• 9 مئی, 2025

برطانوی پارلیمانی انتخابات 2019ء

آخر کارانتخابات کے بعد برطانیہ میں ایک مستحکم کنزرویٹو حکومت قائم ہونے کی قوی امید پیدا ہوگئی اور پچھلے 3سال سے پیدا ہونے والی سیاسی بے یقینی کی کیفیت کا خاتمہ ہوگیا باوجودیکہ انتخابات کے اعلان کے فوراً بعد ابتدائی اندازے ایک معلق پارلیمان کی طرف اشارہ کر رہے تھے ۔ کنزرویٹو پارٹی کو 32 سال میں پہلی بار پارلیمان میں 265 نشستیں حاصل کر کے اتنی برتری حاصل ہوئی ہے ۔انتخابات پر مجموعی طور پر بریگزٹ (BREXIT) کا موضوع حاوی رہا اور اب نتیجہ سامنے آنے کے بعدآخر نوڈیل بریگزٹ کا خطرہ ٹلا اور کنزرویٹو حکومت اور یورپی یونین کے درمیان طے پانے والی ڈیل کے نتیجہ میں برطانیہ کا 31 جنوری کو یورپی یونین سے اخراج تقریباً طے ہے جس کے بعد فریقین کے پاس ایک سال کا عرصہ مستقبل کے سیاسی و تجارتی تعلقات طے کرنے کے لئے ہوگا۔

موجودہ انتخابات کی انفرادیت

برطانوی سیاسی تاریخ میں یہ انتخابات کئی لحاظ سے منفرد ہیں۔ عام حالات میں انتخابات ہر 5سال کے بعد منعقد ہوتے ہیں لیکن یہ گزشتہ5 سال میں تیسرا انتخاب تھا۔ برطانوی روایات کے مطابق انتخاب کا انعقاد عموماً مئی کی پہلی جمعرات کو کیا جاتا ہے لیکن اس بار دسمبر میں انتخابات کا انعقاد 96 سال بعد ہوا تھا۔ ان انتخابات میں برطانوی پارلیمانی کی تاریخ میں پہلی بار ایک ریکارڈ تعداد میں یعنی 220 خواتین ممبر پارلیمان کا حصہ بننے میں کامیاب ہوئیں جو کل نشستوں کا ایک تہائی بنتا ہے۔ یہی وہ ایک موقع ہے جس میں لیبر پارٹی کو کنزرویٹو پارٹی پر برتری حاصل ہوئی ہے کیونکہ 140 خواتین ممبران کا تعلق لیبر پارٹی سے ہے جو ان کی کل حاصل کردہ نشستوں کا نصف ہے۔

انتخابات میں حصہ لینے والی نمایاں پارٹیاں

یوں تو انتخابی معرکہ ہمیشہ2 بڑی پارٹیوں قدامت پسند خیالات کی حامل کنزرویٹو پارٹی اور سوشلسٹ رحجان رکھنے والی لیبر پارٹی کے درمیان ہوتا ہے لیکن اب کچھ عرصہ سے چھوٹی پارٹیاں بھی ووٹ میں حصہ دار بن رہی ہیں۔ موجودہ انتخابات میں حصہ لینے والی دیگر نمایاں پارٹیوں میں لبر ل ڈیموکریٹ، بریگزٹ پارٹی، گرین پارٹی، سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والی سکاٹش نیشنل پارٹی اور آئرلینڈ کی ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی شامل ہیں۔

انتخابات اور انتخابی مہم

پاکستان میں ضیاء دور کے ریفرنڈم اور بعد ازاں غیر جماعتی انتخابات سے لے کر جمہوری حکومتوں کے جماعتی انتخابات تک متعدد بار الیکشن کا دور دیکھا لیکن جب کافی سال پہلے برطانوی انتخابات دیکھنے کا موقع ملا تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ الیکشن اس قدر پرسکون انداز میں بھی ہو سکتے ہیں۔ انتخابی جلسوں یا ریلیوں کا کوئی تصور نہیں ہے۔کسی دیوار پر کوئی پوسٹریا بینرز نہیں لگائے جاتے۔ ہر پارٹی انتخابات سے پہلے ایک تقریب میں پارٹی منشور جاری کرتی ہے۔پارٹی لیڈر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو مہم چلانے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ ٹی وی پر مباحثوں میں حصہ لیتے ہیں اور براہ راست عوامی سوالات کا جواب دیتے ہیں ۔ الیکٹرانک بل بورڈز اور بسوں کو بھی اشتہاری مہم کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ امیدوار اپنے اپنے حلقے میں کمیونٹی سنٹرز میں عوام سے ملاقات کرکے مقامی مسائل کے بارے میں اپنا لائحہ عمل اور ترجیحات واضح کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پبلک مقامات اور گھر گھر جا کر لوگوں کو لیف لیٹس تقسیم کیے جاتے ہیں۔آج کل سوشل میڈیا کا بھی خوب استعمال کیا جاتا ہے۔متعلقہ ادارے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ مہم میں عوام کو گمراہ نہ کیا جائے۔ انتخابات میں دھاندلی کا کوئی تصور نہیں اور ہارنے والی پارٹی نتائج کا احترام کرتے ہوئے عوام کے سامنے آ کر اپنی شکست تسلیم کرتی ہے ۔

ووٹ ڈالنے کا طریقہ کار

18 سال یا زیادہ عمر کا ہر برطانوی شہری ، دولت مشترکہ کے شہری جو رہائشی حقوق رکھتے ہوں اور یورپی یونین کے شہری ووٹنگ کے رجسٹر میں اندراج کے اہل ہیں۔ الیکشن سے کچھ ہفتے پہلے گھر میں پولنگ کارڈ بھجوائے جاتے ہیں جس پر ووٹر کے کوائف اور پولنگ سٹیشن کی معلومات ہوتی ہیں۔ پولنگ سٹیشن کے انتظام کی ذمہ داری مقامی کونسلز کی ہوتی ہے اور کمیونٹی سنٹرز، چرچ وغیرہ میں قائم کئے جاتے ہیں۔ الیکشن والے دن پولنگ صبح 7:00 بجے سے رات 10:00 بجے تک جاری رہتی ہے تاکہ ہر کوئی اپنی سہولت کے مطابق ووٹ ڈال سکے۔چنانچہ ہم بھی کام سے فارغ ہو کر شام کو ووٹ ڈالنے مقامی کمیونٹی سنٹر میں قائم پولنگ سٹیشن پہنچے۔ اس سے پہلے بہت بار برطانوی انتخابات میں مختلف پولنگ سٹیشنز پر ووٹ ڈالنے کا موقع ملا ہے لیکن آج تک کبھی کوئی قطار یا لوگوں کا ہجوم دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔ نہ کبھی کوئی پولیس والا دیکھا اور نہ فوج کا سپاہی اور نہ ہی نعرے لگاتے سیاسی پارٹی کارکنان۔ حسب سابق خاموشی سے پولنگ سٹیشن پر چند لوگ ووٹ ڈالتے ملے اس کی وجہ پولنگ سٹیشنز کی زیادہ تعداد ، پولنگ کا آسان طریقہ اور مناسب اوقات کار معلوم ہوتے ہیں۔ اندر پہنچے تو سامنے دو کاؤنٹرز پر پول کلرک موجود تھے جنہوں نے نام اور گھر کا ایڈریس پوچھنے کے بعد ووٹر لسٹ سے کنفرم کیا اور بیلٹ پیپر ہاتھ میں تھما دیا۔ نہ کوئی شناختی دستاویز دکھانے کی ضرورت تھی اور نہ ہی انگلی پر سیاہی کا نشان۔ ساتھ ہی ایک ٹیبل پر گتے کی کراس شکل میں دیوارکھڑی کر کے چار پولنگ بوتھ بنائے گئے تھے۔ وہاں موجود ایک کچی پنسل(Led Pencil) سے مطلوبہ امیدوار کے نام کے سامنے موجود خانے کو کراس کیا ، بیلٹ پیپر فولڈ کیا اور اگلی ٹیبل پر موجود پریزائڈنگ آفیسر کو ایک مسکراہٹ کے ساتھ خیرسگالی کلمات کا تبادلہ کرتے ہوئے سامنے موجود بیلٹ باکس میں ڈال دیا۔ یوں1 سے 2 منٹ کے مختصر عرصہ میں ووٹ ڈال کر باہر آ گئے۔ کاش انگریز برصغیر چھوڑنے سے پہلے بہت سے رفاحی کام کے طریقے رائج کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں کے عوام کو الیکشن کے یہ طور طریقے بھی سکھا دیتے۔ہم لوگ ابھی اس سیاسی بلوغت سے سالوں پیچھے ہیں۔

انتخابی طریقہ کار پر کچھ تحفظات

برطانوی دارالعوام کے انتخابات میں جو طریقہ انتخاب ہے اس کے لئے’’ فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جس میں کل ڈالے گئے ووٹوں کی سب سے زیادہ تعداد حاصل کرنے والا ممبر منتخب ہوتا ہے ۔ اب کچھ عرصہ سے اس میں اصطلاحات کے مطالبات کئے جا رہے ہیں کیونکہ اس طریقہ سے کسی بھی حلقہ کے کل رائے دہندگان کے صحیح نمائندگی نہیں ہو پاتی۔برطانوی الیکٹورل ریفارم سوسائٹی کے اعداد و شمار کے مطابق،ان عام انتخابات میں منتخب ہونے والے واحد گرین پارٹی ممبر پارلیمنٹ نے پورے ملک میں ڈالے گئے 8لاکھ 50ہزار سے زیادہ ووٹوں کی نمائندگی کی جبکہ ایس این پی کے 48 منتخب اراکین پارلیمنٹ کی نمائندگی اوسطاً 26 ہزارسے کم ہے۔ لیبرل ڈیموکریٹ کے 11اراکین کے انتخاب کے لئے 3لاکھ 30 ہزارسے زیادہ ووٹ کی ضرورت تھی ،جبکہ لیبر پارٹی کو اوسطاً صرف 50 ہزارجبکہ اس کے مقابلہ میں بریگزٹ پارٹی پورے ملک میں 6لاکھ 42 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے باوجود دارالعوام میں کوئی نشست حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ انتخابی اصلاحی سوسائٹی کے دعوی ٰ کے مطابق مجموعی طور پر 45.3فیصدووٹوں کو کوئی نمائندگی نہیں ملی، کیونکہ ان رائے دہندگان نے جیتنے والے کسی امیدوار کی حمایت نہیں کی۔

الیکشن کے بعد اب آگے کیا ہوگا؟

انتخابات میں بریگزٹ(BREXIT) کی حامی کنزرویٹو پارٹی تنہا اپنی اکثریتی حکومت بنانے میں کامیاب رہی ہے چنانچہ اب حکومت کی پہلی توجہ بریگزٹ کو اس کے طے کردہ ٹائم ٹیبل کے مطابق یقینی بنانا ہے۔ حکومت کی کوشش ہوگی کہ نئے سال کے آغاز سے پہلے بریگزٹ ڈیل کو پارلیمان میں پیش کرکے منظور کروایا جائے جس میں بظاہر اب کوئی رکاوٹ دکھائی نہیں دیتی ۔ دوسری ترجیح ایک سال کے اندر یورپی یونین کے ساتھ تجارتی تعلقات کو واضح کرنا ہے جو کہ ابھی ایک مشکل راستہ ہے۔ دوبارہ ریفرنڈم کی حامی لیبر پارٹی خاصی شکست سے دوچار ہوئی ہے اور اب پارٹی میں نئے لیڈر کے انتخاب کے لئے دوڑ شروع ہو چکی ہے جس کے بعد پارٹی کی نئی ترجیحات اور نقشہ ٔ راہ سامنے آ سکے گا ۔ عمومی رائے ہے کہ پارٹی کو اپنی سوشلسٹ ترجیحات میں کمی لانی پڑے گی۔ بریگزٹ کی شدید مخالف لبرل ڈیموکریٹ پارٹی بھی کوئی نمایاں کامیابی نہیں دکھا سکی حالانکہ اس کے ووٹ بنک میں گزشتہ سال کی نسبت اضافہ ہوا ہے لیکن پارٹی لیڈر خود اپنی سیٹ چند سو ووٹوں کے نقصان سے کھو بیٹھی ہیں اور نتیجہ میں پارٹی لیڈر شپ کو بھی استعفیٰ دینا پڑا ہے۔ چنانچہ پارٹی نئے لیڈر کے انتخاب کے انتظار میں ہے۔ بریگزٹ کی دوسری بڑی مخالف سکاٹش نیشنل پارٹی سکاٹ لینڈ میں سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے اور اب بریگزٹ کی صورت میں برطانیہ سے علیحدگی کے لئے دوسرے ریفرنڈم کے انعقاد کی مہم چلانا چاہ رہی ہے۔یاد رہے کہ اس سے پہلے 2014ءمیں ایسے ہی ایک ریفرنڈم میں سکاٹش عوام نے 55 فیصد ووٹوں کے ساتھ آزادی کی مخالفت میں فیصلہ دیا تھا۔آنے والے دنوں میں کیا کچھ سامنے آتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ابھی تو نو منتخب اراکین پارلیمان کے روایتی آغاز کی تقریب کی تیاری کریں گے۔

(عامر محمود ملک۔ یوکے)

پچھلا پڑھیں

سونف امراض جگر و معدہ کیلئے مفید

اگلا پڑھیں

چھٹےسالانہ اولڈبرج سروس ایوارڈز جماعت احمدیہ سنٹرل جرسی۔امریکہ کی تقریب