• 9 مئی, 2025

کبھی ایسا بھی ہوتاہے !

نیّر سرحدی اپنے کالم ’’پورا سچ‘‘ میں لکھتے ہیں ۔
یہ طاقت یہ دولت یہ جوانی یہ عزت یہ رُتبے یہ وقت یہ ساعتیں یہ گھڑیاں یہ لمحے یہ لحظے سدا ایک سے نہیں رہتے۔ کوشش ، محنت و مشقت اور جدوجہد اپنی جگہ مگر یہ جو تقدیر ہےنا، بڑی عجیب شے ہے انسان کو زیرو سے ہیرو اور ہیروسے زیرو بنانے کا فن خوب جانتی ہے، یہ انسان ہی ہے کہ جو سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی اس زمین پر اکڑ اکڑ کر چلتا ہے، دولت او ر جوانی کے نشہ میں بدمست ہو کر اچھے اچھوں کو اپنے پیروں تلے لتاڑ دیتا ہے، یہ نہیں جانتا کہ کل اُسے دو گز زمین بھی نصیب ہوتی ہے یا نہیں ، یہ زمین اُسے اپنے سینے میں اُتارتی بھی ہے یا نہیں، کچھ اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں مگر خدا خبر اپنے کسی معمولی یا غیرمعمولی عمل بد کے باعث اتنی بڑی پکڑ میں آ جاتے ہیں کہ آزمائش فقط آزمائش ان کا مقدر بن جاتی ہے، یوں تو ہم اپنے وٹس ایپ پر شامل گروپس پر کم ہی نظر رکھتے ہیں کیونکہ ان گروپس میں دوچار باتیں تو مفید اور سبق آموز ہوتی ہیں مگر زیادہ تر ایسی ہوتی ہیں جنہیں دیکھنے اور پڑھنے سے وقت ہی ضائع ہوتا ہے، بہرحال انہی گروپس میں سے ایک گروپ نے ہمیں ایک ویڈیو کلپ شیئر کیا ہے جسے دیکھ اور سن کر آنکھوں میں جھڑی سی لگ گئی ، آنسو ضبط کے دامن سے اُمڈ آئے ، ہمیں اپنی والدہ کا چہرہ روبرو نظر آیا ،وڈیو کلپ میں ایک نجی ٹی وی چینل کے معروف اینکر نے ہماری ملاقات ایک ایسی خاتون ذی وقار سے کرائی ہے جو ضعیف العمری کی آخری حدوں کو چُھو رہی ہیں، لاہور کی ایک گنجان اور پوش آبادی کی چہل پہل سے ہمہ وقت پُر رونق سڑک کے ایک کنارے سفیدچاندی جیسے اُجلے بالوں کے ساتھ موٹے موٹے عدسوں کی عینک لگائے وہیل چیئر پر بیٹھی یہ پُروقار خاتون جو آج ہر شخص کے آگے ہاتھ پھیلائے بھیک مانگنے پر مجبور ہے ، یہ خاتون پورے ایشیا کی پہلی کرائمز رپورٹر اور وہ ممتاز صحافی خاتون ہیں جن کے قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں اپنے ذاتی چار اخبار تھے ، دو اُردو اور دو انگریزی زبان میں شائع ہوتے تھے ، ان اخبارات کا اجراء کراچی ، اسلام آباد اورنیو یارک سے ہوا کرتا تھا ، ڈیفنس میں چار چا ربنگلوں کی کوٹھیوں اور پانچ قیمتی گاڑیوں کی اس مالکہ کے نصیب میں اَن پڑھ شوہر لکھا تھا جسے نہ جانے کس جرم میں چوہ سال قید با مشقت کی سزا ہو گئی ، خاتون‘‘مادام’’کے نام سے ایک ماہنامہ بھی شائع کرتی تھیں پوری جمع پونجی شوہر نے اپنی بدمستیوں میں اُڑا دی اور جب حالات کی ستم ظریفیاں سہتے سہتے یہ خاتون عمر رسیدہ ہوئیں ، شوہر کا پتہ چلا جو عہد شباب میں قلم کی اس محافظ بیوی پر تشدد بھی کیا کرتا تھا ، خاتون جب شوہر کے عالی شان گھر میں داخل ہوئیں تو اس نے یہ کہہ کر میں آپ کو نہیں جانتا اپنی اس اہلیہ کو دھتکار دیا جس نے نہ صرف جوانی کے 36سال اس شوہر کے ساتھ نباہے بلکہ اپنا سب کچھ اس پر وار دیا ، ہم داد تحسین پیش کرتے ہیں نجی ٹی وی کے اُس اینکر کو جنہوں نے ایک سعادت مند بیٹے کا کردار ادا کرتے ہوئے ماں جی کو کرایہ کے ایک مکان میں تمام تر بنیادی سہولتیں فراہم کرتے ہوئے ایسا پُرسکون سائبان عطا کیا جس کے سائے تلےماضی کی عظیم صحافی خاتون اپنی زندگی کے باقی دن بڑے اطمینان سے گزار سکیں گی ، اس وڈیو کو دیکھ کر لاہور سے ایک کالر نے خواہش ظاہر کی ماں جی کا دامن انہیں پکڑا دیجئے ان کی والدہ رحلت کر گئی ہیں، ایک بیٹے کو اس کی ماں ، ایک بہو کو اس کی عزت مآب ساس اور ان کی معصوم بچی کو ایک پیاری سی دادی مل جائے گے، بھیک مانگتی زندگی سے نجات کے بعد گھر کا سکھ چین پا کر ماں جی کا چہر ہ خوشی سے دمک اُٹھا ، اینکر نے جب وطن پاک کی بقاء اور سلامتی کے لئے دعا کی درخواست کی تو ماں جی بلبلاتے بچے کی طرح تڑپ اٹھیں اشکبار آنکھوں کے ساتھ کہنے لگیں یہی تو ہے جس کی چھاتی سے چمٹ کر ماں کے وجود کی خوشبو آتی ہے ، یہ وطن ہے تو ہم ہیں ورنہ کچھ بھی نہیں ، کچھ بھی تو نہیں،آج ہمارے اسی معاشرہ میں نہ تو اچھے لوگوں کی کمی ہے نہ ہی بُرے لوگوں کی ، ہر شخص اپنے عمل سے جنت اور جہنم خود خرید رہا ہے، اچھے اعمال کا صلہ اس دنیا میں بھی ملتا ہے اور آخرت میں بھی جبکہ اعمال بد کی سزا انسان یہاں بھی بھگتتا ہے اور آخرت میں بھی ، بہت سے لوگ ہم نے دیکھے آپ کے مشاہدے میں بھی ضرور ہوں گے ، کوئی اعلیٰ دنیاوی مرتبہ مل جائے ، دھن دولت آ جائے ، گردن میں سریا گھس جاتا ہے اپنے خونی رشتوں تک کو پہچاننے سے انکار کر دیتے ہیں اور عالم یہ ہوتا ہے کہ

وقت و حالات بھول جاتے ہیں
اک اک بات بھول جاتے ہیں
حد تو یہ ہے کہ لوگ لمحوں میں
اپنی اوقات بھول جاتے ہیں

اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جیسے پشاور کے نواحی علاقہ کا جواں سال وحید خان گزشتہ ماہ رمضان المبارک کی طرح اس ماہ مبارک میں بھی دوستوں سے چندہ اکٹھا کر کے دو چار سانچے برف خریدتا ہے اور پھر گدھا گاڑی پر رکھ کر دودو تین،تین کلو برف اُن غرباء و مساکین کے گھروں میں پہنچاتا ہے، جن کے کچے اور بوسیدہ گھروں میں انہیں وقت افطار ٹھنڈا پانی تک میسر نہیں ہوتا ، اُدھر راولپنڈی کی ائیرپورٹ ہاؤسنگ سوسائٹی سوک سنٹر میں ایک بوسیدہ چھپڑ تلے بیٹھاسبزی فروش شوکت دن بھر سرگرداں نظر آتا ہے کہ کسی محتاج ، معذور کی مدد کرے، پچھلے دنوں اچانک ہم وہاں سے گزرے اس کی دکان کے باہر وہیل چیئر پر دو افراد الگ الگ بیٹھے نظر آئے ، شوکت نے بتایا کہ ایک شخص کسی بڑے حادثہ کا شکار ہو کر ٹانگوں سے ہمیشہ ہمیش کے لئے معذور ہو چکا ہے کھاتے پیتے گھرانے کا یہ شخص فٹ پاتھ پر آ چکا ہے ،بیٹے ہیں مگر اس حال میں والد اور والدہ دونوں کو بے یارو مددگار چھوڑ کر چلے گئے ہیں ، اس کی اہلیہ اب لوگوں کے گھروں میں محنت مزدوری کرتی ہے ، دوسرا اسی سوسائٹی کا گارڈ تھا موٹر سائیکل سوار نے کچل دیا ، ٹانگ ٹوٹ گئی ، اب یہ بیروزگار بستر علالت پر ہے صاحب ثروت لوگوں کے آگے ہاتھ جوڑتا شوکت دہائی دیتا ہے کہ صاحب جس قدر ہو سکے ان کی مالی معاونت فرمائیں، تغیرات زمانہ انسان کوکیا کچھ دکھاتے ہیں کہیں پر اپنے پرائے لگنے لگتے ہیں ، کہیں پرائے اپنے سے لگتے ہیں ، زندگی کا یہ سفر رُکتا نہیں، کچھ لوگ اس سفر میں اپنا سب کچھ دوسروں پر نچھاور کر کے آخرت کے لئے اتنا زادراہ اکٹھا کر لیتے ہیں کہ جنت ان کی منتظر نظر آتی ہے اور کچھ لوگ ایسے جو یہاں مال و متاع اکٹھا کرتے رہتے ہیں،اپنے مال میں سے ذرا بھر مستحقین پر خرچ نہیں کرتے ، یہ توا نگر خالی ہاتھ جب اپنے رب کی طرف لوٹتے ہیں تو سوائے ندامت کے ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا ، جہنم ان کی راہ تک رہی ہوتی ہے،اللہ کریم ہم سب کو دین مبین اسلام سے مکمل وابستگی اللہ اور اس کے رسول احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺ کی اطاعت اور تابع فرمانی اور قرآن مجید فرقان حمید کو پڑھنے، سمجھنے اور دلوں میں اُتارنے کا شعور عطا کرے آمین۔

(روزنامہ ایکسپریس 25مئی 2018ء)

پچھلا پڑھیں

سونف امراض جگر و معدہ کیلئے مفید

اگلا پڑھیں

چھٹےسالانہ اولڈبرج سروس ایوارڈز جماعت احمدیہ سنٹرل جرسی۔امریکہ کی تقریب