آج کل دنیا بھر کے میڈیا پر افغانستان میں طالبان کے قبضہ کے بارہ میں خبریں اور تبصرے جاری ہیں۔ اور ہر کوئی اپنے علم، تجربہ اور مشاہدہ کی بنا پر موجودہ صورتحال کے بارہ میں تبصرہ کرتا نظر آتا ہے۔ ذیل میں قارئین کے لیے چند حقایق درج ہیں جن کی بنا پر ہر کوئی اپنی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق صورتحال کو سمجھ سکتا ہے۔ فوج کی لغت میں سریع الحرکتی چال کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمن فوج کی بلٹز جنگی چالیں بہت مشہور ہوئی تھیں اور آج تک دنیا کی بیشتر افواج کے تعلیمی نصاب میں جرمن افواج کے اس طریقہ جنگ کے بارہ میں پڑھایا جاتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں طالبان نے سریع الحرکتی جنگی چالیں تو نہیں چلیں لیکن اپنے گیارہ روزہ سریع الحرکتی ہلچل کی وجہ سے افغانستان کے پنج شیر کے صوبہ کے علاوہ تمام صوبہ جات بشمول کابل پر قبضہ کر کے دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کو ششدر کر دیا ہے۔ اسی طرح بغیر خون آشام جنگ کے ان کو جو فی الحال کامیابی ملی ہے اس پر وہ خود بھی حیران ہیں۔
امریکہ افغانستان میں 2001ء میں گیا تھا۔ اس وقت بظاہر دہشت گردوں کا خاتمہ مقصد تھا۔ یہ مقصد امریکہ نے دو سال میں ہی حاصل کر لیا تھا۔ اس کے بعد اس کو اس ملک سے نکل جانا چاہیے تھا۔ تاہم طاقت کا نشہ انسان کو غلطیوں پر اکساتا رہتا ہے۔ اپنے ہی عوام کو دھوکہ دے کر امریکی حکومت اپنے اس قبضہ کو طول دیتی رہی۔ 2001ءسے لے کر اب تک 7 لاکھ 75 ہزار سے زائد غیر ملکی فوجیں افغانستان میں تعینات رہیں۔ 3 کھرب ڈالر بھی خرچ کر ڈالے لیکن کبھی بھی کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔ بلکہ جب چند سال پہلے امریکہ نے افغانستان سے نکل جانے کا منصوبہ بنایا تو اس کو ایسے طالبان رہنماؤں سے مدد لینی پڑی جنکو اس نے دہشت گرد قرار دے کر بدنام زمانہ گوانتا نامو جیل میں قید بھی کیا ہوا تھا۔ طالبان شدت پسندوں نے ماضی میں سال 1996ء سے لے کر 2001ء تک افغانستان پر حکومت کی ہے اس وقت انکی ہر سرگرمی شدت پسندی پر مبنی ہوتی تھی۔ طالبان کے اس دور اقتدار میں القاعدہ اور دیگر شدت پسند جہادی تنظیمیں بھی افغانستان میں پنپتی رہیں۔ دنیا بھر میں انکے اس دور حکومت کو صرف پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ امارات نے تسلیم کیا تھا۔ 2001ء میں جب امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کیا تو طالبان اور انکے رہنماوں نے بڑی سرعت کے ساتھ پسپائی اختیار کر لی۔ انکی بڑی تعداد یا تو مقامی آبادی میں مدغم ہو گی اور یا پھر سرحد پار کر کے پاکستان پہنچ گئے۔
امریکی قبضہ کے دو سال بعد ہی نا اہل حکمرانوں کی وجہ سے افغانستان کے حالات پھردرگوں ہونے لگ گئے۔ ان حالات سے فائدہ اٹھانے کے لیے جون 2003ء میں پاکستان کی مدد سے ملاعمر کی سربراہی میں طالبان کی دس ممبران پر مشتمل کوٹہ شوریٰ تشکیل دے دی گئی۔ بعد ازاں اس شوریٰ کی تعداد بڑھا کر تینتیس کر دی گی۔پاکستان کی مدد سے سال 2005ء تک طالبان بڑی حد تک سنبھلنے شروع ہو گئے۔ افرادی قوت کی بھرتی اور تربیت کے لیے بلوچستان، خیبر پختون خواہ، اور کراچی میں موجود مدرسہ جات اور افغانی پنا گزینوں کے علاقہ جات سے بھر پور استفادہ کیا گیا۔ طالبان کے سرکردہ رہنما جو شوریٰ کے ممبران بھی تھے گلشن اقبال میں انکو رہایشیں مہیا کی گئیں اور سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت بھی دی گئی۔ اسی دوران ملا برادر جو کہ اس وقت طالبان کے روح رواں ہیں انکی صلاحیتیں بھی منظر عام پر آئیں۔ پاکستان میں انتظامی اور تربیتی امو ر پر موثر گرفت حاصل کر لینے کے بعد طالبان نے افغانستان بھر میں اپنے اثر رسوخ والے علاقوں میں کمانڈر مقرر کرنے شروع کر دیے۔ جو گاہے بگاہے کٹھ پتلی افغان حکومتوں کے لیے مشکلات پیدا کرتے رہے۔ 2009ء میں طالبان کی طرف سے افغانستان بھر میں کارروائیوں کا آغاز کر دیا گیا اور غیر ملکی افواج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ 2010ء تک نصف افغانستان پر طالبان مؤثر کاروائیاں کرنے کی پوزیشن میں آ چکے تھے۔
2013ء میں امریکہ کو احساس شروع ہو گیا تھا کہ وہ طالبان سے جنگ نہیں جیت سکتے۔ چنانچہ دوحہ میں طالبان کو سیاسی دفتر قائم کرنے کی اجازت دے دی گئی۔تاکہ طالبان کی سیاسی قیادت امریکی سیاسی قیادت سے بات چیت کر سکے۔ 2013ء تا 2018ء تک طالبان کی سیاسی قیادت سے امریکی سیاسی قیادت کی کسی نہ کسی رنگ میں بات چیت چلتی رہی لیکن کوئی حتمی نتیجہ نکل نہ سکا۔ جب امریکہ میں صدر ٹرمپ کی حکومت تھی تو سال دو ہزار اٹھارہ میں نئی کوششیں شروع کی گئیں۔ اور ڈیڑھ سال کی کاوشوں کے بعد دونوں فریقین ایک معاہدہ لکھنے پر رضامند ہوئے جس کی روح سے یہ اتفاق کیا گیا کے افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا مکمل انخلا ہو گا۔ دوحہ میں کیے گئے اس معاہدہ کے تحت 31 اگست 2021ء تک غیر ملکی افواج کا انخلا مکمل ہونا قرار پایا تھا۔ امریکہ کا خیال تھا کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد صدر اشرف غنی اور ان کی فوج اور پولیس جس کی تعداد تین لاکھ تھی وہ کابل پر طالبان کے قبضہ کے سامنے ڈٹ جائیں گے۔ تاہم پندرہ اگست کو سارا منظر نامہ ہی تبدیل ہو گیا۔ صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر چلے گئے اور طالبان کو کابل پر قبضہ کے لیے کسی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔
آج جب کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے مکمل ہونے کے لیے ابھی دو دن باقی ہیں افغانستان سے یہ انخلا جاری ہے۔ تاہم چند روز قبل ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ نے سارا منظر نامہ پھر تبدیل کر دیا ہے۔ ننگرہار کے علاقہ میں قائم آئی ایس خراسان نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ دوسری طرف پنج شیر میں احمد مسعود نے اپنے صوبہ کا چارج دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اب غیر ملکی تواس ملک سے نکل جائیں گے۔اور بظاہر طالبان نے فی الحال سارے ملک پر قبضہ کر لیا ہے۔ لیکن قبضہ کرنا اور بات ہوتی ہے اور ملک کا نظم ونسق چلانا اور بات ہوتی ہے۔ 1979ء میں اس وقت کے سوویت یونین نے اس ملک پر قبضہ کیا تھا۔ امریکہ نے پاکستان کو استعمال کیا اور دس سال بعد سوویت یونین کو پسپا ہونا پڑا۔ 2001ء میں امریکہ نے اس ملک پر قبضہ کر لیا۔ اور اب بیس سال بعد امریکہ کو بھی پاکستان کی وجہ سے ہی اس ملک سے پسپا ہونا پڑ رہا ہے۔
طاقت ور ملکوں کے لیے یہ خطہ اسٹریٹیجک نقطہ نگا ہ سے بہت اہم ہے۔دو عالمی طاقتوں یعنی روس اور امریکہ نے تو کوشش کر لی اور اب ابھرتی طاقت چین کی باری ہے۔ کہ وہ اس علاقہ پر اپنی اجارہ داری چاہتا ہے۔ افغانستان اسی ملین آبادی کا ملک ہے جس میں پینتالیس ملین آبادی پشتون ہے۔ طالبان بھی پشتونوں پر مشتمل تنظیم ہے۔ پاکستان میں بھی پینتس ملین سے زائد پشتون آباد ہیں جو کسی نہ کسی رنگ میں افغانستان کے پشتونوں سے رشتہ داریوں میں منسلک ہیں۔ افغانستان کی آبادی کی جو موجودہ صورتحال ہے اس کے مطابق پاکستان کی اس ملک میں دخل اندازی ہر صورت بر قرار رہے گی تا وقتیکہ یہ قوم اس معیار پر آ جائے کہ نسلی تفرقہ بازی اور ایک قبیلہ کادوسرے قبیلہ کو دبا کر رکھنے کا رحجان ختم ہو جائے۔ بظاہر چین نے اس قوم کو معاشی لحاظ سے کافی سبز باغ دکھائے ہیں اور طالبان نے بھی چین کے ساتھ چلنے کا وعدہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں اس وقت پاکستان اور چین میں ہنی مون سیزن چل رہا ہے۔ حالات تو ساز گار لگتے ہیں لیکن اصل فیصلے تو آسمانوں پر ہوتے ہیں۔ اس قوم کے مقدر میں قدرت نے کیا لکھ چھوڑا ہے جلد ہی سامنے آ جائے گا۔
(میجر ریٹایرڈ زبیرخلیل خان۔ جرمنی)