُمیدی سے صرف ان کی اخلاقی اور روحانی گراوٹ کا علم ہوتا تھا جس کی آنحضرت ﷺ نے پہلے ہی خبر دی تھی۔ 19ویں صدی کے ایک اردو شاعر اور مصنف الطاف حسین حالی اس پیشگوئی کا ذکر اپنے ایک شعر میں اس طرح کرتے ہیں:
؎رہا دین باقی نہ اسلام باقی
اک اسلام کا رہ گیا نام باقی
ایسے مشکل وقت میں حضرت مسیح موعودؑ نے اسلام کے دفاع کا بیڑہ اٹھایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مغربی پادریوں سے مقابلے کا آغاز برٹش انڈیا میں ہوا جبکہ آپ 1860ء کی دہائی میں اپنے والد صاحب کے کہنے پر سیالکوٹ میں ملازم ہوئے۔
حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام بطور ایک اسلامی مذہبی عالم مشہور ہوئے اور آپ عیسائی اور ہندوؤں کے ساتھ اکثر مباحثات کیا کرتے تھے۔ اسی طرح مسلمان علماء سے بھی اسلام کے اصل عقائد کا دفاع کیا کرتے تھے۔ ان میں سے معروف مقابلہ دعا کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ڈاکٹر الیگزینڈر ڈوئی کے درمیان ہوا۔ ڈاکٹر الیگزینڈر ڈوئی نے ایلیاء ثالث ہونے کا دعوی کیا تو حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام نے ایک امریکن رسالہ میں کہا کہ
’’اگر ایلیاء کا دعوے داربراہ راست یا کسی ذریعے سے میرے خلاف ہونے پر رضا مندی ظاہر کرے گا تو وہ اس دنیا کو میری آنکھوں کے سامنے بڑی یاس اور نا امیدی کے ساتھ چھوڑے گا یہ دونوں نشانات یورپ اور امریکہ کے لئے ہونگے۔‘‘
1907ء میں شدید فالج سے ڈاکٹر ڈوئی کی المناک موت نے بلا شک و شبہ یہ ثابت کیا کہ تائیدالٰہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اسلام کے حق میں تھی۔ 1869ء میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اہل حدیث کے راہنما مولوی محمد حسین بٹالوی کے ساتھ ایک مناظرہ کیا۔ جب حضورؑ نے ایک مخصوص مذہبی نقطہ کے بارے میں مولوی بٹالوی سے ان کا عقیدہ دریافت کیا تو حضورؑ نے اس بناء پر مولوی صاحب سے مزید بحث کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ ان کا جواب اسلامی تعلیمات کے عین مطابق تھا۔ اس پر وہ شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مباحثے کے لیے لایا تھا، غصے میں آگیا اور حضور کے انکار پر مایوسی کا اظہار کیا، تاہم حُضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’میں نے جو کچھ بھی کیا وہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے تھا۔ مجھےاس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر کوئی اس کو نا پسند کرتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ اس امر پر اس قدر خوش ہوا کہ یہ الہام فرمایا:
’’تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا۔ یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔‘‘
(روحانی خزائن جلد1 صفحہ622)
آپؑ اپنے پیغام میں متاثرکن تھے اور آپؑ نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ خدا کے حقیقی پیغام کی طرف رجوع کریں۔ آپؑ نے اپنی کتاب کشتی نوح میں فرمایا:
’’یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا۔ میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں۔ کس دَفْ سے میں باز اروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سُن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سُننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں۔‘‘
(روحانی خزائن جلد19 صفحہ22)
1872ء کے بعد حضرت اقدس مسیح موعودؑ اسلام کے سُر خیل کے طور پر سامنے آئے اور اسلام کی خوبصورت تعلیمات ہرمیدان میں پیش کیں۔ اس کام کے لئے آپؑ نے مختلف اخبارات و رسائل میں مضامین لکھے۔ براہین احمدیہ حصہ اول و دوم کی اشاعت نے آپؑ کے خداداد علمی خزانے کو ظاہر کیا۔ بہت سے علماء اور دانشوروں نے آپؑ کی اس کتاب پر تبصرے لکھے اور اسے اسلام کے لئے ایک عظیم خدمت گردانا۔ مولوی محمد حسین بٹالوی نے براہین احمدیہ کے بارے میں درج ذیل الفاظ لکھے:
’’ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالات کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی۔۔۔۔۔۔ اور اس کا مؤلِف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصر ت میں ایسا ثابت قدم نکلاہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے۔‘‘
براہین احمدیہ جلد تین میں زندہ مذہب کی سچائی جانچنے کے لئے حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے خود کو ایک معیارکے طور پر پیش کیا اور حق کے طلبگاروں کواسلام کی حقانیت کے ثبوت میں قادیان آکر نشان دیکھنے کی دعوت دی۔ یہ پہلی بار تھا کہ کسی نے ایک مذہب کی سچائی جانچنے کےلئے ایک متبادل معیار پیش کیا۔ اس سے قبل تمام ادیان کی توجہ عقلی و نقلی استدلال پر تھی۔
1885ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اعلان کیا کہ آپ ہی چودہویں صدی کے موعود مجدد ہیں۔ یہ اشتہار اردو میں شائع کیا گیا اور انگریز ی میں اس کا ترجمہ کیا گیا۔ اس اشتہار کی آٹھ ہزار کاپیاں رجسٹرڈ خطوط کے ذریعے ایشیا، یورپ، امریکہ اور جہاں تک خطوط کے ذریعے ممکن تھا، مذہبی راہنماؤں، حکام، علماء اور ججوں وغیرہ کو بھیجی گئیں۔ اس اشتہار کے ذریعے تمام ادیان کے نمائندوں اور معاشرہ کے اہم اور نمایاں افراد کو قادیان آکر اسلام کی سچائی کے ثبوت میں نشان دیکھنے کی دعوت دی، اور اگر ایک سال کے اندر کوئی نشان نہیں دیکھایا گیا تو ایسے افراد کو دو سو روپیہ ماہوار بطور ہرجانہ ادا کیا جائے گا۔ 1891ء کے اختتام تک اسلام کی حقانیت پر مبنی اس طرح کے بیس ہزار اشتہارات بزبانِ انگریزی و اردو یورپ اور امریکہ میں شائع کروائے گئے۔ جیسا کہ عیسائی مبلغین مشرق میں اترے تو منشائے الٰہی نے چاہا کہ مغرب میں اسلام کا پیغام حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعے پھیلایا جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ:
اور انہوں نے (ىعنى مسىح کے منکروں نے بھى) تدبىر کى اور اللہ نے بھى تدبىر کى اور اللہ تدبىر کرنے والوں مىں بہترىن ہے۔
(سورۃ آل عمران: 55)
دسمبر 1896ء میں لاہور میں جلسہ مذاہب اعظم منعقد کیا گیا جس کا انتظام سناتن دھرم کے راہنماؤں کی طرف سے کیا گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ سے قبل ایک اعلان کیا جو کہ ’’سچائی کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری‘‘ کے موضوع سے کثیر تعداد میں شائع ہوا۔ آپ نے بیان کیا کہ جو مضمون آپؑ نے اس جلسہ کے لئے لکھا ہے وہ ’’انسانی طاقتوں سے بر تر اور خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان اور خاص اس کی تائید سے لکھا گیا ہے ۔۔۔۔۔ مجھے خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا۔۔۔۔اور مجھے یہ الہام ہوا اِنَّ اللّٰہَ مَعَکَ اِنَّ اللّٰہَ یَقُوْمُ اَیْنَمَا قُمْتَ یعنی خدا تیرے ساتھ ہے۔ اور خدا وہیں کھڑا ہوتا ہے جہاں تو کھڑا ہو‘‘۔
(مجموعہ اشتہارات جلد02 صفحہ293, 294)
یہ مضمون اسلامی اصول کی فلاسفی کے نام سے شائع کیا گیا۔ اس جلسہ کے بعد اس مضمون کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی اور لاکھوں نفوس نے اس سے علم و حکمت حاصل کی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اسوقت کے علماء اور دانشوروں سے ملنا شروع کیا جس پر سب نے حضور کے دعاوی اور تعلیمات میں دلچسپی ظاہر کی۔ ڈاکٹر ایچ ڈی گرس ولڈ (H.D Griswold) نے حضورؑ سے ملاقات کے بعد ’’مرزا غلام احمد، قادیان کا مسیح اور مہدی‘‘ اور ’’قادیان کا مسیح‘‘ کے موضوع پر دو مضامین لکھے۔ یہ مضامین اگرچہ متنازع نوعیت کے تھے تاہم اس نے 1905ء میں The Victoria Institute of Philosophy of Great Britain میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے دعاوی کی خوب تشہیر کی۔ اس نے اسلا م کے بارے میں مکالمہ اور اس شخص کے بارے میں گہرے تجسس کی راہ کھولی جو ان مناظروں یا مباحثوں کا محرک تھا۔
قادیان اس وقت تک انڈیا کے صوبہ پنجاب کا ایک دورافتادہ اور گمنام گاؤں تھا۔ اس وقت قادیان تک رسائی ایک مشکل امر تھا جو صرف خچروں اور گھوڑوں کے ذریعے ہی ممکن تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ ناہموار راستوں کی وجہ سے قادیان جانے کے لئے پیدل جانے کو ترجیح دیتے تھے۔
یہ وہ وقت تھا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو بذریعہ الہام خبر دی کہ:
فَحَانَ اَنْ تُعَانَ وَ تُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ
یعنی وہ وقت آگیا جو تیری مدد کی جائے اور تجھ کو لوگوں میں معروف و مشہور کیا جائے۔
(تذکرۃ صفحہ53)
حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتایا کہ
’’اور اس کثرت سے لوگ تیری طرف آئیں گے کہ جن راہوں پر وہ چلیں گے وہ عمیق ہو جائیں گے۔‘‘
(تذکرۃ صفحہ39)
انڈیا سے ہی کثیر تعداد میں لوگ قادیان آئے اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو قبول کیا۔
یورپ اور امریکہ کے دوردراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے کچھ دوسرے لوگ بھی قادیان آئے اور حضرت مسیح موعودؑ سے ملاقات کی۔ کچھ حق کی جستجو میں آئے اور باسعادت ہوتے ہوئے زمانے کے امام کو پہچان گئے، دوسرے تجسس اور تحقیق کی غرض سے پہنچے۔
اپریل 1908ءمیں ایک امریکی جوڑا مسٹر جورج ٹرنر (Mr.George Turner) اور لیڈی بارڈن(Lady Bardon) نے قادیان میں حضرت اقدس مسیح موعودؑسے ملاقات کی۔ دیگر چند سوالوں میں سے ایک سوال انہوں نے پوچھا کہ آپ نے جو دعویٰ کیا ہے اس کی سچائی کے کیا دلائل ہیں؟ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا:
’’آپ لوگوں کو یہاں آنا بھی تو ہمارے واسطے ایک نشان ہے جو اگر آپ کو اس کا علم ہوتا تو شاید آپ یہاں آنے میں بھی مضائقہ اور تأمل کرتے۔ اصل میں آپ لوگوں کا اتنے دوردراز سفر کرکے یہاں ایک چھوٹی سی بستی میں آنا بھی ایک پیشگوئی کے نیچے ہے اور ہماری صداقت کے واسطے ایک نشان اور دلیل ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد5 صفحہ516, 517)
(Alexander Russel Webb) الیگزینڈر رسل ویب جنہوں نے 1888میں اسلام قبول کیا وہ ایشیا، یورپ اور امریکہ کے راہنماؤں، حکام، علماء اور ججوں میں سے تھے جنہیں حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ کا اعلان پہنچا۔
انہیں یہ دعوت نامہ اس وقت ملا جب وہ تھیسوفی پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے اخبار The Scotsman میں آپؑ کی دعوت کے بارے میں علم پا کر آپؑ سے خط وکتابت شروع کی۔ ویب اکتوبر 1892ء میں انڈیا آئے تاہم لاہور جتنا قریب پہنچ کر آپ کو حضرت مرزا غلام احمد ؑ کی ملاقات سے آپؑ کے دعویٰ مسیحیت کی وجہ سے بہکا دیا گیا۔ مولوی حسن علی اور عبداللہ عرب جو آپ کے ساتھ تھے اور انڈیا میں آپ کے سفر کے اخراجات برداشت کر رہے تھے، دونوں نے آپ سے نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت جب امریکہ میں تبلیغی کاموں کے لئے مسلمانوں کے عطیات کی اشد ضرورت ہے تو مسیح موعودؑ کی قادیان میں ملاقات کرنا دانشمندی نہیں ہے۔
جب امریکی اسلامی مشن ناکام ہو گیا تو ویب اپنے فیصلہ کا ازحد افسوس کیا کرتے تھے۔ انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ جیسے صحابہ سے خط و کتابت کا سلسلہ جاری رکھا اور دعا کے لئے درخواست کرتے رہے۔ آپ نے اسلام میں دلچسپی رکھنے والے دیگر مسلمانوں کے رابطے اور پتے بھی حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓکو بھجوائے۔ وہ دو اصحاب جنہوں نے ویب صاحب کو حضرت مسیح موعودؑ کی ملاقات سے روکا تھا خود حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی بن گئے۔
رسالہ ریویو آف ریلیجنز کا آغاز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مغرب میں اسلام کی تبلیغ کے لئے فرمایا۔ اس کے مضامین کے بارے میں دنیا بھر سے بہت سے خطوط اور تبصرے قادیان میں موصول ہوئے۔25مئی 1905ء کو مانچسٹر لندن سے ایک خاتون کا خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو موصول ہوا۔
’’میں ہمیشہ اس بارے میں شک کرتی تھی کہ ایک سچا مذہب تلوار کے ذریعے کس طرح پھیل سکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی اجازت صرف اپنے دفاع کے لئے دی گئی ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ حکومت برطانیہ زیر اثر علاقے میں رہتے ہیں جہاں آپ کو مکمل آزادی خیال اور اظہار حاصل ہے۔۔۔میں نے آپ کی ایک 25سال قبل کی پیشگوئی کے بارے پڑھا ہے۔مجھے ریویو آف ریلجنز میں درج پاکیزہ تعلیمات کو پڑھ کر خوشی ہوئی اور میں امید کرتی ہوں کہ آپ سچائی پھیلانے میں کامیاب ہونگے۔‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت سے خیر خواہ تھے لیکن آپ کے بہت مخالفت بھی ہوئی۔مخالفین میں ایک قابل ذکر مولوی غلام نبی تھے۔ آپ بہت بااثر عالم تھے جن کے مسلمانوں میں سےکئی پیرو کار تھے جنہیں مولوی صاحب اپنے قرآن اور حدیث کے علم سے بہت متاثر کرتے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لدھیانہ قیام کے دوران مولوی غلام نبی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رہائش گاہ کے باہر لوگوں کا مجمع لے کر آتے جو آپ کے بارے میں بدزبانی کرتا۔
ایک دن یوں ہوا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی رہائش گاہ کی طرف جارہے تھے تو منشی غلام نبی کی نگاہ آپ علیہ السلام کے چہرے پر پڑی جس سے ان کی کایا پلٹ گئی۔ اس واقعہ سے پہلے وہ اپنی معمول کی تقاریر میں مشغول رہتےتھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پرنور چہرہ دیکھنے کے بعدآپ کو دیکھتے ہی مولوی صاحب آپ کی طرف دوڑ کر آئے اور آپ کے سلام کا جواب دیا۔ آپ علیہ السلام نے ان کا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ ہی اندر لے گئے۔اندر جانے کے بعد مولوی صاحب نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قرب میں بیٹھ گئے بلکہ آپ علیہ السلام سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کرنے لگے۔
عالم ہونے کی وجہ سے قدرتی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کے وفات مسیح کے دعویٰ اور آپ کے اپنے مقام کے بارے میں کئی اہم سوالات کئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآنی حوالے پیش کرتے ہوئے جواب دیتے جس پر مولوی صاحب نے کہا ’’یقینا ً قرآن تو آپ ہی کے ساتھ ہے‘‘
اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر قرآن میری ہی طرف ہے تو پھر مولوی صاحب آپ کس کی طرف ہیں؟
جس پر انہوں نے فوراً جواب دیا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف ہیں۔ اسی وقت مولوی صاحب نے بیعت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔اس موقع کے بعد مولوی غلام نبی صاحب مکمل طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عاشق ہوگئے۔ بار بار قادیان آتے اور اس خواہش کا اظہار کرتے کہ کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہ چھوڑیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کے حقیقی پیغام کو صرف تحریر کے ذریعے ہی نہیں بلکہ معجزات اور ہمدردانہ اعمال کے ذریعے بھی پھیلایا۔ یہ واقعات آپ کے دعویٰ اور اللہ تعالیٰ کے حضور التجاؤں کی صداقت کے گواہ ہیں۔
ایک معروف واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک لڑکا جس کا نام عبدالکریم تھا حیدر آباد سے قادیان آیا۔ جسے ایک پاگل کتے نے کاٹ لیا۔ مقامی طور پر ہر قسم کی دوا اور کوشش اس کو بچانے کے لئے کی گئی مگر بے فائدہ۔پھر اسے کسولی کے مشہور ہسپتال بھیجا گیا۔ اس کی واپسی پر جب بیماری کی علامات دوبارہ ظاہر ہونے لگیں تو ایک ڈاکٹر کو ٹیلی گرام کے ذریعے مشورہ کے لئے آگاہ کیا گیا۔ ڈاکٹر کا جواب آیا
’’عبدالکریم کے لئے کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ معذرت‘‘
اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہایت پُر جوش انداز میں فرمایا
’’ان کے پاس علاج نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے پاس علاج ہے۔‘‘
چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس لڑکے لئے جوش سے دعا فرمائی اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس کو معجزانہ شفا ہوئی اور اس نے صحت مند زندگی گزاری۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔
معجزات کا یہ سلسلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام زندگی جاری رہا۔یہ آپ کی صداقت کی گواہیاں تھیں اور آپ کو ایک جوش تھا کہ لوگوں کو اسلام کے پیغام کے ذریعے اللہ کے نور کی طرف لایا جائے۔
کچھ عرصہ پہلے ایک اسی طرح کا ایمان افروز واقعہ مغربی افریقہ کے ملک بینن میں ہوا۔ بینن کے ایک بادشاہ کی بیوی شدید بیمار ہوگئی۔انہیں کوئی مالی تنگی نہیں تھی۔ہر قسم کی چارہ جوئی کی گئی مگر اس کی حالت لمحہ بہ لمحہ خراب ہوتی جارہی تھی۔ایک وقت ایسا آیا کہ وہ اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی اور کسی بھی لمحہ اس کی سانس بند ہوسکتی تھی۔ اس کسمپرسی کی حالت میں پریشانی کے عالم میں بادشاہ اپنی اہلیہ کے بستر کے پاس بیٹھا اور اس سخت مایوسی کے عالم میں اچانک اس کی نگاہ فریم میں لگے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑے پر پڑی جس پر اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام یاد آیا کہ ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔‘‘
اس احمدی بادشاہ کو اس الہی پیشگوئی پر کامل یقین تھا اس نے اس فریم کو اپنی بیوی کے سینے پر رکھا پھر خود ایک جائے نماز بچھائی اور اس پر اللہ تعالیٰ کے حضور جھک گیا۔
زندہ خدا نے غم زندہ کی دعا کو سنا۔ جب بادشاہ نے اپنی نماز مکمل کی اور اوپر دیکھا تو اس کی بیوی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے ساتھ بالکل ٹھیک ہوگئی ہوں۔ یہ زندہ خدا کا نشان ہے جو اس نے اسلام کے ذریعے ظاہر فرمایا۔
ان نشانات کے ذریعے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی نشأۃ ثانیہ کی بنیاد رکھی۔ کاش میں ایسے اور کئی واقعات بیان کرسکتامگر وقت کی کمی کی وجہ سے میں ایسا نہیں کرسکتا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دفاع اسلام اور آنحضرت ﷺ کی مقام و مرتبہ بیان کرنے کے لئے قلمی جہاد کا آغاز فرمایا تو پھر آپ نے قلم کے ہتھیا ر کو اس وقت تک نہیں رکھا جب تک اس کو انتہا تک نہ پہنچا دیا۔آپ نے یہ جہاد اس قدر وقف کے جذبہ سے کیا کہ خدمت اسلام کے جذبہ کو ایک نئی روشنی عطا فرما دی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس (سربراہ جماعت احمدیہ عالمگیر) ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا :
کہ یہ دورحضرت محمد ﷺ کی کامل راہنمائی کی اشاعت کی تکمیل کا دور ہے۔
چنانچہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتب اور مضامین کی اخبارات میں اشاعت کے لئے پرنٹنگ پریس کا استعمال فرمایا تا اسلام کی حقیقی امن پسند تعلیمات کو نا صرف انڈیا بھر میں بلکہ پوری دنیا تک پہنچائیں۔
اپنی کتاب ’’A Message of Our Time‘‘ میں حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام بار بار دہرایا جانا چاہیئے۔ پہلے آپ علیہ السلام کو انسانیت کو اپنے خالق حقیقی کی طرف بلانے کے لئے بھیجا گیا ہے اور لوگوں کی توجہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کی طرف پھیرنے کے لئے۔ دوسرے آپ کی بعثت کا مقصدانسانیت کا احترام انسانی اقدار کا احترام اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہے۔‘‘
میں اپنی گزارشات کا اختتام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان کلمات پر کرونگا۔
’’اے اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ، جس کام کی اشاعت کے لئے تو نے مجھے مامور کیا ہے اور جس خدمت کے لئے تو نے میرے دل میں جوش ڈالا ہے اس کو اپنے ہی فضل سے انجام تک پہنچا اور اس عاجز کے ہاتھ سے حجت اسلام مخالفین پر اور ان سب پر جو اب تک اسلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں پوری کر۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد صفحہ265)
اللہ تعالیٰ ہمیں انہیں جذبات کے ساتھ اسلام کی حقیقی تعلیمات کو صرف ہماری تبلیغی سرگرمیوں ہی نہیں بلکہ روزانہ کے عمل اور دعاؤں کے ساتھ پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔